حدیث قدسی

ویکی شیعہ سے

حدیث قُدسی اس کلام کو کہا جاتا ہے جسے پیغمبر اکرمؐ خدا سے نقل کرتے ہیں۔ حدیث قدسی کو حدیث ربانی اور حدیث الہی بھی کہا جاتا ہے۔ ان احادیث میں حدیث کا معنی اور مضمون خدا کی طرف سے جبکہ الفاظ پیغمبر اکرم کے ہوتے ہیں؛ ان کا مضمون ممکن ہے فرشتہ، الہام یا نیند میں القا کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ تک منتقل ہو۔ یہ احادیث عموما "قال اللہ" یا "یقول اللہ" جیسے الفاظ سے شروع ہوتے ہیں۔ حدیث قدسی اور قرآن میں فرق یہ ہے کہ قرآن کا مفہوم اور لفظ دونوں خدا کی جانب سے ہیں جبکہ حدیث قدسی کا فقط مضمون خدا کی جانب سے ہوتا ہے، اسی طرح معجزہ ہونے کے حوالے سے بھی قرآن اور حدیث قدسی میں فرق ہے۔ گذشتہ انبیاء سے منسوب اقوال بھی احادیث قدسی میں شامل ہیں، اسی بنا پر بعض احادیث گذشتہ انبیاء سے منقول ہیں۔ احادیث قدسی کے مضامین اکثرا اخلاقی اور عرفانی موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔

حدیث قدسی میں سب سے اہم بحث ان کے مضامین کا خدا کی جانب سے ہونے اور نہ ہونے میں ہے۔ اکثر احادیث قدسی پیغمبر اکرمؐ سے انس بن مالک، ابوہریرہ، ابن عباس اور حضرت علیؑ کے توسط سے نقل ہوئی ہیں۔

وجہ تسمیہ

حدیث قدسی میں لفط "قدسی" سے مراد پاکی اور طہارت کے ہیں۔[1] ان احادیث کو حدیث قدسی کہنے کے بارے میں کئی احتمالات پائے جاتے ہیں ان میں سے سب سے اہم دلیل ان احادیث کا خدا کی مقدس ذات کی طرف منسوب ہونا ہے۔[2]

ان احادیث کو متأخر علماء نے حدیث قدسی کا نام دیا ہے۔[3] کرمانی وہ پہلا شخص ہے جس نے ان حادیث کو "حدیث قدسی"، "حدیث الہی" اور "حدیث ربانی" کا نام دیا، لیکن مختلف کتابوں میں ان ناموں کا استعمال ہونا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان ناموں میں سے "حدیث الہی" سب سے زیادہ قدیمی اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نام ہے۔ ابن کثیر بھی اسی نام کو استعمال کرتے ہیں۔[4] "حدیث قدسی" کی تعبیر اگرچہ بعد میں شروع ہوا لیکن بہت جلد ہمہ گیر ہوا اور حدیث الہی کی جگہ لے لی۔ گراہام،[5] کے مطابق عبداللہ بن حسن طیبی (متوفی ۷۴۳) پہلا شخص تھا جس نے "حدیث قدسی" کا نام استعمال کیا، لیکن ظاہراً امیر حمیدالدین (متوفی ۶۶۷) اس کام میں عبداللہ بن حسن طیبی پر سبقت لے گئے ہیں۔[6]

مذکورہ اشخاص کی علاوہ وہ لوگ جنہوں نے "حدیث قدسی" کی تعبیر اپنی کتابوں میں استعمال کی ہیں ان کا نام بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. قیصری (متوفی۷۵۱) شرح فصوص الحکم میں،[7]
  2. شہید اول (متوفی ۷۸۶) القواعد و الفوائد میں،[8]
  3. کرمانی شرح صحیح بخاری میں،[9]
  4. جرجانی (متوفی ۸۱۶) تعریفات میں[10]
  5. ابن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۲) فتح الباری میں[11]

اس تعبیر کے رائج ہونے سے پہلے بھی بعض علما نے ان احادیث کو مختلف عناوین کے ساتھ استعمال کیئے ہیں من جملہ ان میں "الاحادیث الملائکیۃ" اور "احادیث الملائکۃ الکرام و الجان" کا نام لیا جا سکتا ہے۔

تعریف

حدیث قدسی کی مختلف تعریفوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ حدیث قدسی ایک ایسا کلام ہے جسے پیغمبر اکرمؐ نے خدا سے نقل کی ہیں،[12] لیکن ان تعریفوں کے مانع اغیار نہ ہونے کی بنا پر محدّثین نے حدیث قدسی کو معین کرنے نیز قرآن اور حدیث قدسی میں موجود فرق کو واضح کرنے کے لئے مختلف معیارات بیان کیئے ہیں۔

ان معیاروں کی تعداد، اہمیت اور تفصیلات مختلف منابع میں مختلف ہیں۔ مثلا شیخ بہائی[13] نے اس حوالے سے صرف ایک معیار کی طرف اشارہ کیئے ہیں جبلکہ بلوشی[14] نے اس حوالے سے چودہ(14) معیاروں کا نام لیا ہے۔

حدیث قدسی میں سب سے مورد بحث واقع ہونے والے موضوعات میں سے سب سے اہم موضوعات درج ذیل ہیں:

  1. ان کے الفاظ؛
  2. پیغمبر اکرمؐ تک ان کی متنقلی؛
  3. ان کا معجزہ ہونا؛
  4. ان کو لمس کرنے اور ان کی قرائت کا حکم؛
  5. نماز میں ان کی قرائت کا جائز ہونا یا نہ ہونا؛
  6. ان کے مضامین[15]

علم درایہ میں

ورود بحث احادیث قدسی به کتابهای علم اگرچہ جرجانی، ابوالبقاء اور تہانوی وغیرہ کی کتابوں میں حدیث قدسی سے متعلق بحث ہوئی ہے لیکن درایہ کی کتابوں میں حدیث قدسی سے بحث قاسمی(متوفی ۱۳۳۴) کی کتاب قواعد التحدیث کی تألیف کے بعد سے شروع ہوئی ہے جس کے بعد درایہ کی دوسری کتابوں میں بھی حدیث قدسی سے بحث کی گئی ہے۔ شیعہ منابع میں درایہ کی کتابوں کی تدوین دیر سے شروع ہونے کے باوجود اس سلسلے کی پہلی کتابوں میں ہی حدیث قدسی سے بحث کی گئی ہے۔ شیخ بہائی اپنی کتاب الوجیزۃ میں[16] اور مشرق الشمسین،[17] اور میرداماد کتاب الرواشح السماویۃ[18] میں حدیث قدسی سے بحث کرتے ہیں یوں ان کتابوں کے بعد میں تدوین ہونے والی علم درایہ سے مربوط شیعہ کتابوں میں بھی حدیث قدسی سے بحث ہوئی ہے۔

مضامین

احادیث قدسی کے عمدہ مضامین عرفانی اور اخلاقی موضوعات پر مشتمل ہیں جن میں تہذیب نفس، اخلاص اور توبہ و استغفار، نیک کاموں کی فضیلت، صالح اور نیک لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کی ترغیب اور لوگوں کے ساتھ حُسن معاشرت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، بندوں کو جزا دینے میں خدا کے فضل و کرم اور جود و سخا کا تذکرہ اور گذشتہ انبیاء کی داستان جیسے موضوعات شامل ہیں۔[19]

فقہی احکام کے باب میں ان احادیث میں کسی بھی واجب کا بیان نہیں آیا ہے بلکہ صرف اعمال کے ثواب و عقاب اور نیک کاموں کی اہمیت اور مستحبات پر تأکید کی گئی ہے۔ شیعہ منابع میں بعض احادیث قدسی امامت کے اثبات اور شیعہ ائمہؑ کی امامت کی حقانیت سے بھی بحث کی گئی ہے۔[20]

چونکہ احادیث قدسی کے عمدہ مضامین عرفانی اور اخلاقی موضوعات پر مشتمل ہیں اسی وجہ سے صوفیہ مذہب کے عمدہ اعتقادات کا سرچشمہ یہی احادیث ہیں یا بعد میں ان احادیث کی طرف نسبت کی گئی ہے۔[21] اسی لئے محی الدین ابن عربی کی کتابوں میں ان احادیث کا استعمال بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔[22] ان تمام باتوں کے باوجود احادیث قدسی کا استعمال صرف عرفانی اور اخلاقی کتابوں تک محدود نہیں بلکہ بعض فقہی آثار[23] حتی اصول فقہکی بعض کتابوں[24] میں بھی ان سے استناد کی گئی ہے۔

ان احادیث میں سے بعض میں قیامت کے دن بہشتیوں، جہنمیوں اور فرشتوں کے ساتھ خدا کی گفتگو پر مشتمل ہے۔[25] اسی طرح بعض احادیث ان باتوں پر مشتمل ہیں جسے پیغمبر اکرمؐ نے شب معراج کو دریافت کیا تھا جو "اسرار وحی" کے طور پر جانی جاتی ہے،[26] اسی طرح شب معراج کے ادعیہ بھی "ادعیۃالسر" کے عنوان سے ان احادیث میں بیان ہوئی ہے۔[27]

وحیانی ہونا

احادیث قدسی کے باب میں سب سے اہم اور اختلافی بحث ان حادیث کے الفاظ کا وحیانی ہونا اور نہ ہونا ہے۔ بعض محققین،[28] ان احادیث کے الفاظ کو بھی دیگر احادیث کی طرح خود پیغمبر اکرمؐ کے الفاظ قرار دیتے ہیں۔[29] اس نظریے کے تحت احادیث قدسی اور قرآن کے درمیان فرق بالکل واضح اور آشکار ہو جاتا ہے لیکن ان احادیث کا دوسرے احادیث کے ساتھ تفاوت صرف ان احادیث کو خداوندعالم کی طرف نسبت دینا ہے۔[30] اس کے مقابلے میں بہت سارے علماء احادیث قدسی کے الفاظ کو قرآن کی طرح خدا کے الفاظ قرار دیتے ہیں۔[31] اس نظریے کو بعض اہل سنت علماء کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے[32] اور میبدی[33] کا یہ قول کہ احادیث قدسی مخلوق نہ ہونے میں (قرآن کے بارے میں اہل سنت کا مشہور عقیدہ مخلوق نہ ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے) قرآن کے ساتھ یکسان‌ ہے اور اس قول کو "اہل سنّت والجماعت" کی طرف نسبت دینا اس بات کی گواہ ہے، اگرچہ اس مدعا کو ثابت کرنا محکم اور قوی دلائل و شواہد کا محتاج ہے۔ اس قول کے مطابق احادیث قدسی دوسرے احادیث سے کاملا ممتاز ہو جاتا ہے لیکن قرآن اور ان احادیث کے درمیان فرق ان احادیث کی دوسری خصوصیات پر منحصر رہے گا۔

کیفیت دریافت

پیغمبر اکرمؐ احادیث قدسی کو خدا سے کیسے دریافت کرتے تھے؟ اس حوالے سے بھی علماء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اس نظریہ اس حوالے سے یہ ہے کہ پیغمبراکرمؐ صرف قرآن کو جبرئیل کے ذریعے دریافت کرتے تھے لیکن حدیث قدسی کو دریافت کرنے کے لئے اس واسطے کی ضرورت نہیں تھی،[34] اگرچہ بعض علماء احادیث قدسی کی دریافت میں بھی جبرئیل کے واسطے کو ممکن قرار دیتے ہیں۔[35] احادیث قدسی کے دریافت کے راستوں کو عمدتاً نیند اور الہام وغیرہ جانا جاتا ہے۔[36] اور چہ بسا احادیث قدسی کی ماہیت کو مکمل طور پر غیر وحی قرار دی جاتی ہے[37] لیکن بعض اوقات قرآن کے مقابلے میں جو کہ وحی جلی ہے، احادیث قدسی کو وحی غیرجلی کا نام دیا جاتا ہے۔[38]

قالب

احادیث قدسی جس قالب میں بیان ہوتی ہے اس کے بارے میں تھانوی[39] دو قالب کا تذکرہ کرتے ہیں: ایک وہ قالب ہے جسے سلف کے طریقے کا نام دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے: "قال رسول اللّهؐ فیما یروی عن ربه"، جبکہ دوسرا وہ قالب ہے جسے متأخرین کے طریقے سے یاد کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے: "قال اللّه تعالی فیما رواه عنهؐ"۔ تھانوی کے بعد جنہوں نے اس بارے میں بحث کی ہیں انہوں نے بھی انہی دو قالبوں کا ذکر کیا ہے۔[40] ان دو قالبوں میں جو چیز توجہ طلب ہے وہ اس بات کی تصریح ہے کہ ان احادیث کو پیغمبر اکرمؐ نے خدا سے نقل کی ہیں تاکہ قرآن کو نقل کرنے والی تعبیر کے ساتھ خلط نہ ہو۔[41] لیکن حدیثی متون میں تحقیق اور جستجو سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام جگہوں پر صرف ان دو قالبوں میں منحصر نہیں ہے۔

اقسام

احادیث قدسی کو دو عمدہ قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے: وہ احادیث جن میں صرف خدا کا کلام نقل کیا جاتا ہے، اور دوسری وہ احادیث جن میں کسی داستان کے ضمن میں کسی کلام کو خدا سے نقل کی گئی ہیں۔

اہل سنت محدّثین صرف پیغمبر اکرمؐ کے توسط سے نقل شدہ احادیث قدسی کو می‌ قبول کرتے ہیں، لیکن صوفیہ بعض مطالب کو پیغمبر اکرمؐ کی علاوہ دوسرے ذرایع یا گذشتہ انبیاء سے بھی خدا سے نقل کرتے ہیں جن میں سے بعض کو عہدین سے لیا گیا ہے اور کعب الاحبار جیسوں سے نقل کرتے ہیں۔ مثلاً محیی الدین ابن عربی مشکاۃ الانوار میں اسی طریقہ کار کو اپناتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب کے دوسرے حصے میں مذکور احادیث کو"مرفوعةً الی اللّه بغیر اسنادٍ الی رسول اللّه" کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں[42] اور وَہب بن منبِّہ اور کعب الاحبار کے توسط سے تورات سے بعض مطالب نقل کرتے ہیں۔[43] اسی باب میں تورات کے چالیس سوروں کا عبرانی سے عربی میں ترجمہ حضرت علیؑ سے منسوب ہے۔[44] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ سے منقول بعض احادیثِ قدسی کو "مکتوب فی التوراۃ"[45] اور "مکتوب فی الانجیل"[46] کے عنوان سے بھی نقل کی گئی ہیں۔

اعتماد

احادیث قدسی کا معتبر ہونا اور نہ ہونا بھی علوم حدیث کے محققین کے نزدیک قابل غور ہے۔ انہوں نے عموما اپنی کتابوں کے مقدماتی ابحاث میں اس حوالے سے بحث کی ہیں۔[47] چہ بسا حدیث صحیح اور ضعیف کے بحث میں اس سے بحث کی گئی ہیں،[48] اور اس سلسلے میں ان احادیث کی مختلف اقسام من جملہ صحیح، حسن اور ضعیف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[49] اسی طرح بعض اہل سنت محدّثین نے بعض مشہور احادیث قدسی کے غیر معتبر ہونے کی طرف بھی اشارہ کیئے ہیں من جملہ ان میں حدیث کنز[50] اور حدیث "لولاک لما خلقت الافلاک"[51] شامل ہیں۔ وہ کتابیں جن میں ان احادیث کے معتبر ہونے اور نہ ہونے اعتبار سے تقسیم کی ہیں، ان میں تقریبا ان احادیث میں سے آدھے کو ضعیف قرار دئے گئے ہیں۔ مثلاً، حاج احمد کتاب موسوعۃ الاحادیث القدسیۃ الصحیحۃ و الضعیفۃ میں ۳۳۵ احادیث کو صحیح اور حَسَن جبکہ ۵۸۵ احادیث کو ضعیف اور جعلی قرار دیتے ہیں۔

سند اور متن کے حوالے سے احادیث قدسی پر اعتراض کیا جاتا ہے خاص کر ان کی سند کے منقطع یا مرسل ہونے کے اعتبار سے۔ اسی بنا پر اسی بنا پر ماسینیون[52] اس طرح کے احادیث کو حقیقت میں صوفیوں کے شطحیات میں سے قرار دیتے ہیں، لیکن ان احادیث کے سند کا مرسل ہونا ان کے بے اعتمادی کی دلیل نہیں بلکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ نقل حدیث میں صوفیہ حدیث کی سند کو نقل پر زیادہ زور نہیں دیتے اور اس طرح کی بہت ساری احادیث حدیث کے ابتدائی منابع میں موجود ہیں جو ان کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔[53] احادیث قدسی پر اس اعتبار سے بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان میں سے بعد احادیث پیغمبر اکرمؐ سے اور بعض احادیث حدیث قدسی کے عنوان سے خدا سے نقل ہوئی ہیں۔[54] عہدین کی طرح احادیث قدسی کے مضامین پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔[55]

ظاہرا صوفیہ کی طرف سے احادیث قدسی کو ان کے مآخذ سے اخذ کرنے میں تساہل یا بعض کے بقول تورات سے استفادہ کرنا،[56] اس طرح کے اعتراضات کے لئے زمی­­نہ ہموار کی ہیں، حالانکہ ان میں سے بہت ساری احادیث اہل سنت اور شیعہ حدیث منابع کے ابتدائی نسخوں میں موجود ہیں یہاں تک کہ بعض احادیث کو ان دونوں فریقوں نے بطور مشترک نقل کی ہیں[57] اور ان میں سے بعض احادیث ان کے فقہی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہیں۔

تعداد

احادیث قدسی کی تعداد میں بھی مختلف اقوال ہیں۔ بعض منابع[58] میں ان کی تعداد ایک سو(100) اور بعض میں[59] دو سو(200) تک بیان کی گئی ہیں۔ یہ تعداد بعد والی مآخذ میں اضافہ ہوتا ہے مثلا حاج احمد کی کتاب موسوعۃ الاحادیث القدسیۃ: الصحیحۃ و الضعیفۃ میں ان کی تعداد صحیح اور ضعیف دونوں ملا کر 919 تک پہنچ گئی ہیں؛ البتہ اس بارے میں کوئی دقیق جستجو انجام نہیس پایا اور اس اختلاف کی مختلف وجوہات ہو سکتے ہیں من جملہ یہ کہ بعض نے ان میں سے بعض کو انتخاب کر کے ان کی تعداد بیان کی ہیں جبکہ بعض نے بعض دوسری ضمنی احادیث کو بھی حدیث قدسی شمار کی ہیں جبکہ بعض نے اس حوالے سے ان کو خدا کی طرف نسبت دینے میں صریح دلائل کے نہ ہونے کی وجہ سے اجتہاد سے کام لیا ہے۔

راوی

احادیث قدسی کو کسی صحابی سے سب سے زیادہ پیغمبر اکرمؐ سے نقل کی ہیں، اس بارے میں یقینی طور پر کجھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس حوالے سے مکمل جستجو انجام نہیں پایا ہے۔ لیکن عبدالسلام علّوش کی کتاب الجامع فی الاحادیث القدسیۃ کے مطابق ان احادیث کو سب سے زیادہ نقل کرنے والوں میں بالترتیب انس بن مالک، ابوہریرہ، ابن عباس اور حضرت علیؑ کا نام آتا ہے۔[60]

شیعہ حدیثی منابع میں احادیث قدسی عمدتاً ائمہؑ اہل بیتؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کی ہیں اور چہ بسا پیغمیر اکرمؐ کے واسطے کے بغیر قول خدا،[61] انبیای سلف[62] کو جبرئیل[63] کے توسط سے نقل کی ہیں۔ بعض احادیث قدسی خدا اور انبیاء میں سے کسی ایک کے ساتھ گفتگو پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں حضرت موسی اور حضرت داود سب سے زیادہ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔[64]

کتابیں

اہل سنت اور شیعہ جوامع احادیث میں تقریبا تمام اصلی منابع میں احادیث قدسی کا سراغ لگایا جا سکتا ہے،[65] لیکن اس کے باوجود بعد میں اس حوالے سے مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور اب بھی لکھی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سّ سے قدیمی کتاب المواعظ فی الاحادیث القدسیۃ ہے جو غزالی سے منسوب ہے۔[66] البتہ اس انتساب میں تردید کی جاتی ہے۔[67] اگر یہ تردید صحیح ہو تو ظاہر بن طاہر بن محمد نیشابوری کی کتاب الاحادیث الالہیۃ اس سلسلے میں سب سے قدیمی کتاب ہو گئی۔[68] اس سلسلے میں قلم فرسائی کرنے والے مشہور مؤلفین میں محیی الدین ابن عربی، ملاعلی قاری، محمد عبدالرؤوف مناوی اور محمد مدنی کا نام آتا ہے۔[69] شیعہ علماء میں سے سب سے اس سلسلے میں لکھی گئی سب سے قدیمی کتاب البلاغ المبین ہے جو سید خلف حویزی (متوفی ۱۰۷۴) سے منسوب ہے۔[70] البتہ اس مدعا کا اثبات بھی دشوار ہے۔[71] اس کے بعدشیخ حر عاملی کی کتاب الجواہر السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ کا نام آتا ہے۔[72]

موجودہ دور میں بھی احادیث قدسی کی جمع آوری اور تدوین میں بعض اہم آثار وجود میں آئی ہی من جملہ ان میں:

حوالہ جات

  1. جوہری؛ ابن فارس؛ ابن منظور، ذیل «قدس»
  2. کرمانی، ج ۹، ص۷۹؛ بلوشی، ص۷؛ طحان، ص۱۲۷؛
  3. کرمانی، ج۹، ص۷۹
  4. بلوشی، ص۵۴
  5. گراہام، ص۵۷
  6. تہانوی، ج۱، ص۶۳۰
  7. شرح فصوص الحکم، ص۳۷۲
  8. قسم ۱، ص۷۵، قسم ۲، ص۱۰۷، ۱۸۱
  9. کرمانی، ج۹، ص۷۹
  10. تعریفات، ص۱۱۳
  11. ج ۱۳، ص۴۰۹
  12. شیخ بہائی، الوجیزۃ، ص۴۱۴؛ تہانوی، ج۱، ص۶۲۹
  13. شیخ بہائی، الوجیزۃ، ص۴۱۴
  14. ص ۳۶ـ۳۸
  15. قاری، ص۳۱۳؛ ابوالبقاء، قسم ۴، ص۳۷ـ۳۸؛ تہانوی، ج۱، ص۶۲۹ـ ۶۳۰؛ قاسمی، ص۶۵؛ ابوشہبہ، ص۲۱۶ـ۲۱۷
  16. الوجیزه، ص۴۱۴
  17. مشرق الشمسین، ص۲۴
  18. ص ۲۹۱ـ ۲۹۴
  19. بلوشی، ص۳۹ـ۴۱
  20. حرّعاملی، ص۲۰۱ـ۳۱۵؛
  21. ہجویری، ص۲۹، ۱۵۵، ۴۰۷، ۴۴۶؛نجم رازی، ص۱۸۵
  22. الفتوحات المکیۃ، سفر۲، ص۱۸۶، سفر۶، ص۲۳۴، سفر۱۰، ص۱۵۱، سفر۸، ص۲۹۴
  23. مسلم بن حجاج، ج ۲، ص۹؛شہید ثانی، ج ۲، ص۷۵؛طباطبائی، ج ۱، ص۳۲۹؛شوکانی، ج ۴، ص۳۰۰
  24. شہید اول، قسم ۱، ص۷۵؛تہرانی، ج ۲، ص۱۴۰؛ یرزای قمی، ج ۱، ص۴۰۹
  25. علّوش، ص۶۲۴ـ۷۴۹، ۸۲۳ـ۸۷۹
  26. تهانوی، ج ۱، ص۶۲۹
  27. آقابزرگ طہرانی، ج ۱، ص۳۹۶ـ۳۹۸
  28. صالح، ص۱۲۴؛ابوشہبہ، ص۲۱۸
  29. جرجانی، ص۱۱۳؛قاری، ص۳۱۴؛ابوالبقاء، قسم ۴، ص۳۷؛قاسمی، ص۶۶ـ۶۷؛طحان، ص۱۲۷
  30. کرمانی، ج ۹، ص۷۹؛صالح، ص۱۲۲
  31. کرمانی، ج ۹، ص۷۹؛صالح، ص۱۲۲
  32. بلوشی، ص۱۳ـ۱۴
  33. ج ۱، ص۵۰
  34. تہانوی، ج ۱، ص۶۳۰؛مامقانی، ج۵،ص۴۶
  35. قاری، ص۳۱۳
  36. قاسمی، ص۶۶
  37. صالح، ص۱۲۲
  38. ابوشہبہ، ص۲۱۶
  39. تھانوی، ج ۱، ص۶۳۰
  40. طحان، ص۱۲۸
  41. د. اسلام، چاپ دوم، ذیل مادّه
  42. مشکاۃ الانوار،ص ۴
  43. ص ۳۰ـ۳۱
  44. آقابزرگ طہرانی، ج ۱، ص۲۷۸ـ۲۷۹
  45. ترمذی، ج ۵، ص۲۴۹؛کلینی، ج ۵، ص۵۵۴؛حاکم نیشابوری، ج ۲، ص۴۱۴
  46. حاکم نیشابوری، ج ۲، ص۶۱۴
  47. شیخ بہائی، الوجیزۃ، ص۴۱۴؛قاسمی، ص۶۴؛صالح، ص۱۲۲ـ۱۲۳
  48. طحان، ص۱۲۶ـ۱۲۷
  49. ابوشہبہ، ص۲۱۵
  50. عجلونی، ج ۲، ص۱۳۲؛حاج احمد، ص۴۵۲
  51. عجلونی، ج ۲، ص۱۶۴
  52. د. اسلام، چاپ اول، ذیل "Shath"
  53. گراہام، ص۷۰؛د. اسلام، چاپ دوم، ذیل "Shath
  54. گراہام، ص۸۸ـ۹۱
  55. گراہام، ص۵۲؛د.اسلام، چاپ دوم، ذیل مادّه
  56. ابن عربی، مشکاۃ الانوار، ص۳۰ـ۳۱
  57. حسینی امینی، ص۱۳ـ۲۷۶
  58. قاسمی، ص۶۴؛بلوشی، ص۴۷
  59. طحان، ص۱۲۷
  60. علّوش، ص۱۷ـ ۷۷، ۱۲۲ـ۱۵۷، ۱۸۷ـ۲۰۱، ۲۹۲ـ۳۵۸
  61. کلینی، ج ۲، ص۷۲
  62. کلینی، ج ۲، ص۴۹۷ـ۴۹۸
  63. کلینی، ج ۱، ص۱۰، ج ۲، ص۵۴۹
  64. حرّعاملی، ص۳۱ـ۸۱، ۹۶؛علّوش، ص۵۵۴ـ ۵۹۹، ۶۱۱
  65. بخاری، ج ۸، ص۱۹۵، ۲۰۰، ۲۰۵؛کلینی، ج ۲، ص۷۲
  66. مرعشلی، ج ۱، ص۱۹۲
  67. غزالی، مقدمہ عبدالحمید صالح حمدان، ص۵ـ۷
  68. بلوشی، ص۵۳
  69. مرعشلی، ج۱، ص۱۹۲ـ۱۹۵؛بلوشی، ص۵۳ـ۶۰، ۶۷ـ ۷۴
  70. آقابزرگ طہرانی، ج ۳، ص۱۴۱، ج ۵، ص۲۷۱
  71. مامقانی، ج ۵، ص۴۸
  72. آقابزرگ طہرانی، ج ۵، ص۲۷۱
  73. دمشق ۱۴۲۴/۲۰۰۴
  74. بیروت ۱۴۲۲/ ۲۰۰۱
  75. تہران ۱۴۲۵/۲۰۰۴

مآخذ

  • آقابزرگ طہرانی۔
  • ابن حجر عسقلانی، فتح الباری: شرح صحیح البخاری، بولاق ۱۳۰۰ـ۱۳۰۱، چاپ افست بیروت، بی‌تا۔
  • ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، چاپ عثمان یحیی، قاہرہ، سفر۲، ۱۴۰۵/۱۹۸۵، سفر۶، ۱۳۹۸/۱۹۷۸، سفر۸، ۱۴۰۳/۱۹۸۳، سفر۱۰، ۱۴۰۶/۱۹۸۶، سفر۱۱، ۱۴۰۷/۱۹۸۷، سفر۱۳، ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
  • ہمو، مشکاۃالانوار فیما روی عن اللّہ سبحانہ من الاخبار، چاپ ابوبکر مخیون، قاہرہ ۱۴۲۰/۱۹۹۹۔
  • ابن فارس۔
  • ابن منظور۔
  • ایوب بن موسی ابوالبقاء، الکلیات: معجم فی المصطلحات و الفروق اللغویۃ، چاپ عدنان درویش و محمد مصری، دمشق ۱۳۹۴ـ۱۳۹۷/ ۱۹۷۴ـ۱۹۷۶۔
  • محمد ابوشہبہ، الوسیط فی علوم و مصطلح الحدیث، قاہرہ، ۱۴۰۳/ ۱۹۸۲۔
  • محمدبن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، (چاپ محمد ذہنی افندی)، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
  • عبدالغفور عبدالحق بلوشی، الاحادیث القدسیۃ فی دائرۃ الجرح و التعدیل و مصادرہا و ادوار تدوینہا، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴۔
  • محمدبن عیسی ترمذی، الجامع الصحیح، چاپ عبدالوہاب عبداللطیف، بیروت ۱۴۰۳۔
  • محمداعلی بن علی تہانوی، موسوعۃ کشّاف اصطلاحات الفنون و العلوم، چاپ رفیق العجم و علی دحروج، بیروت ۱۹۹۶۔
  • ابوالقاسم بن محمد علی تہرانی، مطارح الانظار، تقریرات درس شیخ انصاری، ج۲، چاپ سنگی تہران ۱۳۰۸، چاپ افست قم ۱۴۰۴۔
  • علی بن محمد جرجانی، کتاب التعریفات، چاپ ابراہیم ابیاری، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵۔
  • اسماعیل بن حماد جوہری، الصحاح: تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، چاپ احمد عبدالغفور عطار، قاہرہ ۱۳۷۶، چاپ افست بیروت ۱۴۰۷۔
  • یوسف حاج احمد، موسوعۃ الاحادیث القدسیۃ: الصحیحۃ و الضعیفۃ، دمشق ۱۴۲۴/۲۰۰۴۔
  • محمدبن عبداللّہ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، چاپ یوسف عبدالرحمان مرعشلی، بیروت ۱۴۰۶۔
  • محمدبن حسن حرّعاملی، الجواہر السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ، (بغداد ۱۳۸۴)، چاپ افست قم، بی‌تا۔
  • محسن حسینی امینی، الاحادیث القدسیۃ المشترکۃ بین السنۃ و الشیعۃ، تہران ۱۴۲۵/۲۰۰۴۔
  • محمد شوکانی، نیل الاوطار من احادیث سیدالاخیار: شرح منتقی الاخبار، بیروت ۱۹۷۳۔
  • محمدبن مکی شہید اول، القواعد و الفوائد: فی الفقہ و الاصول و العربیۃ، چاپ عبدالہادی حکیم، (نجف ۱۳۹۹/ ۱۹۷۹)، چاپ افست قم، بی‌تا۔
  • زین الدین بن علی شہیدثانی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹۔
  • محمدبن حسین شیخ بہائی، مشرق الشمسین و اکسیر السعادتین، مع تعلیقات محمداسماعیل بن حسین مازندرانی خواجوئی، چاپ مہدی رجایی، مشہد ۱۳۷۲ش۔
  • ہمو، الوجیزۃ فی الدرایۃ، چاپ ماجد غرباوی، در تراثنا، سال ۸،ش ۳و۴ (رجب ـ ذی الحجہ ۱۴۱۳)۔
  • صبحی صالح، علوم الحدیث و مصطلحہ، بیروت ۱۳۸۸/۱۹۶۹۔
  • علی بن محمدعلی طباطبائی، ریاض المسائل فی بیان الاحکام بالدلائل، چاپ سنگی تہران ۱۲۸۸ـ۱۲۹۲، چاپ افست قم ۱۴۰۴۔
  • محمود طحان، تیسیر مصطلح الحدیث، کویت ۱۴۰۴/۱۹۸۴۔
  • عزیۃ علی طہ، «صور من افتراءات المستشرق جراہام علی الاحادیث القدسیۃ»، مجلۃ الشریعۃ و الدراسات الاسلامیۃ،ش ۲۱ (جمادی الآخرہ ۱۴۱۴)۔
  • اسماعیل بن محمد عجلونی، کشف الخفاء و مزیل الالباس، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
  • عبدالسلام علّوش، کتاب الجامع فی الاحادیث القدسیۃ، بیروت ۱۴۲۲/۲۰۰۱۔
  • محمدبن محمد غزالی، کتاب المواعظ فی الاحادیث القدسیۃ، چاپ عبدالحمید صالح حمدان، قاہرہ ۱۴۱۳/۱۹۹۳۔
  • علی بن سلطان محمدقاری، معجم الاحادیث القدسیۃ الصحیحۃ و معہاالاربعون القدسیۃ، چاپ کمال بسیونی مصری، بیروت ۱۴۱۳/۱۹۹۳۔
  • محمدجمال الدین قاسمی، قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث، چاپ محمد بہجۃ بیطار، بیروت ۱۴۲۲۔
  • داوودبن محمود قیصری، شرح فصوص الحکم، چاپ جلال الدین آشتیانی، تہران ۱۳۷۵ش۔
  • محمدبن یوسف کرمانی، صحیح ابی عبداللّہ البخاری بشرح الکرمانی، بیروت ۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
  • محمدرضا مامقانی، مستدرکات مقباس الہدایۃ فی علم الدرایۃ، در عبداللّہ مامقانی، مقباس الہدایۃ فی علم الدرایۃ، ج۵ـ۶، قم ۱۴۱۳۔
  • یوسف مرعشلی، مصادر الدراسات الاسلامیۃ و نظام المکتبات و المعلومات، ج۱، بیروت ۱۴۲۷/۲۰۰۶؛
  • مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح، بیروت: دارالفکر، بی‌تا۔
  • احمدبن محمد میبدی، کشف الاسرار و عدۃالابرار، چاپ علی اصغر حکمت، تہران ۱۳۶۱ش۔
  • محمدباقربن محمد میرداماد، الرواشح السماویۃ، چاپ غلامحسین قیصریہ‌ہا و نعمت اللہ جلیلی، قم ۱۳۸۰ش۔
  • ابوالقاسم بن محمدحسن میرزای قمی، قوانین الاصول، چاپ سنگی تہران ۱۳۰۸ـ۱۳۰۹، چاپ افست ۱۳۷۸۔
  • عبداللّہ بن محمد نجم رازی، مرصادالعباد، چاپ محمدامین ریاحی، تہران ۱۳۶۵ش۔
  • علی بن عثمان ہجویری، کشف المحجوب، چاپ محمود عابدی، تہران ۱۳۸۳ش۔
  • EI1, s۔v۔ "Shath" (by L۔ Massignon) ;
  • EI2, s۔vv۔ "Hadith Kudsi" (by J۔ Robson) , "Shath" (by C۔ Ernst) ;
  • William A۔ Graham, Divine word and prophetic word in early Islam: a reconsideration of the sources, with special reference to the divine saying or hadith qudsi, The Hague 1977۔