حضرت ابراہیم

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
(حضرت ابراہیمؑ سے رجوع مکرر)
حضرت ابراہیمؑ
حضرت ابراہیم آتش نمرود میں، استاد فرشچیان کا فنی شاہکار
حضرت ابراہیم آتش نمرود میں، استاد فرشچیان کا فنی شاہکار
قرآنی نام:ابراہیم
کتاب کا نام:صحف
مشہوراقارب:اسماعیلاسحاقہاجرسارہآذرتارخ
معجزات:چار پرندوں کا واقعہ
ہم عصر پیغمبر:حضرت لوط
دین:حنیف
مخالفین:نمرود
اہم واقعات:حضرت اسماعیل کی قربانی
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی


حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابراہیم خلیل کے نام سے مشہور ہیں اللہ کے دوسرے اولوالعزم پیغمبر ہیں۔ حضرت ابراہیم بین النہرین میں پیغمبری پر مبعوث ہوئے اور اپنے زمانے کے حکمراں نمرود اور وہاں کے باسیوں کو توحید کی طرف دعوت دی۔ ان کی دعوت پر بہت کم لوگوں نے ایمان لے آیا اور جب حضرت ابراہیم ان کی طرف سے مایوس ہو گئے تو آپ نے فلسطین کی طرف مہاجرت کی۔

قرآن کی آیات کی رو سے ان کی بت پرست قوم نے حضرت ابراہیم کو ان کے بتوں کو توڑنے کے جرم میں آگ میں پھینکا لیکن خدا کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہو گئی اور حضرت ابراہیم اس سے بحفاظت باہر آگئے۔

حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق آپ کے دو بیٹے اور جانشین ہیں۔ قوم بنی‌ اسرائیل جس سے خدا کے بہت سارے انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، اسی طرح حضرت عیسی کی والدہ ماجدہ حضرت مریم کا نسب حضرت اسحاق کے ذریعے حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے۔ پیغمبر اسلام کا نسب بھی حضرت اسماعیل کے ذریعے حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے۔

قرآن میں خانہ کعبہ کی تعمیر اور لوگوں کو حج کی طرف دعوت دینے کو حضرت ابراہیم کی طرف نسبت دیتے ہوئے انہیں خلیل اللہ یعنی اللہ کا دوست قرار دیا ہے۔ قرآن کے مطابق خدا نے حضرت ابراہم کو مختلف امتحانات میں جملہ اپنے بیٹے کی قربآنی دینے میں مبتلاء کرنے کے بعد آپ کو نبوت کے علاوہ امامت کے مقام پر بھی فائز فرمایا۔

سوانح حیات

ولادت اور وفات

اکثر محققین‌ بیسویں صدی قبل از مسیح کو حضرت ابراہیم‌ کی تاریخ ولادت قرار دیتے ہیں اور ان میں سے بعض نے آپ کی تاریخ پیدائش کو سنہ 1996 قبل از مسیح قرار دیا ہے۔[1] اسلامی متون میں کئی شہروں کو آپ کی جای پیدائش قرار دئے گئے ہیں۔ تاریخ طبری کے مطابق بعض نے عراق کے شہر بابل کے نواحی مقام کوثا کو آپ کی جای پیدائش قرار دیا ہیں جہاں اس وقت نمرود حکومت کیا کرتا تھا جبکہ بعض دیگر مورخین نے الورکاء (اوروک‌) یا حرّان‌ کو آپ کی جائی ولادت قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض میں آپ کے والد ماجد نے آپ کو شہر بابل لے آیا تھا۔[2] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں "کوثا" کو حضرت ابراہیم کی جائی ولادت اور نمرود کا محل سکونت قرار دی گئی ہے۔[3] چھٹی صدی ہجری کے نامور سیاح ابن‌ بطوطہ‌ نے عراق کے شہر حلہ‌ اور بغداد کے درمیان "بُرص‌" نامی جگہ کو آپ کی جای ولادت کے طور پر نام لیا ہے۔[4]

حضرت ابراہیم 179 یا 200 سال کی عمر میں فلسطین کے شہر حبرون جسے آجکل الخلیل کہا جاتا ہے میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔[5]

فلسطین کے شہر الخلیل میں حضرت ابراہیم کا مزار

والد ماجد

حضرت ابراہیم کے والد ماجد کے نام کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف‌ پایا جاتا ہے۔ عہد عتیق‌ میں ان کا نام "ترح‌" آیا ہے[6] اسلامی تاریخیِ متون میں تارُخ[7] یا تارَح[8] ذکر ہوا ہے۔ قرآن میں آیا ہے: "وَ إِذْ قالَ إِبْراہيمُ لِأَبِيه آزَرَ (ترجمہ: جب ابراہیم نے اپنے والد آزر سے کہا)[؟؟][9] اس آیت سے استناد کرتے ہوئے بعض اہل سنت مفسرین نے آزر کو حضرت ابراہیم کا والد قرار دیا ہے؛[10] لیکن شیعہ مفسرین شیعہ اس آیت میں "اَب" کو والد کے معنی میں نہیں لیتے۔[11] ان کے مطابق عربی میں لفظ "اَب" والد کے علاوہ چچا، دادا اور سرپرست کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔[12]

بعض تاریخی منابع کے مطابق جی سال حضرت ابراہیم پیدا ہوئے، نمرود کے حکم سے پیدا ہونے والے ہر یچے کو قتل کر دیا جاتا تھا؛ کیونکہ اس وقت کے نجومیوں نے یہ پیشگن گوئی کی تھی کہ اس سال ایک بچہ پیدا ہو گا جو نمرود کے دین کا مخالف ہوگا اور ان کے بتوں کو توڑ ڈالے گا۔ اس وجہ سے حضرت ابراہیم کی ماں نمرودیوں سے کے خوف سے حضرت ابراہیم کو اپنے گھر کے نزدیک ایک غار میں رکھا اور پندرہ مہینے کے بعد رات کو حضرت ابراہیم کو اس غار سے باہر لے آئی۔[13]

شادی اور اولاد

حضرت ابراہیم کی زوجہ سارہ تھیں اور تورات کے مطابق حضرت ابراہیم نے اور کلدانیان میں ان سے شادی کی۔[14] تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنی سوتیلی بہن سے شادی کی تھی؛[15] لیکن شیعہ احادیث کے مطابق سارہ حضرت ابراہیم کی چچازاد اور حضرت لوط کی بہن تھی۔[16] ان احادیث میں سے ایک حدیث کے مطابق حضرت ابراہیم نے کوثا میں سارا سے شادی کی، سارہ ایک مالدار خاتون تھی اور حضرت ابراہیم کی زوجیت میں آنے کے بعد اپنی تمام دولت حضرت ابراہیم کے اختیار میں دے دیا اور حضرت ابراہیم نے اس میں مزید نفع پہنچایا یہاں تک کہ اس علاقے میں ان سے زیادہ کوئی مالدار شخص نہیں ہوا کرتا تھا۔[17]

حضرت ابراہیم کو سارہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی؛ اس بنا پر سارہ نے اپنی کنیز ہاجر کو حضرت ابراہیم کے لئے بخش دی جس سے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔[18] اس کے کچھ عرصہ بعد ابراہیم کو سارہ سے بھی اولاد ہوئی جس کا نام حضرت اسحاق رکھا گیا۔ حضرت اسحاق کی ولادت حضرت اسماعیل سے 5 یا 13 سال بعد ہوئی۔[19] بعض مورخین کے مطابق حضرت اسحاق کی ولادت کے وقت حضرت ابراہیم کی عمر 100 سال سے بھی اوپر تھی اور سارہ بھی 90 سال کی تھی۔[20] ایک دوسری تاریخ کے مطابق حضرت اسحاق حضرت اسماعیل سے 30 سال چھوٹے تھے اور اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر 120 سال تھی۔[21]

کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے سارہ کی وفات کے بعد دو اور عورتوں سے بھی شادی کی جس میں سے ایک سے آپ کے 4 بیٹے جبکہ دوسری بیوی سے 7 بیٹے ہوئے یوں مجموعی طور پر حضرت ابراہیم کے 13 بیٹے تھے۔[22]

قرآن کی روشنی میں

قرآن میں 69 مرتبہ حضرت ابراہیم کا نام ذکر آیا ہے۔[23] اسی طرح ایک سورہ بھی ابراہیم کے نام سے موسوم ہے کیونکہ اس میں حضرت ابراہیم کا تذکرہ آیا ہے۔[24] قرآن میں حضرت ابراہیم کے بارے میں آپ کی نبوت و امامت توحید کی طرف آپ کی دعوت، بیٹے کی قربانی، چار پرندوں کے زندہ ہونا اور آگ کے سرد ہونے کے معجزے کے بارے میں بحث ہوا ہے۔

نبوت، امامت اور مقام خلت

قرآن کی متعدد آیات میں حضرت ابراہیم کی نبوت اور توحید کی طرف آپ کی دعوت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[25] اسی طرح سورہ احقاف کی آیت نمبر 35 میں حضرت ابراہیم کو اولوالعزم انیباء میں سے قرار دیا ہے گیا ہے [25] اور احادیث کی رو سے حضرت ابراہیم اولوالعزم انبیاء میں حضرت نوح کے بعد دوسرا اولوالعزم نبی ہیں۔[26] سورہ بقرہ کی آیت نمبر 124 کے مطابق خدا نے حضرت ابراہیم کو کئی امتحانات کے ذریعے آزمانے کے بعد مقام امامت پر فائز فرمایا۔ علامہ طباطبایی کے مطابق آیت میں مقام امامت سے مراد باطنی ہدایت ہے؛ ایک ایسا مقام جس تک پہنچنے کے لئے وجودی کمال اور خاص معنوی مقام کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت زیادہ محنت اور ریاضت کے بعد نصیب ہوتی ہے۔[27]

قرآن کی آیات کے مطابق خدا نے حضرت ابراہیم کو خلیل اللہ کا مقام بھی عنایت فرمایا ہے۔[28] اسی بنا پر آپ خلیل اللہ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ علل الشرایع میں موجود بعض احادیث کے مطابق سجدہ کی کثرت، دوسروں کی حاجتوں کو رد نہ کرنا، خدا کے علاوہ کسی سے کوئی درخواست نہ کرنا، لوگوں کو کھانا کھلانا اور رات کے وقت عبادت و بندگی کی وجہ سے آپ کو خلیل اللہ کا مقام ملا تھا۔[29]

ابو الانبیاء

قرآن کی آیات کی مطابق حضرت ابراہیم اپنے بعد آنے والے چند انبیاء کے جد امجد ہیں۔[30] آپ کے بیٹے حضرت اسحاق بنی‌ اسرائیل کے جد ہیں ان کی نسل سے کئی انبیاء مبعوث ہوئے من جملہ ان میں حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داوود، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت موسی، حضرت ہارون اور دیگر بنی اسرائیل کے انبیاء شامل ہیں۔[31]

اسی طرح حضرت عیسی کا نسب بھی ان کی والدہ حضرت مریم کے ذریعے حضرت یعقوب فرزند حضرت اسحاق تک پہنچتی ہے۔[32] اسلامی احادیث کے مطابق حضرت محمدؐ کا نسب آپ کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل تک پہنچتا ہے۔[33] اسی مناسبت سے آپ ابوالانبیاء کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔[34]

معجزات

قرآن کی آیات کے مطابق آگ کا سرد ہونا اور چار پرندوں کا زندہ ہونا حضرت ابراہیم کے معجزات میں سے ہیں:

  • آگ کا سرد ہونا: سورہ انبیاء کی آیت نمبر 57 سے 70 تک کے مطابق جب حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ ان کی قوم بتوں کی پوجا کرنے کو نہیں چھوڑ رہے، آپ نے ایک دین موقع پا کر تمام بتوں کو توڑ دیا اور اس کام کو بڑے بت کی طرف نسبت دیتے ہوئے کہا اگر یہ بول سکے تو اس سے پوچھ لو۔ بت‌ پرست آپ کی بات کا جواب نہ دی سکے لیکن وہ اپنے اعتقادات سے پیچھے نہ ہٹے اور حضرت ابراہیم کو ان کے بتوں کے توڑنے کے جرم میں آگ میں پھینک دیا لیکن خدا کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہو گئی اور حضرت ابراہیم صحیح و سالم اس سے باہر آگئے۔[35]
  • چار پرندوں کا زندہ ہونا: سورہ بقرہ کی آیت نمبر 260 کے مطابق حضرت ابراہیم نے خدا سے مردوں کے زندہ ہونے کی کیفیت سے متعلق سوال کیا جس کے جواب میں خدا نے انہیں چار پرندوں کو ذبح کرنے اور ان کے گوشت کو مخلوط کر کے مختلف پہاڑوں پر رکھنے کا حکم دیا۔ حضرت ابراہیم نے ایسا ہی کیا اس کے بعد خدا کے حکم کے مطابق انہوں نے ان پرندوں کو آواز دی تو سارے پرندے زندہ ہو کر ان کے سامنے آگئے۔

ہجرت

سورہ انبیاء کی آیت نمبر 71 میں حضرت ابراہیم کے بارے میں آیا ہے ہے: وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ  (ترجمہ: اور ہم نے انہیں اور لوط کو نجات دی اور اس سر زمین (شام) کی طرف لے گئے جسے ہم نے دنیا جہان والوں کیلئے بابرکت بنایا ہے۔)[؟؟][36] بعض تفسیروں میں اس آیت میں مورد اشارہ سرزمین کو شام[37] فلسطین یا بیت المقدس[38] قرار دئے ہیں۔ امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں بھی بیت المقدس کو حضرت ابراہیم کی ہجرت کا مقام قرار دیا ہے۔[39]

خانہ کعبہ کی تعمیر

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 127 میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کی مدد سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی[40] اور خدا کے حکم سے لوگوں کو مناسک حج کی طرف دعوت دی۔[41] بعض احادیث کے مطابق خانہ کعبہ کی بنیاأ پہلی بار حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی۔[42]

بیٹے کی قربانی

خدا کی طرف سے حضرت ابراہیم کو جن امتحانات میں مبتلاء کیا گیا ان میں سے ایک انہیں ان کے بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا حکم تھا۔ قرآنی آیات کے مطابق حضرت ابراہیم نے خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھا۔ حضرت ابراہیم نے یہ بات اپنے بیٹے سے کہی اس پر حضرت اسماعیل نے کہا کہ وہ خدا کے حکم کی تعمیل کریں لیکن جب حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو قربانگاہ میں ذبح کرنے کے لئے لٹایا تو غیب سے ندا آئی: "اے ابراہيم تم نے اپنا خواب سچا کر کے دکھایا۔ بتحقیق ہم نيكوكاروں کو اس طرح جزا دیتے ہیں [ان کے پاک و خالص نيّت کو عمل کے طور پر قبول کرتے ہیں]۔ یقینا یہ ایک واضح امتحان تھا اور ہم تمہارے بیٹے کی قربانی کو ایک عظیم قربانی میں تبدیل کرتے ہیں۔"[43]

قرآن میں حضرت ابراہیم کے اس بیٹے کا نام نہیں لیا ہے جسے انہوں نے قربانی کے لئے لے گئے تھے۔ اسی بنا پر اس سلسلے میں شیعوں کے درمیان بھی اور اہل سنت کے درمیان بھی اختلاف‌ نظر پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو قربانی کے لئے لے کر گئے تھے جبکہ بعض کے مطابق وہ حضرت اسحاق کو لے کر گئے تھے۔[44] شیخ طوسی معتقد ہیں کہ شیعہ احادیث سے جو بات واضح ہو جاتی ہے اس کے مطابق حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کو قربانی کے لئے لے کر گئے تھے۔[45] ملاصالح مازندرانی نے شرح فروع کافی میں اس نظریے کو شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ قرار دیا ہے۔[46]

عہدین میں حضرت ابراہیم کا تذکرہ

عہد عتیق‌ کی ابتداء میں حضرت ابراہیم کو "اَبرام" کے نام سے پکارا ہے؛[47] لیکن باب نمبر 17 میں آیا ہے: "اب تمہارے سے میرا عہد یہ ہے کہ آپ بہت ساری امتوں کے باپ ہونگے اور اس کے بعد تمہیں "ابرام" کی بجائے "ابراہیم" کے نام سے پکارا جائے گا؛ کیونکہ ہم نے آپ کو بہت ساری امتوں کے والد قرار دئے ہیں"۔ [48]

عہد عتیق کے مطابق حضرت ابراہیم‌ کا نسبت قبائل‌ آرام تک پہنچتا ہے جو جزیرۃ العرب سے شام کے شمالی حصے میں فرات‌ کے کنارے ہجرت کر کے آئے تھے۔[49] باب نمبر 11 سِفْر پیدایش کے مطابق تارح حضرت ابراہیم کے والد ماجد تھے، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم کے علاوہ سارہ اور حضرت لوط بھی اور کلدانیان سے کنعان کی طرف ہجرت کی اور جب حرّان نامی مقام پر پہنچے تو وہیں پر رک گئے اور وہیں پر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔[50] بعض مورخین نے یہاں سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت ابراہیم کی جای پیدائش اور کلدانیان تھا؛ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود باب نمبر 12 میں حران کو حضرت ابراہیم کا آبائی گاؤں قرار دیا گیا ہے۔[51]

توریت کے مطابق حضرت ابراہیم 75 سال کی عمر تک حرّان میں مقیم تھے اور 75 سال کی عمر میں خدا کے حکم سے کنعان چلے گئے اور اس سفر میں ان کے ساتھ آپ کی زوجہ سارہ آپ کے چچا زاد بھائی حضرت لوط اور حرّان کے بعض باشندے بھی ساتھ تھے اور وہاں پہنچ کر انہوں نے بیت‏ئیل کے مشرقی حصے میں خیمہ نصب کیا اور ذبح کے لئے ایک جگہ تیار کیا۔[52] اس کے بعد قحطی کے سبب ناچار مصر کوچ کر گئے،[53] لیکن کچھ عرصہ بعد مصر سے دوبارہ بیتئیل واپس آگئے[54] جس کے بعد حبرون (الخلیل) کی طرف نقل مکانی کر گئے اور وہیں پر ہی ساکن ہو گئے۔[55]

توریت میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے مصر میں داخل ہوتے وقت اپنی زوجہ سارہ کو اپنی بہن کے طور پر معرفی کیا تاکہ اپنے آپ کو مصریوں کی جانب سے آپ کی زوجہ کو تنگ کرنے کے سلسلے میں محفوظ رکھ سکے؛ نتیجہ میں مصر کا فرعونِ جو سارہ کی خوبصورتی میں محو ہو چکا تھا نے سارہ کو اپنی زوجیت میں لے لیا یوں سارہ کی وجہ سے وہ حضرت ابراہیم کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آتا تھا۔ لیکن خدا نے اس کام کی وجہ سے فرعون اور اس کے اہل خانہ کو ایک عظیم بلا میں مبتلاء کر دیا۔[56]

علامہ طباطبائی توریت میں حضرت ابراہیم کی داستان کے ایک حصے کو آپ کے مقام نبوت اور روح تقوا کے ساتھ سازگار نہ ہونے اور توریت میں حضرت ابراہیم کی داستان میں موجود دوسرے تعارضات کی بنا پر قبول نہیں کرتے اور اسے تورتت میں تحریف پر دلیل قرار دیتے ہیں۔[57]

عہد عتیق میں حضرت اسحاق کو حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے قرار دیتے ہیں۔[58] اور بعض مقامات پر صرف ذبیح الله کو حضرت ابراہیم کی واحد اولاد قرار دیتے ہیں۔[59] اسی طرح توریت میں آیا ہے کہ خدا نے کنعان میں حضرت ابراہیم کے سا­تھ عہد و پیمان باندھا کہ نیل سے فرات کے علاقے کو ان کے فرزند اسحاق کی نسل کے عطا کر کرے گا۔[60]

عہد جديد میں بھی 72 مرتبہ حضرت ابراہيم‌ کا نام آیا ہے اور حضرت عيسی کے نسب کو حضرت اسحاق کے ذریعے 39 واسطوں (متى‌، 1: 1-7) يا 54 واسطوں (لوقا، 3: 24-25) سے حضرت ابراہیم تک متصل کرتے ہیں۔ عہد جديد میں ايمان‌ ابراہيم‌ کو عالى‌ ترين‌ ايمان‌ قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ اجنبی ہونے کے باوجود خدا کے حکم سے فلسطين‌ میں قیام کیا اور اپنے بیٹے کو قربانگاہ‌ تک لے گئے۔[61]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سجادی، «ابراہیم خلیل(ع)»، ص۴۹۹
  2. طبری‌، تاریخ الامم والملوک، ۱۹۶۷م، ج۱، ص۲۳۳
  3. قطب راوندی، قصص الانبیاء، آستان قدس رضوی، ج‏۱، ص۲۹۸
  4. ابن بطوطہ، ص‌ ۱۰۱۔
  5. طبري‌، تاريخ الأمم والملوك، ۱۹۶۷م، ج۱، ص۳۱۲؛ ابن كثير، البدايۃ و النہايۃ، ج۱، ص۱۷۴۔
  6. پیدایش، ۱۱: ۲۴، متن‌ عبری‌؛ قس‌: ترجمہ فارسی‌ میں تارح‌ آیا ہے
  7. طبری‌، تاریخ الامم والملوک، ۱۹۶۷م، ج۱، ص۲۳۳
  8. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۶م، ج۱، ص۱۴۲؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج۱، ص۲
  9. سورہ انعام ، آیہ ۷۴
  10. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۱۳، ص۳۱۔
  11. ابوالفتوح رازى، روض الجنان و روح الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۷، ص۳۴۰و۳۴۱؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۵، ص۳۰۳۔
  12. برای نمونہ نگاہ کنید بہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۱۶۵۔
  13. طبری‌، تاریخ الامم والملوک، ۱۹۶۷م، ج۱، ص۲۳۴
  14. پیدایش، ۱۱: ۲۹
  15. پیدایش، ۲۰: ۱۲
  16. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۲۲۹؛ عیاشی، تفسير عیاشی،۱۳۸۰ق، ج‏۲، ص۲۵۴۔
  17. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۲۲۹
  18. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۰۱۔
  19. مسعودی، إثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۴۱-۴۲
  20. مسعودی، إثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۴۶۔
  21. ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۱
  22. ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۱
  23. فیروزمہر، «مقایسہ قصہ ابراہیم علیہ السلام در قرآن و تورات‌»، ص۸۸
  24. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۴۰۔
  25. 25.0 25.1 سورہ مریم، آیہ۴۱تا۴۸ - سورہ انبیاء، آیہ ۵۱تا۵۷ - سورہ شعراء، آیہ ۶۹تا۸۲ - سورہ صافات، آیہ ۸۳تا۱۰۰ - سورہ زخرف، آیہ ۲۶و۲۷ - سورہ ممتحنہ، آیہ۴ - سورہ عنکبوت، آیہ ۱۶تا۲۵۔
  26. طباطبائی، المیزان، ج۱۸، ص۲۱۸
  27. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۲۷۲۔
  28. سورہ نساء، آيہ۱۲۵۔
  29. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۳۴و۳۵۔
  30. سورہ عنکبوت، آیہ۲۷۔
  31. سورہ انعام، آیہ ۸۴۔
  32. مغنيہ، تفسير الكاشف‏، ۱۴۲۴ق‏، ج۱، ص۲۰۸
  33. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج۱، ص۲؛ ابن‌ عبدربہ‌، العقد الفرید، ۱۴۰۲ق‌، ج۵، ص۸۹
  34. سید قطب، فى ظلال القرآن، ۱۴۲۵ق، ج‏۵، ص۲۹۹۷
  35. سورہ انبیاء، آیہ۵۷ تا ۷۰
  36. سورہ انبیاء، آیہ۷۱
  37. محلى و سیوطی، تفسير الجلالين‏، ۱۴۱۶ق، ص۴۰۲؛ ابوالفتوح رازى، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۵، ص۲۰۰
  38. كاشانى، تفسير منہج الصادقين، ۱۳۳۶ش‏، ج۶، ص۸۔
  39. قطب راوندی، قصص الانبیاء، آستان قدس رضوی، ج‏۱، ص۲۹۸
  40. سورہ بقرہ، آیہ ۱۲۷
  41. سورہ حج، آیہ ۲۷
  42. فيض كاشانى، تفسير الصافى‏،۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۸۹و۱۹۰‏
  43. سورہ صافات، آیہ۱۰۱ تا ۱۰۸
  44. رجوع کریں: قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۶، ص۱۰۰؛ البرہان فى تفسير القرآن، ج‏۴، ص۶۱۶ تا ۶۲۲۔
  45. طوسى، التبيان في تفسير القرآن، دار إحياء التراث العربی، ج۸، ص۵۱۸
  46. مازندرانی، شرح فروع الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۴، ص۴۰۲۔
  47. پیدایش، ۱۱: ۲۶۔
  48. پیدایش، ۱۷: ۴و۵، ترجمہ فاضل خان ہمدانی (گروسی)
  49. سوسہ، العرب‌ و الیہود فى‌ التاریخ‌، ۱۹۷۲م‌، ص۲۵۲
  50. پیدایش، ۱۱: ۳۱و۳۲
  51. پیدایش، ۱۲: ۱-۴
  52. پیدایش، ۱۲: ۱تا۸
  53. پیدایش، ۱۲: ۱۰
  54. پیدایش، ۱۳: ۱تا۴
  55. پیدایش، ۱۳: ۱۸
  56. پیدایش، ۱۲: ۱۱تا۱۹
  57. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۲۲۵ و ۲۲۶۔
  58. پیدایش، ۲۲: ۱- ۱۴۔
  59. تکوین،‌۲۲: ۲۔
  60. پیدایش، ۱۵: ۱۸
  61. سجادی، «ابراہیم خلیل(ع)»، ص۵۰۶۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • کتاب مقدس۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، ‌دار صادر -‌دار بیروت، ۱۳۸۵ق۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبرى، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م۔
  • ابن‌ عبدربہ‌، احمد، العقد الفرید، بہ‌ کوشش‌ احمد امین‌ و دیگران‌، بیروت‌، ۱۴۰۲ق‌/۱۹۸۲م‌۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/ ۱۹۸۶م۔
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفى السقا، بیروت، دار المعرفۃ، بى تا۔
  • ابوالفتوح رازى، حسين بن على، روض الجنان و روح الجنان، مشہد، آستان قدس رضوى، ۱۴۰۸ق۔
  • ازرقی، اخبار مکہ، مکہ مکرمہ، دارالثقافۃ، ۱۴۰۳ق۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص الأنبياء، مشہد، آستان قدس رضوی۔
  • محلى، جلال الدين و جلال الدین سیوطی، تفسير الجلالين‏، بیروت، مؤسسہ النور للمطبوعات‏، ۱۴۱۶ق۔
  • سجادی، صادق، «ابراہیم خلیل(ع)»، در دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ج۲، ص۴۹۷ تا ۵۰۶۔
  • سید قطب، فى ظلال القرآن، بیروت، دار الشروق، چاپ۳۵، ۱۴۲۵ق۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتابفروشی داوری، ۱۳۸۵ش/۱۹۶۶م۔
  • طاہری، محمدحسین، «ابراہیم(ع) و خاندانش در تورات و قرآن»، در فصلنامہ معرفت ادیان، شمارہ ۱، زمستان ۱۳۸۸ش
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسلامی جامعۀ مدرسین حوزہ علمیہ، پنجم، ۱۴۱۷ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، محمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمدجواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک، بیروت، دار التراث ، ط الثانيۃ، ۱۹۶۷م۔
  • طوسى، محمد بن حسن، التبيان في تفسير القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی۔
  • عیاشى، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تہران، اسلامیہ، ۱۳۸۰ق۔
  • فخر رازى، ابوعبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق۔
  • فیروزمہر، محمدمہدی، «مقایسہ قصہ ابراہیم علیہ السلام در قرآن و تورات‌»، میقات حج، زمستان ۱۳۸۱ش، ش۴۲۔
  • فیض کاشانى، ملا محسن‏، تفسیر الصافى‏، تہران، انتشارات الصدر، ۱۴۱۵ق‏۔
  • کاشانى، ملا فتح اللہ‏، تفسیر منہج الصادقین، تہران، کتابفروشى محمد حسن علمى‏، چاپ سوم، ۱۳۳۶ش‏
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیۃ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، ۱۳۸۴ش۔
  • مغنيہ، محمد جواد، تفسير الكاشف‏، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، ۱۴۲۴ق‏۔
  • مازندرانی، محمد ہادی بن محمد صالح، شرح فروع الکافی، محقق و مصحح: محمد جواد محمودی و محمد حسین درایتی، قم، دار الحدیث للطباعۃ و النشر، چاپ اول، ۱۴۲۹ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔
  • نیشابوری، نظام الدین، تفسیر غرائب القرآن، حاشیہ تفسیر طبری، بیروت، دار احیاء تراث العربی۔