احتلام

ویکی شیعہ سے

اِحْتِلام یا مُحتَلِم ہونا یعنی سوتے وقت انسان کی مَنِی کا نکلنا ہے۔ اسلامی احکام میں احتلام مردوں کی نسبت بلوغ کی علامت شمار ہوتا ہے۔ احتلام جنابت کا باعث ہے لہذا محتلم شخص کو نماز و روزہ وغیرہ جیسی عبادتوں کی ادائیگی کیلئے غسل جنابت کرنا چاہئے۔ روزے کی حالت میں احتلام روزے کے ٹوٹنے کا سبب نہیں ہوتا ہے۔

تعریف

احتلام مادۂ حلم (=رؤیا) خواب میں نزدیکی اور اس جیسے معنا میں استعمال ہوتا ہے۔[1] فرہنگ سخن غیرارادی طور پر منی کے خروج کو احتلام سمجھتا ہے کہ جو اکثر سونے کی حالت میں پیش آتا ہے ،[2] اور فقہ کی اصطلاح میں دو معانی منی کے نکلنے اور سونتے وقت منی کے نکلنے کے معنا میں استعمال ہوتا ہے۔[3] جسے احتلا ہو اسے مُحْتَلِم کہا جاتا ہے۔

سورہ نور کی آیات ۵۸ اور ۵۹ میں احتلام کی طرف اشارہ ہوا ہے:[یادداشت 1]

نیز کلینی نے کافی میں ایک باب باب احتلام الرجل و المرأة کے نام سے احتلام کے بارے میں ذکر کیا ہے جس میں سات حدیثیں ہیں ۔ [4]

عورتوں کا محتلم ہونا

عورتوں کا احتلام ہونا اختلافی ہے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ احتلام مردوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عورتوں کیلئے بھی یہ حالت پیش آتی ہے ۔[5] بعض فقہا نے فتوی دیا ہے کہ اگر عورت احتلام ہوجائے اور اس سے منی نکلے تو اسے غسل کرنا چاہیے۔ شیخ صدوق نے اس فتوے کے بارے میں ایک روایت بھی نقل کیا ہے۔[6]

اس کے مقابلے میں بعض دیگر فقہا نے عورت کے احتلام ہونے کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر عورت احتلام ہوجائے تو بھی غسل واجب نہیں ہے۔[7] اس بات کو شیخ صدوق نے المقنع میں ذکر کیا ہے۔[8]

فقہی احکام

مراجع کے توضیح المسائل میں احکام احتلام کے نام سے کوئی مخصوص حصہ موجود نہیں ہے بلکہ احکام روزه و حج وغیرہ میں اس سے متعلق بعض احکام مذکور ہوتے ہیں ۔

  • شیعہ فقہا کی نظر میں احتلام مردوں میں بلوغ کی علامت ہے [9] اس فتوے کی دلیل احادیث ہیں کہ جنہیں یوسف بحرانی نے تعداد کے اعتبار سے زیادہ کہا ہے ۔[10]
  • احتلام جنابت کا باعث ہے پس مجنب شخص کو نماز، روزه، مسجد میں رہنے سجدہ والی سورتیں پڑھنے کیلئے اسی طرح کی دیگر عبادتیں انجام دینے کیلیے غصل کرنا چاہئے ۔ [11]
  • اگر سونے کی حالت میں نکلنے والی رطوبت کے بارے میں شک ہو کہ یہ منی ہے یا نہیں ؟اگر اس میں منی کی علامات نہ پائی جائیں تو جنابت کا حکم نہیں لگایا جائے گا اور ایسے شخص پر غسل بھی واجب نہیں ہو گا ۔[12]
  • احکام روزه میں آیا ہے کہ اگر کوئی اذان صبح سے پہلے محتلم ہو تو اسے چاہئے کہ اذان صبح سے پہلے غسل جنابت کرے لیکن اگر روزہ دار دن کے کسی حصے میں سوئے اور محتلم ہو جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔ [13]
  • حالت احرام محتلم ہو جانا حج کے باطل ہونے کا سبب نہیں ہے لیکن بعض فقہا کے نزدیک اگر کوئی مسجد الحرام یا مسجد النبی میں محتلم ہو جائے تو اسے چاہئے کہ ان مسجدوں سے باہر نکلنے کیلئے تیمم کرے [14] اور دونوں صورتوں میں غسل جنابت کرنا ہو گا.
  • محتلم کیلئے ہمبستری کرنا کراہت رکھتا ہے لیکن وضو کرنے سے یہ کراہت زائل ہو جاتی ہے [15]

ائمہ کا محتلم ہونا

بعض روایات کی بنا پر آئمہ طاہرین محتلم نہیں ہوتے تھے ۔[16] لیکن بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ احتلام انسان کے لیے ایک فطری امر ہے جو نقص شمار نہیں ہوتا ہے تاکہ ہم ائمہؑ کو اس سے بری قرار دیں۔[17]علامہ مجلسی ان روایات کے ذیل میں کہتے ہیں کہ ائمہ احتلام نہیں ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ جنب نہیں ہوتے ہوں۔[18]وہ اپنے اس ادعا کیلئے بعض روایات ذکر کرتے ہیں۔[19]

احتلام سے بچنے کی دعا

امام صادق(ع) سے اگر کسی کو محتلم ہونے کا خوف ہو تو اسے چاہئے کہ سونے سے پہلے درج ذیل دعا پڑھے  : اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الِاحْتِلَامِ وَ مِنْ سُوءِ الْأَحْلَامِ وَ مِنْ أَنْ یتَلَاعَبَ بی‌الشَّیطَانُ فِی الْیقَظَةِ وَ الْمَنَامِ.[20] اے خدا میں برے خوابوں اور احتلام سے بچنے کیلئے اور بیداری اور سونے کی حالت میں شیطان کے مجھ سے کھیل کود کرنے سے تمہاری پناہ حاصل کرتا ہوں۔

نوٹ

  1. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚطَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٨﴾ وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ[؟؟] ترجمہ:اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے غلام اور وہ بچے جو ابھی حدِ بلوغ کو نہیں پہنچے (گھروں میں داخل ہوتے وقت) تین بار تم سے اجازت طلب کریں۔ نمازِ صبح سے پہلے اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور نماز عشاء کے بعد۔ یہ تین وقت (آرام کرنے کیلئے) تمہارے لئے پردے کے وقت ہیں ان اوقات کے علاوہ تم پر اور ان پر کوئی حرج نہیں ہے تم لوگ ایک دوسرے کے پاس بار بار چکر لگاتے رہتے ہو۔ اسی طرح اللہ آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (58)اور جب تمہارے لڑکے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے جس طرح ان سے پہلے لوگ (اپنے بڑوں سے) اجازت لیتے رہے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ذیل ماده حلم؛ فیروزآبادی، القاموس المحیط، ذیل ماده حلم
  2. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ج۱، ص۲۶۴
  3. فرہنگ فقہ، ج۱، ص۲۹۴
  4. کلینی، الکافی، چاپ اسلامیہ، ج۳، ص۴۸
  5. فرہنگ فقہ، ج۱، ص۲۹۴
  6. صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۴۲.
  7. فرہنگ فقہ، ج۱، ۱۳۹۰ش، ص۲۹۴.
  8. صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۴۲.
  9. فرہنگ فقہ، ج۱، ص۲۹۴
  10. بحرانی، الحدائق الناظرة، ج۲۰، ص۳۴۵
  11. یزدی، العروة الوثقی، ج۱، ص۵۰۷-۵۱۰
  12. یزدی، العروة الوثقی، ج۱، ص۴۹۷
  13. یزدی، العروة الوثقی، ج۳، ص۵۴۷
  14. یزدی، العروة الوثقی، ج۱، ص۵۱۰
  15. فرہنگ فقہ، ج۱، ص۲۹۴
  16. کلینی، کافی، ج۱، ص۵۰۹. صدوق، من لایحضره الفقیہ، دفتر نشر اسلامی، ج۴، ص۴۱۸.
  17. خوئی، موسوعہ الامام الخوئی، ۱۴۱۳م، ج۱۰، ص۱۲۶.
  18. مجلسی،‌ مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۶۹.
  19. کمره‌ای، ترجمہ اصول کافی، ج۳، ص۶۹۲
  20. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۴۷۱

مآخذ

  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن.
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناظرة فی احکام العترة الطاہرة، دفتر نشر اسلامی، قم. ۱۴۰۵ق.
  • صدوق، محمد بن علی، المقنع، مؤسسہ امام هادی، قم، ۱۴۱۵ق.
  • صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیہ، تصحیح: علی اکبر غفاری، دفتر نشر اسلامی، قم. (بر اساس نرم افزار جامع الاحادیث نور نسخہ ۳/۵).
  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، زیر نظر سید محمود ہاشمی شاہردوی، مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۹۰.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،‌ دار الکتب الاسلامیه، تہران (بر اساس نرم افزار جامع الاحادیث نور نسخه ۳/۵).
  • کمره‌ای، محمدباقر، در الاصول الکافی، ترجمہ: محمدباقر کمره‌‌ای، انتشارات اسوه، قم. ۱۳۷۵ش.