عُمْرَۃُ الْقَضاء یا عمرۃ القضیۃ یا عُمْرَۃُ الْقَصاص اس عمرے کو کہا جاتا ہے جسے حضرت محمدؐ اور مسلمانوں نے کو ذی القعدہ کے مہینے میں انجام دئے۔ اس عمرے کا نام "عمرۃ القضا" رکھنے کی علت یہ ہے کہ مسلمان پچھلے سال یعنی کو ذی القعدہ میں عمرہ کرنا چاہتے تھے؛ لیکن مکہ کے مشرکین مانع بنے اور صلح حدیبیہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو اگلے سال حج عمرہ انجام دینے کی اجازت مل گئی۔

پیغمبر اکرمؐ نے اس عمرے میں طواف اور سعی کو اونٹ پر سواری کی حالت میں انجام دیا اور اپنے عصا کے ذریعے حجر الأسود کو لمس فرمایا۔ بعض مفسرین کے مطابق سورہ بقرہ کی آیت نمبر 194 عمرۃ القضاء کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح سورہ فتح کی آیت نمبر 27 کا نزول اور پیغمبر اکرمؐ کا میمونہ کے ساتھ شادی بھی اسی سفر میں ہوئی ہے۔

وجہ تسمیہ

[1] کو پیغمبر اسلامؐ مسلمانوں کے ساتھ حج اور عُمرہ کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے۔[2] یہ حج اور عُمرہ چونکہ پچھلے سال کے حج اور عمرہ کی قضا محسوب ہوتی تھی اس لئے اسے "عمرۃ القضاء" کہا جاتا ہے۔[3]

پچھلے سال یعنی کو مسلمان عُمرہ کی نیت سے مکہ چلے گئے تھے؛[4] لیکن مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیا۔ آخر کار مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح ہوئی جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس صلح‌نامے کے تحت یہ طے پایا کہ مسلمان اس سال واپس مدینے چلے جائیں گے اور اگلے سال یعنی 7ھ کو حج اور عمرہ انجام دینے کیلئے مکہ آ سکتے ہیں۔[5]

عُمرۃ القضاء کے دیگر اسامی بھی مشہور ہیں جس میں "عُمرَۃ القضیۃ"، "غَزوَۃ القضاء"، "عُمرَۃ الصّلح" اور "عُمرَۃ القِصاص" قابل ذکر ہیں۔[6] "عمرۃ القصاص" کہنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جب مشرکین نے پیغمبر اکرمؐ کو موسم حج میں حج اور عمرہ سے منع کیا تو آپ نے دوسرے سال موسم حج میں اسے انجام دے کر ان سے قصاص لیا۔[7]

بعض مفسرین معتقد ہیں کہ آیت الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ؛ (ترجمہ: شہر حرام کا جواب شہر حرام ہے اور حرمات کا بھی قصاص ہے)[؟؟] [8] اسی واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[9]

مکے کی طرف حرکت

پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر صلح حدیبیہ کے واقعے میں حاضر تمام افراد نے ذوالقعدہ سنہ 7 ہجری قمری کو مکہ کی طرف حرکت کئے۔ ان کے علاوہ دوسرے افراد بھی ان کے ساتھ ملحق ہوئے یوں مسلمانوں کی تعداد 2000 تک پہنچ گئی۔[10] مسلمان نے قربانی کرنے کے لئے اپنے ساتھ 60 اونٹ بھی لائے تھے۔[11] پیغمبر اکرمؐ نے ابوذر غفاری کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔[12]

صلح حدیبیہ کے مطابق مسلمان صرف مسافروں کے اسلحے کے ساتھ [یادداشت 1] مکہ میں داخل ہو سکتے تھے۔[13] لیکن اس کے باوجود پیغمبر اکرم نے 200 افراد کو گھوڑوں اور جنگی سازو سامان کے ساتھ مکہ سے باہر رہنے کا حکم دیا تاکہ مشرکین کے ساتھ جنگ کی صورت میں مسلمان اپنا دفاع کر سکیں۔[14]

مکہ میں داخلہ

مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہوتے ہی مکے کے بعض بزرگان شہر سے باہر چلے گئے۔[15] جبکہ بعض پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کو دیکھنے کیلئے مکے میں ہی باقی رہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اپنے دائیں ہاتھ کو احرام سے باہر نکالا تو دوسرے مسلمانوں نے بھی آپ کی پیروی میں ایسا کیا تاکہ اس طرح مکے کے مشرکین کو اپنی قدرت اور توانائی دکھا سکیں۔[16] پیغمبر اکرمؐ نے اونٹ پر سوار ہو کر کعبہ کا طواف اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔[17] اسی طرح آپ نے اپنے عصا کے ذریعے حجر الاسود کو لمس فرمایا۔[18] پیغمبر اکرمؐ حج کے اعمال کے بعد کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور بلال نے کعبے کی چھت سے ظہر کی اذان دی۔[19]

دوسرے واقعات

عمرۃ القضاء کے دوران بعض دوسرے واقعات بھی رونما ہوئے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • پیغمبر اکرمؐ کا میمونۃ بنت حارث سے ازدواج۔[20] جب پیغمبر اکرمؐ اور آپ کے ساتھیوں کو دی گئی تین دن کی مہلت ختم ہو گئی تو مکے کے بزرگوں نے آپؐ کے پاس کچھ افراد کو بھیجا اور آپ سے مکہ ترک کرنے کو کہا۔ اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ نے درخواست کیا کہ آپ اور میمونہ کی شادی مکے میں برگزار کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ مکہ والوں کو اس شادی کا ولیمہ دیا جا سکے لیکن مکہ کے سرداروں نے آپ کی اس درخواست کو قبول نہیں کیا۔[21]
  • سورہ فتح کی آیت نمبر 27 کا نزول:‌[22] اس آیت میں حج کے بعض احکام جیسے حَلق اور تقصیر وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔[23]
  • عمارۃ بنت حمزہ بن عبدالمطلب جو مکہ میں زندگی گزار رہی تھی، کی مکہ سے مدینہ منتقلی اور انکے چچا جعفر کو ان کا سرپرست مقرر کرنا۔[24]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. یہاں مسافروں کے اسلحے سے تلوار مراد ہے۔(مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۱۳۔)

حوالہ جات

  1. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۵۳۔
  2. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۵۵۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۱۰۷۔
  4. ابن‌کثیر،‌ البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۴۔
  5. بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۱۴۵۔
  6. مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۳۰۔
  7. ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۰۔
  8. سورہ بقرہ، آیہ ۱۹۴۔
  9. واحدی نیشابوری، أسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۵۸۔
  10. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۱۔
  11. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۵۔
  12. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۵۳۔
  13. بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۱۴۵۔
  14. مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۳۱۔
  15. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۵۵۔
  16. مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۹، ص۱۹۔
  17. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۶۔
  18. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۵۔
  19. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۷۔
  20. ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۲؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۵؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۸۔
  21. ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۲۔
  22. ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۲-۳۷۳۔
  23. ابن ہشام، السیر النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۳۷۲-۳۷۳۔
  24. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۷۳۸-۷۳۹۔

مآخذ

  • ابن ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویہ، تحقیق: مصطفی السقا و ابراہیم الابیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • ابن‌خلدون، عبد الرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔
  • ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار، ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، ۱۴۱۷ق۔
  • بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، تحقیق: عبدالمعطی قلعجی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۰۵ق۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق۔
  • مقریزی، تقی الدین، امتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق: محمد عبدالحمید نمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۲۰ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔
  • واحدی نیشابوری، علی بن احمد، اسباب النزول، بیروت، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۱۱ق۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق: جونس مارسدن، بیروت، مؤسسہ أعلمی، چاپ سوم، ۱۴۰۹ق۔