معراج

ویکی شیعہ سے
(معراج پیغمبر اکرم (ص) سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


تابلوی معراج پیامبر محمود فرشچیان یکی از مهمترین و معروف‌ترین نقاشان و نگارگران ایرانی است. ابعاد تابلو ۱۰۱* ۸۱.۵ سانتی متر است و کشیدن آن حدود یک سال و نیم طول کشیده است. این تابلو به موزه آستان قدس رضوی اهدا شده است.
پیغمبر اکرمؐ کی معراج کے حوالے سے ایران کے معروف آرٹسٹ محمود فرشچیان کا ہنری شاہکار۔ اس بورڈ کا طول و عرض 101* 81.5 ہے اور تقریبا ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکمل ہوا جسے بعد میں امام رضاؑ کے حرم کو اہدا کیا گیا ہے۔

معراج رسول خداؐ کے مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف سفر کو کہا جاتا ہے۔ اسلامی مآخذ کے مطابق رسول اللہ ایک رات مسجد الحرام سے مسجد اقصی گئے اور پھر وہاں سے آسمان کی طرف سفر پر گئے اس رات آپ نے بعض ملائکہ کو دیکھا اور ان سے بات کی نیز اہل جنت اور اہل جہنم کو مشاہدہ کیا۔ روایات کے مطابق آپ نے بعض پیغمبروں سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔ خدا اور آپ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو حدیث معراج کہتے ہیں۔

معراج کی داستان اہل سنت اور شیعہ مصادر میں متواتر طور پر نقل ہوئی ہے لیکن اس کی تفصیلات میں زمان، مکان، تعداد اور کیفیت وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ قرآن کی سورہ نجم اور سورہ اسراء میں معراج کا ذکر آیا ہے۔

معراج کے معنی

معراج لغت میں سیڑھی یا ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اوپر جایا جائے۔[1] اصطلاح میں پیغمبر اسلام کے مسجد الاقصی سے آسمان کی طرف جانے کو کہتے ہیں۔ اسلامی مآخذ کے مطابق رسول خدا ایک رات مکہ سے مسجد اقصی گئے اور وہاں سے آسمان کی طرف گئے۔[2]

قرآن و روایات

معراج کا واقعہ شیعہ و سنی احادیث، میں متواتر نقل ہوا ہے۔[3] البتہ اس واقعے کی جزئیات جیسے زمان، مکان، تعداد، کیفیت اور جسمانی یا روحانی‌ تھی وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ قرآن کے سوره اسراء اور نجم اس کا بیان آیا ہے۔[4]

قرآن کریم:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَ‌یٰ بِعَبْدِهِ لَيلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِي بَارَ‌کْنَا حَوْلَهُ لِنُرِ‌يهُ مِنْ آياتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ (ترجمہ: پاک ہے وہ (خدا) جو اپنے بندہ (خاص) کو رات کے ایک حصہ میں مسجد الحرام سے اس مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم انہیں اپنی (قدرت کی) کچھ نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے)

مآخذ، سورہ اسراء، آیت 1

زمان

معراج کا واقعہ کس سال پیش آیا، حضرت ابو طالب کی وفات سے پہلے یا بعد پیش آیا، اختلاف روایات نوجود ہے۔[5] علامہ طباطبائی کے مطابق مسلمانوں کا مشہور نظریہ یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے اور بعثت کے بعد مکہ کے آخری سالوں میں یہ واقعہ پیش آیا۔[6] ملا فتح الله کاشانی اور احمد بن علی طبرسی کے نظریے کے مطابق مشہور ترین نظر بعثت کے 12واں سال یہ واقعہ پیش آیا۔[7]

شب معراج

سوره اسراء کی پہلی آیت کے ان دو الفاظ «لیلاً» و «اَسری» سے پتہ چلتا ہے کہ معراج رات کے وقت ہوئی۔[8] لیکن کونسی رات میں یہ واقعہ رونما ہوا اس حوالے سے روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ روایات میں درج ذیل راتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے:

آنحضرتؐ کا بیت المقدس کی سرزمین اور مسجد الاقصی کی طرف اور وہاں سے آسمان کی طرف کا سفر صرف ایک رات میں ہی انجام پایا ہے۔[13] تفسیر عیاشی کے نقل کے مطابق امام صادقؐ فرماتے ہیں:رسول اللہؐ نے عشاء اور فجر کی نماز مکہ میں پڑھی۔[14]

مکان

معراج کے نکتۂ آغاز اور نکتۂ اختتام میں روایا میں اختلاف موجود ہے۔ ام ہانی، مسجد الحرام اور شعب ابی طالب کے نام مذکور ہیں۔[15] لیکن مشہور یہ ہے کہ رسول خداؐ اس رات ام ہانی بنت ابی طالب کے گھر تھے اور وہیں معراج کو گئے اور وہیں واپس لوٹ آئے۔[16]

لیکن قرآن کریم کا اس سفر کےآغاز کو مسجد الحرام قرار دینے کے بارے میں کچھ یوں تاؤیل کی ہے کہ عرب مکہ کے سارے شہر کو خدا کا حرم کہتے ہیں اس لحاظ سے تمام شہر مسجد اور خدا کے حرم کے حکم میں تھا اور اس اعتبار سے ام‌ ہانی کاگھر بھی حرم میں اندر تھا۔[17]

دفعات

منقول روایات کی بنا پر رسول خدا ایک سے زیادہ مرتبہ معراج پر تشریف لے گئے۔[18] علامہ طباطبائی کے نزدیک ایک دفعہ مسجد الحرام سے اور دوسری مرتبہ ام ہانی کے گھر سے سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں: سورہ نجم کی پہلی آیات تائید کرتی ہیں۔ انکے نزدیک مکان، زمان اور معراج کی جزئیات میں اختلاف کی اس طرح توجیہ کی جا سکتی ہے۔[19]

سفر کی روداد

شب معراج جبرئیل براق نامی سواری کے ہمراہ رسول خدا پر نازل ہوئے۔ آپ اس پر سوار ہو کر بیت المقدس روانہ ہوئے۔ [20]

مسجد اقصی

اس سفر کے دوران آپ مدینہ، مسجد کوفہ، طور سینا اور بیت اللحم (حضرت عیسیؑ کی جائے پیدائش) پر ٹھہرے اور نماز پڑھی۔ پھر آپ مسجد الاقصی میں وارد ہوئے اور وہاں نماز پڑھی۔[21]

ظاہرا پیغمبر قبۃ الصخره سے آسمانوں کی طرف چلے گئے۔ اس نام گذاری کی وجہ اس جگہ چٹان کا ہونا ہے کہ جہاں سے رسول اللہ نے آسمانوں کے سفر کا آغاز کیا۔[22]

دنیا کا آسمان

تفسیر میزان کے مطابق پیغمبر اکرمؐ مسجد الاقصی سے پہلے آسمان پر پہنچے تو وہاں آدمؑ سے ملاقات ہوئی۔ فرشتوں نے گروہوں کی صورت میں رسول اللہ کا خندۂ پیشانی سے استقبال کیا۔ یہاں آپ نے ملک الموت کا بھی دیدار کیا اور ان سے گفتگو کی۔[23]

دوسرے سے چھٹے آسمان تک

دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت یحیی و حضرت عیسی سے ملاقات ہوئی۔ پھر تیسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت یوسفؑ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس، پانچویں پر حضرت ہارون، چھٹے پر حضرت موسی سے ملاقات ہوئی۔[24]

ساتواں آسمان

پیغمبر اکرمؐ ساتویں آسمان پر ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں جبرئیل پہنچنے سے عاجز تھے۔ انہوں نے رسول سے کہا: میں اس جگہ جانے کا اختیار نہیں رکھتا ہوں اگر ذرا برابر بھی نزدیک ہوا تو میرے پر جل جائیں گے۔[25] اس مقام پر خدا اور رسول خدا کے درمیان ہونے والی گفتگو حدیث معراج کے نام سے جانی جاتی ہے ۔

حدیث معراج

حدیث معراج، ایک حدیث قدسی ہے جو اللہ تعالی اور پیغمبر اکرمؐ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو بیان کرتی ہے۔ اس حدیث میں رضا، توكّل، دنیا کی پستی، روزه، خاموشی، غریبوں سے محبت، اہل آخرت اور اہل دنيا کی خصوصیات جیسے اخلاقی موضوعات و مسائل کے متعلق بیان ہے۔[26]

واپسی

رسول خدا واپسی پر بھی بیت المقدس میں تشریف لائے اور مکہ روانہ ہوئے جہاں آپ طلوع فجر سے پہلے ام ہانی کے گھر پہنچے۔[27] آپ نے پہلی مرتبہ اسے اپنا راز بتایا اور اسی رات قریش کی عمومی محفلوں میں راز فاش ہو گیا۔[28]

قریش کا عکس العمل

قریش کی نگاہ میں معراج ایک ناممکن کام تھا۔ انہوں نے رسول اللہؐ کو جھٹلایا اور کہا:مکہ میں بعض ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بیت المقدس دیکھا ہوا ہے، آپ وہاں کی عمارتوں کے بارے میں بتادیں، رسول خدا نے بیت المقدس کی عمارتوں کی خصوصیات بیان کی۔ پھر آپ سےاپنی بات کی تصدیق کے لئے قریش کے کاروان کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ان کو میں نے تنعیم میں دیکھا تھا ایک خاکی رنگ کا اونٹ آگے آگے چل رہا تھا جس پر کجاوہ رکھا ہوا تھا۔ آپؐ نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت کاروان مکہ میں داخل ہو چکا ہے۔ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ کاروان نظر آیا اور ابوسفیان اور دیگر مسافروں نے آپ کی باتوں کی تصدیق کی۔[29]

رسوال اللہ کے معراج کی کیفیت

اکثر مفسرین[30] اس بات کے معتقد ہیں کہ رسول اللہؐ اپنے بدن کے ساتھ مکہ سے بیت المقدس چلے گئے اور وہاں سے بھی جسم اور روح کے ساتھ آسمانوں کی طرف گئے؛[31] لیکن خوارج اور جہمیہکہتے ہیں: رسول اللہ کا معراج جسمانی نہیں تھا بلکہ روحانی تھا۔[32]علامہ طباطبائی کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک روح اور بدن کے ساتھ سیر کیا ہے اور مسجد الاقصی سے آسمانوں کی طرف کا معراج روحانی تھالیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ معراج، عام انسان کے خواب و خیال کی طرح ہو بلکہ رسول اللہ کا معراج اگر صرف روحانی تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ غیر مادی عوالم کی طرف ضرور گئے ہیں اور وہاں حاضر ہوئے ہیں اور اس عالَم کے موجودات سے رابطہ قائم کیا ہے۔ البتہ ایسا بھی نہیں ہے کہ غیر مادی موجود صرف اللہ کی ذات میں منحصر ہو نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر غیر مادی چیز صرف عالَم تخیل اور تمثیل میں ہی ہو اور غیر محسوس ہو۔[33]

معراج پر رسول اللہ کے مشاہدات

معراج سے مربوط روایات میں ان چیزوں کے بارے میں بیان ہوا ہے جو رسول اللہ نے وہاں پر اہل بہشت، اہل جہنم اور ملائکہ کو دیکھا تھا۔ روایات کے مطابق آپ نے بعض بزرگ انبیاء جیسے: حضرت آدم، ابراہیمؑ، موسیؑ اور عیسیؑ کو بھی وہاں دیکھا۔[34] اس حوالے سے یہ نکتہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ کا معراج پر جن چیزوں کو دیکھا ہے جیسے: آیات الہی، فرشتے، انبیاء کی ارواح، اشیاء کی حقائق اور اس جیسی بعض دیگر چیزوں کا تذکرہ اور توصیف و تشریح اس طرح سے ممکن نہیں جیسے آپؐ نے وہاں پر مشاہدہ کیا ہے بلکہ ان کو تشبیہ اور تمثیل کی زبان میں بیان کرتے ہیں کیونکہ جس طرح سے دیکھا ہے اس طرح سے بیان ناممکن ہے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس طرح کا بیان رسول اللہؐ کے مشاہدات کا غیر واقعی ہونے پر دلالت نہیں کرتا ہے۔[35]

قریش کا رد عمل

قریش کی نگاہ میں معراج کا واقعہ ایک محال امر تھا۔ انہوں نے رسول اللہ کی تکذیب کی اور انہیں جھٹلاتے ہوئے کہا:

" مکہ میں ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے بیت المقدس کو دیکھا ہے۔ رسول سے تقاضا کیا کہ وہ انکے سامنے وہاں کی عمارت کی کیفیت اور نقشہ بیان کریں۔ پیغمبر نے بیت المقدس کی خصوصیات بیان کیں۔ پھر آپ سے تقاضا کیا کہ وہ قریش کے کاروان کی خبر دیں تا کہ انکی بات کی تصدیق ہو سکے۔ آپ نے فرمایا میں نے انہیں تنعیم کے مقام پر دیکھا تھا اور خاکی رنگ کے اونٹ انکے آگے چل رہے تھے اور ان پر کچاوے بھی موجود تھے۔ اسی طرح آپ نے خبر دی کہ اس وقت وہ کاروان مکّہ میں داخل ہو چکا ہے۔ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ کاروان مکہ میں داخل ہوا گیا۔ ابو سفیان اور مسافروں نے رسول خدا کی تصدیق کر دی۔"[36]
کتاب خمسہ نظامی میں معراج کی نقاشی، یہ کتاب سولہویں صدی میں چھپ کر منظر عام پر آگئی

(خبرگزاری میراث فرہنگی،ہنر نیوز)</ref>

معراج کے بارے میں اختلافِ روایات

رسول خدا کی معراج کا واقعہ روایات میں مختلف طریقے سے نقل ہوا ہے۔ معراج سے مربوط روایات میں اختلاف کا سبب کذّاب افراد کی جانب سے جعل کو سمجھا جاتا ہے۔[37] معراج سے متعلق بعض روایات ایسے مطالب پر مشتمل ہیں کہ جنہیں قبول نہیں کرتی ہے بعض ان میں سے سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں.[38]

معراج کے بارے میں کچھ جعلی روایات کے نمونے

  • ابن حامد بغدادی ابن عباس کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے معراج میں خدا کو ایک ایسے نورانی جوان کی صورت میں دیکھا کہ جسکے چہرے پر کوئی بال نہیں تھے۔ یہ روایت صفات خدا کے متعلق قرآن و احادیث کی مجموعے کے خلاف ہے نیز یہ روایت داخلی طور پر تعارض کا شکار ہے کیونکہ اس میں آیا ہے کہ خدا رسول اللہ سے چاہتا ہے کہ اسکی صفات کسی سے بیان نہ کریں لیکن اسی روایت میں پیغمبر خدا کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔[39]
  • حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ شب معراج رسول خدا اسکے پاس تھے اور رسول اللہ نے صرف روحانی معراج کی ہے۔ مؤرخان اور قرآنی محققین اس روایت کے جعلی ہونے کا سبب یہ بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ کی ازدواج رسول خدا سے ہجرت کے بعد ہوئی ہے معراج زمانے میں وہ رسول خدا کی زوجیت میں نہیں تھیں۔ مزید یہ کہ سورہ اسراء کی پہلی آیت کے مطابق پیغمبر نے مکہ میں مسجدالحرام سے ابتدا کی۔[40]
  • نقل ہوا ہے کہ نبی اکرم نے معراج میں عرش کے ستونوں پر یہ جملے:لا الَه الاَّ اللّهُ و محمّدٌ رسولُ اللّه اور ابوبکر، عمر اور عثمان کے نام لکھے ہوئے دیکھے۔[41] سیوطی اور ذہبی اس حدیث کے راویوں کو کذاب کہتے ہیں اور اس حدیث کو جعلی اور موضوع کہتے ہیں۔
  • بخاری اور مسلم أنَس سے روایت نقل کرتے ہیں: رسول کی معراج کا واقعہ بعثت سے پہلے اور سونے کی حالت میں پیش آیا۔ کہتے ہیں یہ روایت معراج کی اکثر روایات کے مخالف ہے اور مسلمان دانشمندوں کے بعثت کے بعد کے عقیدے کے مخالف ہے۔[42]

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۲۲
  2. علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷، ج۱۳، ص۸تا۳۴؛ قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳تا۱۲.
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۰۹.
  4. قرآن، اسراء، آیت۱ و نجم، آیات۸تا۱۸.
  5. علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۳۰و۳۱؛: نک: سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۷۲..
  6. علامہ طباطبائی،المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۳۰،۲۳.
  7. کاشانی، منهج‌ الصادقین، ۱۳۳۶ش، ج۵، ص۲۳۶.
  8. سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۷۰.
  9. ابن سعد، الطبقات‌الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۰۰.
  10. کاشانی، منہج‌ الصالحین، ۱۳۳۶ش، ج۵، ص۲۳۶.
  11. ابن سعد، الطبقات‌ الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۹۹-۲۰۰.
  12. کاشانی، منہج‌ الصادقین، ۱۳۳۶ش، ج۵، ص۲۳۶
  13. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۱۲؛مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۴ق، ج۱۸، ص۲۸۹.
  14. عیاشی، التفسیر، ۱۴۲۱ق، ج۳، ص۳۴.
  15. ملاحظہ کریں:ابن سعد، الطبقات‌الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۰۰؛ خوارزمی، مناقب، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۷۷
  16. یعقوبی،ج۲، ص۲۶؛ سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۶۷؛ علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۲۷-۲۸؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۳۹۶؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۳۱۲؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۱۸، ص۲۸۳.
  17. کاشانی، منہج‌ الصالحین ، ۱۳۳۶ش، ج۵، ص۲۳۵؛ بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۱۸، ص۲۸۳، بحوالۂ :سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۷۰.
  18. علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۲۷و۲۸؛ سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۷۲.
  19. علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۲۷-۲۸، ۳۲.
  20. قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۵؛ ابن سعد، الطبقات‌ الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۹۹و۲۰۰؛ عیاشی، التفسیر، ۱۴۲۱ق، ج۳، ص۳۱.
  21. سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۶۷؛ علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۸.
  22. قبۃ الصخرة
  23. علامه طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۹و۱۰.
  24. علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۱۲-۱۳.
  25. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۱۸، ص۳۹۲؛ علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۱۸.
  26. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹-۲۰۶.
  27. مسعودی، اثبات الوصیہ، ۱۴۰۴ق، ص۲۱۷.
  28. سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۶۸.
  29. سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۶۹؛ علامه طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۱۷؛ قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۳.
  30. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۸۰ش، ج۱۲، ص۱۱.
  31. ملاحظہ کریں: کاشانی، منهج‌الصادقین، ۱۳۳۶ش، ج۵، ص۲۴۰؛ آلوسی، روح‌المعانی، ۱۴۲۱ق، ج۱۵، ص۱۲۱۱؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۲۶۴.
  32. علامه طباطبایی،المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۳۲؛ خوارزمی، مناقب، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۷۷.
  33. طباطبایی، المیزان،۱۳۹۲ق. ج۱۳، ص۴۲-۴۳
  34. علامه‌طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۹.
  35. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۲ق. ج۱۳، ص۳۳
  36. سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۳۶۹؛ علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۱۷؛ قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۳.
  37. عزیزی کیا، تأملّی در روایات معراج، ش۹۶، ص۵۳.
  38. عزیزی کیا، تأملّی در روایات معراج، ش۹۶، ص۵۳.
  39. عزیزی کیا، تأملّی در روایات معراج، ش۹۶، ص۵۳.
  40. عزیزی کیا، تأملّی در روایات معراج، ش۹۶، ص۵۴.
  41. عزیزی کیا، تأملّی در روایات معراج، ش۹۶، ص۵۴.
  42. عزیزی کیا، تأملّی در روایات معراج، ش۹۶، ص۵۶.

مآخذ

  • ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع الہاشمی البصری، الطبقات الکبری‏، تحقیق: محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۰قھ/۱۹۹۰ء.
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ناشر: دار صادر، بیروت، چ: سوم، ۱۴۱۴ھ.
  • ابن ہشام، السیرة النبویہ، مترجم: سید ہاشم رسولی‏، تہران، کتابچی، چاپ پنجم، ۱۳۷۵ہجری شمسی.
  • خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۱ھ.
  • دیلمی، حسن بن محمد،ارشاد القلوب، قم،الشريف الرضی، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ.
  • سبحانی‏، جعفر، فروغ ابدیت ، قم، بوستان کتاب‏، چاپ بیست یکم، ‏۱۳۸۵ہجری شمسی.
  • طباطبائی سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ہجری شمسی.
  • عیاشی، ابی النضر محمد بن مسعود، التفسیر، تحقیق: قسم الدراسات الاسلامیہ، قم موسسہ البعثہ، ۱۴۲۱ھ.
  • عزیزی‌ کیا، غلام علی، «تأملّی در روایات معراج»، معرفت، ۱۳۸۴، ش۹۶.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، قم، دار الکتاب، قم، چاپ چہارم، ۱۳۶۷ہجری شمسی.
  • کاشانی، ملا فتح الله، تفسیر منہج الصادقین فی الزام المخالفین، تہران، کتابفروشی محمدحسن علمی، ۱۳۳۶ہجری شمسی.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، ۱۴۰۴ھ.
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی‌ طالب علیہ السلام، قم، منشورات الرضی، ۱۴۰۴ھ.
  • یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.