مندرجات کا رخ کریں

سورہ بقرہ آیت نمبر 216

ویکی شیعہ سے
سورہ بقرہ آیت 216
آیت کی خصوصیات
سورہبقرہ
آیت نمبر216
پارہ2
محل نزولمدینہ
موضوعجہاد کا وجوب، علم مطلق خدا، انسانی علوم کی محدودیت اور انبیاء کی بعثت
مربوط آیاتآیات ۱۹۰ و ۲۵۵ سوره بقره، آیه ۵ سوره آل عمران


سورۂ بقرہ آیت نمبر 216، مسلمانوں پر جہاد کے وجوب کو بیان کرتی ہے۔ مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت میں جس "وجوب" کی بات کی گئی ہے، اس سے مراد واجب کفائی ہے۔ مفسرین کے مطابق، اس آیت میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان، اپنی محدود آگاہی کی وجہ سے بعض امور کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا، حالانکہ وہ اس کے لیے خیر اور مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض چیزوں کو وہ پسند کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔

مفسرین اس آیت کے مضامین کی روشنی میں کہتے ہیں کہ اگرچہ جہاد مسلمانوں کے لیے سختیوں اور ناپسندیدگی کا باعث ہے، لیکن اس سے وہ ایسے نتائج حاصل کرتے ہیں جو جنگ کی فطری دشواریوں کا ازالہ کرتے ہیں۔ اس آیت کی ایک اور تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ انسان کا علم، اس کی محدودیت کی وجہ سے، زندگی کے لیے ایک مکمل اور قابل اعتماد رہنما نہیں بن سکتا؛ اس لیے انسان کو خدا کے لامحدود علم پر بھروسا کرنا چاہیے۔

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ


(اے مسلمانو!) تم پر جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے۔ اور یہ ممکن ہے کہ جس چیز کو تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس چیز کو تم پسند کرتے ہو وہ تمہارے لئے بری ہو (اچھی نہ ہو) اصل بات یہ ہے کہ اللہ بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔



سورہ بقرہ: آیت 216


مسلمانوں پر جہاد کا واجب کفائی ہونا

سورۂ بقرہ آیت 216 میں جہاد اور اس کے واجب کفائی ہونے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔[1] "دعائم الاسلام" نامی کتاب میں امام علیؑ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کے مطابق جہاد مسلمانوں پر واجب کفائی ہے۔[2] شیعہ مفسر، آیت اللہ مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ یہ آیت سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 215 کے تسلسل میں ہے جس میں مال کے انفاق کا ذکر ہوا ہے اور یہاں اس آیت میں جان کے انفاق پر زور دیا گیا ہے۔[3] "تفسیر انوار درخشان" کے مطابق یہ آیت ان مسلمانوں کی سرزنش کرتی ہے جو جنگ کی سختی کے باعث جہاد کے حکم پر اعتراض کر رہے تھے، لیکن وہ اس بات سے غافل تھے کہ اللہ نے اسلامی معاشرے کی مصلحت اور دین اسلام کی ترویج کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ازالے کے لیے یہ حکم دیا ہے۔[4]

اسی طرح مفسرین کا کہنا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت 216 میں اس حقیقت پر زور دیا گیا ہے کہ انسان، خدا کی راہ میں جہاد جیسے امور کی حقیقت سے آگاہ نہ ہونے کے باعث، ان کی غلط تشریح کرتا ہے۔ اس لیے وہ بعض چیزوں کو جو حقیقت میں شر ہیں، خیر سمجھتا ہے، اور بعض چیزوں کو جو حقیقت میں خیر ہیں شر تصور کرتا ہے۔[5] شیعہ مفسر قرآن فضل بن حسن طبرسی کے مطابق، عطاء بن ابی ریاح کے علاوہ جنہوں نے اس آیت کے مخاطب کو صرف صحابہ کے ساتھ مختص کیا، باقی تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ آیت کا خطاب تمام مسلمانوں سے ہے۔[6]

مسلمانوں کے لیے جنگ کیوں ناپسندیدہ تھی؟

علامہ طباطبائی، آیت اللہ جوادی آملی اور سید محمد حسین فضل‌ اللہ جیسے مفسرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے جنگ اس لیے ناپسندیدہ تھی کیونکہ وہ اس کی سخت اور خشن فطرت کی وجہ سے اسے برا سمجھتے تھے۔ وہ محض خدا کی رضا کے لیے جہاد کو قبول کرتے تھے۔[7] اس کے برعکس، محمدجواد مغنیہ کا کہنا ہے کہ اگر ہم پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ کے طرز عمل پر نظر ڈالیں، تو دیکھتے ہیں کہ نہ صرف وہ جہاد کو ناپسندیدہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ پورے شوق اور جذبے کے ساتھ اس میں شریک ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر وہ شہید نہ ہوتے تو اپنے آپ کو نقصان زدہ سمجھتے۔ ان کے بقول، مسلمانوں کے لیے جنگ ناپسندیدہ اس لیے تھی کہ ان کے پاس افراد اور وسائل کم تھے اور کافروں کے مقابلے میں شکست کا اندیشہ تھا۔[8]

انسان کا علم اور عمل نفس کی خواہشات پر مبنی

محمدعلی رضائی اصفہانی نے تفسیر قرآن مہر میں سورہ بقرہ آیت 216 کے درمیانی حصے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عام طور پر انسان اپنے علم اور عمل کی بنیاد نفسانی خوہشات پر رکھتی ہے، حالانکہ اس آیت کے مطابق یہ طریقہ غلط ہے۔ ان کے مطابق، انسان بعض چیزوں سے محبت کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں؛ جیسے کاہلی، آرام پسندی، حرام غذا یا گناہ۔ اس کے برعکس، بعض چیزوں کو وہ ناپسند کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کے لیے مفید ہوتی ہیں؛ جیسے کڑوی دوا جو ڈاکٹر مریض کے علاج کے لیے تجویز کرتا ہے۔[9] "تفسیر راہنما" میں بھی یہ بات آئی ہے کہ خیر و شر کا معیار انسان کی خوشی یا ناپسندیدگی نہیں ہے اور انسان کے جذبات کو احکام الٰہی کے ماننے یا چھوڑنے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔[10]

خدا کے علم پر بھروسا

سید محمد حسین فضل‌ اللہ نے سورہ بقرہ آیت 216 کے حوالے سے لکھا ہے کہ مومن کو اللہ کے احکام پر اعتماد کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ ہر ظاہر و باطن سے باخبر ہے اور اسی علم کی بنیاد پر قانون سازی فرماتا ہے۔ ان کے مطابق، خدا کے تشریعی احکام پر ایمان رکھنے سے انسان خیر کو حاصل کرتا ہے اور شر سے محفوظ رہتا ہے۔[11] آیت اللہ مکارم شیرازی اس آیت کو ایک کلی اصول کا حامل مانتے ہیں کہ انسان کو اپنی محدود عقل پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے، بلکہ خاص طور پر دینی احکام میں، خود کو خدا کے لامحدود علم سے جوڑنا چاہیے۔[12] کچھ دیگر مفسرین نے بھی انسانی علم کی محدودیت کو الٰہی قوانین کے سامنے تواضع اور تسلیم کے جذبے کو تقویت دینے والا عنصر قرار دیا ہے۔[13]

شیخ طوسی نے مذکورہ آیت کے آخری حصے "واللہ يعلم و أنتم لا تعلمون" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آیت کا یہ حصہ جبر کے قائلین کے نظریے کی نفی کرتا ہے، کیونکہ خدا نے جہاد میں موجود مصلحتوں اور فوائد کی بنا پر اس کے وجوب کا حکم دیا ہے۔[14] آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کے مطابق، اس آیت کی روشنی میں قانون ساز کو چاہیے کہ وہ چیزوں کی حقیقی مصلحتوں اور مفاسد سے واقف ہو تاکہ ظاہری خوبصورتی یا ناپسندیدگی سے دھوکہ نہ کھائے۔[15]

حوالہ جات

  1. طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج2، ص202؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص549؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص164؛ فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج2، ص220؛ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1387، ج10، ص536.
  2. ابن حیون، دعائم الاسلام، 1342ش، ج1، ص341.
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج2، ص130.
  4. حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج2، ص191.
  5. ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج2، ص65؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج2، ص176-177؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج2، ص131.
  6. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص549.
  7. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص164؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج2، ص132-133؛ فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج2، ص220-221؛ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1387، ج10، ص541-547؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، ج2، ص176-177.
  8. مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج1، ص322-323.
  9. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج2، ص177.
  10. ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج2، ص66.
  11. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج2، ص221.
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج2، ص131-132.
  13. ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج2، ص66؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج2، ص132؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج2، ص177.
  14. طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج2، ص203.
  15. ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج2، ص66.

مآخذ

  • ابن حیون، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، قاہرہ(مصر)، نشر دارالمعارف، 1342ش/1383ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، موسسہ اسراء، 1387ہجری شمسی۔
  • حسینی ہمدانی، محمد، انوار درخشان در تفسیر قرآن، تہران، نشر لطفی، 1380ھ۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآنی، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • فضل‌اللہ، محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعة و النشر و التوزیع، چاپ سوم، 1439ھ۔
  • مدرسی، محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دار محبی الحسین علیہ السلام، چاپ اول، 1419ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الإسلامی‏، چاپ اول، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ سی و دوم، 1371ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر، تفسیر راہنما، قم، بوستان کتاب، چاپ پنجم، 1386ہجری شمسی۔