"ازواج رسول" کے نسخوں کے درمیان فرق
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 51: | سطر 51: | ||
علامہ طباطبایی مزید کہتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ کا ان عورتوں کے ساتھ برتاؤ اس بات پر دلیل ہے کہ آپؐ عورتوں کو مردوں کی شہوت پرستی کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے،بلکہ آپؐ ان کو ذلت و غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے۔<ref> ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۹۶-۱۹۷.</ref> | علامہ طباطبایی مزید کہتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ کا ان عورتوں کے ساتھ برتاؤ اس بات پر دلیل ہے کہ آپؐ عورتوں کو مردوں کی شہوت پرستی کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے،بلکہ آپؐ ان کو ذلت و غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے۔<ref> ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۹۶-۱۹۷.</ref> | ||
محمد حسین کاشف الغطاء کے مطابق رسول خداؐ تعدد ازدواج کے ذریعے اپنی ملکوتی ذات کو ظاہر کرنا چاہتے تھے اور ضبط نفس، استقامت اور مساوات و انصاف کی رعایت کی واضح مثال پیش کرنا چاہتے تھے۔<ref> کاشف الغطاء، الفردوس الاعلی، ص۱۲۲.</ref>{{نوٹ|أنه-سلام اللّه عليه-أراد أن يضرب المثل الأعلى و البرهان الأتم الأجلى لنفسه الملكوتية و مقدار رزانتها، و قوة استقامتها و عدلها، و عدالتها}} | محمد حسین کاشف الغطاء کے مطابق رسول خداؐ تعدد ازدواج کے ذریعے اپنی ملکوتی ذات کو ظاہر کرنا چاہتے تھے اور ضبط نفس، استقامت اور مساوات و انصاف کی رعایت کی واضح مثال پیش کرنا چاہتے تھے۔<ref> کاشف الغطاء، الفردوس الاعلی، ص۱۲۲.</ref>{{نوٹ|أنه-سلام اللّه عليه-أراد أن يضرب المثل الأعلى و البرهان الأتم الأجلى لنفسه الملكوتية و مقدار رزانتها، و قوة استقامتها و عدلها، و عدالتها}} | ||
==ازواج رسولؐ کے بارے میں قرآنی احکام== | |||
قرآن مجید کی بعض آیات ازواج رسولؐ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی بنسبت کچھ احکام بیان کیے گئے ہیں: | |||
===ازواج رسول کے لیے ثواب و عقاب دوگنا ہے=== | |||
قرآن کی آیت: {{متن قرآن|يا نِساءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَ كانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً (۳۰) وَ مَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ تَعْمَلْ صالِحاً نُؤْتِها أَجْرَها مَرَّتَيْنِ وَ أَعْتَدْنا لَها رِزْقاً كَرِيماً|سوره =احزاب| آیه=۳۰-۳۱.}} اگر ازواج رسول عمل صالح انجام دیں تو اس کا دوگنا ثواب ملے گا اور اگر کسی کا ارتکاب کیا تو اس کا عذاب بھی دوگنا ہوگا؛<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۰۷.</ref> کیونکہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ہونے کی وجہ سے خاص مقام کی حامل ہیں لہذا دوسری خواتین کے لیے نمونہ عمل ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۱۷، ص۲۸۸.</ref> نیز مفسرین نے اس آیت: {{متن قرآن|يا نِساءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ؛ ااے نبی کی بیویو! تم اور (عام) عورتوں کی طرح نہیں ہوا اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو۔|سوره=[[سوره احزاب]]|آیه=۳۲}} سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ذمہ داریاں دوسری عورتوں کی بنسبت زیادہ بھاری ہیں؛ کیونکہ یہ بات معقول نہیں کہ ذمہ داری برابر ہو لیکن جزا و ثواب ان کو کم ملے۔(بلکہ ان کو اپنی ذمہ داری کے مطابق ثواب میں اضافہ ہونا ایک عقلی سی بات ہے)<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۰۸.</ref> | |||
==امہات المؤمنین== | ==امہات المؤمنین== |
نسخہ بمطابق 11:32، 15 فروری 2024ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Mohsin (حصہ · شراکت) نے 10 مہینے قبل کی۔ |
خدیجہ بنت خویلد | (ازدواج: 25 عام الفیل) |
سودہ بنت زمعہ | (ازدواج: قبل از ہجرت) |
عائشہ بنت ابوبکر | (ازدواج: 1 یا 2 یا 4 ہجری) |
حفصہ بنت عمر | (ازدواج: 3 ہجری) |
زینب بنت خزیمہ | (ازدواج: 3 ہجری) |
ام سلمہ بنت ابوامیہ | (ازدواج: 4 ہجری) |
زینب بنت جحش | (ازدواج: 5 ہجری) |
جویریہ بنت حارث | (ازدواج: 5 یا 6 ہجری) |
رملہ بنت ابوسفیان | (ازدواج: 6 یا 7 ہجری) |
ماریہ بنت شمعون | (ازدواج: 7 ہجری) |
صفیہ بنت حیی | (ازدواج: 7 ہجری) |
میمونہ بنت حارث | (ازدواج: 7 ہجری) |
ازواج رسول سے مراد وہ خواتین ہیں جو رسول خداؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، جنہیں قرآن مجید میں امہات المومنین (مومنین کی مائیں) کا لقب دیا گیا ہے۔ امہات المومنین کے لیے اسلام میں خاص احکام بیان ہوئے ہیں۔
علمائے اسلام کے یہاں ازواج رسول کی تعداد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض علما نے ازواج رسول کی تعداد 15، بعض نے 13 اور کچھ علما نے کچھ اور نظریے بیان کیے ہیں۔ ازواج رسولؐ کی تعداد کا اختلاف کچھ کنیزوں کو آپؐ کی شریک حیات قرار دینے یا قرار نہ دینے میں اختلاف کے بموجب ہے۔ رسول خداؐ کا تعدد ازدواج آپؐ کے تبلیغی مشن (دین اسلام کی تبلیغ) کے مطابق تھا، آپ کی کثرت ازدواج کی کچھ محرکات یہ تھیں: عرب کے بزرگ قبیلوں اور طوائف کی حمایت حاصل کرنا، زمان جاہلیت کے باطل نظریات کو مٹانا، سماج میں ظلم و تعدی کی شکار خواتین کی سماجی حیثیت کو مضبوط کرنا اور ان کی حمایت کرنا اور کنیزوں کو آزاد کرنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ازواج رسول کے لیے سادہ زندگی بسر کرنے، اپنی زینتوں کی نمائش(تبرج) کی ممانعت اور نیک گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ پردے کے پیچھے سے ازواج رسول سے بات کریں اور رسول خداؐ کی رحلت کے بعد ان سے شادی کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ازواج رسولؐ پاکدامن ہیں اور ان کی اہانت کرنا کسی طور جائز نہیں۔ البتہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد جنگ جمل جیسے بعض واقعات کے سلسلے میں حضرت عائشہ کی کچھ کارکردگیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔
مقام و اہمیت
"برادران اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرنا منجملہ زوجہ رسولؐ عائشہ پر الزام تراشی کرنا حرام ہے۔ یہ بات تمام انبیائے کرام کی ازواج اور خاص کر حضرت محمدؐ کی ازواج کو شامل ہے۔"
رسالت اخبار، ۱۱ مہر ۱۳۸۹ہجری شمسی، ص۳۔
ازواج رسولؐ سے مراد پیغمبر اسلامؐ کی بیویاں ہیں، آیہ قرآنی: "وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ؛ آپ کی بیویاں ان (مؤمنین) کی مائیں ہیں[1] کے مطابق ازواج رسولؐ مومنین کی مائیں ہیں؛ [2] قرآن مجید میں ان کے کے خاص احکام بیان ہوئے ہیں۔[3]
ازواج رسولؐ کی توہین حرام
تمام مسلمان ازواج رسول (ص) کی پاکدامنی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود بعض وہابی شیعوں کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں کہ وہ ازواج پیغمبرؐ کی طرف ناروا نسبت دیتے ہیں۔ البتہ شیعہ اور بعض اہل سنت علماء بعض ازواج پر رحلت رسولؐ کے بعد پیش آنے والے واقعات جیسے جنگ جمل میں عایشہ کے کردار اور امام علی علیہ السلام سے ان کی دشمنی کی وجہ سے ان پر تنقید کرتے ہیں۔[4] حالانکہ شیعہ ان میں سے کسی کی طرف ناروا نسبت نہیں دیتے ہیں[5] بلکہ ان کی اہانت کو جایز نہیں سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم سید مرتضی علم الہدی ازواج رسولؐ کے رذائل سے آلودہ ہونے کو انبیاء کی عصمت کے منافی سمجھتے ہیں، اس لئے کہ شیعہ امامیہ عقاید کے مطابق، جو کچھ بھی انبیاء سے نفرت اور لوگوں کی ان سے دوری کا سبب بنے، اس سے محفوظ و مصون ہیں۔[6] نیز شیخ طوسی نے اپنی کتاب تفسیر تبیان میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ازواج رسول خداؐ پاکدامن اور با عفت تھیں کیونکہ بے عفتی سبب بنتی ہے کہ لوگ نبی سے دور ہوجائیں، نیز یہ چیز ان کے لیے باعث ننگ و عار ہے۔ پس جو شخص غیر عالمانہ گفتگو کرتے ہوئے ازواج نبی پر بے عفتی کا الزام لگائے بغیر شک کے وہ بہت بڑی غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔[7] شیعوں کے ہاں یہ عقیدہ موجود ہونے کے باوجود کچھ اہل سنت دانشوروں نے ازواج رسولؐ سے بے عفتی ظاہر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے بلکہ اس کے واقع ہونے کو بھی کہا ہے۔[8] رہبر انقلاب اسلامی ایران اور شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مقدسات اہل سنت کی توہین پر حرمت کا فتوی جاری کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اہل سنت کی برجستہ شخصیات اور ازواج پیغمبرؐ کی اہانت کے حرام ہونے کا فتوی صادر کیا ہے۔[9]
ازواج پیغمبرؐ کی تعداد
ازواج پیغمبرؐ کی تعداد کے سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ السیرۃ النبویۃ میں ابن ہشام کی گزارش کے مطابق، ازواج رسولؐ کی تعداد 13 تھی:[10] خدیجہ، سودہ، عایشہ، زینب بنت خزیمہ، حفصہ بنت عمر، ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ، ام حبیبہ (رملہ)، [[صفیہ بنت حیی بن اخطب|صفیہ]، میمونہ، عمرة بن یزید کلابی و اسماء بنت نعمان کندی۔[11] آنحضرت (ص) کی وفات کے وقت خدیجہ و زینب بنت خزیمہ کے علاوہ دیگر ازواج پیغمبرؐ بقید حیات تھیں۔[12]
امام جعفر صادقؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق ازواج رسولؐ کی تعداد 15 تھی۔[13] علی بن حسین مسعودی و شمس الدین ذھبی کے مطابق بھی ازواج رسول (ص) کی تعداد 15 تھی۔[14] بعض روایات میں یہ تعداد 17 تک ذکر ہوئی ہے۔[15] البتہ آنحضرتؐ نے 25 سال تک جب تک حضرت خدیجہ زندہ تھیں، فقط آپ زوجہ کے عنوان سے تھیں۔ حضرت خدیجہ کی وفات اور مدینہ ہجرت کے بعد آنحضرتؐ نے دیگر ازواج سے شادیاں کیں۔[16]
پیغمبر اکرمؐ کی ازواج کی تعداد کے بارے میں مورخین کے درمیان موجود اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض مورخین نے آپ کی بعض ان ازواج کو بھی اس میں شامل کیا ہے جنہوں نے کسی سبب سے آنحضرت کے ساتھ زندگی بسر نہیں کی یا بعض کنیزوں کو بهی زوجات میں شمار کیا ہے جیسے ماریہ قبطیہ۔[17] تاریخی منابع میں ان میں سے بعض کے نام جیسے ماریہ قبطیہ اور ریحانہ بنت زید ذکر ہوئے ہیں۔[18]
اولاد
رسول خداؐ کی زوجات میں سے صرف حضرت خدیجہ اور ماریہ قبطیہ صاحب اولاد تھیں۔[19] ماریہ سے ابراہیم پیدا ہوئے۔[20] مشہور کی بناء پر حضرت خدیجہ سے چار بیٹیاں زینب، ام کلثوم، رقیہ اور حضرت فاطمہ فاطمہ(س)اور دو بیٹے قاسم اور عبد اللہ متولد ہوئے۔[21]
البتہ بعض شیعہ محققین کا ماننا ہے کہ زینب، ام کلثوم اور رقیہ آنحضرت و خدیجہ کی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ خدیجہ کی بہن کی بیٹیاں تھیں جن کی پرورش آنحضرتؐ کے یہاں ہوئی تھی۔[22]
پیغمبر اسلام کی متعدد شادیاں کرنے کی وجوہات
پیغمبر اسلامؐ کے دور میں تعدد ازواج ایک رائج اور معمول کا معاملہ تھا؛[23] اس کے باوجود کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے کچھ حکمتوں اور اپنے تبلیغی مشن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے متعدد شادیاں کیں۔[24] مذکورہ حکمتوں میں سے کچھ کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
- آپ چاہتے تھے کہ عرب کے مشہور اور بزرگ قبائل سے ازدواجی رشتہ ناتوں کے ذریعے ان کی سیاسی اور سماجی حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے؛ عائشہ سے آپ کی شادی اسی نوعیت کی تھی۔
- زمانہ جاہلیت کے غلط افکار کو باطل اور بیہودہ قرار دے کر حکم الہی کا اجراء کرنا مقصود تھا، جیسے کہ آپؐ نے زینب بنت جحش کے ساتھ شادی کی۔ زینب کا شوہر زید بن حارثہ تھا جو کہ پیغمبر اسلام کا گود لیا بیٹا تھا اور اہل عرب کی روایت کے مطابق گود لیے بچے کو اپنا حقیقی بچہ سمجھا جاتا تھا، اس لیے اس کی وفات یا اس کی بیوی کو طلاق ہونے کے بعد اسی گھر سے کوئی اس کی بیوی سے شادی نہیں کرتا تھا۔ پیغمبر نے اس روایت کو ختم کیا۔
- سماجی ظلم و تعدی کی شکار خواتین کو تشخص دینے کے لیے آپؐ نے متعدد شادیاں کیں، جن میں بیوہ اور کنیز عورتیں ہوا کرتی تھیں۔ (عایشہ کے علاوہ آپ کی تمام بیویاں بیوہ تهیں)
- بعض شادیاں آپؐ نے اسلام کی راہ میں سختیاں جھیلنے والی خواتین کی تسلی خاطر کے لیے کیں، جیسے ام حبیبہ سے ازدواج۔
- بیوہ، فقیر، یتیم اور بے سرپرست خواتین کی سرپرستی اور ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنےکے لیے بعض شادیاں کیں، جیسے ام سلمہ اور زینب بنت خزیمہ سے شادی اسی نوعیت کی تھی۔
- آنحضرتؐ کی بعض شادیاں اسلام کی عظمت، شان و شوکت اور طاقت کے اظہار کے لیے تھیں، جیسے صفیہ سے شادی۔
- کنیزوں اور قیدی خواتین کو آزاد کرنے کی خاطر بعض شادیاں کیں، جیسے جویریہ سے شادی اسی سلسلے میں تھی۔[25]
پیغمبر خداؐ کے تعدد ازدواج میں مذکورہ حکمتیں درکار ہونے کے باوجود بعض مصنفین نے آپؐ کے تعدد ازواج کو ہوا و ہوس کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ علامہ طباطبایی نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ سیرت نبوی اس بات کو رد کرتی ہے کیونکہ پیغمبر اسلامؐ نے اپنی کل زندگی کے تقریباً دو تہائی حصے کو صرف حضرت خدیجہ(س) کے ساتھ گزار دیے ہیں۔ آپؐ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں متعدد شادیاں کی ہیں۔[26] اگر پیغمبر صرف ہوا و ہوس کی بنیاد پر شادیاں کرتے تو جوان عورتوں سے شادی کرتے نہ کہ بیوہ اور بوڑھی عورتوں سے۔[27]
علامہ طباطبایی مزید کہتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ کا ان عورتوں کے ساتھ برتاؤ اس بات پر دلیل ہے کہ آپؐ عورتوں کو مردوں کی شہوت پرستی کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے،بلکہ آپؐ ان کو ذلت و غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے۔[28] محمد حسین کاشف الغطاء کے مطابق رسول خداؐ تعدد ازدواج کے ذریعے اپنی ملکوتی ذات کو ظاہر کرنا چاہتے تھے اور ضبط نفس، استقامت اور مساوات و انصاف کی رعایت کی واضح مثال پیش کرنا چاہتے تھے۔[29][یادداشت 1]
ازواج رسولؐ کے بارے میں قرآنی احکام
قرآن مجید کی بعض آیات ازواج رسولؐ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں ان کی بنسبت کچھ احکام بیان کیے گئے ہیں:
ازواج رسول کے لیے ثواب و عقاب دوگنا ہے
قرآن کی آیت: سانچہ:متن قرآن اگر ازواج رسول عمل صالح انجام دیں تو اس کا دوگنا ثواب ملے گا اور اگر کسی کا ارتکاب کیا تو اس کا عذاب بھی دوگنا ہوگا؛[30] کیونکہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ہونے کی وجہ سے خاص مقام کی حامل ہیں لہذا دوسری خواتین کے لیے نمونہ عمل ہیں۔[31] نیز مفسرین نے اس آیت: سانچہ:متن قرآن سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ذمہ داریاں دوسری عورتوں کی بنسبت زیادہ بھاری ہیں؛ کیونکہ یہ بات معقول نہیں کہ ذمہ داری برابر ہو لیکن جزا و ثواب ان کو کم ملے۔(بلکہ ان کو اپنی ذمہ داری کے مطابق ثواب میں اضافہ ہونا ایک عقلی سی بات ہے)[32]
امہات المؤمنین
اُمُّ الْمُؤْمِنین (مؤمنین کی ماں) ایک ایسا لقب ہے جو اسلامی معاشرے میں پیغمبر اکرم(ص) کی زوجات کیلئے بطور عام استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ لقب سورہ احزاب کی آیت نمبر 6 سے استخراج کیا گیا ہے جس میں مؤمنین پر پیغمبر اکرم کے حقوق کے ضمن میں یوں بیان فرماتا ہے:
- وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ
- پیغمبر(ص) کی زوجات ان (مؤمنین) کی مائیں ہیں۔
اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنی روزمرہ زندگی میں پیغمبر اکرم(ص) کی زوجات کا احترام کریں اور ان کی حرمت کا خیال رکھیں۔ پیمغبر اکرم(ص) کی ازواج کے حوالے سے تشریح ہونے والے احکام میں سے ایک ان کے ساتھ شادی بیاہ کا حرام ہونا ہے یعنی کوئی بھی مسلمان پیغمبر کی رحلت کے بعد ان کی کسی زوجات سے شادی نہیں کر سکتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ سوره احراب، آیه۶.
- ↑ ملاحظہ کیجیے: سوره احزاب، آیه۶.
- ↑ ملاحظہ کیجیے: سوره احزاب، آیات ۲۸-۳۴ و ۵۳و ۵۴.
- ↑ ملاحظہ کیجیے: حسینی فیروز آبادی، سبعة من السلف، ۱۴۱۷ق، ص۲۵۸-۲۶۹.
- ↑ میلان نورانی، «بررسی دیدگاه علمای شیعہ، در مورد همسران پیامبر»، ص۵۶-۵۸.
- ↑ سید مرتضی، امالی، ۱۹۹۸ء، ج۱، ص۳۰۵.
- ↑ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، ج۵، ص۴۹۵.
- ↑ بخاری، صحیح بخاری، ج۴، ص۷۲۹.
- ↑ «استقبال جهان اسلام از استفتای جدید آیت الله خامنہ ای»، روزنامہ رسالت، ۱۱ مهر ۱۳۸۹ہجری شمسی، ص۳.
- ↑ ابن ہشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ج۲، ص۶۴۳.
- ↑ ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ج۲، ص۶۴۷.
- ↑ ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ج۲، ص۶۴۷.
- ↑ شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۱۹.
- ↑ مسعودی، مروجالذهب، ۱۳۸۰ش، ج۳، ص۲۳؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵۹۲.
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۴.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۹۵.
- ↑ ابو القاسم زاده، «کنکاشی درباره علل تعدد همسران پیامبر»، ص۸۴.
- ↑ ملاحظہ کیجیے: ذهبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵۹۸.
- ↑ هیکل، حیاة محمد، دار الکتب، ص۲۰۵.
- ↑ هیکل، حیاة محمد، دار الکتب، ص۲۰۵.
- ↑ مقریزی، امتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۳۴.
- ↑ جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۱۲.
- ↑ هیکل، حیاة محمد، دارالکتب، ص۲۰۵.
- ↑ ابوالقاسمزاده، «کنکاشی درباره علل تعدد همسران پیامبر»، ص۸۴.
- ↑ المیزان، ج ۴، ص۱۹۵؛ علامہ طباطبایی، بررسیہای اسلامی، ص۱۳۲ - ۱۳۹؛ مؤسسہ در راہ حق، نگرشی کوتاہ بہ زندگی پیامبر اسلام، ص۲۹؛ رسولی محلاتی، تاریخ انبیاء، ج ۳، ص۴۷۵.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۹۵.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۹۵.
- ↑ ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۹۶-۱۹۷.
- ↑ کاشف الغطاء، الفردوس الاعلی، ص۱۲۲.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۰۷.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۱۷، ص۲۸۸.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۰۸.
نوٹ
- ↑ أنه-سلام اللّه عليه-أراد أن يضرب المثل الأعلى و البرهان الأتم الأجلى لنفسه الملكوتية و مقدار رزانتها، و قوة استقامتها و عدلها، و عدالتها
مآخذ
- ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت،دار صادر، ۱۳۷۷ ق.
- ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، بیروت، داراحیاء التراث العربی بیتا و دار المعرفۃ، بیتا.
- حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ ق.
- ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، چ سوم، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۴۱۵ ق.
- طبری، تاريخ الأمم و الملوك، دوم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق.
- عابدینی، احمد، شیوہ ہمسرداری پیغمبر(ص) بہ گزارش قرآن و سنّت، دوم، تہران، ہستی نما، ۱۳۸۳،
- کاظم نژاد،مہری و ابوالقاسم زادہ،مجید، کنکاشی دربارہ علل تعدد ہمسران پیغمبر، مجلہ معرفت، آذر ۱۳۸۵ - شمارہ ۱۰۸ (از صفحہ ۸۳ تا ۹۴)
- مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، انتشارات الشریف الرضی، ۱۳۸۰