توحید افعالی
خداشناسی | |
---|---|
توحید | توحید ذاتی • توحید صفاتی • توحید افعالی • توحید عبادی • صفات ذات و صفات فعل |
فروع | توسل • شفاعت • تبرک |
عدل (افعال الہی) | |
حُسن و قُبح • بداء • امر بین الامرین | |
نبوت | |
خاتمیت • پیامبر اسلام • اعجاز • عدم تحریف قرآن | |
امامت | |
اعتقادات | عصمت • ولایت تكوینی • علم غیب • خلیفۃ اللہ • غیبت • مہدویت • انتظار فرج • ظہور • رجعت |
ائمہ معصومینؑ | |
معاد | |
برزخ • معاد جسمانی • حشر • صراط • تطایر کتب • میزان | |
اہم موضوعات | |
اہل بیت • چودہ معصومین • تقیہ • مرجعیت |
توحید افعالی یعنی کائنات میں رونما ہونے والے تمام امور حتی دوسری موجودات کے افعال کا حقیقی فاعل اللہ کی ذات ہے۔ توحید افعالی کے مطابق کوئی بھی کام جو کسی سے بھی سرزد ہو وہ اللہ تعالی کے ارادے اور قدرت سے انجام پاتا ہے۔ مسلمان علما نے توحید افعالی پر عقلی اور قرآنی دلایل پیش کئے ہیں من جملہ ان میں وہ آیات ہیں جن میں اللہ تعالی کو تمام چیزوں کا خالق بتایا گیا ہے۔
اشاعرہ توحید افعالی کو مد نظر رکھتے ہوئے انسان کو مجبور اور بے اختیار سمجھتے ہیں جبکہ معتزلہ انسان کے اختیاری افعال کو اللہ کا فعل نہیں سمجھتے اور انہیں صرف انسان کی طرف نسبت ہیں۔ شیعہ امامیہ دونوں نظریات کو باطل سمجھتے ہوئے توحید افعالی کو نہ فقط انسان کے اختیار کے ساتھ نا سازگار نہیں سمجھتے بلکہ انسان کے اختیاری کاموں کو اللہ کے افعال کے طول میں قرار دیتے ہوئے ان کی نسبت اللہ اور انسان دونوں کی طرف دیتے ہیں۔
خالقیت اور رازقیت میں توحید اللہ، توحید افعالی کی اقسام اور اللہ پر توکل اور توحید عبادی کو توحید افعالی کے آثار میں سے قرار دئے جاتے ہیں۔
معنی
مسلمان علما توحید کو ذاتی، صفاتی، عبادی اور اَفعالی میں تقسیم کرتے ہیں۔[1] مرتضی مطہری کے مطابق توحید افعالی کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں موجود علت و معلول کے تمام نظام اور ہر چیز جو کائنات میں واقع ہوتی ہے وہ اللہ تعالی کا فعل ہے۔ اور کوئی بھی موجود خود سے مستقل طور پر کوئی کام انجام نہیں دے سکتا ہے اور تمام موجودات اپنے کام میں اللہ کے فعل اور ارادہ سے منسلک اور وابستہ ہیں۔[2]
توحید افعالی کے مطابق اللہ تعالی کی ذات میں کوئی شریک نہیں ہے؛ یعنی مخلوقات میں سے جو بھی کام انجام دیتے ہیں وہ اللہ کا فعل ہے۔[3] توحید افعالی بھی توحید ذاتی اور توحید صفاتی کی طرح توحید کے نظری مراتب میں سے ہے؛ یعنی انسان کے عقیدے سے مربوط ہے؛ توحید عبادی کے خلاف کہ جو اعمال سے مربوط ہے۔[4]
اقسام
علم کلام کی بعض کتابوں میں «توحیدِ خالقیت» اور «توحیدِ رُبوبیّت» کے عناوین پر توحید اَفعالی میں بحث ہوتی ہے۔[5] خالقیت میں توحید کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی تمام موجودات کو اللہ تعالی نے خلق کیا ہے۔[6]اور جو چیزیں دوسری مخلوقات نے بنائی ہیں وہ بھی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔[7] توحیدِ ربوبیت کا معنی یہ ہے کہ کائنات کو اور تمام موجودات کی تدبیر کرنے والا اللہ تعالی ہے؛ یعنی کائنات میں ایسا نظم قائم کرتا ہے کہ جس کے ذریعے سے دنیا اور اس کی موجودات اس ہدف تک پہنچ جاتی ہیں جو ان کے لیے قرار دیا گیا ہے۔[8]
علی ربانی گلپائگانی کا کہنا ہے توحید خالقیت پر دلالت کرنے والی آیات میں سورہ رعد کی 16ویں، سورہ زُمَر کی 62ویں اور سورہ غافر کی 62ویں آیت ہیں جن میں اللہ تعالی :«خالقُ کلِّ شیءٍ» (تمام چیزوں کا خلق کرنے والا) قرار دیا گیا ہے۔[9] اور توحید ربوبیت بیان کرنے والی آیات میں سورہ اعراف کی 54ویں آیت:
- ...أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَک اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ؛(ترجمہ:آگاہ رہو!آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے، بڑا با برکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔)[10] اسی طرح سورہ طہ کی 50ویں آیت: ...«رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ» (ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے)۔[11] آخری دو آیتیں توحید خالقیت اور توحید ربوبیت دونوں کو بیان کرتی ہیں[12]
عقلی دلایل
مسلم فلاسفر کی توحید افعالی پر قائم کی جانے والی دلایل میں سے ایک یہ ہے کہ کائنات کی تمام موجودات بالواسطہ یا بلاواسطہ اللہ تعالی کی مخلوق ہیں اور پھر اللہ تعالی کائنات کی تمام مخلوقات کی علت ہے۔[13]
محمدتقی مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ صدرالمتألہین کے نظریات اور حکمت متعالیہ کے مبانی کے تحت اس مسئلے پر زیادہ ہی مضبوط دلیل پیش کرسکتے ہیں؛ وہ یہ کہ کوئی بھی علت یا معلول خود سے مستقل نہیں ہیں اور ہر ایک خدا سے وابستہ ہیں۔ اس طرح سے کہ موجودات میں سے کوئی مستقل پر کوئی کام کرسکے اور اللہ تعالی سے بےنیاز رہے یہ ممکن نہیں ہے۔ لہذا ہر خلقت اللہ تعالی کا کام ہے۔[14]
قرآنی شواہد
بعض افراد توحید افعالی کو ثابت کرنے کے لیے بعض قرآنی آیات اور روایات سے تمسک کرتے ہیں۔ مرتضی مطہری نے توحید افعالی کے بحث میں سورہ اِسراء کی 111ویں آیت کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے۔[15]جس میں ارشاد ہوتا ہے:«وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـہِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ»
(اور کہو: کہ ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے نہ کسی کو فرزند بنایا ہے اورنہ کوئی اس کے ملک میں شریک ہے اور نہ کوئی اس کی کمزوری کی بنا پر اس کاسرپرست ہے اورپھر باقاعدہ اس کی بزرگی کا اعلان کرتے رہو)۔
اسی طرح «لاحَوْلَ وَلا قُوَّةَ الّا باللہ» (کوئی طاقت اور قوت اللہ کے وسیلے کے علاوہ نہیں ہے۔) کی عبارت کو بھی توحید افعالی کے مؤیدات میں سے شمار کیا ہے۔[16]
محمدتقی مصباح یزدی کے مطابق سورہ انبیاء کی 22ویں آیت (لَوْ کَانَ فِیهِمَا آلِهَةٌ إلاَّ اللہُ لَفَسَدَتَا؛ یاد رکھو اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ اور خدا بھی ہوتے تو زمین و آسمان دونوں برباد ہوجاتے) توحید افعالی کے اثبات کے لیے ایک دلیل ہے۔[17] انہوں نے اس آیت میں موجود دلیل عقلی کو یوں بیان کیا ہے:
- اگر کائنات میں ایک علت سے زیادہ ہوتی تو اس کے اجزاء میں علت اور معلول کا رابطہ ناممکن تھا؛ کیونکہ ہر معلول اپنی علت ہی سے وابستہ ہے اور دوسری علتیں اس پر اثر نہیں کرسکتی ہیں۔
- کائنات ایک نظم کی پیروی کرتی ہے اور اس کے تمام اجزا میں باہمی رابطہ پایا جاتا ہے۔
- نتیجہ یہ ہوا کہ کائنات کی ایک ہی علت ہے اور ایک ہی خلق کرنے والا خالق ہے۔[18]
توحید افعالی اور دو نتیجے
بعض علم کلام کی کتابوں میں توحید افعالی کے بعض نتائج بیان ہوئے ہیں جن میں سے عبادت میں توحید اور اللہ تعالی پر توکل انہی نتائج میں سے ہیں۔ محمد تقی مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ جو شخص توحید افعالی پر یقین رکھتا ہے وہ اللہ تعالی کے سواے کسی اور چیز کو عبادت کے لائق نہیں سمجھتا ہے؛ کیونکہ صرف ایسے موجود ہی کی عبادت کی جاسکتی ہے جو انسان کا خالق اور پالنے والا ہو۔[19]
اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ توحید افعالی میں صرف اللہ تعالی ہی موثر ہے اور اس پر ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے۔[20] اور مزید اضافہ کہتے ہیں کہ سورہ حمد کی چوتھی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: اِیّاکَ نَعبُدُ وَ اِیّاکَ نَستَعین» (ہم صرف تمہاری عبادت کرتے ہیں اور تم سے ہی مدد مانگتے ہیں)۔ پس یوں توحید افعالی کے یہ دو نتیجے بیان ہوئے ہیں۔[21]
توحید افعالی اور انسانی اختیار
اسلامی فرق و مذاہب اگرچہ توحید افعالی کو مانتے ہیں لیکن اس کا انسانی اختیارات کے ساتھ رابطہ کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔[22] اشاعرہ کہتے ہیں: چونکہ اللہ تعالی کے سواے کوئی اور علت نہیں ہے اس لئے انسان اپنے افعال کی علت نہیں اور اس کے افعال حقیقت میں اللہ تعالی کے ہی افعال ہیں۔[23] معتزلہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے افعال کو انہی کے سپرد کیا ہے۔ لہذا انسان کے اختیاری افعال اللہ کی مخلوق نہیں ہیں۔[24]شیعہ اثناعشری اس بات کے قائل ہیں کہ انسان صاحب اختیار ہے اور اس کے کام اور افعال حقیقت میں اسی کے ہی کام ہیں؛ لیکن انہیں انجام دینے میں وہ مستقل علت نہیں بلکہ اس کے تمام افعال کی مستقل علت اللہ تعالی ہے۔[25]
شیعہ متکلمین کے مطابق اشاعرہ کا نظریہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ انسان صاحب اختیار نہ ہو اور یہ بات اللہ تعالی کی طرف سے انسان پر عائد کردہ ان فرائض کے منافی ہے جن کے لیے آخرت میں ثواب اور عقاب قرار دیا ہے۔[26]اسی طرح معتزلہ کا نظریہ بھی توحید خالقیت اور اللہ تعالی کی قدرت مطلق العنان ہونے کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔[27]شیعوں کے عقیدے کے مطابق توحید افعالی اس لئے ان کے اختیار کے ساتھ منافات نہیں رکھتا ہے کیونکہ انسان کے افعال اللہ تعالی کے افعال کے طول میں ہیں۔ لہذا انہیں انسان کا فعل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے فعل بھی قرار دے سکتے ہیں۔[28]
حوالہ جات
- ↑ سبحانی، عقاید اسلامی در پرتو قرآن، حدیث و عقل، ۱۳۷۹ش، ص۱۵۱.
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۰۳.
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۰۴.
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۰۴.
- ↑ رجوع کریں: مصباح یزدی، آموزش فلسفہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۳۸۷؛ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۷۷و۸۵.
- ↑ رجوع کریں: ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۷۷.
- ↑ مصباح یزدی، آموزش فلسفہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۳۸۷و۳۸۸.
- ↑ مراجعہ کریں: ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۸۷.
- ↑ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۷۸.
- ↑ اعراف 54
- ↑ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۸۷.
- ↑ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۸۷.
- ↑ مصباح یزدی، آموزش فلسفہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۳۸۸و۳۸۹.
- ↑ مصباح یزدی، آموزش فلسفہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۳۸۸.
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۰۳.
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۰۳.
- ↑ مصباح یزدی، آموزش فلسفہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۳۸۸.
- ↑ مصباح یزدی، آموزش فلسفہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۳۸۸و۳۸۹.
- ↑ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۱۳۴.
- ↑ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۱۳۴.
- ↑ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۱۳۵.
- ↑ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۷۹.
- ↑ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۷۹.
- ↑ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۷۹.
- ↑ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۷۹.
- ↑ مراجعہ کریں: ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۸۰.
- ↑ مراجعہ کریں: ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۸۰.
- ↑ ربانی گلپایگانی، عقاید استدلالی، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۸۰.
مآخذ
- ربانی گلپایگانی، علی، عقاید استدلالی، قم، مرکز نشر ہاجر، چاپ ششم، ۱۳۹۳ش.
- سبحانی، جعفر، عقاید اسلامی در پرتو قرآن و حدیث، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، ۱۳۸۶ش.
- مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، تہران، شرکت چاپ و نشر بینالملل سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، ۱۳۷۸ش.
- مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش فلسفہ، تہران، شرکت چاپ و نشر بینالملل سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، ۱۳۷۹ش.
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، چاپ ہفتم، ۱۳۷۷ش.