منع تدوین حدیث

ویکی شیعہ سے

منع تدوین حدیث یا منع کتابت حدیث، پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کو نقل کرنے یا لکھنے کی ممانعت کو کہا جاتا ہے۔ منع تدوین حدیث کا سلسلہ خلیفہ اول و خلیفہ دوم کے زمانے سے شروع ہوا اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانے تک یعنی تقریبا 100 سال جاری رہا۔

اہل‌ سنت علماء خلیفہ اول و دوم کے اس اقدام کی علت قرآن و حدیث میں اشتباہ سے بچانا، مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہونے سے روکنا، مسلمانوں کو قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں مشغول ہونے سے روکنا اور راویوں کی کتابت سے نا آشنائی قرار دیتے ہیں، لیکن شیعوں کے مطابق ان اقدام کا اصل مقصد امام علیؑ کی فضیلت کو نشر ہونے سے روکنا اور خود خلفاء کی خلافت کی مشروعیت کو برقرار رکھنا تھا۔

شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کی کتابت پر لگائی گئی پابندی کی وجہ سے جعلی احادیث کے لئے زمینہ ہموار ہونا، احادیث کے ابتدائی مآخذ کی نابودی، اسلام میں مختلف مذاہب کی پیدائش اور پیغمبر اکرمؐ کی سنت میں تبدیلی جیسے خطرناک اثرات اسلامی معاشرے پر مرتب ہوئے ہیں۔

تاریخچہ

منع تدوین حدیث پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کو نقل کرنے اور لکھنے پر لگائی گئی پابندی کو کہا جاتا ہے۔ جس کا باقاعدہ آغاز خلیفہ اول اور دوم کے زمانے سے ہوا ہے۔[1] جبکہ اس سے پہلے احادیث کی کتابت کا کام مسلمانوں کے درمیان مرسوم تھا[2] اور پیغمبر اکرمؐ اپنے اصحاب کو احادیث کی کتابت اور روایت کی ترغیب دیتے تھے۔[3]

ابوبکر نے اپنی خلافت کے دوران احادیث کی کتابت پر پابندی لگا دی اور بہت ساری احادیث کو بھی انہوں نے ضایع کر دیا۔[4] اسی طرح تاریخی مآخذ کے مطابق خلیفہ دوم بھی اپنے گورنروں کو پیغمبر اکرمؐ کی احادیث نقل کرنے سے منع کرتے ہوئے صرف قرآن کی طرف توجہ مبزول کرنے کا حکم دیتے تھے۔[5] اہل سنت بعض مآخذ کے مطابق عمر بن خَطّاب شروع میں پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کو جمع اور تدوین کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد قرآن اور احادیث میں اشتباہ ہونے کا احتمال دیتے ہوئے اس کام سے باز آئے۔[6]

نقل حدیث کی ممانعت

پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کی کتابت پر پابندی لگنے کے بعد بعض اصحاب لوگوں کے لئے احادیث نبوی نقل کرتے تھے۔ اس بنا پر خلیفہ دوم نے بغیر اجازت کے مدینہ سے خارج ہونے[7] اور احادیث نقل کرنے پر پابندی لگا دی۔[8] انہوں نے ابودَرداء اور ابن‌ مسعود جیسے اصحاب کو پیغمبر اکرمؐ کی احادیث نقل کرنے کے جرم میں قید خانے میں ڈال دیا۔[9] بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ احادیث کی کتابت پر پابندی اس کے نقل کرنے پر لگائی گئی پابندی کے بعد لگائی گئی ہے۔[10]

پابندی کا خاتمہ

احادیث کی کتابت پر لگائی گئی پابندی بنی امیہ کے آٹھویں حکمران عُمَر بن عَبدالعَزیز (63-101ھ) کے زمانے تک باقی تھی۔ انہوں نے مدینہ کے حاکم ابوبکر بن حَزم کو ایک خط لکھا جس میں ان کو احادیث پیغمبر اکرمؐ کی کتابت کا حکم دیا؛ کیونکہ علم اور اہل علم کے ختم ہونے کا خطرہ تھا۔[11]

موافقین اور مخالفین

کہا جاتا ہے کہ صحابہ اور تابعین میں سے بعض افراد من جملہ زید بن ثابت، ابوموسی، ابوسعید خدری، ابوہُرَیرہ اور ابن‌عباس احادیث کی تدوین کو مکروہ سمجھتے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں امام علیؑ، امام حسنؑ، عبداللہ بن عمر، انس بن مالک، عطاء بن یَسار اور سعید بن جُبَیر وغیرہ اس کام کو جائز سمجھتے تھے۔[12]

علل و اسباب

منع تدوین حدیث کے علل و اسباب کے بارے میں اہل‌ سنت اور اہل تشیّع کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اہل سنت علماء کہتے ہیں: احادیث کے قرآن کے ساتھ خلط ہونے،[13] مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے،[14] احادیث کو حفظ کرنے میں کم‌ توجہی کا خطرہ، صرف لکھائی پر توجہ دینے،[15] لوگوں کا قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں سرگرم ہونے کا خوف،[16] نیز غیر معتبر احادیث کی نشر و اشاعت کو روکنا، قرآن کے مقابلے میں ایک اور کتاب کی پیدائش کا خدشہ اور راویوں کا فن کتابت سے عدم آشنائی من جملہ ان علل و اسباب میں سے ہیں جن کی وجہ سے احادیث کی کتابت پر پابندی لگائی گئی تھی۔[17]

لیکن کتاب منعُ تدوینِ الحدیث میں شہرستانی کے مطابق اکثر شیعہ مصنفین کا خیال ہے کہ منع تدوین حدیث کے علل و اسباب میں سے ایک امام علیؑ کے فضائل کو نشر ہونے سے روکنا تھا۔[18] مختلف قرائن و شواہد اس بات کے اوپر موجود ہیں، من جملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ صِحاح سِتّہ کے مصنیفین میں سے نسائی ابن‌ عباس سے نقل کرتے ہیں کہ امام علیؑ سے بغض اور کینہ کی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ کی سنت کو چھوڑ دیا گیا۔[19] اسی طرح خلفاء کا دینی تعلیمات اور احکام پر مکمل عبور نہ رکھنا اور ان کی طرف سے اپنی حکومت کی مشروعیت کو ثابت کرنا من جملہ منع تدوین حدیث کے علل و اسباب میں سے ہیں۔[20]

بدعت یا سنت

ان اقدام کے حامی حضرات اپنے نظریے کی اثبات میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث سے تمسک کرتے ہیس جس میں آیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: "جس شخص نے قرآن کے علاوہ مجھ سے جو کچھ لکھا ہے اسے ختم کر دیں"۔[21] اس کے مقابلے میں اس اقدام کے مخالفین، پیغمبر اکرمؐ سے بہت ساری احادیث نقل کرتے ہیں جن میں احادیث کی کتابت پر تاکید کی گئی ہے؛ من جملہ یہ کہ عبداللہ بن عمر ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے احادیث کی کتابت کی سفارش کی گئی ہے۔ اس حدیث کے مطابق قریش عبداللہ بن عمر کو احادیث کی کتابت اور حفاظت پر اس کی سرزنش کرتے تھے جبکہ پیغمبر اکرمؐ اسے اس کام کی ترغیب دیتے تھے۔[22] اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: "جو شخص مجھ سے کوئی علم یا حدیث نقل کرے جب تک یہ تحریر موجود ہو اس شخص کے لئے ثواب دیا جائے گا"۔[23]

بعض مورخین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں بعض اصحاب کے پاس صحیفہ کے نام احادیث کا مجموعہ ہوتا تھا؛ من جملہ ان میں صحیفہ امام علی اور صحیفہ اُبَیّ بن‌ رافع مشہور ہے جس سے پیغمبر اکرمؐ نے نہ صرف منع نہیں فرمایا،[24] بلکہ ان میں سے بعض صحیفے خود آنحضرتؐ کی اجازت سے لکھے گئے ہیں۔[25]

ایگناز گولڈزیہر کا نظریہ

ایک یہودی مستشرق ایگناز گولڈزیہر اس بات کا معتقد ہے کہ دوسری صدی ہجری کے دوسرے نصف صدی میں اسلامی احادیث کے مختلف مجموعے وجود میں آگئے تھے۔ ان کے مطابق کتابت حدیث سے منع کرنے نیز اس کام کی اجازت دینے سے مربوط دونوں طرح کی احادیث جعلی ہیں اور حقیقت میں یہ احادیث صدر اسلام میں اس حوالے سے مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف نظر کی عکاسی کرتی ہیں۔[26]

نتائج

شیعہ علماء کے مطابق احادیث کی کتابت پر لگائی گئی پابندی کے بہت سارے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، احادیث کے درجہ اول مآخذ کی نابودی، جعلی احادیث کا رواج، پیغمبر اکرمؐ کی سنّت میں تبدیلی اور مختلف مذاہب کا وجود میں آنا اس کے اہم نتائج میں سے ہیں:

  • پہلے درجے کے حدیثی مآخذ کی نابودی: اصحاب کے توسط سے پیغمبر اکرمؐ کی زبانی لکھے گئے مختلف احادیث اس اقدام کی وجہ سے نابود ہو گئے۔[27] عایشہ کے نقل کے مطابق ابوبکر نے رسول اللہؐ کی 500 احادیث کو جلا دیا۔[28] اسی طرح بعص احادیث جو اصحاب کے حافظے میں تھیں، ان کی تحریر پر پابندی کی وجہ سے تحریر میں تبدیل نہیں ہوئی اور ان اصحاب کی وفات کی وجہ سے یہ احادیث ہم تک نہیں پہنچ پائیں۔[29]
  • جعلی احادیث کا رواج: پیمغمبر اکرمؐ کی احادیث کی کتابت اور نقل پر پابندی لگنے کی وجہ سے جعلی احادیث اور انہیں پیغمبر اکرمؐ کی طرف نسبت دینے کا بازار گروم ہو گیا۔[30] مثال کے طور پر بعض سیاسی اور مذہبی شخصیات کی جعلی فضیلت بیان کرنے کی خاطر بہت ساری احادیث کو پیغمبر اکرمؐ کی طرف نسبت دی گئی یہاں تک کہ ان میں ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا جو آپؐ کی رحلت کے بعد دنیا میں آئے ہیں۔[31] جعلی احادیث کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ کتاب صحیح بخاری جو 2761 غیر تکرار احادیث پر مشتمل ہے، جنہیں انہوں نے تقریبا 6 لاکھ احادیث سے چھان بین کر انتخاب کئے ہیں[32] اور صحیح مسلم جو 4000 غیر تکراری احادیث پر مشتمل ہے، بقول اس کے مصنف کے انہوں نے ان 4000 احادیث کو 3 لاکھ احادیث میں سے انتخاب کئے ہیں۔[33]
  • پیغمبر اکرمؐ کی سنت میں تبدیلی: بعض کا کہنا ہے کہ احادیث کی کتابت اور نقل پر لگنے والی پابندی کی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ کی سنّت میں تبدیلی آگئی۔[34] اس مطلب کی اثبات کے لئے بعض تاریخی واقعات سے تمسک کئے گئے ہیں؛ من جملہ وہ حدیث جسے شافعی نے وہب بن کیسان سے نقل کی ہیں اس میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی تمام سنتیں یہاں تک کی نماز میں بھی تبدیلی آگئی تھی۔[35]
  • مختلف مذاہب کا وجود میں آنا: پیغمبر اکرمؐ کی سنت کے خاتمے اور جعلی احادیث اور شخصی سلیقوں میں اضافے کی وجہ سے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام میں نئے کلامی اور فقہی مذاہب وجود میں آنا شروع ہوا؛[36] کیونکہ اختلاف‌ سلیقہ‌ کے ساتھ جعلی احادیث کا رواج بعض افراد کے اسلامی معاشرے سے جدائی اور اپنے لئے نئے مذاہب کے بنانے کا باعث بنا۔[37]

مونو گرافی

سیدعلی شہرستانی کی کتاب مَنعُ تدوینِ الحدیث، اسباب و نتائج جو پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کی کتابت پر لگنے والی پابندی کے مضر اثرات اور اس کے علل و اسباب کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ مترجم کے بقول انہوں نے اس کتاب میں ثابت کئے ہیں کہ "مکتب اجتہاد و رأی" منع تدوین حدیث کا ثمرہ تھا۔[38] یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے اور مؤسسہ الاَعلمی للمطبوعات نے سنہ 1418ھ میں بیروت سے شایع کی ہے۔ مجمع جہانی اہل بیت کی طرف سے اس کتاب کا فارسی اور انگلش میں ترجمہ شایع ہو چکا ہے۔[39]

حوالہ جات

  1. متقی ہندی، کنز العمال، ۱۴۰۱ق،‌ ج۱۰،‌ ص۲۸۵؛ طبری، تاريخ‏ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۲۰۴.
  2. دیاری بیدگلی، «نقد و بررسی علل و انگیزہ ہای منع نگارش حدیث»، ص۳۶.
  3. نمونے کے لئے مراجعہ کریں: ابی‌داود،‌ سنن ابی‌داود، المکتبہ العصریہ، ج۳، ص۳۱۸.
  4. متقی ہندی، کنز العمال، ۱۴۰۱ق،‌ ج۱۰،‌ ص۲۸۵.
  5. طبری، تاريخ‏ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۲۰۴.
  6. متقی ہندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱۰، ص۲۹۱-۲۹۲، ح۲۹۴۷۴.
  7. مرتضی عاملی،‌ الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم،‌ ج ۱، ص۷۷.
  8. ذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۱-۱۲.
  9. ذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۲.
  10. شہرستانی، منع تدوین الحدیث، ۱۴۱۸ق، ص۳۱-۳۲.
  11. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۳۔
  12. مامقانی، مقباس‌الہدایۃ، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۸۹-۱۹۴، بہ نقل از دیاری بیگدلی، «نقد و بررسی علل و انگیزہ‌ہای منع نگارش حدیث»، ص۳۸۔
  13. متقی ہندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱۰، ص۲۹۱-۲۹۲، ح۲۹۴۷۴۔
  14. ذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۹۔
  15. ابوزہرہ، الحدیث و المحدثون، ۱۳۷۸ق، ص۱۳۔
  16. غزالی، احیاء العلوم، ج۱۰، ص۷۹ بہ نقل از دیاری بیگدلی، «نقد و بررسی علل و انگیزہ‌ہای منع نگارش حدیث»، ص۴۴۔
  17. دیاری بیدگلی، «نقد و بررسی علل و انگیزہ‌ہای منع نگارش حدیث»، ص۴۰-۴۸۔
  18. شہرستانی، منع تدوین الحدیث، ۱۴۱۸ق، ص۵۷۔
  19. نسائی، سنن نسائی،‌ ۱۴۰۶ق،‌ ج۵، ص۲۵۳۔
  20. شہرستانی، منع تدوین الحدیث، ۱۴۱۸ق، ص۵۴، ۸۵-۱۲۶۔
  21. مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء العربی، ج۴، ص۲۲۹۸، ح۳۰۰۴۔
  22. ابی‌ داود،‌ سنن ابی‌ داود، المکتبہ العصریہ، ج۳، ص۳۱۸۔
  23. سیوطی، تاریخ الخلفاء، ۱۴۲۵ق، ج۱، ص۷۷۔
  24. موسوی بیرجندی، «منع کتابت و انتشار حدیث»، ص۷۶۔
  25. ابن‌ حبان، صحیح ابن حبان، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۶۵۔
  26. اعظمی، دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۸۲۔
  27. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، ۱۳۷۸ش، ج١، ص۹۱۔
  28. متقی ہندی، کنز العمال، ۱۴۰۱ق،‌ ج۱۰،‌ ص۲۸۵۔
  29. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، ۱۳۷۸ش، ج١، ص۹۲۔
  30. حسینی، «پیامدہای منع نقل حدیث»، ص۶۲۔
  31. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، ۱۳۷۸ش، ج١، ص۹۵۔
  32. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۴۔
  33. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۱۰۲۔
  34. حسینی، «پیامدہای منع نقل حدیث»، ص۶۷۔
  35. شافعی، الام، ۱۴۱۰ق، ج۱، کتاب الصلاۃ -کتاب صلاۃ العیدین- أن یبدأ بالصلاۃ قبل الخطبۃ، ص۲۶۹۔
  36. حسینی، «پیامدہای منع نقل حدیث»، ص۶۸۔
  37. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، ج١، ص۹۱۔
  38. شہرستانی، منع تدوین حدیث، ۱۳۹۰ش، مقدمہ سید ہادی حسینی (مترجم)، ص۱۹۔
  39. شہرستانی، منع تدوین حدیث، ۱۳۹۰ش، مقدمہ سیدہادی حسینی (مترجم)، ص۲۰۔

مآخذ

  • ابن‌حبان، محمد بن حبان، صحیح ابن‌حبان، تحقیق شعیب الارنؤوط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق۔
  • ابوزہرہ، محمد، الحدیث و المحدثون، قاہرہ، دار الفکر العربی، ۱۳۷۸ق۔
  • اعظمی، محمد مصطفی، دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ، بیروت، المکتب الاسلامی، ۱۴۰۵ق۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۱ق۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دارالطوق النجاۃ، ۱۴۲۲ق۔
  • حسینی، سیدجواد، «پیامدہای منع نقل حدیث»، در نشریہ فرہنگ کوثر، قم، آستانہ مقدس حضرت معصومہ(س)، شمارہ ۷۵، پاییز ۱۳۸۷ش۔
  • حسینی جلالی، سیدمحمدرضا، تدوین السنۃ الشریفہ، بی‌نا، بی‌تا۔
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بيروت، دار الکتب العلميۃ، ۱۴۱۷ق۔
  • دیاری بیدگلی، محمدتقی، «نقد و بررسی علل و انگیزہ‌ہای منع نگارش حدیث»، در پژوہش‌ہای فلسفی-کلامی، شمارہ۱، پاییز ۱۳۷۸ش۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تذکرۃ الحفاظ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۹ق۔
  • سبحانی، جعفر، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، قم، توحید، ۱۳۷۸ش۔
  • سیوطی، تاریخ الخلفاء، تحقيق حمدی الدمرداش، مکتبۃ نزار مصطفى الباز، ۱۴۲۵ق۔
  • شافعی، محمد بن ادریس، الام، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۱۰ق۔
  • شہرستانی، سیدعلی، منع تدوین الحدیث اسباب و نتایج، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمبطوعات، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۷م۔
  • شہرستانی، سیدعلی، منع تدوین حدیث انگیزہ‌ہا و پیامدہا، ترجمہ سیدہادی حسینی، قم، مجمع جہانی اہل‌بیت، ۱۳۹۰ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق ابراہیم، محمد ابوالفضل، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق۔
  • عاملی، جعفر مرتضی،‌ الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم،‌ قم، دارالحدیث، ۱۳۸۵ش۔
  • مامقانی، عبداللہ، مقباس ‌الہدایۃ فی علم الدرایۃ، قم، آل‌البیت لاحیا‌ء التراث، ۱۴۱۱ق۔
  • متقی ہندی، علی بن حسام‌الدین، کنز العمال، تحقیق بکری حيانی و صفوۃ السقا، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۷۷ش۔
  • موسوی بیرجندی، سیدحسین، «منع کتابت و انتشار حدیث و سنت نبوی»، در مجلہ معرفت، شمارہ ۵۲، فروردین ۱۳۸۱ش۔
  • نسائی، سنن نسائی، تحقيق عبدالفتاح ابوغدۃ، حلب، مکتب المطبوعات الإسلاميۃ، ۱۴۰۶ق۔
  • نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء العربی، بی‌تا۔