قتل عثمان کا واقعہ

ویکی شیعہ سے
(قتل عثمان سے رجوع مکرر)
عثمان بن عفان کے خلاف بغاوت
تاریخسنہ 35 ھ
مقاممدینہ
علل و اسبابخلیفہ سوم سے لوگوں کی ناراضگی
نتیجہعثمان کا قتل
فریق 1مصر، کوفہ، بصرہ اور ... کے باغی
فریق 2عثمان کے حامی


قتل عثمان کا واقعہ، 35ھ کو عثمان بن عفان کے خلاف لوگوں کی بغاوت اور عثمان کے قتل کی طرف اشارہ ہے۔یہ بغاوت عمرو بن عاص کو مصر کی گورنری سے معزول کر کے عبداللہ بن ابی‌ سرح کو گورنر مقرر کرنے کے خلاف اہل مصر کی جانب سے شروع ہوئی۔ البتہ خلیفہ سوم کی جانب سے اہم حکومتی عہدوں پر اپنے رشتہ داروں کو براجمان کرنے اور بیت المال کا بڑا حصہ اپنے اموی رشتہ داروں کو عطا کرنے کی وجہ سے عوام اور پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ کی ناراضگی کا باعث بنا تھا۔

مصری مظاہرین احتجاج کیلئے مدینہ گئے مگر امام علیؑ کی وساطت اور عثمان کی جانب سے امور کی اصلاح کے عہد و پیمان کے بعد واپس روانہ ہو گئے مگر راستے میں انہیں مصری حاکم کے نام عثمان کا نامہ مل گیا کہ جس میں انہیں قتل اور قید کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ لہٰذا وہ مدینہ واپس آ گئے اور عثمان کی خلافت سے معزولی کا مطالبہ کر دیا۔ مگر عثمان نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور چالیس دن تک محاصرہ جاری رکھنے کے بعد انہیں قتل کر دیا۔ پھر انہیں بقیع کے قبرستان میں بھی دفن ہونے نہیں دیا۔

امام علیؑ عثمان کو خطاکار سمجھتے تھے مگر اسے قتل کرنے کے موافق نہیں تھے۔ لہٰذا امام حسنؑ اور زبیر جیسے افراد کو عثمان کے گھر کی حفاظت پر مأمور فرمایا تھا۔

عثمان کے قتل سے مسلمانوں کے درمیان داخلی جنگوں کا آغاز ہو گیا۔ منجملہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے مابین جنگ کی چنگاری دوبارہ شعلہ ور ہو گئی اور عائشہ، طلحہ اور زبیر نے عثمان کی خون خواہی کے نام پر جنگ جَمَل کا آغاز کر دیا۔ لہٰذا اس واقعے کو عالم اسلام میں فتنوں کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔

تاریخ اسلام میں اس واقعے کی اہمیت

قتل عثمان کے واقعے کو پیغمبر اکرمؐ کے بعد تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیا گیا ہے۔ بعض محققین کے بقول اس واقعے کے بعد تاریخِ اسلام ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔[1] نیز قتلِ عثمان کے مختلف نتائج برآمد ہوئے جو بعد کے سانحات کی تشکیل میں بھی مؤثر تھے۔ اہل سنت مورّخ ابن‌ حَجَر عسقلانی (متوفّی 852ھ) نے قتلِ عثمان کو عالم اسلام میں فتنوں کی بنیاد قرار دیا ہے۔[2]عثمان کے قتل سے عثمانی فرقہ وجود میں آیا[3] اور شیعوں کے ساتھ سیاسی، نظامی اور علمی اختلافات کا باعث بنا۔[4]

واقعے کی تفصیل

مآخذ کی رو سے مصر کی گورنری سے عمرو بن عاص کی معزولی اور اس کی جگہ عبداللہ بن ابی‌ سرح کی تقرری کے بعد لگ بھگ چھ سو مصری احتجاج کی غرض سے مدینہ آگئے اور یہ عثمان کے خلاف بغاوت کا آغاز تھا۔[5] بعض مورخین نے بیت المال کی تقسیم میں خلیفہ کی اقربا پروری کو اس کے خلاف بغاوت کا سبب قرار دیا ہے۔[6] مظاہرین نے مدینہ روانگی کے بعد خطوط ارسال کر کے مزید لوگوں کو بھی مدینہ بلا لیا۔[7]

مظاہرین کی مدینہ آمد اور عثمان کی توبہ

جب مخالفین مدینہ کے نزدیک پہنچ گئے تو عثمان نے امام علیؑ کو واسطہ بنایا تاکہ انہیں مصر واپس بھیج دیں[8] تاریخی مآخذ کے مطابق عثمان نے مظاہرین سے جلا وطن افراد کو واپس لانے، بیت المال کی تقسیم میں عدالت کی رعایت کرنے اور امین و باصلاحیت اشخاص کو حکومتی عہدے دینے کا وعدہ کیا تھا۔[9] اس کے ساتھ ساتھ عثمان منبر پر گئے اور اپنے اعمال پر توبہ و استغفار کیا اور لوگوں کو اپنے قول پر گواہ بنایا۔[10] اس کے بعد مظاہرین نے واپس اپنے شہروں کی راہ لی۔[11]

مظاہرین کی مدینہ واپسی

مظاہرین نے مدینہ سے واپسی کے دوران راستے میں خلیفہ کے غلام کو دیکھا جس نے ایک خط چھپا رکھا تھا۔[12] اس خط پر خلیفہ کی مہر تھی اور اس میں مظاہرین کے قتل اور انہیں زندان میں ڈالنے کا حکم دیا گیا تھا۔ مظاہرین خط کے ہمراہ واپس مدینہ آ گئے[13] اور خبر ملنے پر کوفی بھی مدینہ واپس آ گئے۔[14] مظاہرین امام علیؑ کے پاس گئے اور آپؑ کے ہمراہ عثمان کے پاس گئے۔ عثمان نے قسم اٹھائی کہ نہ میں نے خط لکھا ہے اور نہ مجھے اس کی خبر ہے۔[15] مگر مظاہرین مطمئن نہیں ہوئے اور کہنے لگے کہ عثمان کو خلافت سے دستبردار ہونا ہوگا[16] عثمان نے ان کی بات کو قبول نہیں کیا اور پھر کہا کہ توبہ کیلئے حاضر ہے۔ مظاہرین نے پہلی توبہ اور اس کو توڑنے کا حوالہ دے کر کہا کہ ہم عثمان کی معزولی سے کم پر راضی نہیں ہوں گے اور اس راہ میں قتل ہو جائیں گے یا عثمان کو قتل کر دیں گے۔[17]

عثمان کے گھر کا محاصرہ

مظاہرین نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور گھر کے اندر پانی اور غذا لے جانے پر پابندی عائد کر دی۔[18] محاصرہ کرنے والوں میں مصر، بصرہ اور کوفہ کے لوگوں کے علاوہ کچھ اہل مدینہ بھی شامل تھے۔[19] عثمان کے گھر کا محاصرہ چالیس دن تک جاری رہا[20] اس دوران عثمان نے معاویہ اور ابن‌ عامر کو خطوط لکھ کر امداد کی درخواست کی۔[21] اسی طرح امام علیؑ اور امام حسنؑ سمیت عبد اللہ بن زبیر اور مروان بن حکم جیسے افراد عثمان کے گھر کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔[22]

عثمان نے امام علیؑ ، طلحہ، زبیر اور ازواج پیغمبرؐ سے درخواست کی کہ انہیں پانی پہنچایا جائے۔[23] امام علیؑ اور زوجہ رسول ام حبیبہ وہ پہلے افراد تھے کہ جنہوں نے عثمان تک پانی پہنچانے کی کوشش کی، مگر مظاہرین نے راستہ روک دیا۔[24] امام علیؑ نے پانی اور غذا روکنے پر مظاہرین کی مذمت کی اور ان کے اس طرز عمل کے بارے میں کہا کہ یہ کام مومنین کا نہیں ہے بلکہ کافروں جیسا بھی نہیں ہےاور فرمایا کہ کس دلیل کے تحت تم اس کے محاصرے اور قتل کو جائز سمجھ رہے ہو؟![25] البتہ بعض گروہوں نے مخفیانہ طور پر خلیفہ تک پانی پہنچا دیا۔[26]

عثمان کا قتل و دفن

قتلِ عثمان کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں۔[27] بعض روایات کے مطابق پہلے گروہ نے گھر پر حملہ کیا مگر گھر والوں نے انہیں نکال باہر کیا۔ جب دوبارہ حملہ کیا گیا تو اس دوران عثمان قتل ہو گئے[28] اور ان کی زوجہ نائلہ کی انگلیاں کٹ گئیں۔[29]

عثمان کا قتل 18 ذی الحجہ بمطابق سنہ 35 ہجری کو وقوع پذیر ہوا۔[30] قتلِ عثمان کا دن تاریخ میں «واقعہ یوم الدّار» کے نام سے بھی مشہور ہے۔[31] طبری کی نقل کردہ ایک روایت کے مطابق عثمان کا جنازہ تین دن تک پڑا رہا۔ اس کے بعد چند افراد انہیں بقیع کی طرف لے گئے، تاہم کچھ لوگوں نے انہیں بقیع میں دفن نہیں ہونے دیا، لہٰذا انہیں حُشّ کَوکَب (یہودیوں کے قبرستان) میں دفن کیا گیا اور بعد میں معاویہ نے اس جگہ کو بھی بقیع میں شامل کر دیا۔[32]

ناراضگی اور بغاوت کے اسباب

بعض مورخین کا خیال ہے کہ عثمان کے خلاف ناراضگی اور بغاوت اچانک نہیں ہوئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف عوامل سبب بنے کہ یہ اختلافات پیدا ہوں،[33] ان میں سے زیادہ تر عوامل خلیفہ کی کارکردگی سے مربوط تھے ۔[34] منجملہ:

بنو امیہ کی کلیدی عہدوں پر تقرری

تاریخ کے محقق رسول جعفریان (متولد 1343 شمسی) کے بقول عثمان نے اہم حکومتی عہدے بنی امیہ کے سپرد کر دیئے اور عملی طور پر ساری طاقت پر وہ قابض ہو گئے۔[35] کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ کی اہم عہدوں پر تقرری کے حوالے سے عثمان کا طریقہ کار ایسا تھا کہ اسے اموی حکومت کی تشکیل کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔[36] تاریخی مصادر نے عثمان کے بعض رشتہ داروں کے حکومتی عہدوں کو اس ترتیب سے شمار کیا ہے:

نام عثمان کے ساتھ نَسَب اور نسبت عہدہ
ولید بن عقبہ عثمان کا مادری بھائی حاکمِ کوفہ[37]
عبد اللہ بن عامر عثمان کا ماموں زاد حاکمِ بصرہ[37]
عبد اللہ بن ابی‌ سرح عثمان کا رضاعی بھائی حاکمِ مصر[37]
معاویہ بن ابو سفیان بنی‌ امیہ حاکمِ شام[38]
مروان بن حکم چچا زاد اور داماد کاتب[38]
سعید بن عاص بنی‌ امیہ حاکمِ کوفہ[39]

اہم عہدوں پر عثمان کے رشتہ داروں کی تقرری اور اسی طرح ان کا طرز حکومت بہت سے مسلمانوں کے احتجاج کا باعث بنا؛ [40] حالانکہ عبد اللہ بن عامر پہلے مرتد ہو چکا تھا،[41] ولید بن عقبہ کو قرآن نے فاسق کا خطاب دیا تھا[42] اور مروان بن حکم کو اس کے باپ سمیت پیغمبرؐ نے مدینہ سے نکال دیا تھا مگر عثمان انہیں مدینہ واپس لے آیا،[43]

تیسرے (عثمان) کو حکومت مل گئی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان بھی کھڑے ہوئے جو مال خدا کو اس طرح ہضم کر رہے تھے، جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا۔

صبحی صالح، نہج البلاغۃ، خطبہ3

بیت ‌المال سے نوازشات

عثمان، خلافت کے بعد بہت دولت مند ہو چکے تھے۔[44] عثمان کا اہم ترین مسئلہ بیت المال سے نوازشات کو قرار دیا گیا ہے۔[45] انہوں نے بنو امیہ کو بہت زیادہ مال و اسباب عطا کیا۔[46] مثال کے طور پر انہوں نے افریقہ کا خمس مروان بن حکم [47] اور بعد میں عبد اللہ بن‌ابی ‌سرح کو دے دیا۔[48] اسی طرح بہت سا مال و اسباب حارث بن حکم،[49] حکم بن ابی‌ العاص،[50] عبداللہ بن خالد بن اسید اور ... کو بخش دیا۔[51] بیت المال کا یوں بے دریغ منہ کھول کر انہوں نے گزشتہ خلفا کی سنت کو بھی توڑا [51] اور اس کا معاشرے پر بھی منفی اثر مرتب ہوا کہ جس کی وجہ سے بہت سے لوگ خلیفہ سے بدگمان ہو گئے۔[52]

عبد اللہ بن سبا

بعض اہل سنت مورخین کے مطابق عثمان کے خلاف بغاوت میں عبداللہ بن سبأ نے پراپیگنڈہ کر کے بنیادی کردار ادا کیا۔[53] اس کے مقابلے میں شیعہ [54] اور اہل ‌سنت[55] محققین کی ایک جماعت نے عبد اللہ بن سبا نامی کسی شخص کے وجود کو جعلی قرار دیا ہے۔ نیز رسول جعفریان کے بقول اسلامی معاشرہ اس قدر کمزور نہیں تھا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کے خلاف ایک نو مسلم یہودی کے ورغلانے پر یوں کھڑا ہو جاتا۔[56]

امام علیؑ اور صحابہ کا کردار

اہل سنت محقق طہ حسین (متوفّی 1973ء) کے نزدیک مہاجر و انصار صحابہ میں سے کسی نے بھی عثمان کے قتل میں کوئی کردار ادا نہیں کیا؛ ان میں سے بعض عثمان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کے مخالف تھے مگر مجبورا خاموش رہے، بعض نے مداخلت ہی نہیں کی اور مدینہ چھوڑ گئے ۔[57] اسی طرح ان کا خیال ہے کہ قتلِ عثمان کے حوالے سے صحابہ کے کردار سے متعلق جو کچھ مصادر میں نقل ہوا ہے، ضعیف ہے۔[58] اس قسم کے تجزیہ و تحلیل کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہیں اور عثمان کے قتل میں ان کا کردار، اس عقیدے سے منافات رکھتا ہے۔[59] اس کے باوجود بعض صحابہ عثمان کے خلاف بغاوت میں سرفہرست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاشم بن عتبہ نے صحابہ اور ان کی اولاد کو عثمان کا قاتل قرار دیا ہے۔[60] اسی طرح عثمان کی زوجہ نے قتلِ عثمان کے بعد معاویہ کے نام خط لکھا اور اس میں اہل مدینہ کو عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔[61]

امام علیؑ

امام علیؑ نے اگرچہ عثمان کو «حَمَّالُ الْخَطَایا؛ بہت زیادہ خطاکار » کہا[62] لیکن اس کے باوجود آپؑ اس کو قتل کرنے کے حق میں نہیں تھے[63] بلکہ قتلِ عثمان کی مخالفت بھی کرتے رہے اور خود کو اس کے خون کی نسبت سب سے زیادہ بے گناہ قرار دیا۔[64] اسی طرح امام علیؑ نے بلوائیوں کو بھی نصیحت کی اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی۔[65]

عثمان کے گھر کا محاصرہ ہونے کے بعد بعض افراد نے امام علیؑ کو تجویز دی کہ مدینہ سے باہر چلے جائیں تاکہ اگر عثمان قتل ہو جائے تو آپ شہر میں موجود نہ ہوں۔ امام علیؑ نے ان کی تجویز کو قبول نہیں کیا۔[66]

طلحہ

مصری مؤرخ طہ حسین (متوفّی 1973 ء)، طلحہ کو ان افراد میں سے قرار دیتے ہیں جو بلوائیوں کی طرف اپنی رغبت کو مخفی نہیں کرتے تھے بلکہ انہوں نے ایک باغی گروہ کو مال بھی دیا تھا۔ ۔[57] البتہ بعض روایات کے مطابق طلحہ کی عثمان کے گھر پانی اور غذا لے جانے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا گیا۔[67]

معاویہ

عثمان نے محاصرے کے وقت معاویہ کو خط لکھا اور اس سے مدد مانگی۔ معاویہ نے بھی بارہ ہزار افراد پر مشتمل لشکر روانہ کر دیا۔ مگر انہیں حکم دیا کہ اگلا حکم ملنے تک شام کی سرحد پر انتظار کریں ۔[68] اس سپاہ نے مدینہ پہنچ کر خلیفہ کی مدد کرنے میں کوتاہی کی۔ جب شام کا قاصد عثمان کے پاس اس کی خبرگیری کیلئے آیا تو عثمان نے کہا کہ تم میرے قتل کے منتظر ہو تاکہ خود کو میرے خون کا ولی قرار دو ۔[68]

امام علیؑ معاویہ کو قتلِ عثمان میں مقصر سمجھتے تھے۔ جب معاویہ نے آپؑ پر قتلِ عثمان کی تہمت لگائی تو آپؑ نے محاصرے کے دوران عثمان کی مدد نہ کرنے پر معاویہ کی کوتاہی کا تذکرہ کیا۔[69]

بتاؤ کہ ہم دونوں میں ان کے ساتھ زیادہ دشمنی کرنے والا اور ان کے قتل کا سر و سامان کرنے والا کون تھا وہ کہ جس نے اپنی امداد کی پیش کش کی اور انہوں نے اسے بٹھا دیا اور روک دیا یا وہ کہ جس سے انہوں نے مدد چاہی اور وہ ٹال گیا اور ان کے مقدر کی موت نے انہیں آ گھیرا۔

صبحی صالح، نہج‌ البلاغۃ، نامہ 28

بعض دوسرے صحابہ نے بھی معاویہ کو مخاطب کر کے اسے قتلِ عثمان کے معاملے میں قصور وار قرار دیا کیونکہ اس نے ان کی حمایت میں کوتاہی کی اور ان کے قتل کا منتظر رہا۔[70]

عائشہ

محمد بن جریر طبری، کی روایت کے مطابق عائشہ نے عثمان کے بارے میں کہا تھا: «اُقْتُلُوا نَعْثَلا [یادداشت 1] فَقَدْ کفَر؛ عثمان کو مار ڈالو کہ وہ کافر ہو چکا ہے »۔[71]

بلوائیوں کی مدینہ موجودگی کے دوران مروان بن حکم نے عائشہ سے درخواست کی کہ خلیفہ اور بلوائیوں میں صلح کروا دے۔ عائشہ نے سفر حج کا عذر پیش کیا اور کہا: میں چاہتی تھی کہ عثمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے دریا بُرد کر دوں۔[72] عائشہ نے عثمان کی موت کے بعد اپنا موقف تبدیل کر لیا اور اس کی خوان خواہی کا دعویٰ کرنے لگیں۔[73] سعد بن ابی‌ وقاص کے ابن‌ عاص کے نام خط میں لکھا تھا: عثمان اس شمشیر سے قتل ہوا کہ جسے عائشہ نے نیام سے نکالا اور طلحہ نے صیقل کیا۔[74] اس کے باوجود عائشہ قتلِ عثمان اور لوگوں کی علیؑ کے ساتھ بیعت کے بعد دوبارہ مکہ چلی گئیں اور لوگوں کے سامنے اپنے خطاب میں امام علیؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؑ کو قتلِ عثمان کا ذمہ دار ٹھہرایا۔[75] موقف یوں بدل لینے پر زوجہ رسول ام سلمہ نے اس کی مذمت کی کہ تم لوگوں کو عثمان کے قتل پر اکساتی رہی اور آج ایسا کہہ رہی ہو۔[76] عائشہ نے جواب میں کہا: جو کچھ اب کہہ رہی ہوں، اس سے بہتر ہے جو اس وقت کہہ رہی تھی۔[77]

نتائج

قتلِ عثمان سے کچھ نتائج برآمد ہوئے کہ جن میں سے بعض یہ ہیں:

  • امام علیؑ کی خلافت کے دوران جنگوں کا بہانہ بنا: مورخین کے بقول جنگ جمل عائشہ، طلحہ و زبیر کی طرف سے عثمان کی خون خواہی کے بہانے شروع کی گئی۔[78] البتہ امام علیؑ نے ایک خط کے ذریعے قتلِ عثمان میں اپنے کسی بھی قسم کے کردار کی نفی اور عثمان کی خون خواہی کے دعوے کی بابت ان لوگوں کے حق پر نہ ہونے کی تصریح فرمائی ۔[79] امام علیؑ نے طلحہ و زبیر کے بارے میں بھی یہی فرمایا: یہ وہ حق طلب کر رہے ہیں، جسے انہوں نے خود ترک کیا اور ایسے خون (عثمان کے خون) کے انتقام کا بہانہ کر رہے ہیں کہ جسے انہوں نے خود بہایا ہے۔[80]
  • بنو امیہ اور بنو ہاشم کے مابین اختلافات کا شعلہ ور ہونا: بنو امیہ نے قتلِ عثمان کو عربوں میں اپنی برتری اور طاقت کے احیا کا وسیلہ قرار دیا۔[81] وہ خود کو عثمان کا خون خواہ اور علیؑ کو اس کے قتل کا قصور وار کہنے لگے[82] رسول جعفریان کے بقول عثمان کی موت کا نفع سب سے زیادہ معاویہ کو ہوا۔[83] وہ قتلِ عثمان کے بعد منبر پر گیا اور خود کو عثمان کا خون خواہ قرار دیا[84]اور عثمان کی زوجہ نائلہ کی کٹی ہوئی انگلیاں کرتہ عثمان کے ہمراہ اہل شام کو بھڑکانے کیلئے اس کی ممد و معاون ثابت ہوئیں۔[85]
  • ناصبیت کی بنیاد: کہا جاتا ہے کہ ناصبیت کا آغاز قتلِ عثمان سے ہوا اور امویوں کی حکومت میں اس کو باقاعدہ شناخت مل گئی۔[86]

نوٹ

  1. نعثل ایک لمبی داڑھی والے یہودی کا نام تھا کہ جس سے عثمان کو تشبیہہ دی اور یہ بعد میں عثمان کا لقب ہو گیا۔ (ابن‌ قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص62.)

حوالہ جات

  1. الغبان، فتنۃ مقتل عثمان بن عفان، 1419ھ، ج1، ص238۔
  2. ابن‌ حجر، الاصابۃ، 1415ھ، ج4، ص379۔
  3. ناشئ الاکبر، مسائل الامامۃ، 1971ھ، ص15-16۔
  4. مروجی طبسی، «تأثیر تفکر عثمانیہ بر ابن‌تیمیہ در تقابل با روایان فضایل اہل‌بیت(ع)»، ص134۔
  5. ابن‌ کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص170۔
  6. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص167۔
  7. ابن‌ خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص594۔
  8. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص170- 171۔
  9. شیخ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص713؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص443؛ خلیفۃ، تاریخ خلیفۃ، 1415ھ، ص99۔
  10. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص171-172۔
  11. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص170- 171۔
  12. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص168۔
  13. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص442-443۔
  14. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص599۔
  15. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص442-443۔
  16. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص599۔
  17. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص169۔
  18. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص172۔
  19. ابن‌اثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج3، ص490۔
  20. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص172۔
  21. ابن‌ اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص170۔
  22. ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1046۔
  23. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص173۔
  24. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص386۔
  25. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص386۔
  26. ابن‌ اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص174۔
  27. غریب، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، ص149۔
  28. ابن‌اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص426۔
  29. ابن‌الطقطقی، الفخری، 1418ھ، ص104۔
  30. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص22۔
  31. ابن‌ الطقطقی، الفخری، 1418ھ، ص104
  32. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص412۔
  33. غریب، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، ص103۔
  34. الشیخ، «اسباب الفتنۃ فی عہد عثمان»، ص455۔
  35. جعفریان، تاریخ خلفا، 1380ش، ص144۔
  36. بختیاری، «ساختار سیاسی حکومت عثمان»، ص65۔
  37. 37.0 37.1 37.2 دینوری، الاخبار الطوال، 1368ش، ص139۔
  38. 38.0 38.1 خلیفۃ، تاریخ خلیفۃ، 1415ھ، ص106۔
  39. ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج2، ص622۔
  40. غریب، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، ص105۔
  41. غریب، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، ص106۔
  42. ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج 4، ص1553۔
  43. ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص359۔
  44. الشیخ، «اسباب الفتنۃ فی عہد عثمان»، ص455۔
  45. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص173۔
  46. ابن‌ کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص171۔
  47. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج5، ص580۔
  48. غریب، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، ص156۔
  49. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج5، ص541۔
  50. مقدسی، البدء و التاریخ، بورسعید، ج5، ص200۔
  51. 51.0 51.1 ابن‌الطقطقی، الفخری، 1418ھ، ص102-103۔
  52. الشیخ، «اسباب الفتنۃ فی عہد عثمان»، ص455۔
  53. ابن‌ کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص167؛ ابن‌ خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص587۔
  54. ملاحظہ کیجئے: عسگری، عبداللہ بن سبا و اساطیر اخری، 1375ق۔
  55. طہ حسین، الفتنۃ الکبری،2012م، ج2، ص102۔
  56. جعفریان، تاریخ خلفا، 1380ش، ص156۔
  57. 57.0 57.1 حسین، «علی اور قتل عثمان کا بڑا فتنہ»، ص45۔
  58. الغبان، فتنۃ مقتل عثمان بن عفان، 1419ھ، ج1، ص237۔
  59. الغبان، فتنۃ مقتل عثمان بن عفان، 1419ھ، ج1، ص116۔
  60. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص43۔
  61. ابن‌ جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج5، ص61۔
  62. ثقفی، الغارات، 1395ھ، ج1، ص26۔
  63. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص202۔
  64. نہج‌ البلاغۃ، صبحی صالح، نامہ 6۔
  65. مثال کے طور پر ملاحظہ کیجئے: ابن‌ اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص173۔
  66. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج31، ص487؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج5، ص568۔
  67. ابن‌ بقتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص57۔
  68. 68.0 68.1 یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص175۔
  69. نہج‌ البلاغۃ، صبحی صالح، نامہ 28۔
  70. ملاحظہ کیجئے: جعفریان، تاریخ خلفا، 1380ش، ص174-175۔
  71. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص459۔
  72. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص175۔
  73. ابن‌ خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، 1408ھ، ج‏،2 ص607۔
  74. عبدالمقصود، الامام علی بن ابی‌ طالب، مکتبۃ العرفان، ج2، ص236۔
  75. عبدالمقصود، الامام علی بن ابی‌ طالب، مکتبۃ العرفان، ج2، ص267۔
  76. ابن‌ اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج2، ص437۔
  77. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص459۔
  78. مثال کے طور پر ملاحظہ کیجئے: ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص205-208۔
  79. نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، نامہ54۔
  80. نہج‌البلاغۃ، صبحی صالح، خطبہ22۔
  81. غریب، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، ص165۔
  82. غریب، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، ص152۔
  83. جعفریان، تاریخ خلفا، 1380ش، ص178۔
  84. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص81۔
  85. ابن‌الطقطقی، الفخری، 1418ھ، ص104۔
  86. کوثری، «بررسی ریشہ‌ہای تاریخی ناصبی‌گری»، ص99۔

مآخذ

  • ابن ‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،‌ دار الفکر، 1409 ہجری۔
  • ابن ‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌ دار صادر، 1385 ہجری۔
  • ابن ‌اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1411 ہجری۔
  • ابن ‌الطقطقی، محمد بن علی، الفخری، تحقیق: عبدالقادر محمد مایو، بیروت، دارالقلم العربی، طبع اول، 1418 ہجری۔
  • ابن ‌العبری، تاریخ مختصر الدول، بیروت، دارالشرق، 1992ء۔
  • ابن ‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم، محقق: محمد عبدالقادر عطا، مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، طبع اول، 1412 ہجری۔
  • ابن ‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود، علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415 ہجری۔
  • ابن ‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن ‌خلدون، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، طبع دوم، 1408 ہجری۔
  • ابن ‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، طبع اول، 1410 ہجری۔
  • ابن ‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، طبع اول، 1412 ہجری۔
  • ابن ‌قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، تحقیق: علی شیری، بیروت، دارالأضواء، طبع اول، 1410 ہجری۔
  • ابن ‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407 ہجری۔
  • ابن ‌مسكويہ، ابوعلى، تجارب الأمم، تحقيق ابو القاسم امامى، تہران، سروش، الطبعۃ الثانيۃ، 1379 شمسی۔
  • الشیخ، عبدالمنعم، «اسباب الفتنۃ فی عہد عثمان»، مجلہ الازہر، شمارہ22، محرم1370 ہجری۔
  • الغبان، محمد بن عبداللہ، فتنۃ مقتل عثمان بن عفان، مدینہ، الجامعہ الاسلامیہ، 1419 ہجری۔
  • بختیاری، شہلا، «ساختار سیاسی حکومت عثمان»، مجلہ کیہان اندیشہ، شمارہ77، اردیبہشت 1377 شمسی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار، ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، طبع اول، 1417 ہجری۔
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تصحیح: جلال‌ الدین محدث، تہران، انجمن آثار ملی، طبع اول، 1395 ہجری۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ خلفا، قم، دلیل ما، 1380 شمسی۔
  • حسین، طہ، «علی و فتنہ بزرگ قتل عثمان»، ترجمہ: رضا رادی، مجلہ گلستان قرآن، شمارہ10، اردیبہشت 1379 شمسی۔
  • حسین، طہ، الفتنہ الکبری، قاہرہ، ہنداوی، 2012ء۔
  • خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق فواز، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415 ہجری۔
  • دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، قم، منشورات الرضی، 1368 شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق: عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، طبع دوم، 1409 ہجری۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دارالثقافۃ، طبع اول، 1414 ہجری۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، قم، کنگرہ شیخ مفید، طبع اول، 1413 ہجری۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، طبع دوم، 1387 ہجری۔
  • عبدالمقصود، عبدالفتاح، الامام علی بن ابی‌طالب، بیروت، مکتبہ العرفان، بی‌تا۔
  • غریب، مأمون، خلافۃ عثمان بن عفان، قاہرہ، مرکز الکتاب للنشر، بی‌تا۔
  • کوثری، احمد، «بررسی ریشہ‌ہای تاریخی ناصبی‌گری»، در مجلہ سراج منیر، شمارہ 16، زمستان 1393 شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، طبع دوم، 1403 ہجری۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی‌تا۔
  • نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تصحیح: عبدالسلام محمد ہارون، قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، طبع دوم، 1404 ہجری۔
  • نہج‌ البلاغۃ، تحقیق: صبحی صالح، قم، ہجرت، طبع اول، 1414 ہجری۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، طبع اول، بی‌تا۔