لیلۃ الہریر
لَیلَۃُ الہَریر،(فریاد کی رات) جنگ صفین کی ایک رات کو کہا جاتا ہے جس میں امام علیؑ اور معاویہ کی فوج کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اور دونوں طرف سے بہت سارے جنگجو مارے گئے۔ جب جنگ میں امام علیؑ کا لشکر کامیابی کے قریب پہنچی تو آپؑ نے ایک خطبہ دیا جس میں اپنے لشکریوں کو ثابت قدمی کی دعوت دی، لیکن اس کے باوجود آپؑ کے لشکر کے ایک سپہ سالار اشعث بن قیس نے جنگ جاری رکھنے سے انکار کیا اور معاویہ نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرآن کو نیزوں پر بلند کرکے حکمیت کی تجویز پیش کی۔
تعارف
«لیلۃ الہریر» جنگ صفین کی ایک رات ہے جس میں امام علیؑ اور معاویہ کے لشکر میں گمسان کی جنگ ہوئی اور دونوں فریق کے بہت سارے جنگجو مارے گئے۔ تاریخ منابع کے مطابق جنگ اتنی شدید تھی کہ نیزے ٹوٹ گئے، تیر ختم ہو گئے اور جنگجوں تلوار اور پتھروں کے ذریعے جنگ جاری رکھنے پر مجبور ہوگئے۔[1] علامہ مجلسی لکھتے ہیں: « اس رات کو جنگجوؤں کی فریاد اور شور و غل نیز معاویہ پر جنگ کے شدت دباؤ کی وجہ سے "لیلۃ ہریر" کا نام دیا گیا ہے؛ کیونکہ "ہریر" سخت سردی میں کتے کی آواز کو کہا جاتا ہے۔»[2]
لیلۃ الہریر 11 صفر 11 صفر سنہ 37ھ[3] یا ایک اور قول کی بنا پر ۱۰ ربیع الاول سنہ 38ھ[4] کی رات تھی۔ تاریخ اسلام میں جنگ قادسیہ کی ایک رات کو بھی "لیلۃ الہریر" کے نام سے یاد کیاگیا ہے۔[5]
حضرت علیؑ کا خطبہ
حضرت علیؑ نے لیلۃ الھریر کو ایک خطبہ دیا۔ اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:«اے لوگو! دیکھیں اب تم اور تمہارے دشمنوں کی یہ حالت ہے کہ دشمن کی آخری سانسیں ہیں اور اگر اسی طرح کام کریں تو جنگ کا اختتام اس کے آغاز سے ہی معلوم ہوجاتا ہے۔ اس قوم نے تمہاری دینداری کے سامنے ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں اس انجام کو پہنچے ہیں۔ من کل صبح ان پر حملہ کرتا ہوں اور انہیں اللہ تعالی کے حضور عدالت میں کھڑا کردوں گا۔»[6] سپس برای پیروزی لشکر خود دعا کرد.[7]
اشعث بن قیس کا موقف
تاریخی مآخذ کے مطابق جب امام علیؑ کی فوج کامیابی کے قریب تھی اس وقت امام کی فوج سے ہی اشعث بن قیس نے جنگ جاری رکھنے کو مناسب نہیں سمجھا۔[8] معاویہ کو جب اشعث کے موقف کا علم ہوا تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا حکم دیا اور حکمیت کی درخواست کرنے کا کہا۔[9] جب معاویہ کی فوج نے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا تو اشعث نے امام علیؑ پر اعتراض کیا[10] اور اللہ کی کتاب کی طرف دعوت کو ماننے کا مطالبہ کیا۔[11]
حوالہ جات
- ↑ منقری، وقعة صفین، ۱۳۸۲ق، ص۴۷۵؛ ابنمسکویه، تجارب الأمم، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۴۳.
- ↑ مجلسی، مرآۃ العقول، ج15، ص427۔
- ↑ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۳۲۳.
- ↑ سبحانی، فروغ ولایت، ۱۳۶۸ش، ص۵۷۷-۵۷۸.
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ج3، ص557 و ص561۔
- ↑ منقری، وقعۃصفین، 1382ق، ص477۔
- ↑ منقری، وقعۃصفین، 1382ق، ص478۔
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص477-480۔
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص480-481؛ دینوری، اخبارالطوال، 1368ش، ص188-189۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص188-189۔
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص482۔
مآخذ
- ابن مسکویہ، ابوعلی، تجارب الأمم، تحقیق ابو القاسم امامی، تہران، سروش، ط الثانیۃ، 1379ہجری شمسی۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، الطبعۃ الأولی، 1417ھ۔
- جعفر سبحانی، فروغ ولایت، قم، انتشارات صحیفہ، 1368ہجری شمسی۔
- دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
- سبط ابن جوزی، تذکرہ الخواص، منشورات الشریف الرضی، قم، چاپ اول، 1418ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث ، ط الثانیۃ، 1387ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، مصحح رسولی محلاتی، ہاشم، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، چاپ 1404ھ۔
- منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبد السلام محمد ہارون، القاہرۃ، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، الطبعۃ الثانیۃ، 1382ق، افست قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی تا.