توحید صفاتی

ویکی شیعہ سے

توحید صفاتی توحید کے اقسام میں سے ہے، جس سے مراد خدا کی ذات اور صفات میں عینیت اور صفات کا ایک دوسرے کے ساتھ یگانگت ہے۔ توحید صفاتی کے مطابق خدا کی صفات مصداق کے اعتبار سے ایک ہیں اور ان کا اختلاف صرف مفہوم میں ہے۔ یہ نظریہ ذات و صفات کی عینیت کے نام سے مشہور ہے، تمام مسلمان فلاسفہ اور امامیہ متکلمین نیز بعض اہل‌ سنت متکلمین اس نظریے کے قائل ہیں۔ ان کے مقابلے میں اہل‌ سنت کلامی مذاہب میں سے اشاعرہ اور ماتُریدیہ خدا کی ذات اور صفات کے متحد نہ ہونے اور صفات خدا کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔

خدا کی ذات اور صفات میں مغایرت کے عقیدے کو شرک صفاتی کا نام دیا جاتا ہے؛ لیکن کہا جاتا ہے کہ چونکہ توحید صفاتی ایک نہایت دقیق مسئلہ ہے اور اکثر متکلمین کے درمیان مورد بحث واقع ہوتا ہے اس بنا پر صفات خدا میں شرک کو شرک خفی شمار کیا جاتا ہے جو دین اسلام سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے۔

شیعہ متکلمین توحید صفاتی کو ثابت کرنے کے لئے مختلف عقلی اور حدیثی دلائل سے استناد کرتے ہیں۔ شیعہ متکلم آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق خدا کی ذات میں تعدد اور کثرت سے انکار اور خدا کا مخلوقات سے بے نیاز ہونا خدا کی ذات اور صفات کی عینیت کو ثابت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مورد استناد حدیثی دلائل میں سے ایک نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں امام علیؑ کا فرمان ہے جس میں خدا کی صفات کو خدا کی ذات سے نفی کرنے کو اخلاص کا کمال قرار دیا گیا ہے۔

اہمیت

توحید صفاتی اسلامی تعلیمات کے بنیادی اصولوں اور انسانی تفکرات کے سب سے اعلی و ارفع افکار میں سے ہے جو نمایاں طور پر مکتب تشیع میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔[1] توحید صفاتی سے مراد خدا کی ذات اور صفات نیز خود صفات کا ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونا اور خدا کی ذات اور صفات کے درمیان ہر قسم کی کثرت اور ترکیب کی نفی ہے۔[2] اس بنا پر خدا کی صفات اس کی ذات نیز خود صفات ایک دوسرے سے جدگانہ مصداق کا حامل نہیں ہے ؛ بلکہ یہ سب ایک بسیط مصداق کے مختلف مفاہیم ہیں جو خدا کی ذات ہے جس کا کوئی ثانی نہی ہے۔[3] اس نظریے کے مطابق وہ تمام صفات جن کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے جسے عالم، قادر اور حی وغیرہ خدا کی ذات اور خود یہ صفات آپس میں متحد اور ایک ہیں اور صرف مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔[4]

شیعہ فلسفی اور فقیہ آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق خدا کی ذات اور صفات میں عینیت اور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی ذات بسیط (کسی چیز سے مرکب‌ نہ ہونا) ہونے کے ساتھ ساتھ کسی چیز کی طرف محتاج ہوئے بغیر تمام کمالات کا حامل ہے؛ مخلوقات کے صفات اور کمالات کے برخلاف کہ جن کے صفات اور کمالات ان کی عین ذات نہیں بلکہ ان سے ان صفات کو سلب اور جدا کرنا بھی ممکن ہے۔[5]

شیعہ متکلم علی ربانی گلپایگانی کے مطابق توحید صفاتی میں ہماری بحث کا موضوع خدا کی صفات کا خدا کی ذات کی طرف نسبت دینے کی نوعیت ہے۔ ان کے مطابق خدا کی ذات اور صفات میں عینیت اور یگانگت پر عقیدہ رکھنے کو توحید صفاتی اور ان کے درمیان مغایرت اور ذات و صفات میں کثرت کا قائل ہونا شرک صفاتی کہلاتا ہے۔[6]

توحید صفاتی کے بارے میں اسلامی مذاہب کا نقطہ نگاہ

تمام مسلمان فلاسفر، امامیہ متکلمین[7] اور بعض اہل‌ سنت[8] خدا کی ذات اور صفات میں عینیت و یگانگت یعنی توحید صفاتی کے قائل ہیں۔ ان کے مقابلے میں اہل سنت مذاہب میں سے اشاعرہ[9] اور ماتُریدیہ[10] خدا کی ذات اور صفات میں مغایرت اور کثرت کے قائل ہیں البتہ ان کے مطابق خدا کی صفات بھی ذات کی طرح ازلی ہیں۔ معتزلہ کے بارے میں اختلاف‌ پایا جاتا ہے: شہید مطہری اور آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق معتزلہ بھی تنزیہ صفات کے قائل ہیں؛[11] یعنی خدا کی صفات کو خدا کی ذات سے نفی کرتے ہیں؛ لیکن علی ربانی گلپایگانی کے مطابق معتزلہ بھی امامیہ کی طرح خدا کی صفات اور ذات میں عینیت اور یگانگت یعنی توحید صفاتی کے قائل ہیں۔[12]

آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق چونکہ توحید صفاتی ایک نہایت دقیق مسئلہ ہے اور عموما متکلمین کے درمیان مورد بحث واقع ہوتی ہے اور عام لوگ اس قسم کے مباحث سے آگاہ نہیں ہوتے، اس بنا پر توحید صفاتی کو قبول نہ کرنے والا مشرک اور اسلام سے خارج نہیں تصور نہیں کیا جائے گا۔[13]

دلائل

شیعہ علماء توحید صفاتی اور خدا کی صفات اور ذات میں عینیت اور یگانگت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف دلائل سے استناد کرتے ہیں۔ ان میں سے بعد دلائل عقلی اور بعض احادیث سے ماخوذ ہیں:

عقلی دلائل

شیعہ متکلم اور فقیہ آیت اللہ جعفر سبحانی توحید صفاتی کے اثبات کے لئے بیان ہونے والی عقلی دلائل میں سے ایک کے بارے میں یوں وضاحت کرتے ہیں: خدا کی صفات اور ذات میں عینیت کا لازمہ یہ ہے کہ خدا اپنی صفات کے متصف ہونے میں کسی غیر کا محتاج نہیں ہے؛ جبکہ خدا کی صفات اور ذات میں مغایرت کا لازمہ یہ ہے کہ خدا اپنی صفات کے ساتھ متصف ہونے میں اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے کا محتاج ہے۔ اس صورت میں خدا عالم اور قادر تو ہے لیکن ایسے علم اور قدرت کی مدد سے جو اس کی ذات سے جدا ہے۔ حالانکہ خدا ہر چیز سے بے نیاز اور کسی کا محتاج ہونے سے پاک و منزہ ہے پس خدا کی صفات اور ذات ایک ہیں۔[14]

آیت اللہ مصباح یزدی اور آیت اللہ جوادی آملی بھی یوں وضاحت کرتے ہیں: اگر خدا کی صفات میں سے ہر ایک صفت کا الگ الگ مصداق ہو تو دو صورتوں سے خالی نہیں ہے: یا ان تمام صفات کے مصادیق خدا کی ذات میں موجود ہیں اس کا لازمہ‌ یہ ہے کہ خدا کی ذات مختلف اجزاء سے مرکب ہے۔ یہ چیز توحید ذاتی کے ساتھ ناسازگار اور محال ہے۔ یا ان تمام صفات کے مصادیق خدا کی ذات سے خارج ہیں۔ اس صورت میں یا یہ تمام صفات واجب‌ الوجود اور خالق سے بے نیاز ہوگا جس کا لازمہ تعدد ذات اور شرک ہے یا یہ تمام صفات ممکن‌ الوجود اور خدا کا مخلوق ہوگا اس کا لازمہ یہ ہے کہ پہلے خدا ان صفات سے عاری تھا پھر ان کو خلق کرنے کے بعد ان صفات سے متصف ہوا۔ یہ بھی محال ہے کیونکہ علّت ہستی‌ بخش اپنے مخلوقات کے کمالات سے محروم ہونا محال ہے۔ پس ان تمام احتمالات کے باطل ہونے سے توحید صفاتی اور خدا کی صفات اور ذات کے درمیان عینیت اور یگانگت ثابت ہو جاتی ہے۔[15]

حدیثی دلائل

شیعہ فلاسفر اور مفسر آیت اللہ مصباح یزدی کے مطابق احادیث میں توحید صفاتی «نفی صفات» کے عنوان سے مورد بحث واقع ہوئی ہے۔[16] نہج‌ البلاغہ کے پہلے خطبے میں امام علیؑ سے یوں منقول ہے: «وَ كَمَالُ تَوْحِيدِہِ الْإِخْلَاصُ لَہُ وَ كَمَالُ‏ الْإِخْلَاصِ‏ لَہُ‏ نَفْيُ‏ الصِّفَاتِ عَنْہُ؛ خدا کی توحید کا کمال خدا کے ساتھ مخلص ہونا ہے اور خدا کے ساتھ مخلص ہونے کا کمال خدا کی ذات سے اس کے صفات کو نفی کرنا ہے»۔[17] آیت‌اللہ سبحانی کے مطابق اس کلام میں خدا کی ذات اور صفات میں عینیت پر تصریح کی گئی ہے۔[18]

علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ خدا کی صفات کے بارے میں نقل ہونے والی اکثر احادیث میں خدا کی ذات اور صفات میں مغایرت کی نفی کی گئی ہے؛ لیکن خدا کی ذات اور صفات کی عینیت اور یگانگت پر کوئی تصریح ان احادیث میں موجود نہیں ہے۔[19] علامہ طباطبایی علامہ مجلسی کے اس کلام کو عجیب و غریب شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احادیث میں خدا کی ذات اور صفات میں عینیت اور یگانگت پر تصریح کی گئی ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج2، ص101۔
  2. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384ہجری شمسی، ص136؛ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج2، ص101۔
  3. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384ہجری شمسی، ص136۔
  4. مصباح یزدی، خداشناسی، 1396ہجری شمسی، ص269۔
  5. جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص298۔
  6. ربانی گلپایگانی، کلام تفصیلی (1)، 1399ہجری شمسی، ص59۔
  7. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، 1372ہجری شمسی، ص241۔
  8. ربانی گلپایگانی، کلام تفصیلی (1)، 1399ہجری شمسی، ص59۔
  9. سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، 1413ھ، ج2، ص35؛ جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص299-302۔
  10. ربانی گلپایگانی، کلام تفصیلی (1)، 1399ہجری شمسی، ص59۔
  11. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج3، ص98؛ جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص303 و 304۔
  12. ربانی گلپایگانی، کلام تفصیلی (1)، 1399ہجری شمسی، ص60-62۔
  13. جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص579۔
  14. سبحانی،‌ الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، 1413ھ، ج2، ص38۔
  15. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384ہجری شمسی، ص136؛ جوادی آملی، توحید در قرآن، 1395ہجری شمسی، ص305 و 306۔
  16. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384ہجری شمسی، ص136۔
  17. نہج البلاغہ، تحقیق صبحی صالح، خطبہ اول، ص39۔
  18. سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، 1413ھ، ج2، ص41۔
  19. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج4، ص62۔
  20. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج4، ص62، پاورقی1۔

مآخذ

  • جوادی آملی، عبداللہ، توحید در قرآن: تفسیر موضوعی قرآن کریم، تحقیق و تنظیم حیدرعلی ایوبی، قم، مرکز نشر اسراء، چاپ ہشتم، 1395ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی (1)؛ توحید، صفات و عدل الہی، قم، جامعہ المصطفی(ص)، چاپ پنجم، 1399ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الإلہيات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1413ھ۔
  • فیاض لاہیجی، ملاعبدالرزاق، گوہر مراد، تہران، نشر سایہ، 1383ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار(ع)، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، تہران، شرکت چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ ہفدہم، 1384ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، خداشناسی، تحقیق و بازنگری امیررضا اشرفی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، چاپ سوم، 1396ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، نشر صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • نہج‌البلاغہ، گردآورندہ سید رضی، تحقیق صبحی صالح، قم، ہجرت،‏ چاپ اول، 1414ھ۔