جبیرہ

ویکی شیعہ سے

جبیرہ، ہر وہ چیز جو وضو یا تیمم کے وقت، زخم پر، ٹوٹی یا جلی ہوئی جگہ پر جسم کے کسی اعضاء پر رکھی جائے اسے جبیرہ کہتے ہیں جیسے کہ ان جگہوں پر کوئی کپڑا، روئی، پٹی، دوائی، پلستر یا لکڑی وغیرہ.

فقہی منابع میں، جبیرہ کے احکام عام طور پر وضو کے باب میں بیان ہوتے ہیں. جبیرہ یا ان اعضاء پر ہوتا ہے جو وضو کے وقت دھوئے جاتے ہیں (چہرہ اور ہاتھ) یا ان پر جن پر مسح کیا جاتا ہے. پہلی صورت میں، اہل تشیع اور اہل سنت کے اکثر فقہاء کے عقیدے کے مطابق کسی طریقے سے پانی کو مدنظر عضو تک پہنچایا جائے، جیسے کہ جبیرہ کو ہٹا کر یا جبیرہ والے حصے کو پانی میں ڈبویا جائے یا پانی کو کئی بار اس حصے پر ڈالا جائے. دوسری صورت میں، یعنی جہاں پر جبیرہ ایسے اعضاء پر ہو جو وضو کے وقت مسح ہوتے ہیں، اہل تشیع اور اہل سنت کے مشہور فقہاء کی نگاہ میں اگر ممکن ہو تو جبیرہ کو ہٹایا جائے اور زخم کے اوپر مسح کیا جائے. اگر زخم کا مسح کرنا ممکن نہ ہو تو، مسح جبیرہ واجب ہے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو جبیرہ کا مسح کرنا ساقط ہو جائے گا اور وضو کی جگہ تیمم کیا جائے گا.

جبیرہ کے معنی

جبیرہ (جبائر کی جمع) کے لفظی معنی ہاتھ بند اور اس لکڑی کے ہیں جو ٹوٹی ہوئی جگہ پر باندھی جائے [1] اور فقہی اصطلاح میں، ہر وہ چیز جو زخم کی جگہ، ٹوٹی جگہ، جلی ہوئی یا کسی مشکل میں مبتلا جگہ پر ہو، جیسے کپڑا، روئی، پٹی، پلستر یا لکڑی وغیرہ. [2]

فقہاء نے اس کا ذکر طہارت اور صلاۃ کے باب میں کیا ہے. [3]

جبیرہ وضو

جبیرہ یا دھونے والی (چہرہ اور ہاتھ) جگہ پر ہوتا ہے یا مسح کی جگہ پر (سر اور پاؤں).

  • اگر جبیرہ دھونے والی جگہ پر ہو اور جبیرہ کو ہٹانا ممکن ہو یا وضو والے اعضاء کو پانی میں ڈبونا یا یہ کہ اس اعضاء پر اتنا پانی ڈالا جائے کہ بغیر مشقت کے پانی چمڑے تک پہنچ جائے، تو اس صورت میں دھونا واجب ہو گا.[4] بعض نے کہا ہے کہ اگر جبیرہ کو ہٹانے اور اس جگہ کو دھونے کا امکان موجود ہو تو واجب ہے کہ یہ عمل انجام دیا جائے اور اگر دھونا ممکن نہ ہو تو، اس صورت میں مسح کیا جائے اور اگر جبیرہ کو ہٹانا ممکن نہ ہو تو، اگر جبیرہ تک پانی پہنچانا ممکن ہو تو واجب ہے یہ کام کیا جائے اگرچہ اس کے لئے اس جگہ کو پانی میں ڈبونا پڑھے یا کئی بار اس جگہ پر پانی ڈالنا پڑھے. [5]

بعض نے کہا ہے کہ اگر چند مرتبہ پانی ڈالنے یا جس حصے کو پانی میں ڈبویا جائے، تو عرف میں اسے غسل کرنا نہ کہا جائے، بیان کئے گئے تین مخیر امور (جبیرہ کو ہٹا کر اس جگہ کو دھونا، اس حصے کو پانی میں ڈبونا یا کئی بار اس حصے پر پانی ڈالنا) میں اشکال ہے، جس کے نتیجے میں جبیرہ کو ہٹا کو اس حصے کو دھونا واجب ہو جاتا ہے. [6]البتہ یہ اس صورت میں ہے جب دھونا، معتبر جریان رکھتا ہو ورنہ بیان کیے گئے اختیار میں کوئی اشکال نہیں ہو گا. [7]

بعض نے یوں توضیح دی ہے کہ جبیرہ کے اوپر سے دھونے کی صورت میں اعضاء کے درمیان ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے اور واجب ہے کہ اعضاء کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے اور اگر فرض کریں کہ ترتیب ممکن نہیں ہے، تو جبیرہ کا ہٹانا متعین ہو گا.[8] اگر بیان کئے گئے تینوں حکم میں سے کوئی ایک بھی ممکن نہ ہو تو، اگرچہ وہ جگہ نجس ہو اور پاک کرنا ممکن نہ ہو تو، جبیرہ کے اوپر سے ہی مسح کرنا کافی ہے. [9]

اس میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا صرف اس صورت میں مسح جبیرہ جائز ہے، جب بالکل دھونا ناممکن ہو، چاہے چمڑے کو چھونا (مسح) ممکن ہو، یا اس امکان کی صورت میں یہی چھونا بھی مسح جبیرہ پر مقدم ہے.[10] اسی طرح اس بات پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر مسح جبیرہ کفایت کرتی ہو تو کیا مسح ہی متعین ہے اور جبیرہ کا دھونا صحیح نہيں یا یہ کہ مکلف کو اختیار ہے کہ مسح جبیرہ کرے یا جبیرہ کو دھوئے. بعض علماء نے احتیاط واجب کی بنا پر دونوں کو انجام دینے کے لئے فرمایا ہے.[11]

دھونے والی جگہ پر جبیرہ کو مسح کرنا، مشہور قول کے مطابق، جبیرہ والی پوری جگہ پر مسح کیا جائے اور یہ کہ پانی کی نمی پورے جبیرہ تک پہنچے اور صرف تر ہاتھ اس پر پھیرنا کافی نہیں ہے.[12] اگرچہ بعض نے اسے کافی کہا ہے. [13]


  • اگر جبیرہ مسح کی جگہ پر ہو تو اگر ممکن ہو تو اسے ہٹایا جائے اور گوشت کے اوپر مسح کیا جائے. اور اگر ہٹانا ممکن نہ ہو تو، آیا جبیرہ مسح کے اوپر متعین ہے یا یہ کہ کئی بار مسح کیا جائے تا کہ پانی گوشت تک پہنچ جائے، یہ اختلافی مسئلہ ہے. بہت سے جبیرہ پر مسح کرنے کو، اور بعض دونوں کے درمیان احتیاط کو واجب قرار دیتے ہیں.[14]

اگر نجاست یا دوسری کسی وجہ سے جبیرہ پر مسح کرنا ممکن نہ ہو تو آیا واجب ہے کہ اس جگہ پر کوئی پاک کپڑا اس طریقے سے رکھا جائے کہ جبیرہ محسوب ہو اور اس کے بعد ہاتھ پر موجود تری سے اس جگہ کو مسح کیا جائے یا یہ کہ جبیرہ کے اطراف کو اگر دھونا ممکن ہو دھویا جائے یا یہ کہ تیمم واجب ہے، اس میں اختلاف پایا جاتا ہے. بعض نے کہا ہے کہ اگر پاک کپڑے کو ایسے رکھا جائے کہ جبیرہ کا جزء حساب ہو، تو اس کا مسح کافی ہے، اس کے علاوہ، احتیاط یہ ہے کہ ان دونوں کو جمع کیا جائے یا تیمم کیا جائے. بعض نے فقط دونوں کو جمع کرنے کی احتیاط کہا ہے. [15]

ہر وقت جبیرہ کی مقدار زخم سے زیادہ ہو، تو وہ اضافی مقدار بھی جو اس میں شامل ہے مسح ہو گی، [16] لیکن اگر حد سے زیادہ شامل ہوئی ہو، تو اگر اس اضافی جگہ کا ہٹانا ممکن ہو تو ہٹایا جائے اور اس اضافہ مقدار کو دھویا جائے اور اگر اسے ہٹانا ممکن نہ ہو تو آیا اس صورت میں تیمم متعین ہے یا نہیں، اس بارے میں اختلاف ہے. بعض نے کہا ہے کہ احتیاط واجب یہی ہے کہ مسح اور اس کے بعد تیمم کیا جائے.[17]

آیا وہ جبیرہ جس میں تمام عضو شامل ہوں جبیرہ کا حکم جاری ہو گا یا نہیں؟ بعض نے اس بارے میں توضیح بیان کی ہے. بعض نے کہا ہے کہ احتیاط واجب کی بناء پر وضو اور تیمم دونوں کو جمع کیا جائے. اگر جبیرہ تمام اعضاء پر ہو تو جبیرہ کا احکام جاری ہو گا یا تیمم، اس بارے میں اختلاف ہے.[18]

جبیرہ غسل اور تیمم

غسل میں جبیرہ کا حکم وضو میں جبیرہ کے حکم کی طرح ہی ہے اور اس بارے میں سب کا اتفاق ہے. بعض نے آپریشن، زخم اور ٹوٹی ہوئی جگہ کے بارے میں تفصیل بیان کی ہے، زخم کی صورت میں تیمم اور دھوںے کے درمیان مختار ہیں اور ٹوٹی جگہ پر دھونے اور جبیرہ پر مسح کرنے اور اگر مسح کرنا ممکن نہ ہو تو، تیمم واجب ہے. [19] آیا غسل جبیرہ میں، غسل ترتیبی واجب ہے یا غسل ارتماسی صحیح ہے اس بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، اور یہ کہ غسل ارتماسی کے لئے آیا پانی کے نیچے جبیرہ پر مسح کرنا واجب ہے یا واجب نہیں ہے اس بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے. [20] جبیرہ تیمم: اگر تیمم کی جگہ پر، کوئی زخم موجود ہو تو، اس کا حکم وضو جبیرہ کے حکم کی طرح ہی ہو گا. جس کا معنی یہ ہے کہ اگر جبیرہ ہٹانا ممکن ہو گا تو، اس کو ہٹائیں گے اور اگر جبیرہ ہٹانا ممکن نہ ہوا تو، جبیرہ کے اوپر سے ہی مسح کریں گے. [21]

چند دیگر احکام

طہارت کا حکم اور مجبوری زائل ہونے کے بعد نماز: اگر نماز کے وقت کے بعد، اس شخص کی مجبوری دور ہو جائے جس وجہ سے جبیرہ تھا، تو جو نماز اس نے پڑھ لی ہے وہ صحیح ہے اور ضروری نہیں کہ دوبارہ پڑھے، اور اگر نماز کا وقت ابھی باقی ہو اور اس کا عذر دور ہو جائے تو آیا واجب ہے کہ دوبارہ پڑھے یا نہیں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، [22] اور یہ کہ عذر دور ہونے کے بعد دوسری نمازوں کے بارے میں دوبارہ طہارت کی جائے یا وہی جبیرہ والی طہارت کفایت کرے گی اس بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے. [23] صاحب جبیرہ کا امام جماعت ہونا: اگر امام جماعت کے لئے جبیرہ کا حکم ہے اس کا غیر جبیرہ افراد کے لئے نماز جماعت پڑھانا مکروہ ہے. [24]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. جوہری ؛ مرتضی زبیدی، ذیل «جبر»؛ زنجی سجزی، ذیل واژہ
  2. ر.ک: خوئی، ج ۱، ص۳۰ـ۳۱؛ گلپایگانی، مختصرالاحکام،ص ۲۵؛ روحانی،ص ۵۸
  3. جواہر الکلام ۲/ ۲۹۱؛ مستمسک العروة ۲/ ۵۲۸ ـ ۵۲۹
  4. جواہر الکلام ۲/ ۲۹۱ - ۲۹۳؛ مستمسک العروة ۲/ ۵۳۰ - ۵۳۱
  5. تذکرة الفقہاء ۱/ ۲۰۷
  6. جواہر الکلام ۲/ ۲۹۲
  7. مستمسک العروة ۲/ ۵۳۰ -۵۳۱
  8. مستمسک العروة ۲/ ۵۳۰ -۵۳۱
  9. جواہر الکلام ۲/ ۲۹۳؛ العروة الوثقی ۱/ ۴۳۶ -۴۳۸
  10. جواہر الکلام ۲/ ۲۹۴؛ العروة الوثقی ۱/ ۴۴۰
  11. جواہر الکلام ۲/ ۲۹۶؛ العروة الوثقی ۱/ ۴۳۹ - ۴۴۰
  12. العروة الوثقی ۱/ ۴۳۹ - ۴۴۰؛ مستمسک العروة ۲/ ۵۳۷ - ۵۳۸
  13. العروة الوثقی ۱/ ۴۵۳
  14. مستمسک العروة ۲/ ۵۳۹ - ۵۴۰
  15. جواہر الکلام ۲/ ۳۰۰؛ العروة الوثقی ۱/ ۴۴۰ - ۴۴۱
  16. جواہر الکلام ۲/ ۳۰۰
  17. العروة الوثقی ۱/ ۴۴۴
  18. العروة الوثقی ۱/ ۴۴۲ - ۴۴۳؛ مستمسک العروة ۲/ ۵۴۰
  19. العروة الوثقی ۱/ ۴۵۴ - ۴۵۵؛ مستمسک العروة ۲/ ۵۵۶
  20. العروة الوثقی ۱/ ۴۵۵
  21. العروة الوثقی ۱/ ۴۵۵؛ مستمسک العروة ۲/ ۵۵۸
  22. جواہر الکلام ۲/ ۳۱۰؛ العروة الوثقی ۱/ ۴۵۷ - ۴۵۸؛ مستمسک العروة ۲/ ۵۶۰
  23. جواہرالکلام ۲/ ۳۱۰
  24. جواہرالکلام ۱۳/ ۳۹۲ - ۳۹۳

مآخذ

  • تذکرة الفقہاء،أبومنصور الحسن بن یوسف بن المطہر، العلّامة الحلّی، مؤسسة آل البیت علیہم السّلام لإحیاء التراث، قم، الطبعة الاولی ۱۴۱۴ ـ ۱۴۲۰ق
  • جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام،الشیخ محمدحسن النجفی، دارالکتب الإسلامیة و المکتبة الإسلامیة، تہران، چاپ ۱۳۶۲ ـ ۱۳۶۹ش
  • العروة الوثقی،السید محمدکاظم الطباطبائی الیزدی، مؤسسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرسین بقم المشرفة، الطبعة الاولی ۱۴۱۷ ـ ۱۴۲۰
  • مستمسک العروة الوثقی،السید محسن الطباطبائی الحکیم، مکتبة آیة اللّہ‌ المرعشی النجفی، الطبعة الثالثة، ۱۳۸۸ ـ ۱۳۹۱ق