توحید عبادی

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


توحید عبادی یا عبادت میں توحید یکتا پرستی کو کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور فقط خدا ہی عبادت اور پرستش کے لائق ہے۔ توحید عبادی توحیدی مکاتب کے بینادی تعلیمات اور تمام انبیاء کی دعوت کا اصلی مقصد ہے جسے تمام مسلمان متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں۔ متکلمین اور مفسرین کے مطابق قرآن کی متعدد آیات توحید عبادی پر دلالت کرتی ہیں۔ کلمہ لا الہ الا اللہ کو بھی توحید عبادی کا مظہر قرار دیا جاتا ہے۔

توحید عبادی کے اثبات کے لئے مختلف دلائل پیش کی گئی ہیں جن میں سے بعض دلائل میں خالقیت و عبودیت، ربوبیت و عبودیت اور موت و حیات کی مالکیت اور عبودیت کے درمیان تلازم کو مد نظر رکھتے ہوئے توحید عبادی پر استدلال کیا گیا ہے۔ ان دلائل کے مطابق فقط وہی ذات عبادت کے سزاوار ہیں جو مخلوقات کا خالق، ربّ اور ان کی موت و حیات کا مالک ہے۔

تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ غیر خدا کی پرستش اور عبادت شرک اور اسلام سے خارج ہونے کا سبب ہے۔ وہابی توسل،‌ تبرک، زیارت قبور، شفاعت اور غیر خدا سے مدد طلب کرنے کو عبادت کا مصداق قرار دیتے ہوئے ان کے قائلین کو مشرک سمجھتے ہیں؛‌ لیکن ان پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس قسم کے اعمال صرف اس وقت شرک کے زمرے میں آتے ہیں جب انہیں غیر خدا کی الوہیت اور ربوبیت کے اعتقاد کے ساتھ انجام دیں؛ ورنہ یہ چیزیں شرک اور توحید عبادی کے منافی نہیں ہیں۔

اہمیت

توحید عبادی اور یکتا پرستی کو آسمانی ادیان کے بنیادی تعلیمات اور تمام انبیاء کی دعوت کا اصلی ہدف اور مقصد شمار کیا جاتا ہے جس کی طرف سورہ نحل کی آیت 36 اور سورہ انبیاء کی آیت 25 میں تصریح کی گئی ہے۔[1] متکلمین کہتے ہیں کہ مسلمان اور دیگر آسمانی ادیان کے پیروکار عبادت اور بندگی کو خدا صرف اور صرف کی ذات تک محدود ہونے پر متفق ہیں[2] اور اگر ان کے درمیان کوئی اختلاف ہے تو عبادت کی تفسیر اور اس کے مصادیق کے بارے میں ہے۔[3]

کہا جاتا ہے کہ قرآن کی آیات اور تاریخی قرائن و شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کے مسئلے میں سب سے زیادہ جس چیز میں انحراف وجود میں آیا ہے وہ توحید عبادی اور توحید ربوبی ہے۔[4] علامہ مجلسی کے مطابق مشرکین قریش خالقیت اور ربوبیت میں توحید کے قائل تھے اور ان کا بینادی اختلاف توحید عبادی میں تھا۔[5] بعض کے مطابق وہابیوں کا دوسرے مسلمانوں (شیعہ و اہل‌ سنت) کے مقابلے میں متفاوت موقف اختیار کرنے کی اصل علت توحید عبادی ہے۔[6]

کہا جاتا ہے کہ قرآن کی متعدد آیات توحید عبادی پر دلالت کرتی ہیں؛ منجملہ ان میں سورہ آل عمران کی آیت 51 اور 64، سورہ انعام کی آیت 102، سورہ نحل کی آیت 36، سورہ انبیاء کی آیت 25 اور سورہ یس کی آیت 61 ہیں۔[7] کلمہ لا الہ الا اللہ کو بھی توحید عبادی کا مظہر قرار دیا جاتا ہے۔[8] قرآنی آیات میں قیامت کے دن حَبط اعمال، گمراہی، شقاوت، نابودی اور خدا کے عذاب میں مبتلاء ہونا غیر خدا کی عبادت اور پرستش کے آثار میں شمار کئے گئے ہیں۔[9] حضرت موسی کے دس احکام میں سے دو احکام میں بھی غیر خدا کی عبادت اور پرستش سے ممانعت اور توحید عبادی پر تاکید کی گئی ہے۔[10]

شیعہ متکلم علی ربانی گلپایگانی کے مطابق توحید عبادی کے مسئلے کا واضح اور آشکار ہونا اور مسلمانوں کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہ ہونے کی بنا پر قدیم زمانے میں اس مسئلے کے بارے میں کلامی مآخذ میں اس مسئلے کے بارے میں بحث ہی نہیں کی جاتی تھی بلکہ اکثر اوقات اخلاقی کتابوں میں اس بارے میں بحث کی جاتی تھی؛ لیکن ابن‌ تیمیہ اور توحید اور عبادت میں شرک سے متعلق اس کے جدید اعتقادات کے ظہور ہونے کے بعد کلامی مآخذ میں بھی اس مسئلے کی ضرورت اور اہمیت اور بڑھ گئی۔[11]

مفہوم‌ شناسی

توحید عبادی کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی سوا کوئی معبود نہیں ہے اور صرف خدا ہی عبادت اور پرستش کے لائق اور سزاوار ہیں۔[12] آیت اللہ مصباح یزدی کے مطابق توحید عبادی انسان کے اعمال سے مربوط ہے یعنی انسان عملا خدا کے سوا کسی کی عبادت اور بندگی نہ کرے؛ لیکن اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، الوہیت اور معبودیت میں توحید کے زمرے میں آتا ہے۔[13] ان کے مطابق کلمہ لا الہ الا اللہ الوہیت میں توحید کا اقرار ہے۔[14] ان تمام باتوں کے باوجود بعض شیعہ علماء[15] اور ابن‌ تیمیہ[16] و وہابیت[17] توحید عبادی اور توحید الوہیت کو ایک سمجھتے ہیں؛ لیکن شیعہ مفسر اور متکلم آیت اللہ جعفر سبحانی توحید عبادی اور توحید الوہیت کو ایک قرار دینے کو غلط قرار دیتے ہیں۔[18]

دلائل

توحید عبادی کو ثابت کرنے کے لئے پیش کی گئی دلائل [19] میں سے بعض درج ذیل ہیں:‌

  1. خالقیت اور عبودیت میں تلازم: معبود اور عبادت کے لائق صرف وہی ذات ہے جو خالق ہو۔ خدا کے سوا کوئی خالق نہیں ہے۔ پس خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ سورہ ہود کی آیت 61 اور سورہ انعام کی پہلی اور آیت 102 خالقیت اور عبودیت میں تلازم پر دلالت کرتی ہیں۔[20]
  2. ربوبیت اور عبودیت میں تلازم: معبود صرف وہی ہو سکتا ہے جو ربّ اور پروردگار ہو۔ خدا کے سوا کوئی ربّ اور پروردگار نہیں ہے۔ پس خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‌[21] سورہ بقرہ کی آیت 21، سورہ انعام کی آیت 76 سے 79 تک منجملہ ان آیات میں سے ہیں جو ربوبیت اور عبودیت میں تلازم پر دلالت کرتی ہیں۔[22]
  3. موت و حیات کی مالیکیت اور عبودیت میں تلازم: معبود وہ ہے جس کے قبضے میں مخلوقات کی موت و حیات ہو۔ موت و حیات پر خدا کے سوا کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ پس خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔[23]سورہ یونس کی آیت 104، سورہ ہود کی آیت 123 اور سورہ قصص کی آیت 88 ان آیات میں سے جو مذکورہ نظریے پر دلالت کرتی ہیں۔[24]

سورہ حمد کی پانچویں آیت (إِیَّاکَ نَعْبُدُ) میں فعل نَعْبُدُ کا مفعول(إِیَّاکَ) اس کے فاعل (نعبد میں ضمیر) پر مقدم ہونے سے بھی عبودیت اور بندگی کا خدا کے ساتھ مختص ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ یہ آیت بھی توحید عبادی پر دلالت کرتی ہے۔[25] علامہ طباطبائی کے مطابق سورہ یوسف کی آیت 39 اور 40 بھی توحید عبادی پر در عبادت کرتی ہے۔ خدا نے مذکورہ آیات میں سے آیت 40 میں "اَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاہُ" کے ذریعے خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔[26]

عبادت میں شرک

آیت‌ اللہ جعفر سبحانی کے مطابق تمام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ غیر خدا کی عبادت شرک اور اسلام کے دائرے سے خارج ہونے کا سبب ہے۔[27] شہید مطہری کے مطابق غیر خدا کی عبادت عقل اور شرع دونوں اعتبار سے جائز نہیں ہے اور دین اسلام سے خارج ہونے کا سبب ہے۔[28]

وہابی توسل،[29] تبرک،[30] زیارت قبور[31] اور شفاعت[32] وغیرہ کو غیر خدا کی عبادت شمار کرتے ہوئے شرک قرار دیتے ہیں۔[33] اس بنا پر ان کے نزدیک ایسے مسلمان جو پیغمبر اکرمؐ، اہل‌ بیتؑ، انبیاء اور اولیاء خدا کے ساتھ توسل کرنے اور ان کے نام پر تبرک اور نیاز دینے والوں کو مشرک سمجھتے ہیں۔[34] وہابیوں اس نظریے کو یوں رد کیا جاتا ہے کہ اولیاء خدا سے توسل اور تبرک نیز ان سے شفاعت کی درخواست کرنا اسوقت شرک ہوگا جب ان کی الوہیت اور ربوبیت پر اعتقاد رکھتے ہوئے یہ امور انجام دئے جائیں؛ لیکن اگر یہ مذکورہ اعتقاد کے بغیر ہو اور خدا کے ان نیک ہستیوں کو خدا کے خاص مورد عنایت بندے ہونے کی بنا پر ہو تو یہ چیزیں شرک نہیں ہیں اگرچہ ان امور کو تعظیم اور خضوع خشوع کے ساتھ انجام کیوں نہ دیں۔[35]

مونو گرافی

  • «توحید عبادی از دیدگاہ شیعہ و وہابیت» (توحید عبادی شیعہ اور وہابیوں کی نظر میں)، تحریر مہدی نکویی سامانی: توحید عبادی کی اہمیت اور وہابیوں کی طرف سے اس کی غلط تفسیر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کتاب میں شیعہ اور وہابیت دونوں نقطہ نگاہ سے اس موضوع کو مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں توحید اور شرک کے مفاہیم اور ایمان اور اسلام کے معیار کو بیان کیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں توحید اور شرک کے حوالے سے شیعہ اور وہابیوں کے اعتقادات کو مطرح کر کے وہابیوں کے نظریے پر تنقید کی گئی ہے۔[36]

حوالہ جات

  1. سبحانی،‌ منشور جاوید، 1383ہجری شمسی، ج1، ص428 و 429؛ سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج2، ص85؛ عابدی، توحید و شرک، نشر مشعر، ص84 و 85۔
  2. سبحانی،‌ منشور جاوید، 1383ہجری شمسی، ج1، ص429؛ سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج2، ص85؛ ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی (1)، 1399ہجری شمسی، ص100۔
  3. سبحانی،‌ منشور جاوید، 1383ہجری شمسی، ج1، ص429۔
  4. ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی (1)، 1399ہجری شمسی، ص99 و 100۔
  5. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج3، 209۔
  6. عابدی، توحید و شرک، نشر مشعر،‌ ص83۔
  7. سبحانی،‌ منشور جاوید، 1383ہجری شمسی، ج1، ص425-426؛ عابدی، توحید و شرک، نشر مشعر، ص85۔
  8. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج2، ص106؛ عابدی، توحید و شرک، نشر مشعر،‌ ص86۔
  9. ملاحظہ کریں: ہاشمی رفسنجانی و محققان مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن، 1387ہجری شمسی، ج19، ص537-540۔
  10. ملاحظہ کریں: عہد عتیق، سفر خروج، باب20، آیہ 1 - 17۔
  11. ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی (1)، 1399ہجری شمسی، ص100۔
  12. جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص516؛ سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج2، ص85۔
  13. مصباح یزدی، خداشناسی، 1393ہجری شمسی، ص59۔
  14. مصباح یزدی، خداشناسی، 1393ہجری شمسی، ص59۔
  15. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: عابدی، توحید و شرک، نشر مشعر، ص88و89۔
  16. ابن‌تیمیہ، منہاج السنۃ، 1406ھ، ج3، ص289 و 290۔
  17. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431ھ، ج2، ص425؛ سبحانی،‌ التوحید و الشرک فی القرآن الکریم، 1426ھ، ص29۔
  18. سبحانی،‌ التوحید و الشرک فی القرآن الکریم، 1426ھ، ص29و30۔
  19. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص519-527۔
  20. جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص519-520۔
  21. سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج2، ص86؛ جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص521 و 522۔
  22. جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص522-524۔
  23. جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص525۔
  24. جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص526۔
  25. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج1، ص43۔
  26. طباطبایی،‌ المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج11، ص178۔
  27. سبحانی،‌ منشور جاوید، 1383ہجری شمسی، ج1، ص272۔
  28. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج2، ص104، 124و129۔
  29. ملاحظہ کریں: قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431‍ھ، ج2،‌ ص441-443۔
  30. آل الشیخ، فتح المجید، 1377ھ، ص133۔
  31. ابن تیمیہ،‌ زيارۃ القبور والاستنجاد بالمقبور،‌ نشر دار طیبہ، ص54؛ آل الشیخ، فتح المجید، 1377ھ، ص229-232؛ قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ، 1431‍ھ، ج2،‌ ص478-480۔
  32. آل الشیخ، فتح المجید، 1377ھ، ص205 و 206۔
  33. ملاحظہ کریں: مغنیہ، ہذہ ہی الوہابیۃ، منظمۃ الاعلام الاسلامی، ص74-76؛ عابدی، توحید و شرک، نشر مشعر، ص160-180۔
  34. ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی (1)، 1399ہجری شمسی، ص112۔
  35. سبحانی، الالہیات، 1413ھ، ج2، ص101 و 102۔
  36. نکویی سامانی، توحید عبادی از دیدگاہ شیعہ و وہابیت، 1395ہجری شمسی، ص5-14۔

مآخذ

  • ‌ آل الشیخ، عبدالرحمن بن حسن، فتح المجید شرح کتاب التوحید، تحقیق محمد حامد الفقی، قاہرہ، مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ، چاپ ہفتم، 1377ق-1957م۔
  • ابن‌تیمیہ حرانی، احمد بن عبدالحلیم، زيارۃ القبور و الاستنجاد بالمقبور،‌ ریاض، نشر دار طیبہ، بی‌تا۔
  • ‌ ابن‌تیمیہ حرانی، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، چاپ اول، 1406ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ،‌ توحید در قرآن؛ تفسیر موضوعی قرآن کریم، قم، نشر اسراء، چاپ ہشتم، 1395ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی (1)؛ توحید، صفات و عدل الہی، قم، جامعہ المصطفی(ص)، چاپ پنجم، 1399ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • سبحانی،‌ جعفر، التوحید و الشرک فی القرآن الکریم، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1426ھ/1384ہجری شمسی۔
  • سبحانی،‌ جعفر، منشور جاوید،‌ قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • عابدی، احمد، توحید و شرک در نگاہ شیعہ و وہابیت(بررسی و نقد افترائات دکتر قفاری بر مذہب شیعہ)،‌ تہران، نشر مشعر، بی‌تا۔
  • قفاری، ناصر بن عبداللہ بن علی، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ الاثنی عشریۃ؛ عرض و نقد، الجیزۃ، دارالرضا، چاپ چہارم، 1431‍ھ-2010ء۔
  • ‌ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، تہران، نشر سازمان تبلیغات اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، خداشناسی، قم، موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1393ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، ہذہ ہی الوہابیۃ، تہران، منظمۃ الاعلام الاسلامی، بی‌تا۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • نکویی سامانی، مہدی، توحید عبادی از دیدگاہ شیعہ و وہابیت، تہران، نشر مشعر، 1395ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر و محققان مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن (کلید راہیابی بہ موضوعات و مفاہیم قرآن کریم)، قم، بوستان کتاب، 1387ہجری شمسی۔