تارک الصلاۃ
تارکُ الصَّلاۃ، اُس مسلمان کو کہا جاتا ہے جو دانستہ طور پر نماز کو ترک کرتا ہے۔ اسلامی شریعت کی رُو سے یہ عمل کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر نماز ترک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے واجب ہونے کا بھی انکار کیا جائے، تو یہ ارتداد (دین سے پھر جانے) کا باعث بن جاتا ہے۔ قرآن مجید نے قیامت کے دن شفاعت سے محرومی کی ایک بڑی وجہ نماز نہ پڑھنے کو قرار دیا ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے نماز کو ترک کرے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام نیک اعمال کو ضائع فرما دیتا ہے۔ احادیث کی رُو سے شیطان انسان کو نماز چھوڑنے کے ذریعے بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو حق حاصل ہے کہ نماز نہ پڑھنے والوں کو منافقین کے ساتھ جہنم میں ڈال دے۔ احادیث میں تارک الصلاۃ کو کافر کے لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے۔
علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اگر کوئی نماز کا منکر ہوجائے اور اس کے واجب ہونے پر سوال اٹھائے، تو وہ کافر اور مرتد شمار ہوگا، سوائے اس کے کہ وہ دعوا کرے کہ اس کا نماز نہ پڑھنا تازہ مسلمان کی طرح شبھات کی وجہ سے ہے ۔
بعض فقہا معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص سُستی کے باعث نماز ترک کردے، جبکہ وہ نماز کے فرض یعنی واجب ہونے کو مانتا ہو، تو ایسا انسان فاسق ہے۔ لیکن اگر کوئی نماز کے واجب ہونے پر اعتقاد رکھنے کے باجود بغیر کسی عذر کے نماز ترک کردے تو اسے تعزیر (شرعی سزا) دی جائے گی اور اُسے نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔ اگر وہ پھر بھی نماز نہ پڑھے اور اس سے مزید نمازیں قضا ہو جائیں، تو اُسے دوبارہ سزا دی جائے گی۔
نماز ترک کرنے کی مذمت
نماز ترک کرنا بہت بڑا گناہ[1] ہے اور نماز ترک کرنے والے کو احادیث میں کافر کہا گیا ہے۔[1] دانستہ طور پر نماز کو ترک کرنا درحقیقت نماز کو ہلکا اور بے وقعت سمجھنے کے مترادف ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی احادیث کی میں اس عمل کی سزا بعض دوسرے کبیرہ گناہوں (جیسے شراب نوشی) سے بھی شدید تر بتائی گئی ہے۔ شیعہ فقہ گیارہویں صدی ہجری کے مشہور عالم دین حر عاملی نے اسی بنیاد پر تارکُ الصَّلاۃ کو کافر قرار دیا ہے۔[2]
شیعہ مراجعِ تقلید میں سے آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کہتے ہیں کہ تارکُ الصَّلاۃ کی حالت اُن لوگوں سے بھی بدتر ہے جن کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ وہ اپنی نماز میں سستی کرتے ہیں اور ان کے لیے ’’وَیْل‘‘ (یعنی ہلاکت اور اللہ کی رحمت سے دوری) ہے۔[3]
نبی اکرمؐ سے نقل ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر کسی شرعی عذر کے نماز ترک کردے تو اللہ اس کے تمام اعمال برباد کر دیتا ہے۔[4] احادیث کے مطابق شیطان ترکِ نماز کے ذریعے انسان کو دیگر مہلک گناہوں کی طرف مائل کرتا ہے،[5] اور اللہ تعالیٰ ایسے افراد کو منافقین کے ساتھ جہنم میں جھونکنے کا حق رکھتا ہے۔[6] امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ: ’’نماز میں سستی مت کرو، اس لیے کہ رسول اللہؐ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو نماز کو ہلکا سمجھے۔‘‘[7]
ترک نماز کی اقسام
علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص نماز کا انکار کردے اور اسے واجب نہ سمجھے، توایسا انسان کافر ہوگیا ہے ، دائرۂ اسلام سے خارج[8] اور مرتد ہے،[9] مگر یہ کہ اس بات کا دعوا کرے کہ اس کا نماز نہ پڑھنا تازہ مسلمان کے مانند شبہ یا لاعلمی کی وجہ سے ہے ۔ [10] لیکن اگر کوئی شخص نماز کے واجب ہونے کو تسلیم کرے، مگر بغیر کسی عذر کے ترک کردے، تو اُسے تعزیر یعنی سزا دی جائے گی اور حکم دیا جائے گا نماز پڑھے، اگر وہ پھر بھی نماز نہ پڑھے اور مزید نمازیں اس پر قضا ہو جائیں، تو اُسے دوبارہ سزا دی جائے گی۔[11] اگرکوئی شخص نماز کے وجوب کا انکار کئے بغیر محض سستی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہ پڑھے تو ایسے شخص کے فاسق کا حکم دیا گیا ہے۔[12]
تارکُ الصَّلاۃ کی تکفیر اور قتل
بعض احادیث میں نماز ترک کرنے والے کو کافر کہا گیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے دانستہ طور پر نماز ترک کرنے والے کو کافر جانا ہے۔[13] ‘‘ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے پیغمبر اکرمؐ کی اسی حدیث کی رو سے کبیرہ گناہوں کی فہرست میں نماز اور ہر قسم کی واجبات کے ترک کرنے کو بھی شامل کیا ہے۔[14][یادداشت 1]پیغمبر اکرمؐ کی فرمائش کی رو سے ’’بندگی اور کفر کے درمیان صرف ترکِ نماز کا فاصلہ ہے۔[15] ‘‘ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی تارک نماز کو کافر قرار دیا ہے۔[16]
گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ محدّث محمد باقر مجلسی کے بیان کے مطابق ایمان صرف دل کا عقیدہ نہیں بلکہ شرعی فرائض کی بجا آوری اور محرمات سے اجتناب کے ساتھ ہونا چاہئے ؛ اسی بنا پر احادیث میں تارکُ الصَّلاۃ کو کافر کہا گیا۔[17] ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ علامہ حلّی نے تارک نماز کے مرتد ہونے اور اسے قتل کئے جانے پر اجماع کا دعوا کیا ہے۔[18]
تاہم علماء کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص نماز کے واجب ہونے کا قائل ہو لیکن نماز نہ پڑھے تو کیا وہ کافر ہے یا نہیں۔[8] بعض نے کہا ہے کہ اُسے تعزیر یعنی سزا دی جائے، اور اگر یہ عمل کئی بار تکرار ہو، تو تیسری یا چوتھی بار اُس کے قتل کا فتوا دیا ہے۔[19] البتہ موجودہ دور کے مراجع تقلید میں سے آیت اللہ سید علی سیستانی کہتے ہیں کہ محض ترک نماز سے انسان کافر نہیں ہوتا، اگرچہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔[20] اور مراجع تقلید میں سے میرزا جواد تبریزی متعقد ہیں کہ تارک الصلاۃ نجس نہیں ہے ۔[21]
ترکِ نماز اور دیگر گناہ
الکافی اور ارشاد القلوب جیسی معتبر کتب میں مذکور دو احادیث کے مطابق نماز ترک کرنا بعض دیگر مہلک گناہوں مثلاً قرآن کو جلانے اور زنا سے بھی بڑا گناہ ہو سکتا ہے، حتیٰ کہ ترک نماز کو خدا و رسول کے انکار کے برابر قرار دیا گیا ہے۔[22] لیکن شیخ صدوق نے علل الشرائع اور کتاب لئالی الاخبار کے مصنف نے اس امر کی توضیح کرتے ہوئے کہا ہے کہ تارک الصلاۃ کا گناہ اس وجہ سے سنگین ہے کہ وہ کسی حرام لذت کی خاطر نہیں، بلکہ محض لاپروائی اور بے حسی کی بنا پر اس عبادتِ عظمیٰ کو حقیر سمجھتا ہے؛ جب کہ دیگر گناہ اکثر شہوت یا کسی وقتی لذت کی بنا پر سرزد ہوتے ہیں۔[23]
حوالہ جات
- ↑ 1.0 1.1 طیب، أطیب البیان، 1378ش، ج14، ص168.
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، بیروت، ج3، ص28.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج27، ص361.
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج79، ص202.
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج79، ص202.
- ↑ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص31.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص269.
- ↑ 8.0 8.1 «حکم تارک الصلاہ» سایت مفلحون.
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص359.
- ↑ شہید اول، الدروس، 1417ھ، ج1، ص144.
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج1، ص689.
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص359.
- ↑ ابنأبیجمہور، عوالی اللئالی، 1405ھ، ج2، ص224.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص287.
- ↑ شعیری، جامع الأخبار، نجف، ص74.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص279.
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج66، ص127.
- ↑ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج2، ص391.
- ↑ شہید اول، الدروس، 1417ھ، ج1، ص144.
- ↑ «پرسش و پاسخ، تارک نماز»، پایگاہ اطلاعرسانی آیت اللہ سیستانی.
- ↑ تبریزی، استفتاءات جدید، بیتا، ج2، ص115.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص287؛ دیلمی، ارشاد القلوب إلی الصواب، ج1، ص190.
- ↑ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج2، ص339، «لئالی الاخبار، ص1297»، کتابخانہ دیجیتال مرکز آموزش الکترونیکی دانشگاہ قرآن و حدیث.
نوٹ
- ↑ وَ تَرْكُ الصَّلَاۃِ مُتَعَمِّداً أَوْ شَيْئاً مِمَّا فَرَضَ اللہُ لِأَنَّ رَسُولَ اللہِ ص قَالَ مَنْ تَرَكَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّداً فَقَدْ بَرِئَ مِنْ ذِمَّۃِ اللہِ وَ ذِمَّۃِ رَسُولِ اللہِ
مآخذ
- ابنأبیجمہور، محمد بن زینالدین، عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الأحادیث الدینیۃ، تحقیق و تصحیح مجتبی عراقی، قم، دار سیدالشہداء، 1405ھ۔
- «پرسش و پاسخ، تارک نماز»، پایگاہ اطلاعرسانی آیتاللہ سیستانی، تاریخ مشاہدہ: 2 مہر 1401ہجری شمسی۔
- تبریزی، جواد، استفتاءات جدید، قم، دفتر آیتاللہ تبریزی، چاپ اول، بیتا.
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعہ، تحقیق عبدالرحیم ربانی شیرازی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا.
- «حکم تارک الصلاہ» سایت مفلحون، تاریخ مشاہدہ: 2 مہر 1401ہجری شمسی۔
- حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسہ آلالبیت علیہم السلام، چاپ اول، 1414ھ۔
- دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب إلی الصواب، قم، الشریف الرضی، چاپ اول، 1412ھ۔
- شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، نجف، مطبعۃ حیدریۃ، چاپ اول، بیتا.
- شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ دوم، 1417ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق و تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، تحقیق و تصحیح علی خراسانی و سید جواد شہرستانی و مہدی طہ نجف و مجتبی عراقی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1407ھ۔
- طالقانی، سید محمود، پرتوی از قرآن، تہران، شرکت سہامی انتشار، چاپ چہارم، 1362ہجری شمسی۔
- طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- «لئالی الاخبار، ص1297»، کتابخانہ دیجیتال مرکز آموزش الکترونیکی دانشگاہ قرآن و حدیث، تاریخ مشاہدہ: 3 آبان 1401ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔