لیلۃ الہریر

ویکی شیعہ سے

لَیلَۃُ الہَریر جنگ صفین کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ اس رات امام علیؑ اور معاویہ کی فوج کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اور دونوں طرف سے بہت سارے جنگجو مارے گئے۔ رات بھر زخمیوں کی آہ و زاری کی آوازوں کی وجہ سے اس کو لیلۃُ الھریر نام دیا گیا۔ اس رات کے بعد حکمیت کے لئے ماحول فراہم ہوا۔

تعارف

«لیلۃ الہریر» جنگ صفین کی ایک رات ہے جو 11 صفرسنہ 37ھ کو واقع ہوئی۔[1] بعض نے اس واقعے کو 10 ربیع الاول سنہ 38ھ میں قرار دیا ہے۔[2]

اس رات کے نام کے بارے میں علامہ مجلسی لکھتے ہیں: «جنگجوؤں کی زیادہ شور کی وجہ سے معاویہ کا دباؤ میں آنے اور جنگ کی شدت سے ڈرنے اور عراق کی فوج کی کامیابی کی وجہ سے اس رات کو ہریر نام دیا گیا ہے؛ کیونکہ ہریر سخت سردی میں کتے کی آواز کو کہا جاتا ہے۔»[3]

ہریر کے دن بھی جنگ جاری رہی اور اس دن سورج کو گرہن لگنے کی وجہ سے دن میں تاریکی ہونے کے باوجود جنگ کی شدت میں کمی نہیں آگئی۔[4] تاریخ اسلام میں جنگ قادسیہ کی ایک رات کو بھی لیلۃ الہریر نام دیا گیا ہے۔[5]

واقعہ کی تفصیل

لیلۃ الہریر، جنگ صفین کی ایک رات جس میں امام علیؑ اور معاویہ کی فوج میں جنگ ہوئی اور دونوں طرف سے بہت سارے لوگ مارے گئے۔ منقری کا کہنا ہے کہ «اس رات جنگجو لڑتے رہے اور جب نیزے ختم ہوئے تو تلوار اور پتھروں کو استعمال کیا اور تلوار کی آواز کے علاوہ کوئی اور آواز نہیں سنائی دیتی تھی جس کی وجہ سے آسمان کی گرج اور چمک اور پہاڑوں کے گرنے سے زیادہ خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔[6] ابن مسکویہ اس رات کے بارے میں یوں لکھتے ہیں: «اس رات اس قدر لڑے، سارے نیزے ٹوٹ گئے اور کمان میں کوئی تیر باقی نہ رہا، پھر تلواریں نیام سے نکالیں۔»[7]

حضرت علیؑ کا خطبہ

حضرت علیؑ نے لیلۃ الھریر کو ایک خطبہ دیا۔ اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:«اے لوگو! دیکھیں اب تم اور تمہارے دشمنوں کی یہ حالت ہے کہ دشمن کی آخری سانسیں ہیں اور اگر اسی طرح کام کریں تو جنگ کا اختتام اس کے آغاز سے ہی معلوم ہوجاتا ہے۔ اس قوم نے تمہاری دینداری کے سامنے ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں اس انجام کو پہنچے ہیں۔ من کل صبح ان پر حملہ کرتا ہوں اور انہیں اللہ تعالی کے حضور عدالت میں کھڑا کردوں گا۔»[8] سپس برای پیروزی لشکر خود دعا کرد.[9]

اشعث بن قیس کا موقف

تاریخی مآخذ کے مطابق جب امام علیؑ کی فوج کامیابی کے قریب تھی اس وقت امام کی فوج سے ہی اشعث بن قیس نے جنگ جاری رکھنے کو مناسب نہیں سمجھا۔[10] معاویہ کو جب اشعث کے موقف کا علم ہوا تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا حکم دیا اور حکمیت کی درخواست کرنے کا کہا۔[11] جب معاویہ کی فوج نے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا تو اشعث نے امام علیؑ پر اعتراض کیا[12] اور اللہ کی کتاب کی طرف دعوت کو ماننے کا مطالبہ کیا۔[13]

حوالہ جات

  1. بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ق، ج2، ص323۔
  2. سبحانی، فروغ ولایت، 1368ش، ص577-578۔
  3. مجلسی، مرآۃ العقول، ج15، ص427۔
  4. منقری، وقعۃصفین، 1382ق، ص479۔
  5. طبری، تاریخ طبری، ج3، ص557 و ص561۔
  6. منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص475؛ سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص92۔
  7. ابن مسکویہ، تجارب الأمم، ج1، ص535۔
  8. منقری، وقعۃصفین، 1382ق، ص477۔
  9. منقری، وقعۃصفین، 1382ق، ص478۔
  10. منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص477-480۔
  11. منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص480-481؛ دینوری، اخبارالطوال، 1368ش، ص188-189۔
  12. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص188-189۔
  13. منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص482۔

مآخذ

  • ابن مسکویہ، ابوعلی، تجارب الأمم، تحقیق ابو القاسم امامی، تہران، سروش، ط الثانیۃ، 1379ہجری شمسی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، الطبعۃ الأولی، 1417ھ۔
  • جعفر سبحانی، فروغ ولایت، قم، انتشارات صحیفہ، 1368ہجری شمسی۔
  • دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
  • سبط ابن جوزی، تذکرہ الخواص، منشورات الشریف الرضی، قم، چاپ اول، 1418ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث ، ط الثانیۃ، 1387ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، مصحح رسولی محلاتی، ہاشم، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، چاپ 1404ھ۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبد السلام محمد ہارون، القاہرۃ، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، الطبعۃ الثانیۃ، 1382ق، افست قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی تا.