نجاست خوار حیوان

ویکی شیعہ سے

نجاست خوار حیوان یا جَلّال اس حلال گوشت جانور کو کہا جاتا ہے جس کو انسان کا فضلہ (پاخانہ) کھانے کی عادت ہوچکی ہو۔ نجاست کھانے والے حیوان کا گوشت، دودھ اور انڈہ حرام اور ان کا بول و براز نجس ہے۔ نجاست خوار حیوان کا استبراء (نجاست خوار جانور یا پرند کو مدت مقرر تک بول و براز کھانے سے روکنے اور پاک چارہ یا دانہ کھلانے کا عمل) کرنے سے نجاست خوار (َجلّالہ) کے احکام اس حیوان پر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔

نجاست خوار جانوروں کے استبراء کی مدت مختلف ہے؛ مشہور فقہا کے مطابق اونٹ کے استبراء کے لئے چالیس دن، گائے کے لئے بیس دن، بھیڑ کے لئے دس دن، بطخ کے لئے پانچ دن اور مرغی کے لئے تین دن درکار ہیں۔ احادیث میں جن حیوانات کے استبراء کی مدت ذکر نہیں ہوئی ہے اس کے بارے میں بعض کا کہنا ہے کہ جب تک نجاست خوار کا عنوان اس حیوان سے ختم نہ ہوجائے وہ نجاست خوار کے حکم میں ہے، اگرچہ بعض نے بطخ اور مرغیوں کے برابر پرندوں کو اس قاعدے میں مرغی اور بطخ کے حکم کے یکساں قرار دیا ہے۔

مفہوم‌ شناسی

ایسا حلال گوشت جانور جو انسانی فضلہ کھانے کا عادی بن گیا ہے اسے نجاست خوار یا جَلّالہ کہا جاتا ہے۔.[1] ابوالصلاح حلبی کے علاوہ باقی مشہور فقہا کی اکثریت کے نزدیک یہ صفت صرف انسان کا پاخانہ کھانے سے حاصل ہوجاتی ہے اور دیگر نجاسات کھانے سے حاصل نہیں ہوتی ہے۔[2] سنہ 460ھ تک کے فقہا نے اس صفت کے ثابت ہونے کے لئے مدت ذکر نہیں کی ہے،[3] لیکن متاخر فقہا کے کلام میں اس کے لئے مختلف معیار ذکر ہوئے ہیں؛ ایک دن(دن اور رات) انسان کا پاخانہ کھانا،[4] اسی نجاست کے کھانے سے گوشت بڑھنا اور ہڈی کا مضبوط ہونا،[5] حیوان کے بدن اور کھال میں بدبو ظاہر ہونا[6] اور عرف عام(معاشرہ) میں نجاست کھانے والے جانور کے طور پر پہچانا جانا،[7] کسی بھی حیوان پر نجاست خوار کا عنوان لاگو ہونے کا معیار قرار دیا گیا ہے۔

حلال گوشت جانور صرف ایسی صورت میں نجاست خوار کے طور پر جانا جاتا ہے اور نجاست کھانے والے حیوان کے احکام اس پر لاگو ہوتے ہیں جب اس کی غذا صرف انسان کا پاخانہ ہو۔[8]

فقہی احکام

فقہی کتابوں میں نجاسات کھانے والے جانوروں کے بعض احکام ذکر ہوئے ہیں:

گوشت، دودھ اور انڈے کھانے کا حکم

اکثر فقہا کے مطابق، نجاست کھانے والے جانور کا گوشت کھانا حرام ہے؛ ان کے مقابلے میں بعض فقہا کے مطابق مکروہ ہے۔[9] اسی طرح نجاست کھانے والے حیوان کا دودھ اور انڈہ بھی حرام ہے؛ کیونکہ دودھ اور انڈے کا حلال ہونا یا حرام ہونا ان کے گوشت کے حلال ہونے یا حرام ہونے پر موقوف ہے۔[10]

اگر حلال گوشت حیوان انسان کا پاخانہ کھائے لیکن اس کے ساتھ پاک چارہ بھی کھا لے اگرچہ اس کی اکثر غذا غلاظت ہی ہو، ایسے حیوان کا گوشت کھانا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے۔[11]

پیشاب، پاخانہ، پسینہ اور جھوٹے کی نجاست

فقہا کے فتوے کے مطابق نجاست کھانے والے جانور کا بول اور غائط نجس ہے.[12] لیکن نجاست کھانے والے اونٹ کے پسینے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اسی لیے بعض کا کہنا ہے کہ اگر نجاست خوار اونٹ کا پسینہ اگر کسی چیز سے لگ جائے تو بعض فقہا اسے پاک کرنا واجب سمجھتے تھے۔[13] لیکن اکثر فقہا نجاست خوار اونٹ کے پسینے کو پاک سمجھتے ہیں۔[14] بعض محققین اگرچہ نجاست کھانے والا اونٹ کے پسینے کو نجس نہیں سمجھتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ نماز کے دوران اسے بدن سے دور رکھا جائے۔[15] بعض مؤلفین نجاست کھانے والے حیوان کو نجاست خوار اونٹ کے احکام سے ملحق کرتے ہوئے ان کے احکام کو آپس میں مساوی سمجھتے ہیں۔[16]

بعض فقہا نجاست خوار حیوان کے جھوٹے (سُؤر یعنی باقی‌ماندہ پانی یا غذا) کو نجس سمجھتے ہیں۔[17] اسی لئے نجاست خوار کا جھوٹا دیگر نجاسات کی طرح حرام ہے۔[18] ان کے مقابلے میں بعض لوگ نجاست خوار حیوان کے جھوٹے کو نجس نہیں سمجھتے ہیں اور ایسے جانور کے گوشت کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔[19]

حج اور عمرہ کے دوران نجاست خوار اونٹ کی سواری

حج اور عمرہ کے دوران نجاست خوار اونٹ پر سوار ہونا مکروہ ہے۔[20]

استبراء

اگر نجاست خوار حیوان کو ایک مدت کے لئے نجاسات کھانے سے روک کر صرف پاک چارہ دیا جائے تو نجاست خوار حیوان کے احکام اس سے ختم ہونگے اور اس عمل کو فقہ میں استبراء نام دیا گیا ہے۔[21] البتہ بعض فقہا نجاست خوار کی صفت ختم ہونے کے لئے چارہ پاک ہونے کو لازم نہیں سمجھتے ہیں۔[22]

استبراء کی مدت‌

اکثر فقہا کے مطابق اونٹ کی استبراء کے لئے چالیس دن، گائے کے لئے بیس دن، بھیڑ کے لئے دس دن، بطخ کے لئے پانچ دن اور مرغی کے لئے تین دن درکار ہیں۔[23] یہ مدت مشہور روایات میں ذکر ہوئی ہے اور فقہا ان کی رعایت کو لازم قرار دیتے ہیں۔[24] غیر مشہور احادیث میں بطخ کے لئے تین،[25]چھ، [26] اور سات دن،[27] بھیڑ کے لئے سات[28] اور چودہ دن،[29] اور گائے کے لئے تیس دن،[30] اسبتراء کی مدت کے عنوان سے ذکر ہوئے ہیں۔ لیکن تمام روایات میں اونٹ کے لئے چالیس اور مرغی کے لئے تین دن ذکر ہوئے ہیں۔[31]

مُرغا، فِیل مُرغ، راج ہَنس، تِیتر، چَکور، بَٹیر اور بکری کے لئے استبراء کی مدت روایات میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ بعض فقہا مرغ اور بطخ جیسے پرندوں کو ان سے ملحق کیا ہے۔[32] لیکن بعض کا کہنا ہے کہ حیوانات کے استبراء کے لئے روایات میں کوئی خاص مدت متعین نہیں ہے اور نجاست خوار کی صفت عرف میں ختم ہونے تک استبراء کا عمل جاری رہنا ضروری ہے۔[33]

حوالہ جات

  1. علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، 1420ھ، ج4، ص633؛ عاملی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج1، ص160۔
  2. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، 1413ھ، ج8، ص313؛ اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج11، ص249؛ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج36، ص271.
  3. حسین علی، بررسی احکام حیوان جلّال، 1396شمسی، ص12.
  4. فاضل مقداد، التنقیح الرائع، 1404ھ، ج4، ص36.
  5. عاملی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج1، ص160؛ عاملی، مدارک الأحکام، 1411ھ، ج1، ص130.
  6. شہید ثانی، مسالک الأفہام، 1413ھ، ج12، ص25.
  7. اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج11، ص250؛ سبزواری، کفایۃ الأحکام، انتشارات مہدوی، ج2، ص603؛ طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج13، ص383.
  8. علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، 1420ھ، ج4، ص633؛ عاملی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج1، ص160.
  9. نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج36، ص272.
  10. طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج13، ص376؛ حائری، کتاب المناہل، موسسہ آل البیت علیہم السلام، ص624؛ تبریزی، تنقیح مبانی العروۃ: کتاب الطہارہ، 1426ھ، ج3، ص396.
  11. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، 1413ھ، ج8، ص312؛ شہید ثانی، مسالک الأفہام، 1413ھ، ج12، ص27.
  12. حلبی، غنیۃ النزوع، 1417ھ، ص40؛ علامہ حلی، تذکرۃ الفقہا، مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، ج1، ص51.
  13. شیخ مفید، المقنعۃ،1413ھ، ص71؛ شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص53.
  14. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج1، ص45؛ علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، 1420ھ، ج1، ص158؛ شہید اول، ذکری الشیعۃ، 1419ھ، ج1، ص119 و 120؛ حلی، معالم الدین، 1424ھ، ج1، ص76.
  15. خویی، التنقیح: الطہارۃ2، 1418ھ، ص154.
  16. حلی، نزہۃ الناظر، 1394ھ، ص18-19.
  17. ابن‌براج، المہذب، 1406ھ، ج1، ص25؛ کیدری، إصباح الشیعۃ، 1416ھ، ص25.
  18. انصاری، کتاب المکاسب (المحشی)، 1410ھ، ج1، ص188؛ طباطبایی قمی، مبانی منہاج الصالحین، 1426ھ، ج6، ص136.
  19. محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج1، ص8؛ شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص123.
  20. علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، 1420ھ، ج2، ص113؛ شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص474؛ حلی، الجامع للشرائع، 1405ھ، ص230.
  21. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ھ، ص62.
  22. مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج11، ص255.
  23. شیخ طوسی، الخلاف، 1407، ج6، ص86؛ ابن‌براج، المہذب، 1406ھ، ج2، ص428؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج3، ص170-173؛ علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، 1420ھ، ج4، ص633-635.
  24. طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج13، ص386.
  25. صدوق، من لا یحضر، 1413ھ، ج‏3، ص338 و 339.
  26. صدوق، من لایحضر، 1413ھ، ج‏3، ص338 و 339.
  27. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص252.
  28. ابن اشعث، الجعفریات، مکتبۃ النینوی، الحدیثۃ، ص27.
  29. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص252.
  30. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص253.
  31. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص251 و 253؛ صدوق، من لا یحضرہ، 1413ھ، ج‏3، ص338 و 339؛ ابن‌اشعث، الجعفریات، مکتبۃ النینوی، ص27.
  32. علامہ حلی، قواعد الأحکام، 1413ھ، ج3، ص328؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص236؛ علامہ حلی، إرشاد الأذہان، 1410ھ، ج2، ص112.
  33. یزدی طباطبایی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج1، ص278.

مآخذ

  • ابن‌اشعث، محمد، الجعفریات، تہران، مکتبۃ نینوی الحدیثۃ، بی‌تا.
  • ابن‌براج، عبدالعزیز، المہذب، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1406ھ۔
  • انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب (المحشی)، قم، مؤسسہ مطبوعاتی دار الکتاب، 1410ھ۔
  • تبریزی، جواد بن علی، تنقیح مبانی العروۃ: کتاب الطہارہ، قم، دار الصدیقۃ الشہیدۃ سلام‌اللہ علیہا، 1426ھ۔
  • حائری، سید محمد، کتاب المناہل، قم، موسسہ آل البیت علیہم السلام، بی‌تا.
  • حسینعلی، محمدامین، بررسی احکام حیوان جلّال، پایان‌نامہ دورہ سطح سہ رشتہ فقہ و اصول، قم، مرکز مدیریت حوزہ‌ہای علمیہ، 1396ش.
  • حلبی، حمزۃ بن علی، غنیۃ النزوع إلی علمی الأصول و الفروع، قم، موسسہ امام صادق علیہ السلام، 1417ھ۔
  • حلی، محمد بن شجاع القطان، معالم الدین فی فقہ آل یاسین، قم، موسسہ امام صادق علیہ السلام، 1424ھ۔
  • حلی، یحیی بن سعید، الجامع للشرائع، قم، موسسۃ سید الشہدا العلمیۃ، 1405ھ۔
  • حلی، یحیی بن سعید، نزہۃ الناظر فی الجمع بین الأشباہ و النظائر، قم، منشورات رضی، 1394ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی: الطہارہ2، قم، بی‌نا، 1418ھ۔
  • سبزواری، محمدباقر بن محمد، کفایۃ الأحکام، اصفہان، انتشارات مہدوی، بی‌تا.
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ فی فقہ الإمامیۃ، بیروت، دار التراث، 1410ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، قم، موسسہ آل‌البیت علیہم السلام، 1419ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دار الکتاب العربی، 1400ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعۃ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • طباطبایی قمی، سیدتقی، مبانی منہاج الصالحین، قم، منشورات قلم الشرق، 1426ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سیدمحمدکاظم، العروۃ الوثقی (المحشی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1419ھ۔
  • طباطبایی، سید علی، ریاض المسائل، قم، موسسہ آل البیت علیہم السلام، 1418ھ۔
  • طباطبایی، سید علی، ریاض المسائل، قم، موسسہ آل البیت علیہم السلام، 1418ھ۔
  • عاملی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، 1414ھ۔
  • عاملی، محمد بن علی، مدارک الأحکام فی شرح عبادات شرائع الإسلام، بیروت، موسسۃ آل‌البیت علیہم‌السلام، 1410ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، إرشاد الأذہان إلی أحکام الإیمان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1410ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، قم، مؤسسہ امام صادق علیہ‌السلام، 1420ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہا، قم، موسسہ آل البیت علیہم السلام، بی‌تا.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، قم، دفتر نشر اسلامی، 1413ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبدللہ، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی(رہ)، 1404ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • کیدری، محمد بن حسین، إصباح الشیعۃ بمصباح الشریعۃ، قم، موسسہ امام صادق علیہ السلام، 1416ھ۔
  • مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، الہادی، 1419ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح إرشاد الأذہان، قم، دفتر نشر اسلامی، 1403ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.