مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 118: سطر 118:
قرآن کی مختلف آیتوں میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرم(ص) کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔<ref>سورہ اسراء، آیت ۸۸؛ سورہ ہود، آیت ۱۳؛ سورہ یونس، آیت ۳۸.</ref> مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔<ref>معموری، تحدی، ۱۳۸۵ش، ص۵۹۹.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔<ref>سورہ طور، آیت ۳۴.</ref> اعجاز القرآن، [[قرآنی علوم]] کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، اعجاز القرآن، ۱۳۷۹ش، ج۹، ص۳۶۳.</ref>
قرآن کی مختلف آیتوں میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرم(ص) کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔<ref>سورہ اسراء، آیت ۸۸؛ سورہ ہود، آیت ۱۳؛ سورہ یونس، آیت ۳۸.</ref> مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔<ref>معموری، تحدی، ۱۳۸۵ش، ص۵۹۹.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔<ref>سورہ طور، آیت ۳۴.</ref> اعجاز القرآن، [[قرآنی علوم]] کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، اعجاز القرآن، ۱۳۷۹ش، ج۹، ص۳۶۳.</ref>


=== اعجازِ قرآن ===
== اعجاز القرآن ==
 
{{اصلی|اعجاز القرآن}}
'''مفصل مضمون: ''[[اعجاز قرآن]]'''''
قرآن کا بے مثل ہونا اسلامی اصطلاح میں اعجاز القرآن کہلاتا ہے۔ اور قرآن کے معجزہ ہونے کو کئی اعتبار سے بیان کیا جا سکتا ہے:
 
اعجاز قرآن کے معنی میں چند صورتیں بیان کی گئی ہیں:
# بے مثل فصاحت و بلاغت، جس کی نہ کوئی مثال ہے اور نہ ہی کوئی نظیر [= زبانی اعجاز کا نظریہ]۔
# بے مثل فصاحت و بلاغت، جس کی نہ کوئی مثال ہے اور نہ ہی کوئی نظیر [= زبانی اعجاز کا نظریہ]۔
# موسیقیائی اور صوتیاتی انفرادیت۔
# موسیقیائی اور صوتیاتی انفرادیت۔
# معارف و تعلیمات کے لحاظ سے انفرادیت۔
# معارف و تعلیمات کے لحاظ سے انفرادیت۔
# قرآنی تشریعات [اور قانون سازیاں]] فطرت اور عقل سلیم کے عین مطابق اور دو جہانوں کی سعادت و خوشبختی کی ضمانت ہیں۔
# قرآنی تشریعات اور [[ قانون سازی]] فطرت اور عقل سلیم کے عین مطابق اور دو جہانوں کی سعادت و خوشبختی کی ضمانت ہیں۔
# قرآنی دلائل و براہین قاطع اور فصل الخطاب کے حامل ہیں۔
# قرآنی دلائل و براہین قاطع اور فصل الخطاب ہیں۔
# قرآن غیبی خبروں پر مشتمل ہیں ماضی کے بارے میں بھی اور مستقبل کے بارے میں بھی۔
# قرآن ماضی اور مستقبل دونوں اعتبار سے غیبی خبروں پر مشتمل ہیں۔
# اسرار خلقت کے سلسلے میں علمی [سائنسی] اشارات پر مشتمل ہے۔
# اسرار خلقت کے سلسلے میں علمی [سائنسی] اشارات پر مشتمل ہے۔
# قرآنی بیان استقامت و استواری کا حامل ہے اور اس میں تضاد اور اختلاف نہيں ہے، حالانکہ قرآن 23 سالہ عرصے میں بہت سارے حوادث و واقعات میں نازل ہوا ہے۔
# قرآنی بیان استقامت و استواری کا حامل ہے اور اس میں تضاد اور اختلاف نہيں ہے، حالانکہ قرآن 23 سالہ عرصے میں بہت سارے حوادث و واقعات کے تناظر میں نازل ہوا ہے۔
# یہ قول کہ "خداوند متعال نے مخالفین کے دلوں اور ہمتوں کو مثل قرآن لانے سے منصرف کردیا ہے (= [[نظریہ صرفہ]]۔
# یہ قول کہ "خداوند متعال نے مخالفین کے دلوں اور ہمتوں کو مثل قرآن لانے سے منصرف کردیا ہے (= [[نظریہ صرفہ]]۔
سابقہ [[انبیاء علیہم السلام|انبیاء]] کے [[معجرہ|معجزات]] زيادہ تر حسّی تھے جبکہ قرآن ـ جو [[اسلام]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کا زندہ جاوید اور ابدی معجزہ ـ ایک عقلی، علمی و سائنسی اور ثقافتی و تہذیبی معجزہ ہے۔ ایک مشہور قول کے مطابق ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے اپنے زمانے کی ترقی وپیشرفت سے مطابقت رکھتا تھا، اور چونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|ہمارے پیغمبر(ص)]] کے زمان ےمیں قوم [[عرب]] کے درمیان شعر و ادب اعلی فن و ہنر سمجھتا جاتا تھا، خداوند متعال نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ(ص)]] کے لئے ایک زبانی و ادبی معجزہ منتخب فرمایا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638-1639۔</ref>
سابقہ [[انبیاء علیہم السلام|انبیاء]] کے [[معجرہ|معجزات]] زيادہ تر حسّی تھے جبکہ قرآن ـ جو [[اسلام]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کا زندہ جاوید اور ابدی معجزہ ـ ایک عقلی، علمی و سائنسی اور ثقافتی و تہذیبی معجزہ ہے۔ ایک مشہور قول کے مطابق ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے اپنے زمانے کی ترقی وپیشرفت سے مطابقت رکھتا تھا، اور چونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|ہمارے پیغمبر(ص)]] کے زمان ےمیں قوم [[عرب]] کے درمیان شعر و ادب اعلی فن و ہنر سمجھتا جاتا تھا، خداوند متعال نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ(ص)]] کے لئے ایک زبانی و ادبی معجزہ منتخب فرمایا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638-1639۔</ref>
اعجاز قرآنی کی صورتوں کے درمیان دو صورتیں بہت نمایاں سمجھی گئی ہیں:
# '''زبانی ـ ادبی اعجاز'''، علمائے [[شیعہ|امامیہ]] کی غالب اکثریت اس نظریئے کے قائل ہیں نیز [[جاحظ]]، [[قاضی عبدالجبار]]، [[زمخشری]]، [[عبدالقاہر جرجانی]] اور [[سکاکی]] نیز [[حافظ شیرازی|خواجه شمس الدین محمد حافظ]]، بھی اسی نظریئے کے قائل ہیں۔
# '''نظریۂ صرفہ'''، اعجاز قرآنی کے اس نظریئے کے مطابق اعجاز قرآن صرف اس کی فصاحت اور اس کی بے مثل ادبی ـ زبانی فصاحت ہی میں نہیں ہے بلکہ یہ اعجاز اس حقیقت میں ہے کہ خداوند متعال نے خود ہی ان لوگوں کی فکر اور سوچ کو منصرف کیا (اور پلٹا دیا) ہے جو قرآن کی برابری اور اس کی مثل و نظیر لانے کے درپے ہیں۔ علمائے [[شیعہ|امامیہ]] میں سے [[سید مرتضی]] اور [[شیخ مفید]] اس نظریئے کے قائل ہیں لیکن یہ نظریہ ضعیف اور خدشہ پذیر ہے کیونکہ یہ نظریہ قرآن کی ذاتی اور ادبی = زبانی اور مضمونی اور اسلوبی منزلت کو قرآن کے معجز ہونے کے لئے کافی نہيں سمجھتا۔ ان [[شیعہ]] اکابرین کے علاوہ اس نظریئے کے بانی [[نظّام معتزلی]]، اور [[ابن حزم ظاہری]] سمیت [[اشاعرہ]] کے بعض بزرگ بھی اس نظريئے کے حامی ہیں اور شاید ان [[نظریۂ صرفہ]] کی طرف ان بزرگوں کے مائل ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ زبانی ـ ادبی اعجاز کے نظریئے کو ناکافی سمجھتے ہیں اور یہ لوگ اس نظریئے کے قائل ہیں کہ مثال کے طور پر ہر قوم کی عمدہ کاوشیں معجزنما، مخالفت ناپذیر اور بےمثل ہیں۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1639۔</ref>


== قرآن کا حادث یا قدیم ہونا ==
== قرآن کا حادث یا قدیم ہونا ==

نسخہ بمطابق 09:50، 3 جون 2017ء

قرآن
حضرت امام علی(ع) سے منسوب قرآنی نسخہ
معلومات

عنوان: کتاب مقدس دین اسلام
اسامی مشہور: قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف شریف
سپاروں کی تعداد : ۳۰ جزء
سوروں کی تعداد : ۱۱۴ سورہ
آیاتوں کی تعداد : ۶۲۳۶ آیت

قرآن کریم یا قرآن [عربی میں القرآن الکریم] دین اسلام کی مقدس کتاب ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے جسے فرشتہ وحی، جبرائیل کے ذریعے حضرت محمد(ص) پر نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں قرآن کی آیتیں مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپ(ص) کے بعد صحابہ نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔

قرآن کے متعدد اسامی ذکر کئے گئے ہیں جن میں قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف زیادہ مشہور ہیں۔ قرآن کو ۱۱۴ سورتوں، تقریبا چھ ہزار آیتوں، تیس سپاروں اور ۱۲۰ احزاب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

چوتھی صدی ہجری تک قرآن کی مختلف قرائتیں مسلمانوں کے درمیان رائج تھیں جس کی اصل وجہ قرآن کے مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مراحل میں ہونا اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقوں کی پیروی کرنا وغیرہ ہے۔ چوتھی صدی میں مختلف قرائتوں میں سے صرف سات قرائتوں (قراء سبعہ) کو انتخاب کیا گیا۔ مسلمانوں کے درمیان اس وقت سب سے زیادہ مشہور اور رائج قرائت، قرائت عاصم بمطابق روایت حفص ہے۔

قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے جس کی وجہ سے غیر عرب مسلمان اسے آسانی سے سمجھ نہیں سکتے اس بنا پر دنیا کے تقریبا تمام زندہ زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ ہر مسلمان اسے با آسانی سمجھ سکے۔ ترجمہ قرآن کی تاریخ بہت پرانی ہے جس کی اصل صدر اسلام تک جا پہنچتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن کے پہلے مترجم سلمان فارسی تھے جنہوں نے چوتھی صدی میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا فارسی میں ترجمہ کیا اور چھٹی صدی میں قرآن کا لاتینی زبان میں ترجمہ ہوا۔

اس وقت قرآن سے متعلق مختلف علوم مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں جن میں تفسیر قرآن، تاریخ قرآن، علم لغات قرآن، علم اِعراب و بلاغت قرآن، قصص القرآن اور اعجاز القرآن وغیرہ شامل ہیں۔

ختم قرآن پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے درمیان رائج سنتوں میں سے ہے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے انجام پاتا ہے۔ قرآن سر پر اٹھانا شب قدر کے اعمال میں سے ایک ہے جس میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خود خدا، قرآن اور معصومین (ع) کا واسطہ دے کر خدا سے گناہوں کی مغفرت کی درخواست کی جاتی ہے۔

کلام خدا

مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام(ص) پر 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔[1] تمام مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں۔[2]

قرآن پہلی بار غار حراء میں پیغمبر اکرم(ص) پر وحی ہوا۔ [3] کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہونے والی پہلی آیات سورہ علق کی ابتدائی آیات تھیں اور پہلی بار مکمل طور پر نازل ہونے والا سوره، سورہ فاتحہ ہے۔ [4] مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام آخری نبی اور قرآن آخری آسمانی کتاب ہے۔[5]

کیفیت دریافت

قرآن میں انبیاء پر ہونے والی وحی کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں: الہام، پردے کے پیچھے سے اور فرشتوں کے ذریعے۔[6] بعض سورہ بقرہ کی آیت قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ (ترجمہ: اے رسول کہہ دیجئے کہ جو شخص بھی جبریل کا دشمن ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبریل نے آپ کے دل پر قرآن حکم خدا سے اتارا ہے۔)[7] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کا نزول صرف اور صرف "جبرئیل" کے ذریعے انجام پایا ہے؛[8] لیکن مشہور نظریہ کے مطابق دوسرے طریقوں منجملہ براہ راست حضرت محمد(ص) کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے۔[9]

کیفیت نزول

قرآن کی بعض آیات کے مطابق قرآن، رمضان المبارک کے مہینے میں شب قدر کو نازل ہوا ہے۔[10] اس بنا پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا قرآن دفعتا(ایکبارگی) نازل ہوا ہے یا تدریجا(موقع محل اور حالات کی نزاکت کے مطابق) نازل ہوا ہے۔ [11] بعض کہتے ہیں: قرآن دفعی طور پر بھی نازل ہوا ہے اور تدریجی طور پر بھی؛[12] اسی طرح بعض کا عقیدہ ہے کہ ہر سال جس مقدار میں نازل ہونا تھا وہ اسی سال شب قدر کو ایک ساتھ نازل ہوتا تھا؛[13] جبکہ اس کے مقابلے میں بعض یہ کہتے ہیں کہ قرآن صرف اور صرف تدریجی طور پر نازل ہوا ہے جس کا آغاز رمضان اور شب قدر میں ہوا تھا۔[14]

قرآن کے اسماء اور صفات

قرآن کے بہت سارے اسماء ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے "فرقان"،[15] "ذکر"،[16] "تنزیل،[17] "الکتاب"،[18] اور "کلام اللہ"[19] قرآن کے مشہور نام ہیں۔ نیز قرآن کو دوسری صفات سے بھی یاد کیا گیا ہے جیسے: "القرآن المجید"،[20] "القرآن العظیم،[21] "القرآن الحکیم"،[22] "القرآن الکریم"،[23] "قرآن مبین"۔[24]۔[25]

قرآن کی تاریخ

کتابت اور تدوین

پیغمبر اسلام(ص) قرآن مجید کو حفظ کرنے اسکی کی تلاوت کرنے اور اس کی کتابت پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ بعثت کے ابتدائی سالوں میں پڑھے لکھے افراد کی کمی اور کتابت کی سہولیات با آسانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے مبادا قرآن میں کوئی کلمہ بھول جائے یا اسے غلط محفوظ کیا جائے، قرآن کی آیات کو صحیح حفظ اور قرائت کرنے پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔[26] آپ(ص) جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو کاتبان وحی کو بلا کر یہ آیت ان کے سامنے تلاوت فرماتے اور اسے لکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔[27] قرآن کی آیتیں مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپ(ص) کے بعد صحابہ نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔ [28]

پیغمبر اکرم(ص) خود قرآن کی کتابت کی نگرانی فرماتے تھے۔ آپ(ص) کاتبان وحی کے سامنے آیتوں کی تلاوت فرمانے اور لکھنے کے بعد ان سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے پڑھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ لکھنے میں کوئی غلطی یا اشتباہ ہوئی ہو تو اسے رفع کیا جا سکے۔[29] سیوطی لکھتے ہیں: پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ہی پورا قرآن لکھا جا چکا تھا لیکن اکھٹے اور سوروں کی ترتیب وغیرہ مشخص نهیں تھا۔ [30]

پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں قرآن موجودہ شکل میں موجود نہیں تھا۔ کتاب التمہید کے مطابق آپ(ص) کے زمانے میں قرآن کی آیات اور سورتوں کا نام آپ(ص) کے توسط سے ہی معین ہوئے تھے لیکن اسے باقاعدہ کتاب کی شکل دینا اور سورتوں کی ترتیب وغیرہ آپ(ص) کی وفات کے بعد صحابہ کرام کی صوابدید پر انجام پایا ہے۔ [31] اس کتاب کے مطابق پہلی شخصیت جس نے قرآن کی تدوین کی، امام علی(ع) تھے۔ آپ(ع) نے قرآن کی سورتوں کو ان کی تاریخ نزول کے مطابق ترتیب دے کر قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع فرمایا۔ [32]

مختلف نسخوں کو یکساں کرنا

پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد آپ کے نامور اصحاب میں سے ہر ایک نے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا یوں قرآن کے مختلف نسخے مختلف قرائت اور سورتوں کی مختلف ترتیب کے ساتھ تدوین ہوئے۔[33] اس کے نتیجے میں ہر گروہ اپنے سے متعلق نسخے کو صحیح اور دوسرے نسخوں کو غلط اور اشتباہ سمجھنے لگا۔[34]

اس صورتحال کے پیش نظر حذیفۃ بن یمان کی تجویز پر عثمان نے قرآن کے مختلف نسخوں کو یکساں کرنے کیلئے ایک گروہ تشکیل دیا۔[35] اس مقصد کیلئے اس نے مختلف گوشہ و کنار سے قرآن کے تمام نسخوں کو جمع کرکے انہیں یکساں کرنے کے بعد بقیہ نسخوں کو محو کرنے کا حکم دیا۔[36] کتاب التمہید کے مطابق احتمال غالب یہ ہے کہ قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے کا کام سن 25 ہجری میں انجام پایا۔[37]

ائمہ معصومین اور موجودہ قرآن نسخہ

احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ائمہ معصومین قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے اور پوری اسلامی حکومت میں قرآن کے ایک ہی نسخے کو ترویج دینے کے ساتھ موافق تھے۔ سیوطی نے امام علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ عثمان نے اس حوالے سے آپ(ع) سے مشورہ کیا جس پر آپ(ع) نے اپنی مواففت کا اعلان فرمایا۔[38] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام صادق(ع) نے آپ کے سامنے موجودہ قرآن کے برخلاف قرائت کرنے پر ایک شخص کو منع کیا۔[39] کتاب التمہید کے مطابق تمام شیعہ قرآن کے موجودہ نسخے کو صحیح اور کامل ماننتے ہیں۔[40]

قرآن کی مختلف قرائتیں

چوتھی صدی ہجری تک قرآن کی مختلف قرائتیں مسلمانوں کے درمیان رائج تھیں۔[41] ان مختلف قرائتوں کے مختلف علل و اسباب تھے جن میں سے زیادہ اہم اسباب یہ ہیں: قرآن کی مختلف نسخوں کی موجودگی، عربی رسم الخط کا ابتدائی مرحلے میں ہونا، عربی حروف کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا، مختلف لہجوں کی موجودگی اور مختلف قاریوں کا ذاتی سلیقوں پر عمل پیرا ہونا۔[42]

چوتھی صدی ہجری میں بغداد کے قاریوں کے استاد ابن مجاہد نے مختلف قرائتوں میں سے سات قرائتوں کو انتخاب کیا۔ ان سات قرائتوں کے قاریوں کو قراء سبعہ (سات قراء) کہا جانے لگا۔ چونکہ ان سات قرائتوں میں سے ہر ایک دو طریقوں سے نقل ہوئی ہیں اس بنا پر مسلمانوں کے درمیاں چودہ قرائتیں رائج ہوئیں۔[43]

اہل سنت معتقد ہیں کہ قرآنی الفاظ کے مختلف ابعاد ہیں اس بنا پر ان جہات میں سے ہر ایک جہت کے مطابق قرآن کو پڑھا جا سکتا ہے۔[44] لیکن شیعہ علماء کہتے ہیں: قرآن صرف ایک قرائت کے ساتھ نازل ہوا ہے اور ائمہ معصومین نے قرآن کی تلاوت میں آسانی کی خاطر مختلف قرائتوں کی اجازت دی ہیں۔[45]

مسلمانوں کے درمیان اس وقت عاصم کی قرائت حفص کی روایت کے مطابق، سب سے زیادہ رائج ہے۔ شیعہ معاصر محققین کی ایک گروہ ان سات قرائتوں میں سے صرف اسی قرائت کو صحیح اور متواتر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:‌ دوسری قرائتیں پیغمبر اکرم سے نہیں لی گئی بلکہ متعلقہ قراء کا ذاتی سلیقوں پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں یہ قرائتیں وجود میں آئی ہیں۔[46]

سسلسلہ تیموریان سے متعلق قرآنی نسخہ فارسی ترجمہ کے ساتھ

قرآن کا ترجمہ

قرآن کا ترجمہ بہت پرانے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اس کی تاریخ صدر اسلام تک پہنچتی ہے۔[47] قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ فارسی زبان میں چوتھی صدی ہجری میں انجام پایا ہے۔[48] کہا جاتا ہے کہ قرآن کا پہلا مترجم سلمان فارسی تھا جنہوں نے بسم الله الرحمن الرحیم کا فارسی میں ترجمہ کیا۔[49]

لاتینی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شروع شروع میں عیسایی راہبوں کے توسط سے انجام پایا۔ یہ لوگ کلامی مباحث میں اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے قرآن کے مختلف حصوں کا ترجمہ کرتے تھے۔[50] لاتینی زبان میں قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ چھٹے صدی ہجری میں منظر عام پر آ گیا.[51]

قرآن کی طباعت

قرآن سن 950 ہجری(1543ء) میں پہلی دفعہ اٹلی میں شایع ہوا۔ قرآن کی یہ طباعت کلیسا کے حکام کے حکم سے نابود کیا گیا۔ اس کے بعد سن 1104 ہجری پھر 1108 ہجری میں یورپ میں قرآن کو شایع کیا گیا۔ مسلمانوں نے پہلی دفعہ سن 1200 ہجری میں قرآن کو شایع کیا اور یہ کام مولاعثمان نے سن پیترزبورگ روس میں انجام دیا۔

پہلا اسلامی ملک جس نے قرآن کو شایع کیا ایران ہے۔ ایران نے سن ۱۲۴۳ق اور ۱۲۴۸ق، میں قرآن کا دو خوبصورت لتھوگرافی نسخہ شایع کیا۔ اس کے بعد دوسرے اسلامی ملکوں جیسے ترکی، مصر اور عراق وغیرہ میں قرآن کے مختلف نسخے شایع ہوئے۔[52]

مصر میں میں سن ۱۳۴۲ق میں الازہر یونیورسٹی کے پروفیسروں کی نگرانی میں حفص کی روایت میں عاصم کی قرائت کے مطابق قرآن شایع ہوا جو پورے عالم اسلامی میں مورد قبول ٹہرا۔ آجکل جو قرآن عثمان طہ کے نام سے معروف ہے وہ شام کے ایک خوشنویس کے ہاتھوں لکھا گیا ہے جس کا نام عثمان طہ تھا۔ یہ قرآن اکثر اسلامی ممالک میں شایع ہوتا ہے۔ اس ایڈیشن کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر صفحہ کسی آیت کے آغاز سے شروع اور کسی آیت کے اختتام پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن کے مختلف حصوں جیسے احزاب اور پاروں کی منظم تقسیم بھی اس ایڈیشن کی خصوصیات میں سے ہے۔[53]

آجکل قرآن کی طباعت متعلقہ وزارتوں کی زیرنگرانی مخصوص قوانین و شرائط کے تحت انجام پاتی ہے۔[54] ایران میں سازمان دارالقرآن الکریم، قرآن کی تصحیح اور اس کی طباعت کا ذمہ دار ہے۔[55]

قرآنی کریم کی ساخت

قرآن ۱۱۴ سورتوں اور تقریبا چھ ہزار آیتوں پر مشتمل ہے۔ قرآن کی آیتوں کی دقیق تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے امام علی(ع) سے نقل کیا ہے کہ قرآن کی ۶۲۳۶ آیت ہیں۔[56] قرآن 30 پاروں اور 120 احزاب میں تقسیم ہوا ہے۔[57]

سورہ

قرآن کی تقسیم میں ایک اکائی کا نام "سورة" (یا سورت یا سورہ) ہے۔ سورہ کے معنی لغت میں "منقطع شدہ" (کٹا ہوا) کے ہیں اور اصطلاح میں آیات کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جو کسی خاص مواد اور مضمون پر مشتمل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سورتوں کی تعداد 114 ہے اور سوائے سورہ توبہ کے سب کا آغاز بسم الله الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔[58]

قرآن کا آغاز سورہ حمد سے اور اختتام سورہ ناس پر ہوتا ہے۔ قرآن کی سورتوں کو ان کے نازل ہونے کے زمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے مکی اور مدنی میں تقسیم کیا جاتا ہے: اس طرح وہ سورتیں جو ہجرت مدینہ سے پہلے نازل ہوئی ہیں انہیں مکی اور وہ سورتیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں کو مدنی کہا جاتا ہے۔[59]

آیت

قرآن کریم کے کلمات اور جملوں کو آیت کہا جاتا ہے اور مختلف آیات کے مجموعے سے سوره وجود میں آتا ہے۔[60] آیات حجم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 282 قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے جبکہ سورہ رحمان کی آیت نمبر 64 "مُدهامَّتان"، سورہ ضحی کی آیت نمبر 1 "والضُّحی" اور سورہ فجر کی آیت نمبر 1 "والفَجر" کو قرآن کی سب سے چھوٹی آیت قرار دیا جاتا ہے۔[61]

قرآن کی آیتیں معنی کی وضاحت کے اعتبار سے محکم اور متشابہ میں تقسیم ہوتی ہیں۔ محکمات ان آیات کو کہا جاتا ہے جن کے معنی اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ ان میں کسی قسم کی شک اور تردید کی گنجائش ہی نہیں ہے جبکہ ان کے مقابلے میں بعض آیات ہیں جن کے معنی کے بارے میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں ان آیات کو متشابہ کہا جاتا ہے۔[62] یہ تقسیم بندی خود قرآن میں ہی موجود ہے۔[63]

آیات کی ایک اور تقسیم بندی بھی ہے جس کے مطابق قرآن کی وہ آیت جو کسی اور آیت میں موجود حکم کو باطل قرار دے، ناسخ اور جس آیت کا حکم باطل قرار دیا گیا ہے کو منسوخ کہا جاتا ہے۔[64]

حزب اور پارہ

حزب اور پارہ بھی قرآن کی تقسیم بندی کے دو معیار ہیں جو مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔ احتمال دیا جاتا ہے کہ اس کام کو مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت اور اسے حفظ کرنے میں آسانی کی خاطر انجام دئے ہیں۔ اس طرح کی تقسیمات فردی سلیقوں کی بنیاد پر انجام دیجاتی تھی اس بنا پر ہر زمانے میں ان کی کمیت اور کیفیت میں تبدیلی نظر آتی ہیں۔[65] مثلا کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے دور میں قرآن سات احزاب پر مشتمل تھا اور ہر حزب کئی سوروں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح مختلف زمانوں میں قرآن کو دو یا دس حصوں میں تقسیم کرنے کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں قرآن کو تیس پاروں اور ہر پارے کو چار احزاب میں تقسیم کرنا رائج اور مرسوم ہے۔[66]

قرآن کے مضامین

قرآن میں مختلف موضوعات جیسے اعتقادات، اخلاق، احکام، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: توحید، معاد، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرم(ص) کے غزوات، قصص القرآن، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور شرک و نفاق سے منع وغیرہ۔ [67]

تحریف ناپذیری قرآن

جب قرآن کی تحریف سے بحث کی جاتی ہے تو معمولا اس سے مراد قرآن میں کسی کلمے کا اضافہ یا کمی ہے۔ آیت الله خوئی لکھتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اس معنی میں قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ لیکن قرآن سے کسی لفظ یا الفاظ کے حذف ہونے اور کم ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[68] آپ کے بقول شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ کے مطابق اس معنی میں بھی قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔[69]

قرآن کا چیلنج

قرآن کی مختلف آیتوں میں پیغمبر اکرم(ص) کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرم(ص) کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔[70] مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔[71] مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔[72] اعجاز القرآن، قرآنی علوم کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔[73]

اعجاز القرآن

قرآن کا بے مثل ہونا اسلامی اصطلاح میں اعجاز القرآن کہلاتا ہے۔ اور قرآن کے معجزہ ہونے کو کئی اعتبار سے بیان کیا جا سکتا ہے:

  1. بے مثل فصاحت و بلاغت، جس کی نہ کوئی مثال ہے اور نہ ہی کوئی نظیر [= زبانی اعجاز کا نظریہ]۔
  2. موسیقیائی اور صوتیاتی انفرادیت۔
  3. معارف و تعلیمات کے لحاظ سے انفرادیت۔
  4. قرآنی تشریعات اور قانون سازی فطرت اور عقل سلیم کے عین مطابق اور دو جہانوں کی سعادت و خوشبختی کی ضمانت ہیں۔
  5. قرآنی دلائل و براہین قاطع اور فصل الخطاب ہیں۔
  6. قرآن ماضی اور مستقبل دونوں اعتبار سے غیبی خبروں پر مشتمل ہیں۔
  7. اسرار خلقت کے سلسلے میں علمی [سائنسی] اشارات پر مشتمل ہے۔
  8. قرآنی بیان استقامت و استواری کا حامل ہے اور اس میں تضاد اور اختلاف نہيں ہے، حالانکہ قرآن 23 سالہ عرصے میں بہت سارے حوادث و واقعات کے تناظر میں نازل ہوا ہے۔
  9. یہ قول کہ "خداوند متعال نے مخالفین کے دلوں اور ہمتوں کو مثل قرآن لانے سے منصرف کردیا ہے (= نظریہ صرفہ۔

سابقہ انبیاء کے معجزات زيادہ تر حسّی تھے جبکہ قرآن ـ جو اسلام اور رسول اللہ(ص) کا زندہ جاوید اور ابدی معجزہ ـ ایک عقلی، علمی و سائنسی اور ثقافتی و تہذیبی معجزہ ہے۔ ایک مشہور قول کے مطابق ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے اپنے زمانے کی ترقی وپیشرفت سے مطابقت رکھتا تھا، اور چونکہ ہمارے پیغمبر(ص) کے زمان ےمیں قوم عرب کے درمیان شعر و ادب اعلی فن و ہنر سمجھتا جاتا تھا، خداوند متعال نے آپ(ص) کے لئے ایک زبانی و ادبی معجزہ منتخب فرمایا ہے۔[74]

قرآن کا حادث یا قدیم ہونا

مفصل مضمون: قرآن کا حادث یا قدیم ہونا

کلامی ـ عقیدتی مباحث میں ایک بحث ـ جو قرآن مجید کے سلسلے میں انجام پائی ہے ـ یہ ہے کہ کیا قرآن ـ جو اللہ تعالی کا کلام ہے ـ ہمیشہ اور پیوستہ صاحب کلام کے ساتھ ساتھ اور اس کی ذات کی طرح قدیم اور خلق ناپذیر ہے یا اس عالم اور تمام مخلوقات کی طرف حادث اور مخلوق ہے؟ یہ بحث اسلامی کلام کی ابتداء ہی سے وجود میں آئی ہے؛ بلکہ بعض کا خیال ہے کہ علم کلام کی بنیاد ہی کلام الہی کے بارے میں اسی بحث کے آغاز سے وجود میں آیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق "تکلم" اللہ کی صفات میں سے ہے۔[75]۔[76] اشعریوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلامِ نفسی ہے اور اللہ کی ذات پر قائم و استوار ہے اور اللہ کے قِدَم (قدیم ہونے) کی بنا پر قدیم ہے اور اس کی ذاتی صفات [77] میں سے ہے؛ لیکن معتزلہ اور شیعہ کا اعتقاد ہے کہ اللہ کا تکلم یا کلام اس کی صفات فعلیہ [78] اور قرآن اللہ کا لفطی کلام اور حادث ہے۔[79] یہ مسئلہ مسلمانوں کے اصول دین یا فروع دین کا جزء یا دین و مذہب کی ضروریات میں شمار نہیں ہوتا پحر بھی تیسری صدی ہجری میں مسلمانوں کے درمیان اس کو بہت زيادہ اچھالا گیا اور ان کی وسیع عکاسی ہوئی۔ اس مسئلے کا آغاز عباسی بادشاہ ہارون عباسی کے دور سے ہوا تھا اور مامون عباسی، معتصم عباسی، واثق عباسی کے زمانے میں عروج کو پہنچا اور متوکل عباسی کے دور میں زوال پذیر ہوا۔[80]

ظواہر قرآن کی حجیت

مفصل مضمون: ظواہر قرآن کی حجیت

"ظواہر کتاب یا قرآن کی حجیت" ایک موضوع بحث اور ایک اصطلاح ہے جو عام طور پر علم اصول میں زیر بحث آتا ہے؛ اور اس سے مراد یہ ہے کہ کیا قرآن کے مخاطَبین ـ جو کسی حد تک تہذیب و ثقافت رکھتے ہیں اور عربی زبان سے واقف ہیں وہ ـ قرآن کو درست سمجھ سکتے ہیں؟ یا پھر انہیں دوسرے منابع و مآخذ سے رجوع کرنا پڑتا ہے؟ آیت اللہ خوئی اسی سلسلے میں اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت رسول(ص) نے اپنے مقاصد کے افہام و تفہیم کے لئے کوئی خاص طریقہ وضع نہیں کیا تھا بلکہ آپ(ص) بلکہ اپنی قوم سے اسی تکلم اور افہام و تفہیم کی اسی روش سے تکلم فرماتے تھے جس سے افراد قوم واقفیت رکھتے تھے اور آپ(ص) ان کے لئے قرآن لارہے تھے تاکہ وہ اس کے معانی کو سمجھیں اور اس کی آیات میں غور و تدبر کریں اور اس کے اوامر پر عمل کریں اور اس کے نواہی سے باز رہیں۔ اور یہ موضوع قرآن کی متعدد آیات کریمہ میں آشکارا بیان ہوا ہے۔[81]۔[82]۔[83] اور دوسری آیات کریمہ جو قرآن کے مضامین پر عمل کو واجب سمجھتی ہیں اور ان مفاہیم کو اخذ کرنے کو لازمی سمجھتی ہیں جو اس کے ظاہری سے سمجھے جاتے ہیں۔[84]

تفسیر و تأویل

سانچہ:تفسیر

مفصل مضامین : تفسیر، تأویل و راسخون فی العلم]]

تفسیر کے لغوی معنی شرح، بیان، توضیح اور تشریح کے ہیں اور قرآن میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔[85] علوم قرآنی کی اصطلاح میں تفسیر کی مختلف تعاریف پیش کی گئی ہیں:

  1. "علم قرآن"۔[86]
  2. "قرآن سے اللہ کی مراد، کی تفہیم ہے جو انسان استطاعت کے مطابق، لسان عرب کے قواعد اور اسلوب اور کتاب اللہ، رسول اللہ(ص) اور آپ(ص) کے اوصیاء کے آثار مرفوعہ سے مستند ہو اور عقل و کتاب و سنت اور اجماع سے متصادم نہ ہو"۔[87]
  3. "وہ علم ہے جو اپنی دلالت کے لحاظ سے، بنی نوع انسان کی قوت و صلاحیت کے مطابق، کلام اللہ سے اللہ تعالی کی مراد پر بحث کرتا ہے"۔[88]
  4. "وہ علم ہے جو نزول، سند، اداء، الفاظ اور ان کے متعلقہ معانی اور احکام سے متعلق معانی، پر بحث کرتا ہے"۔[89]

سیوطی لکھتے ہیں: مفسر کے لئے لازم ہے کہ 15 علوم اور فنون سے واقفیت کاملہ رکھتا ہو:

  1. لغت
  2. نحو
  3. صرف
  4. اشتقاق
  5. معانی
  6. بیان
  7. بدیع
  8. علم قرائت [اور اختلاف قرائات]
  9. اصول دین [اور وسیع تر سطح پر "علم کلام"]
  10. اصول فقہ
  11. اسباب نزول
  12. ناسخ و منسوخ کی شناخت
  13. فقہ
  14. وہ احادیث جو مجمل و مبہم کو بیان کرتی ہیں۔
  15. علم موہبت؛ اور وہ ایسا علم ہو جو اللہ تعالی ایسے افراد کو ورثے کے طور پر عطا کرتا ہے جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں؛ جو رسول اکرم(ص) کی اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ "جو شخص عمل کرے ان چیزوں پر جنہیں وہ جانتا ہے خداوند متعال اسے ان چیزوں کے علم کا وارث قرار دیتا ہے جنہیں وہ نہیں جانتا [بالفاظ دیگر جو اپنی معلومات پر عمل کرے خداوند متعال اس کو مجہولات کا علم عطا کرتا ہے]۔[90]

سیوطی مفسر کے لئے ان علوم و فنون کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہتے ہیں: جو شخص ان علوم و فنون کے بغیر تفسیر قرآن کے سلسلے میں اقدام کرے اس نے گویا تفسیر بالرأي کا ارتکاب کیا ہے اور تفسیر بالرأي سے باز رکھا گیا ہے۔[91]

تاویل "اول" سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی "رجوع" [پلٹنے] کے ہیں؛[92] یہ لفظ قرآن میں کئی آیات کریمہ کے ضمن میں بروئے کارآیا ہے۔[93] ابتدائی صدیوں میں تاویل اور تفسیر میں کوئی فرق نہ تھا۔ جیساکہ حتی طبری اپنی تفسیر ميں کئی مرتبہ لفظ "تاویل" سے استفادہ کرتے ہیں اور اس سے طبری کی مراد "تفسیر" ہے۔ جیسا کہ آیات متشابہ اور کبھی تعبیر رؤیا (تعبیر خواب)، و احکام ـ جیسا سورہ یوسف میں ہے ـ اور کبھی اعمال کی تاویل میں ـ جیسا کہ حضرت موسی اور رجل صالح (خضر(ع)) کی داستان میں ہے ـ اور اصطلاح میں تاویل سے مراد یہ ہے کہ لفظ کی دلالت کو حقیقی دلالت سے مجازی دلالت میں منتقل کیا جائے، بغیر اس کے، تجوز کے حوالے سے لسان العرب کے کی عادت اور کارکردگی سے عدول کیا جائے؛ اور بہرحال مجازی تعلق کے متعلقہ قواعد کے عین مطابق ہو؛ جیسے کسی شیئے کو اس کے مشابہ کا نام دینا، یا اس کے سبب کا نام دینا یا اس کے لاحق کا نام دینا، یا اس کے مقارن کا نام دینا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تاویل کا مقصد "متشابہات" کی توجیہ کرنا "اور کلام کے ثانوی معنی کشف کرنا، جس کو "بطن" بھی کہا جاتا ہے، اس کے ظاہری معنی کے مقابلے میں جس کو "ظہر" کہتے ہیں"۔[94] علامہ محمد ہادی معرفت تاویل کے دیگر معانی پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تاویل سے مراد ظاہر کلام سے مخفی اور چھپے ہوئے معنی و مفاہیم ہیں جس کے لئے ـ اس لفظ سے باہر سے ـ ایک صریح و آشکار دلالت کی ضرورت ہے۔[95] راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: "لفظ "تفسیر" کا اکثر استعمال "الفاظ" میں اور لفظ "تاویل" کا اکثر استعمال معانی میں ہوتا ہے؛ تفسیر کا تعلق الفاظ کے مفردات سے ہے اور تاویل کا جملوں اور فقروں سے"۔ بعض نے کہا ہے کہ تفسیر کا تعلق عبارت کی حالت و صورت سے ہے اور تاویل کا تعلق اس معانی سے ہے جو اشارات سے حاصل ہوتے ہیں۔[96] محمد حسین ذہبی تفسیر و تاویل کی مختلف تعریفیں پیش کرنے اور ان کے درمیان فرق بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "تفسیر روایت کی طرف پلٹی ہے اور تاویل درایت کی طرف"۔[97] تاویل کی ضرورت کے سلسلے میں قرآن بھی تصدیق کرتا ہے اور ائمہ(ع)، صحابہ اور بعد کے زمانوں کے قرآنی محققین بھی کردار ادا کرتے ہیں لیکن قرآن کی تاویل ہر کسی کا کام نہیں ہے۔[98]

تجوید اور ترتیل

مفصل مضمون: تجوید

مفصل مضمون: ترتیل

سادہ سی تعریف یہ ہے کہ "تجوید" قرآن درست پڑھنے کا علم اور اس کے قواعد کا نام ہے اور "ترتیل" قرآن مجید کو درست اور صحیح پڑھنے کا فن یا ہنر ہے۔ تجوید شرعی اور قرآنی علوم میں سے ہے۔ اس کی تاریخ عصر نبوی جتنی پرانی ہے کیونکہ حضرت رسول اکرم(ص) قرآنی کلمات کی درست قرائت کرنے کا خاص لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی صحیح تلاوت سکھا دیتے تھے۔ جس طرح کہ اسلامی امت قرآن کے معانی کے فہم و ادراک اور ان کی حدود کی رعایت کے پابند تھے، الفاظ کو درست پڑھنے ـ اور اصطلاحاً حروف کو بپا رکھنے کے لئے اسی طرح کوشاں تھے ـ جس طرح کہ وہ ائمۂ قرائت سے سیکھ لیا کرتے تھے۔ اور یہ زبانی اور شفاہی سینہ بہ سینہ سلسلہ تعلیم و تعلم قاریوں اور مقریوں کے توسط سے بالآخر رسول اللہ(ص) کی سنت و قرائت تک پہنچ جایا کرتی تھی جس کی مخالفت اور اس سے روگردانی جائز نہیں ہے اور اسی کی صحیح معنوں میں تقلید اور پیروی جوید کا مقصد اعلی ہے۔[99]

تجوید در اصل علم قرائت کا ایک شعبہ ہے اور قرائت کے ساتھ اس کا فرق یہ ہے کہ علم قرائت الفاظ قرآن کو صحیح ضبط و ثبت کرنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے ہے، جس کا إعراب بھی صحیح ہو اور ثبت و ضبط الفاظ بھی صحیح ہو کہ مثلا "طلح" درست ہے یا "طلع" درست ہے۔ جبکہ تجوید علم قرائت کے بعد اور متن کو ضبط و ثبت کرنے کے بعد میدان میں آنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ اس کا تعلق الفاظ کی صحیح زبانی ادائیگی سے ہے۔ ترتیل قرآن مجید کی صحیح، آہستہ آہستہ اور حسن و خوبصورت سے قرآن مجید کی تلاوت کا نام ہے جس کی قرآن نے ہمیں تلقین بھی کی ہے جیسا کہ سورہ مزمل میں ارشاد فرماتا ہے: "وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً"۔ (ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پوری طرح واضح کرکے [اور خوبصورتی سے] پڑھا کیجئے)۔ قرآن کی اس آیت کریمہ کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین(ع) سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "الترتيل تجويد الحروف ومعرفة الوقوف"۔ (ترجمہ: ترتیل حروف کی صحیح ادائیگی اور قرآن کے وقوف [= جمع وقف] سے صحیح آگہی، کا نام ہے)۔[100] ابن الجزری ترتیل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ترتیل قرآن کو بغیر عجلت کے، پیوستہ اور آہستہ پڑھنا ہے اور قرآن بغیر عجلت کے آہستہ آہستہ نازل ہوا ہے۔ [چنانچہ اس کو آہستہ آہستہ اور بغیر کسی عجلت کے پڑھنا چاہئے]۔[101]

قصص القرآن

قرآن کا ایک ہمہ گیر اور مسلسل دہرایا جانے والا موضوع قرآن میں منقولہ قصے اور کہانیاں ہیں جن کا تعلق انبیاء اور اقوام سے ہے یا دوسرے قصے کہانیاں، جو نکات اور عبرتوں سے بھرپور ہیں۔ قرآنی قصوں کا جائزہ لینا اور ان کی معرفت پانا، علوم قرآنی کا جزء ہے۔ جیسا کہ اسلوب قرآن میں کہا گیا ہے، قرآنی بیان مسلسل، مربوط اور جاری، پیوستہ اور متحد المضمون نہیں ہے بلکہ ایک گلدستے کی مانند ہے جو رنگ برنگے پھولوں سے تشکیل پایا ہے اور مختلف مضامین کا مجموعہ ہے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایک داستان ابتداء سے انتہا تک مسلسل یکجا ذکر ہوئی ہو۔ البتہ استثنائات بھی موجود ہیں اور حضرت یوسف(ع) اور ان کے بھائیوں کی داستان ایک پیوستہ اور ہمہ جہت بیان کی صورت میں پوری سورہ یوسف میں آئی ہے؛ اور حضرت موسی(ع) کا قصہ سورہ طہ میں، داؤود(ع) کی دستان سورہ ص میں، سلیمان(ع) کا قصہ سورہ نمل میں، حضرت نوح(ع) کا فصہ سورہ نوح میں اور حضرت ہود(ع) کا قصہ سورہ ہود میں آیا ہے لیکن سورہ یونس میں حضرت یونس(ع) کا قصہ صرف چند ہی آیات کریمہ میں آيا ہے اور [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیم(ع) کی داستان صرف سورہ ابراہیم میں ہی نہیں آئی بلکہ اس داستان کا بڑا حصہ سورہ بقرہ اور دیگر سورتوں ميں آیا ہے۔ مجموعی طور پر قرآن کی 15 سورتوں میں حضرت ابراہیم(ع) کی طرف اشارے موجود ہیں نیز حضرت موسی(ع) کی داستان 21 سورتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔[102]

قرآن میں انبیاء کے قصوں کے ساتھ ساتھ دوسرے قصے بھی ہیں جن میں اصحاب کہف شامل ہیں اور ان کا ذکر سورہ کہف میں آیا ہے یا قارون کی داستان جو سورہ قصص میں بیان ہوئی ہے۔[102]

قرآن مجید کے قصص کی بعض شخصیات یا أعلام کے نام کچھ یوں ہیں: آدم، آزر، ابلیس، ادریس، ارم ذات العماد، اسحق، اسمعیل، اصحاب الاخدود، اصحاب الرسّ، اصحاب الرقیم (جو اصحاب کہف ہی ہیں)، اصحاب السبت، اصحاب السفینہ، اصحاب کہف، بنی آدم، بنی اسرائیل، تبّع، ثمود، جالوت، جن، حواء (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، حواریون، خضر (رجل صالح)، داؤد، ذوالقرنین، ذوالکفل، روم، زکریا، زلیخا (ان کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، زید بن حارثہ، زینب بنت جحش (جن کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، سامری، سبأ، سحرہ، سلیمان، شعیب، صالح، طالوت، عاد، عزیر، عیسی بن مریم، فرعون، قارون، کنعان بن نوح (جس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے)، لقمان، لوط، حضرت محمد(ص)، مدین، مریم، مؤتفکات (قوم لوط کے شہر)، موسی، نصاریٰ، نمرود، نوح، ہابیل و قابیل، ہاروت و ماروت، ہارون، ہامان، ہود، یأجوج و مأجوج، یحیی، یعقوب، یونس، یہود۔[102]

فقہ یا احکام قرآن

مفصل مضمون: احکام القرآن

مفصل مضمون: آیات الاحکام

فقہ اور اصول کی اصطلاح میں قرآن کو "کتاب" کہا جاتا ہے جو تشریع احکام اور فقہ اسلامی کا اولین اور اصلی ترین ذریعہ اور منشأ و سرچشمہ ہے۔ "قرآن اللہ کے قوانین کا مجموعہ کاملہ اور اخبار (یعنی روایات و احادیث کی صحت و سقم جاننے کے لئے معیار اور پیمانے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن رسول اللہ(ص) پر نازل ہونے سے لے کر آج تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فقہائے اسلام کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور رہے گا اور فقاہت و اجتہاد کی تاریخ خود اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے"۔[103]

مشہور یہی ہے کہ قرآن کی فقہی آیات آیات الاحکام کی تعداد 500 ہے۔[104] تاہم قرآن سے استنباط [استخراج] احکام کے لئے بہت سے معارف پر عبور اور بہت سے ادبی علوم (منجملہ لغت، نحو اور معانی و بیان)، اور قرآنی علوم (منجملہ ناسخ منسوخ اور محکم و متشابہ نیز اسباب نزول کی شناخت)، اور شرعی علوم اور فقہ کے اصول و مبادی پر مکمل احاطہ رکھنا، ضروری ہے؛ تاکہ مثلاً محقق جان لے کہ قرآن میں آیا ہوا ہر امر (حکم) وجوب پر دلالت نہیں کرتا اور ہر وجوب لفظ امر کے واسطے سے بیان نہیں ہوتا۔ اور کبھی حتی نہی، نفی کے سانچے میں آتی ہے اور خبر، انشاء کی جانشین ہوتی ہے۔ عملی طور پر اگر کوئی درجۂ اجتہاد پر فائز نہ ہوا ہو یا کم از کم قریب الاجتہاد نہ ہو، تو قرآن سے اس کا فقہی استنباط علمی استحکام و اعتبار نہیں رکھتا؛ یہی بات ہے کہ ظواہر قرآن کی حجیت کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا؛ اور ظواہر قرآن کی حجیت میں یہ تردد اخباریون کے موقف کی تائید یا تقویت کے مترادف نہیں ہے ـ جو کتاب کو سنت کی شرط پر اور صرف و صرف سنت کے واسطے سے قابل فہم سمجھتے ہیں؛ اور اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ائمۂ اطہار علیہم السلام نے قرآن کو اپنے اقوال کی صداقت کا معیار و میزان سمجھتے ہیں؛ ـ بلکہ ہمارا مقصد و مطلب اصولیون کے موقف کی تائید اور اجتہاد کی ضرورت و اہمیت بیان کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ فقہاء اور قرآنی محققین نے کہا ہے کہ گوکہ قرآن "قطعی الصدور" ہے لیکن "ظنی الدلالہ"[105] تمام اسلامی مذاہب کے فقہاء اور قرآن کے فقہی محققین نے فقہ القرآن اور احکام القرآن کے موضوع پر متعدد کتب تالیف کی ہیں۔[106]

قرآن کا ترجمہ

ترجمۂ قرآن کے جواز کے سلسلے میں اسلامی مذاہب کے علماء اور فقہاء کے درمیان بحث و مباحثہ اور اختلاف رائے صدیوں تک جاری تھا اور چونکہ اہل سنت کے ائمۂ اربعہ کے اکثر فقہاء (سوا ابو حنیفہ کے جنہوں نے ابتداء میں جواز کا فتوی دیا تھا اور بعد میں جواز کو عربی سے ناواقفیت سے مشروط کردیا) نے فتوی دیا ہے کہ سورہ فاتحہ نماز میں عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں پڑھنا، جائز نہیں ہے؛ لہذا بعض نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اصولی طور پر قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ، جائز نہیں ہے۔ اس کے باوجود ترجمۂ قرآن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اور مشہور ہے کہ حضرت سلمان فارسی نے بسملہ کا فارسی میں یوں ترجمہ کیا تھا: "بہ نام یزدان بخشایندہ"۔[107] اس سلسلے میں ایک اہم قول موجود ہے۔ سرخسی اپنے کتاب "المبسوط"[108] میں لکھتے ہیں: "اہلیان فارس نے سلمان فارسی کو خط لکھا کہ فاتحہ کو ان کے لئے فارسی میں تحریر کریں؛ چنانچہ انھوں نے فاتحہ کو فارسی میں لکھا۔ اس کے بعد اہلیان فارس سلمان کے نوشتے کو نماز میں پڑھتے تھے حتی کہ ان کی زبان نرم [ہوکر عربی تلفظ کے لئے آمادہ] ہوئی۔ سلمان فارسی نے اس بات کی خبر رسول اللہ(ص) کو پہنچادی تو آپ(ص) نے کوئی انکار نہيں فرمایا"۔ عبداللطیف طیباوی (1910-1981عیسوی) نے "احکام ترجمة القرآن الکریم و تاریخها" کے عنوان کے تحت ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔[109] طیباوی سرخسی کی روایت پر تاریخی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ایرانی رسول اللہ(ص) کے دور میں مسلمان نہيں ہوئے تھے چنانچہ ان کے لئے اس طرح کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی" اور یوں اس قول کو رد کرتے ہیں۔ محمد حمید اللہ جنہوں نے اسی مجلے میں طیباوی کے مقالے پر کچھ استدراکات[110] تحریر کئے ہیں، طیباوی کی نقد و جرح کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "روایات میں "بلاد فارس" کا ذکر نہيں ہوا بلکہ "قومٌ مِنَ الفُرسِ" (فارسی بولنے والوں کی ایک جماعت) کا ذکر آیا ہے اور صحابہ اور یمن کے باشندوں میں مسلم ایرانیوں کی کافی تعداد تھی۔[111]

ابو حنیفہ پہلے مشہور فقیہ ہیں جنہوں نے نماز میں فارسی قرائت کے جواز کا فتوی دیا ہے اور ان کی رائے کی بنیاد پر ان کے بعض اصحاب نے نماز میں قرآن کے ترکی، ہندی، سریانی اور عبری وغیرہ جیسی زبانوں میں تراجم کے جواز کے فتاوی جاری کئے۔ ابو یوسف اور الشیبانی جو ابو حنیفہ کے معاصرین میں سے تھے، نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے فارسی میں قرائت قرآن کا جواز ایسے افراد سے مشروط کیا جو عربی زبان سے واقف نہیں ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ ابو حنیفہ بعد میں اپنے فتوے سے پلٹ گئے تھے۔[112] قدماء میں سے السیوطی اور معاصرین میں محمد رشید رضا، تفسیر المنار میں[113] اس حکم سے ابو حنیفہ کے پلٹنے کے قائل ہوئے ہیں۔ گویا ابو حنیفہ کے پیروکاروں نے ـ نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں ـ ان کے اس فتوے پر عمل نہيں کیا ہے اور اپنی نمازیں عربی میں پڑھتے رہے ہیں۔ ترجمۂ قرآن کے جواز کے قائلین کی قوی ترین دلیل قرآن مجید کی آیت کریمہ ہے کہ: "لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا[114] اس کے باوجود شافعی نے فتوی دیا ہے کہ "قرائت قرآن عربی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں جائز نہیں ہے، کیونکہ عربی میں نازل ہوا ہے اور اور دوسری زبان میں اور ترجمے میں یہ مزید قرآن نہیں ہوگا؛ اور قرآن کا اعجاز [اور معجزہ ہونا] اس کے عربی میں ہونے پر موقوف ہے اور جب اس کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کی صفت اعجاز ختم ہوکر رہ جاتی ہے؛ تاہم جو عربی کی قرائت [اور عربی کو پڑھنے] سے عاجز ہو، اس کو نماز میں قرآنی سورتوں کے بجائے تسبیح (سبحان اللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) پر اکتفا کرنا چاہئے۔ جاحظ کا کہنا ہے کہ عربی شاعری کا دوسری زبان میں ترجمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ جب عربی حکمت غیر عرب زبان میں منتقل ہوجائے تو اس کا اعجاز اور ہنر برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ قرآن کا ترجمہ عربی اشعار کے ترجمے سے بھی زیادہ دشوار ہے اور اس کا خطرہ عظیم تر ہے۔[115]

شیعہ علماء ـ سوائے نماز کے ـ ہمیشہ قرآن کے دوسری زبانوں میں تراجم اور ان کے جواز حتی ضرورت پر تاکید کرتے آئے ہیں۔[116]

قرآنی علوم

علوم قرآنی ایک اصطلاح ہے جو نسبتاً تازہ اور جدید ہے گوکہ اس کا مصداق قدیم اور اس کی تاریخ، قرآن جتنی پرانی ہے اور علوم قرآنی سے مراد وہ علوم ہیں جن کا محور اور مرکزہ قرآن ہے اور یہ علوم قرآن کے مدار میں ہی پروان چڑھے اور پھلے پھولے ہیں اور ان کا ہدف و مقصد یہ ہے کہ قرآن کی تاریخ، تفسیر، ظاہری صورت، مفاہیم و مضامین اور تفسیر و تاویل کی شناخت ممکن ہوسکے اور شرعی علوم اور دینی تعلیمات و معارف میں قرآن سے بہترین انداز سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ درج ذیل قرآنی علوم کے زمرے میں آتے ہیں:

  1. تاریخ قرآن
  2. علم تفسیر
  3. [[علم قرائت|علم قرأت]، تجوید اور ترتیل
  4. رسم عثمانی کا علم؛ یعنی قرآن کے پرانے اور ثابت رسم الخط کی کیفیت و املا کا علم
  5. اعجاز قرآن کا علم
  6. اسباب نزول کا علم
  7. ناسخ و منسوخ کا علم
  8. محکم و متشابہ کا علم
  9. مکی و مدنی کی شناخت کا علم
  10. علم اعراب
  11. غریب القرآن، مفردات قرآن اور وجوہ و نظائر قرآن کا علم (اصطلاحات و الفاظ کی شناخت)
  12. قصص قرآن کا علم
  13. فقہ قرآن یا احکام القرآن

شاید ترجمۂ قرآن کو علم تفسیر کے ملحقات میں شمار کیا جاسکے۔

علوم قرآنی کا پس منظر بہت قدیم ہے اور بعض قرآنی علوم ـ جو عام طور پر نقلی ہیں اور حدیث پر مبنی ہیں جیسے ناسخ و منسوخ کا علم، اسباب النزول کا علم ـ علم حدیث اور معصومین علیہم السلام سے مروی احادیث جتنے پرانے ہیں؛ تاہم رسم عثمانی کا علم عثمانی جمع و تدوین اور قرآن کے باضآبطہ نسخے (مصحف امام یا مصحف عثمانی کی تیاری) کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور بہت سے مسلم فقہاء نے اس رسم کی تبدیلی کو شرعی لحاظ سے جائز قرار نہيں دیا ہے اور موجودہ زمانے میں عالم اسلام کا باضآبطہ قرآنی نسخہ ـ عصر جدید میں قدیمی منابع و ذرائع کے سہارے چھپ کر شائع ہوا ہے ـ اسی رسم یا عثمانی رسم الخط کی بنیاد پر استوار ہے۔ ظاہر ہے کہ اس رسم الخط اور موجودہ زمانے کے عربی اور فارسی رسم الخط میں کئی حوالوں سے فرق پایا جاتا ہے؛ اور فارسی [اور اردو پڑھنے والوں] کے لئے ـ خواہ وہ پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں ـ یہ رسم الخط پڑھنے میں کافی مشکل ہے کیونکہ عثمانی رسم میں بہت سے الفاظ پر "الف" درج نہيں کیا جاتا مثلاً "سلطان" کو "سلطن" لکھا جاتا ہے (جس کے حرف "ط" پر چھوٹا الف یا کھڑا زبر درج کیا جاتا ہے)، اور "یا نوح" کے بجائے "ینوح" ("ی" پر کھڑے زبر کے ساتھ) لکھا جاتا ہے تاہم وہی لوگ حق بجانب ہیں جو رسم عثمانی کو معیار و پیمانہ سمجھتے ہیں کیونکہ مختلف قسم کے زبانی اور زبان شناسانہ مکاتب کے تفکرات اور سلائق اور ذائقوں کی بنیاد پر املائی اصلاحات یا رسم الخط میں اصلاح و تصحیح کا سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور اصولی طور پر ہم جو بھی کریں اور جو بھی تدبیر کریں صحیح قرآن خوانی کے لئے خاص قسم کی تعلیم کی ضرورت ہے اور صرف قرآن خوانی کے لئے صرف تعلیم یافتہ اور مہذب ہونا کافی نہیں ہے۔[117]

علم قرأت اور قرائتوں کے اختلاف کی شناخت کے علم کا پس منظر صدر اول اور عصر نبوی و عصر صحابہ سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن علم اعجاز قرآن اور اعراب قرآن جیسے علوم کا زمانہ علم قرائت کی نسبت مؤخر ہے۔ زرقانی لکھتے ہیں: علوم القرآن میں سب سے پہلے تالیف ہونے والی کاوش "البرهان فی علوم القرآن ہے جس کے مؤلف کا نام علی بن ابراہیم بن سعید المعروف الحوفی (متوفّی' 330ہجری) ہے۔ یہ کتاب 30 مجلدات پر مشتمل تھی اور اس کا 15 مجلدات پر مشتمل نسخہ مصر کے دارالکتب میں محفوظ ہے۔ قرآنی علوم کے سلسلے میں لکھی گئی کتب ـ جو مذکورہ تمام یا اکثر قرآنی علوم و فنون پر مشتمل ہیں ـ میں سے بعض کچھ یوں ہیں:

جدید دور میں بھی عالم اسلام میں علوم القرآن کے ضمن ميں کئی عمدہ اور قابل توجہ کتب شائع ہوئی ہیں جن میں اہم ترین کاوشیں درج ذیل ہیں:

قرآن کی طباعت

قرآن کی طباعت کی تاریخ یورپ اور دنیا میں طباعت کے رواج کی تاریخ جتنی پرانی ہے [جبکہ عربی زبان میں کسی بھی متن کی طباعت سلطنت عثمانیہ کی حدود میں ممنوع تھا اور اس کے لئے (1483 سے 1729 عیسوی تک) سزائے موت مقرر تھی]۔ قرآن کا عربی متن سب سے پہلے "پاگانینو پاگانینی (Paganino Paganini) آلیساندرو پاگانینی (Alessandro Paganini) نے 1503 سے 1523 عیسوی (اور بقولے 1537 سے 1538 عیسوی) کے اٹلی کے شہر ونیس (Venice) دوران زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔[119] اور اس زمانے میں قرآن کے تمام مطبوعہ نسخے "پوپ جولیوس 2" (Pope Julius II) کے حکم پر جمع کرکے نابود کئے گئے۔ اس کے بعد ابراہام ہنکلمین نے سنہ 1694عیسوی میں جرمن شہر ہیمبرگ سے طباعت قرآن کا اہتمام کیا۔ یورپ میں چھپنے والا معتبر ترین اور صحیح ترین قرآنی نسخہ "گوستاو فلوگل" کا تھا جو انھوں نے سنہ 1834 میں جرمن شہر "لیپزگ" سے شائع کیا۔ اٹلی اور جرمنی کے علاوہ سب سے پہلے قرآن کا متن مسلمانوں کے لئے 1787 میں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ سے شائع ہوا۔[120]۔[121]

ایران میں قرآن کی سب سے پہلی طباعت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ قرآن کریم ایران میں پہلی بار سنہ 1242 ہجری (1827عیسوی) میں شہر تبریز میں زیور طبع سے آراستہ ہوا(اور بقولے ایران میں قرآن کی طباعت 1828عیسوی[122][123] اور بعض محققین نے کہا ہے کہ [ایران میں] قرآن کی پہلی طباعت کا کام 1246 ہجری کو انجام پایا ہے۔[124]

قرآن کریم کی طباعت میں اہم نقطۂ عود (اور نقطۂ عروج) قاہرہ کی علمی اور منقح و مہذب طباعت ہے۔ صبحی صالح لکھتے ہیں: "قاہرہ میں سنہ 1342ہجری/بمطابق1923عیسوی کو الازہر کے مشائخ کے زیر نگرانی اور ملک فؤاد اول کے تعیین کردہ بورڈ کے زیر اہتمام، قرآن مجید کی نہایت حسین و جمیل طباعت و اشاعت انجام پائی۔ یہ مصحف حفص کی روایت اور عاصم کی قرائت کے مطابق تدوین ہوا تھا اور عالم اسلام نے اس کا زبردست خیر مقدم کیا"۔[125] یوں "مصحف قاہرہ" شام کے نامور خُوش نَويس عثمان طٰہٰ کی کتابت کی بنیاد ٹہرا اور شام ميں وسیع سطح پر شائع ہوا؛ اور اس کے بعد پندرہویں صدی ہجری کے آغاز میں "ملک فہد کمپلیکس برائے طباعت مصحف شریف، مدینہ منورہ" [126] نے قرآن شناس علماء کا ایک بورڈ متعین کرکے بہت زیادہ باریک بینیوں کے بعد عثمان طٰہٰ کے کتابت کردہ مصحف کو ـ جو درحقیقت وہی "مصحف قاہرہ ہی ہے ـ بہترین فنی اور جدید ترین وسائل کی مدد سے بہترین روش سے طبع کیا اور طباعت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور ہر سال قرآن کریم کے 20 لاکھ نسخے اس ادارے کے توسط سے طباعت و اشاعت کے مراحل سے گذر کر دنیا بھر کے حجاج کرام اور دینی اداروں میں بانٹ دیئے جاتے ہیں۔ یوں یہ مصحف عثمانی رسم الخط کے مطابق لکھا گیا ہے اور خوش قسمتی سے اس کی قرائت (جو حفص کی قرائت ہے اور اس کے راوی عاصم ہیں) امامیہ کے نزدیک بھی قابل قبول ہے اور شیعہ امامیہ اس سے استناد کرتے چلے آئے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ نسخہ دنیا بھر میں مقبول عام و خاص واقع ہوا ہے اور اس کو عالم اسلام کا رسمی اور تسلیم شدہ نسخہ قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ امر پوری دنیا میں شیعہ سنی اتحاد و ائتلاف]] میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔[127]

قرآن تحقیق و مطالعہ کے مآخذ

الف) لغات قرآن

"لسان العرب" اور اس سے قبل شائع ہونے والے سے لے کر "المعجم الوسیط" اور اس کے بعد شائع ہونے والے لغت ناموں تک، اکثر عربی لغت نامے، سب کے سب قرآن کے مفردات اور ترکیبات کے نمونوں پر مشتمل ہیں۔ ان عمومی مآخذ کے علاوہ، قرآن کے خاص لغتنامے بھی صدر اول ہی سے مدون ہوتے آئے ہیں۔ قدیم ترین قرآنی لغت نامہ "مسائل نافع بن الأزرق" (یعنی ابن عباس سے نافع بن ازرق کے لغوی سوالات) ہے جو پورا کا پورا "عبدالرحمن سیوطی" کی کتاب "ﺍﻹﺗﻘﺎﻥ ﻓﻲ ﻋﻠﻮﻡ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ" میں درج ہوا ہے۔[128] ان لغات کی دوسری روایت وہی ہے جو "معجم غریب القرآن" ہے جو صحیح بخاری سے استخراج ہوکر طبع ہوئی ہے اور تقریبا ان ہی اصطلاحات کو ابن عباس سے "ابن ابی طلحہ" کے توسط سے نقل کرتی ہے۔ قرآن کے دوسرے لغت ناموں میں درج ذیل لغت نامے قابل ذکر ہیں:

"ابوعبید معمر بن مثنیٰ" (متوفٰی سنہ 210ہجری) کی کتاب "مجاز القرآن" (جو درحقیقت لغتنامے سے زیادہ وسیع ہے اور دشوار عبارات و ترکیبات کی وضاحت بھی کرتی ہے)؛ * "ابن قتیبہٰ" (متوفٰی سنہ 276ہجری) کی کتابیں "تاویل مشکل القرآن اور تفسیر غریب القرآن۔ مذکورہ لغت ناموں کے بعد مفرداتِ راغب اصفہانی (متوفٰی سنہ 410ہجری) کی باری آتی ہے جس کا مکمل نام معجم مفردات الفاظ القرآن ہے۔ بعض دوسرے لغت ناموں میں "دامغانی" کی قاموس القرآن، اور "ابو الفضل‌ حبيش‌ ‌بن‌ ابراهيم‌ تفليسي‌" کی کتاب "وجوہ القرآن" ـ جو لسان التنزیل (مجہول المؤلف) اور میر سید علی جرجانی کی کتاب "ترجمان القرآن" کی طرح ـ عربی ـ فارسی لغنتامہ ہے۔ شیعہ مؤلفین میں سے شیخ فخر الدين الطریحی (متوفى 1085ہجری) کی کتاب مجمع البحرین ـ جو قرآن و حدیث کا لغت نامہ ہے ـ نیز ان ہی کی کتاب "تفسیر غریب القرآن معتبر ہیں۔ عصر جدید میں شیعہ مؤلفین کے سید علی اکبر قرشی (ولادت 1928عیسوی) کی سات مجلدات پر مشتمل، قاموس قرآن اور مرحوم علامه میرزا حسن مصطفوی 1426- 1334 ہجری) کی 14 مجلدات پر مشتمل کتاب التحقیق فی کلمات القرآن الکریم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ب) قرآنی موسوعات اور دوائر المعارف

  1. الموسوعۃ القرآنیۃ، تجمیع و تصنیف: ابراہیم الابیاری (11 مجلد، 1405ہجری)؛
  2. دائرة الفرائد در فرہنگ قرآن، سید محمد باقر محقق.

ج) فہارسِ قرآن

قرآنی فہرستیں دو قسموں پر منقسم ہیں: یا وہ لفظی ہیں یا موضوعی۔ لفظی فہرست سے مراد ـ یعنی کلمات قرآنی کی فہرست ـ کو کشاف الآیات (یا کشف الآیات) بھی کہا گیا ہے جن کی تدوین کی تاریخ تین سے چار صدیوں تک پرانی ہے۔ کشف الآیات ـ جس کے ذریعے آیات کو ڈھونڈا جاتا ہے ـ فنی لحاظ سے کشف الکلمات (یا لفظ نما (= Concordance) سے مختلف ہے؛ کیونکہ اول الذکر آیت کا کچھ حصہ ذکر کرکے اس کو ڈھونڈ لیتا ہے، صرف کلیدی الفاظ کو فہرست کی صورت میں مرتب کرتا ہے اور غیر کلیدی الفاظ (جیسے الذی اور الذین تک) کو نظر انداز کرتا ہے جبکہ مؤخر الذکر تمام قرآنی الفاظ (حتی واو تک) پر مشتمل فہرست فراہم کرتا ہے۔ تاہم خواہ ناخواہ ان کے درمیان کچھ اشتراکات اور ساخت کے لحاظ سے بعض شباہتیں موجود ہیں:۔

  • قرآن کریم کے اہم ترین کواشف الکلمات میں سے ایک، جرمن مستشرق اور قرآنی محقق "گوستاو فلوگل" (1802ـ1870 عیسوی) کا کشف الکلمات ہے جس کو انھوں اپنے تصحیح کردہ قرآن کریم کے ہمراہ شائع کیا ہے۔ [ان کے قرآن کو یورپ میں شائع ہونے والے قرآن کا بہترین اور صحیح ترین نسخہ قرار دیا گیا ہے۔
  • جدید دور میں قرآنی مطالعات کے نامور محقق اور فارسی زبان میں بہترین "تاریخ قرآن" کے مؤلف مرحوم ڈاکٹر محمود رامیار (1922-1984) نے "فہرست الفاظ" (یا فہرست کلمات) تدوین کی جو کشف الآیات کی طرف "ابجدی" (اور الفبائی) ہے۔ اس کاوش کی الفبائی ترتیب الفاظ و کلمات کے ظواہر سے مطابقت رکھتی ہے نہ کہ مادۂ الفاظ سے۔ چنانچہ یہ فارسی دانوں [اور حقیقی معنوں میں اردو پڑھنے والوں] کو زیادہ آسان طریقے سے کلمات قرآنی تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ کتاب مصطفی نظیف (قدرغه‌لی) کے کتابت کردہ قرآنی نسخے کے ہمراہ سنہ 1966 (لگ بھگ) شائع ہوئی ہے؛ بعنوان: "قرآن مبین و فہارس القرآن).
  • مشہور ترین اور معروف ترین کشف الآیات محمد فؤاد عبد الباقی (1882-1967عیسوی) کی کتاب المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، ہے جس میں قرآن کے کلیدی الفاظ و کلمات کو بمع "مادہ" (اور جڑ) کے الفبائی ترتیب سے ـ آیات کے کچھ حصے کے ہمراہ ـ مرتب کیا گیا ہے۔ یہ حجم و ضخامت کے لحاظ سے ہلکی اور افادیت کے لحاظ سے بہت گرانقدر کتاب ہے۔ واضح رہے کہ اس کتاب کے مطابق آیات کی تعداد ملک فؤاد کے قرآن (=مصحف قاہرہ) کے عین مطابق ہے اور (چونکہ مصحف مدینہ، درحقیقت مصحف قاہرہ کی نقل ہے لہذا) مصحف مدینہ کے ساتھ بھی مطابقت رکھتی ہے۔
  • اس سلسلے میں تازہ ترین حصول یابی قرآن کریم کا تین مجلدات پر مشتمل شماریاتی لغت نامہ "المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم" جس کے مؤلف "ڈاکٹر سید محمود روحانی" ہیں۔ یہ لغت نامہ ظاہری الفاظ کی بنیاد پر الفبائی ترتیب سے مدون کیا گیا ہے ( اور الفاظ کا مادہ مد نظر نہیں رکھا گیا ہے)۔

قرآن کریم کی بعض موضوع فہرستوں کو "فہرس المطالب"، یا "کشف المطالب" یا "تفصیل الآیات" کے نام سے تدوین کیا گیا ہے۔

د) مطالعہ قرآنی کی کاوشوں کی فہرست اور قرآنی کتابیات

تحقیق کے مفید ترین اور ضروری ترین اوزاروں میں سے ایک کتابیات اور فہرستیں ہیں جن میں قرآنی مطالعات و تحقیقات کے سلسلے میں مکتوبہ و مطبوعہ کاوشوں اور آثار کی فہرستیں ثبت و درج ہوئی ہیں۔ فہرست ابن ندیم، حاجی خلیفہ کی کشف الظنون اور آقا بزرگ طہرانی کی کاوش الذریعہ میں سینکڑوں قرآنی کاوشوں کو فہرست وار ـ مگر غیر منظم انداز سے، متعلقہ عناوین یا موضوعات کے ذیل میں ـ متعارف کرایا گیا ہے؛ جیسا کہ الذریعہ میں لفظ "تفسیر" کے ذیل میں 340 شیعہ تفاسیر کا تعارف کرایا گیا ہے؛ چنانچہ مستقل و منفرد کاوش کی حیثیت سے قرآنی کتابیات شناسی کا کام ـ جس میں صرف قرآنی کاوشوں کا تعارف کرایا گیا ہو ـ نئے زمانے کی تخلیق ہے۔ بعض کتب خانوں اور بعض عام کتابیات کے ضمن میں قرآن مطالعات کے سلسلے میں معرض وجود میں آنے والی بہت سی کاوشوں کو ثبت کیا گیا ہے۔ ان فہرستوں میں اہم ترین اور بامعنی ترین فہارس کتب درج ذیل ہیں:

  1. تاريخ التراث العربي. تالیف: فؤاد سرگین، ج1۔
  2. فارسی کے قلمی نسخوں کی فہرست، بقلم احمد منزوی(تہران، 1348ہجری شمسی) ج1/1ـ1310 میں قرآنی مطالعات کے حوالے سے 1151 تالیفات کا تعارف کرایا گیا ہے۔
  3. "فهرس مخطوطات دارالکتب الظاهریة، وضع و تدوین صلاح محمد الخیمی (دمشق، 1404ـ1405ہجری)، اس کتب ظاہریہ کی طویل فہرست پیش کرنے والی اس تفصیلی فہرست نامے کی تین جلدوں کو قرآنی کتب و تالیفات کے لئے مختص کیا گیا ہے۔
  4. ادبیات فارسی، سی اے اسٹوری (1888-1967) کی تالیف کی بنیاد پر۔ ترجمہ یو اے برگل،۔ ترجمہ یحی آرین پور و دیگر۔ تحریر احمد منزوی (تہران 1362 ہجری شمسی)۔ (واضح رہے کہ یہاں ادبیات سے ادبی فن و ہنر نہیں بلکہ منابع و مآخذ اور متون مراد ہیں)۔
  5. اسلامی جمہوریہ ایران کے کتب خانوں میں موجودہ عربی زبانی کے قلمی نسخوں کی موضوعی فہرست، علوم قرآنی، حصہ اول: قرائت و تجوید۔ تالیف: سید محمد باقر حجتی، (تهران، 1370ہجری شمسی)۔

نیز قرآنی کتابیات یا کتاب شناسی کے سلسلے میں عصر جدید میں بھی بعض کوششیں ہوئی ہیں جن میں اہم ترین درج ذیل ہیں:

  1. "معجم مصنفات القرآن الکریم"، تدوین شواخ اسحق (4 مجلدات، الریاض، 1403ہجری).
  2. "معجم الدراسات القرآنیة"، جو ہر زبان میں لکھی گئی کتب، مقالات و مضامین کے تقریبا 20000 مطبوعہ و غیر مطبوعہ (قلمی) نسخوں پر مشتمل ہے۔ یہ کاوش "عبدالجبار الرفاعی" کی ہے جس کے دو مجلدات ایران کے "قرآن کے ثقافتی اور تعلیمی مرکز" کی جانب سے 1990 کے عشرے کے نصف اول میں زیور طبع سے آراستہ ہوئے ہیں اور باقی مجلدات کی طباعت جاری ہے۔
  3. معجم الدراسات القرآنیة عندالشیعة الامامیة، تالیف: عامر الحلو۔
  4. جامع ترین اور اہم ترین کتابیاتی مجموعوں میں سے ایک "محمد حسن بکائی کا "کتابنامہ بزرگ قرآن کریم" (قرآن کریم کا بڑا کتاب نامہ) ہے۔ جو شائع ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں اردو میں بھی قرآنی کتابیات کے سلسلے میں ایک مجموعہ شائع ہوا ہے [جس کا نام و نشان مضمون ہذا کے فارسی متن میں مذکور نہ تھا]۔

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. مصباح یزدی، قرآن‌شناسی، ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۱۵-۱۲۲.
  2. میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۴۴؛ مصباح یزدی، قرآن‌شناسی، ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۲۳.
  3. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۷.
  4. معرفت، التمIید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۲۷.
  5. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ۱۵۳.
  6. قرآن، سورہ شورا، آیت۵۱.
  7. قرآن، بقره، ۹۷.
  8. میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۷.
  9. یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۴۶؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ص۵۵و۵۶.
  10. قرآن، بقرہ، ۱۸۵؛ قدر، ۱.
  11. اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۱.
  12. مصباح یزدی، قرآن‌شناسی، ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۳۹؛ اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۱.
  13. اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۲.
  14. اسکندرلو، علوم قرآنی، ۱۳۷۹ش، ص۴۲و۴۹.
  15. سورہ فرقان،آیت 1۔
  16. سورہ انبیاء، آیت 50۔
  17. سورہ شعراء، آیت 192۔
  18. سورہ بقره، آیت 2؛ حجر، آیت 1۔
  19. سورہ توبہ، آیت 6؛ سورہ فتح، آیت 15۔
  20. سورہ "ق"، آیت 2؛ سورہ بروج، آیت 21۔
  21. سورہ حجر، آیت 78۔
  22. سورہ یس، آیت 2۔
  23. سورہ واقعہ آیت 77۔
  24. سورہ حجر، آیت 1۔
  25. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص 1631۔
  26. رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۲۱و۲۲۲.
  27. رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۵۷.
  28. معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۸۰و۲۸۱.
  29. رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۶۰.
  30. سیوطی، الإتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۰۲؛ سیوطی، ترجمہ الأتقان، ج۱، ص۲۰۱.
  31. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۷۲-۲۸۲.
  32. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۸۱.
  33. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴.
  34. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴-۳۳۷.
  35. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۸و۳۳۹.
  36. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۶.
  37. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳-۳۴۶.
  38. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱.
  39. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۸۲۱.
  40. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲.
  41. ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۵.
  42. معرفت، التمہید، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۱۰، ۱۲، ۱۶، ۲۵.
  43. ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۵-۱۹۷.
  44. ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۸.
  45. ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۹.
  46. ناصحیان، علوم قرآنی در مکتب اہل بیت، ۱۳۸۹ش، ص۱۹۹، ۲۰۰.
  47. رامیار، تاریخ قرآن،۱۳۶۹ش، ص۶۵۳.
  48. آذرنوش، «ترجمہ قرآن بہ فارسی»، ص۷۹.
  49. رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۶۵۳.
  50. رحمتی، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، ۱۳۸۲ش، ص۸۴.
  51. رحمتی، «ترجمہ قرآن بہ زبان‌ہای دیگر»، ۱۳۸۲ش، ص۸۴.
  52. معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن.
  53. معرفت، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن.
  54. «نظارت بر چاپ و‌ نشر قرآن کريم»، سایت تلاوت.
  55. «تاريخچہ و وظايف و اہداف»، سایت تلاوت.
  56. یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۳۲.
  57. مستفید، «جزء»، ص۲۲۹، ۲۳۰.
  58. جمعی از محققان، «آیہ بسملہ»، ص۱۲۰.
  59. معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۳۰.
  60. مجتہد شبستری، آیت، ۱۳۷۰ش، ص۲۷۶.
  61. مجتہد شبستری، «آیت»، ص۲۷۶.
  62. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۱؛مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۴۳۳.
  63. سوره آل عمران، آیت ۷.
  64. معرفت، التمIید، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹۴.
  65. مستفید، «جزء»، ص۲۲۸، ۲۲۹.
  66. مستفید، «جزء»، ص۲۲۹، ۲۳۰.
  67. خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص۱۶۳۱، ۱۶۳۲.
  68. خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۰.
  69. خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۱.
  70. سورہ اسراء، آیت ۸۸؛ سورہ ہود، آیت ۱۳؛ سورہ یونس، آیت ۳۸.
  71. معموری، تحدی، ۱۳۸۵ش، ص۵۹۹.
  72. سورہ طور، آیت ۳۴.
  73. معرفت، اعجاز القرآن، ۱۳۷۹ش، ج۹، ص۳۶۳.
  74. خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638-1639۔
  75. سورہ نساء، آیت164: "وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسى تَكليماً"۔ ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کلام کرنے کا حق تھا۔۔
  76. "وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاء"۔ ترجمہ: اور کسی آدمی کے لیے یہ بات حاصل نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے مگر بطور وحی یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی پہنچائے۔
  77. جن صفات سے ہم اللہ کو متصف کرتے ہیں اور ان سے مراد ان کی متضاد صفات کی نفی ہوتی ہے وہی ہیں جو ازل سے ہیں اور قدیم ہیں اور انہیں ذاتی صفات کہا جاتا ہے جیسے: حق تعالى "سميع" [سننے والا]، "بصير" [ہر چیز کو دیکھنے والا چاہے اس چیز کا تعلق مستقبل سے ہو]، "حيّ" [زندہ جاوید]، "عليم" [ہرچيز سے آگاہ]، "حكيم" [ہرچیز پر دانا اور حکمت والا]، اور "قيّوم" [یعنی اپنی ذات پر قائم]، "واحد"، [یگانہ و یکتا]، اور "قديم" [بغیر کسی حد اور وقتی مبدء کے یعنی نہ تو وہ کسی چیز سے وجود میں آیا اور نہ ہی اس کے لئے کسی آغاز کا تصور ممکن ہے نیز بعض دوسری صفات] اور یہ سب اس کی ذات کی صفات ہیں۔ (رجوع کریں: اعتقادات شيخ صدوق مترجم: میر محمّد علی حسنی طباطبائی یزدی متوفی' 1240ہجری)۔ صفات ذاتی قدیم و صفات فعلی حادث؟۔
  78. اور ہم نہیں کہتے کہ اللہ ازل میں کام کرنے والا، کچھ کسی سے چاہنے والا اور خواہش کرنے والا اور خوشنود ہونے والا اور غضب کرنے والا اور روزی دینے والا اور بخشنے والا اور "کلام کرنے والا اور بولنے والا" [متکلم] تھا کیونکہ یہ اس کے افعال کی صفات ہیں اور حادث ہیں [یعنی وجود میں آئی ہیں] اور جائز نہیں ہے کہ انسان ازل میں ان صفات سے اللہ کے متصف ہونے کا قائل ہوجائے [کیونکہ اللہ کی مخلوقات میں سے کوئی بھی قدیم اور ازلی نہیں ہے؛ اور اگر انہیں قدیم سمجھا جائے تو یہ صفات جو صرف کسی شئ اور کسی مخلوق کی نسبت سے وجود میں آتی ہیں مہمل ہونگی۔ گوکہ اہل سنت کی اکثریت یعنی اشاعرہ قرآن کریم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں اور ان کا یہ اعتقاد اس توہم پر استوار ہے کہ "تکلم اللہ کی ذاتی اور قدیم صفت ہے اور صفت فعلی نہيں ہے؛ [تکلم اور کلام صرف اس وقت ممکن ہے جب کوئی سننے والا اور وصول کرنے والا موجود ہو]۔ (وہی ماخذ)۔ ذاتی قدیم و صفات فعلی حادث؟۔
  79. سید ابوالقاسم خوئی، البیان، "حدوث القرآن وقِدَمُہُ"، ص432؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن، ج2، ص1639۔
  80. خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1639۔
  81. سورہ محمد(ص) آیت 24: "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا"؛ (ترجمہ: تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر سے کام نہیں لیتے یا کچھ دلوں پر ان کے قفل لگے ہوئے ہیں)۔
  82. سورہ زمر آیت 27: "وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ"۔ (ترجمہ: تو کیا پوچھنا اس کا جو اپنے کو بچائے عذاب کی برائی سے قیامت کے دن، اور کہا جائے گا ظالموں سے کہ چکھو اسے جو تم کرتوت کرتے تھے)۔
  83. سورہ شعراء آیات 192 تا 195: "وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ٭ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ٭ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ٭ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ"۔ ترجمہ: اور بلاشبہ یہ اسی پروردگار عالمیان کی طرف سے اتاری ہوئی چیز ہے ٭ جسے روح الامین نے آپ کے دل پر اتارا ٭ تاکہ آپ عذاب الٰہی سے ڈرانے والوں میں ہوں ٭ کھلی ہوئی عربی زبان میں)۔
  84. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1639۔
  85. فرقان، 32۔
  86. کمالی، سیدعلی، قانون تفسیر، ص27؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1639۔
  87. کمالی، سیدعلی، قانون تفسیر، ص46-47؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640-1639۔
  88. زرقانی، مناهل العرفان، ج471/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  89. زرقانی، مناهل العرفان، ج471/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  90. "مَن عَمِلَ بِما يَعلَمُ وَرَّثَهُ اللَّهُ عِلمَ ما لَم يَعلَم"۔ الکلینی کی "الکافی" پر محمد باقر مجلسی کی توشیح: "مِرآةُ العُقول فی شرحِ أخبار آلِ الرَسول، ج3،ص286"۔
  91. ترجمه اتقان، ج570/2-572؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  92. قاموس۔
  93. سورہ آل عمران آیت 7: "فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ"۔ سورہ نساء آیت 59: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً"۔ اور دیگر آیات۔
  94. التمهید، ج28/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  95. محمد هادی معرفت، التمهيد في علوم القرآن، ج30/3-31؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  96. قانون تفسیر، ص31؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  97. التفسیر و المفسرون، ج22/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  98. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  99. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  100. النشر، ابن الجزری، ج209/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  101. النشر، ابن الجزری، ج207/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1640۔
  102. اس تک اوپر جائیں: 102.0 102.1 102.2 خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔
  103. جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص6؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔
  104. جناتی، محمدابراهیم، منابع اجتهاد از دیدگاه مذاهب اسلامی، ص13، 14؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1641۔
  105. قران قطعی الصدور و ظنی الدلالہ ہے: وضاحت یہ کہ کسی چیز کے بارے میں انسان کی آگہی کی چار حالتیں ہیں: 1۔ یا قطع ہے یعنی 100٪ اطمینان بخش (قطع و یقین)، 2۔ یا ظنّ ہے یعنی اس میں 51٪ سے 99٪ اطمینان کا امکان ہے (احتمال قوی)، 3۔ یا شک ہے یعنی 50٪ تک اطمینان بخش اور 50٪ تک عدم اطمینان (احتمال مساوی)، 4۔ یا وہم ہے یعنی اس میں اطمینان بخشی کی صلاحیت 1٪ سے 49٪ تک ہے۔ (احتمال ضعیف)... قطع حجت اور نافذ العمل ہے، اور ظن کی دو قسموں مں سے ظن معتبر، حجت ہے اور ظن غیر معتبر حجت نہيں ہے؛ شک اور وہم بھی حجت نہیں ہیں۔ چنانچہ جب کہتے ہیں کہ "قرآن قطعی الصدور" ہے یعنی ہمیں 100٪ یقین ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوکر ہم تک آپہنچا ہے؛ اور جب کہتے ہیں کہ "قرآن ظنی الدلالہ" ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے۔ (کیونکہ بہت سے آیات دوسری آیات کی ناسخ ہیں اور بہت سی آیات دوسری آیات کو تخصیص دیتی ہیں اور بہت سی مجمل ہیں...چنانچہ نہیں کہا جاسکتا تمام آیات کی دلالت 100٪ اور قطعی ہے؛ بلکہ بہت سی آیات کی دلالت ظنی ہے یعنی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آیت کے معنی 100٪ یہ یا وہ ہیں کیونکہ نسخ، یا تخصیص یا اجمال کا امکان پایا جاتا ہے)۔ رجوع کریں: پرتال تخصصی فقه و حقوق
  106. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  107. رامیار، تاریخ قرآن، ص653؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  108. سرخسی، المبسوط، ط قاهره، 1324ق، 37/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  109. مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 54، جزء 3، شعبان 1399ق/1979م، ص635-660۔
  110. مجلة مجمع اللغة العربیة بدمشق، المجلد 55، جزء 1، صفرالخیر 1400ق/1980م، ص362-365۔
  111. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  112. ر.ک:المرغینانی، علی، الهدایه فی الفروع، هند، 1302ق، ج86/1؛ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1642۔
  113. ج 313/9، 319-320۔
  114. سورہ بقرہ آیت 286: ترجمہ: اﷲ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔
  115. رجوع کریں: کتاب الحیوان، تحقیق عبدالسلام محمد هارون، قاهره، 1353ق، ج74/1-75؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1643۔
  116. منجملہ دیکھئے: آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی کی رائے: تفسیر البیان، تعلیقة 5؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1643۔
  117. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1643۔
  118. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1643-1644۔
  119. دائرة المعارف فارسی؛ صبحی صالح، کا کہنا ہے کہ پہلی طباعت 1538 عیسوی میں ہوئی ہے۔ بحوالۂ خرمشاهی، بهاء الدین، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1646۔
  120. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  121. طباعت قرآن کی مختصر تاریخ
  122. طباعت قرآن کی مختصر تاریخ۔
  123. تاریخ جمع قرآن کریم، جلالی نایینی، 406؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  124. "قرآنهای چاپی" تالیف کاظم مدیر شانه چی، مشکوة، شماره 2، ص135؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  125. مباحث في علوم القرآن، ص100؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  126. [King Fahd Complex for the Printing of the Holy Quran|مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف بالمدينة المنورة]۔
  127. خرمشاهی، دانشنامه ...، ج2، ص1644۔
  128. متن اصلی، ج2/ 67ـ105۔

مآخذ

مذاہب اسلامی تفاسیر
شیعہ کی نگاہ میں تفسیر مجمع البیان (671 ھ) تفسیر جوامع الجامع (671 ھ) تفسیر تبیان (774 ھ) تفسیر المیزان (1402 ھ)
اہل سنت کی نگاہ میں تفسیر طبری (310 ھ) تفسیر ابن عطیہ (541 ھ) تفسیر قرطبی (671 ھ) تفسیر ابن کثیر (774 ھ) تفسیر جلالین (864ـ911 ھ)
شیعہ تفاسیر تفسیر ابو حمزه ثمالی، ابو حمزہ ثمالی (148 ھ) امام عسکری (ع) سے منسوب تفسیر (260 ھ) تفسیر عیاشی، محمد بن مسعود عیاشی (320 ھ) تفسیر قمی، علی بن ابراہیم قمی (329 ھ) تفسیر تبیان، شیخ طوسی (460 ھ) روض الجنان، ابو الفتوح رازی (535 ھ) مجمع البیان، فضل بن حسن طبرسی (548 ھ) الصافی فی تفسیر کلام اللہ الوافی، فیض کاشانی (1091 ھ) تفسیر نور الثقلین، عبد علی حویزی (1112 ھ) المیزان فی تفسیر القرآن، سید محمد حسین طباطبائی (1402 ھ) الامثل فی تفسیر کلام الله المنزل، ناصر مکارم شیرازی
اہل سنت کی تفسیریں تفسیر ابن عباس (68 ھ) تفسير ابن منذر (318 ھ) تفسير بغوي (510 ھ) تفسير ابن عطيہ (546 ھ) تفسير ابن جوزي (592 ھ) تفسير كبير فخر رازي (606 ھ) تفسير بيضاوي (685 ھ) تفسير ثعالبي (786 ھ) فسير نسفي (1310 ھ) فتح القدير (1250 ھ) تفسير السعدي (1956 ھ) التحرير والتنوير (1879-1972) في ظلال القرآن (1387 ھ) تفهيم القرآن (1903-1979) تدبر القرآن (1904–1997)
صوفیہ کی تفسیریں تفسیر تستری (283 ھ) تفسیر ابن عربی (558،668 ھ) تفسیر لطائف الاشارات (465 ھ)

تفسیر روح البیان (1127 ھ)

معتزلہ کی تفسیریں الکشاف (538 ھ)
علم تفسیر کی اصطلاحات اسباب نزول ناسخ و منسوخ محکم اور متشابہ تحدی اعجاز قرآن