عین نجس

ویکی شیعہ سے

عین نجس اس چیز کو کہا جاتا ہے جس میں نجاست ذاتی پائی جاتی ہو اور اسلام کی نظر میں اس کا پاک ہونا ممکن نہیں ہے۔ شیعہ فقہاء کی نظر میں اگر عین نجس کسی ایسی چیز سے چھو جائے جو پاک ہو اور ان دونوں میں سے کوئی ایک گیلی ہو تو وہ پاک چیز بھی نجس ہوجاتی ہے۔ دین اسلام کے اعتبار سے خون، پیشاب، پاخانہ، مَنی، مردار، کتّا، سوّر، کافر، شراب، فُقّاع، نجس ہیں۔

نجس کا مفہوم‌

مشہور فقہاء کی نظر میں عین نجس وہ چیز ہے جس میں ذاتی نجاست پائی جاتی ہو اور اسلام کی نظر میں پاک ہونے کے قابل بھی نہ ہو [1]

فقہ شیعہ میں دس چیزیں ذاتی طور سے نجس سمجھی جاتی ہیں جنہیں اعیان نجسہ یا نجاسات کہا جاتا ہے جن میں خون، پیشاب، پاخانہ، مَنی، مردار، کتّا، سوّر، کافر، شراب، فُقّاع[آبجو] شامل ہیں۔[2] اس کے باوجود پانچویں صدی کے عظیم شیعہ فقیہ سید مرتضی کا نظریہ ہے کہ نجس جانوروں جیسے کتا، سور کے بے جان حصے بھی پاک ہوتے ہیں کیونکہ وہ بے روح و جان ہوتے ہیں اور کیونکہ ان کی کچھ منفعتیں بھی ہوتی ہیں۔[3] کچھ مراجع تقلید نے نجاست‌ خور اونٹ کے پسینہ کو بھی نجس شمار کیا ہے۔[4]

احکام

فقہ شیعہ میں نجاسات کے بارے میں کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں، مثلا:

  • اگر عین نجس کسی پاک چیز سے لگ جائے تو پاک چیز بھی نجس ہوجاتی ہے[5] اور اس چیز کو مُتَنَجِّس (نجس ہوجانے والی چیز) کہا جاتا ہے۔ البتہ نجاست کی منتقلی میں یہ شرط ہے کہ عین نجس سے کوئی رطوبت، پاک چیز میں منتقل ہوجائے۔[6] لیکن فیض کاشانی کی طرف یہ نسبت دی گئی ہے کہ ان کا نظریہ تھا کہ [پانی وغیرہ اور مثلا رومال کا استعمال کئے بغیر] متنجس سے صرف ازالہ عین نجاست کر دینے کے بعد اس کی نجاست کسی اور چیز میں سرایت نہیں کرتی ہے۔[7]
  • عین نجس کو مسجد میں لے جانے سے اگر مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہو تو حرام ہے۔[8]
  • عین نجس کا کھانا حرام ہے۔[9]
  • جو پانی عین نجاست سے متصل ہوجائے اگر اس کا رنگ بو یا مزہ بدل گیا ہو تو وہ نجس ہوجاتا ہے چاہے وہ پانی کر ہو یا جاری [10]
  • وضو اور غسل کے تمام اعضاء کا عین نجس سے پاک ہونا واجب ہے۔[11] وضو میں تو نجاست کو وضو سے پہلے یا دھونے کے درمیان یا مسح کرنے کے درمیان برطرف کیا جا سکتا ہے۔[12] لیکن غسل ارتماسی میں اس کا غسل سے پہلے برطرف ہونا لازم ہے۔[13]
  • اگر درہم [یا اشارے کی انگلی کے پوروے] کی مقدار میں انسان کا بدن یا لباس کسی عین نجس سے آلودہ ہو تو اس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح نہیں ہوگا۔[14]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. غدیری، القاموس الجامع للمصطلحات الفقہیۃ، ۱۴۱۸ق، ص۵۷۶؛ مغنیہ، فقہ الإمام الصادق، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۴۱۔
  2. بنی‌ ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۶۴۔
  3. سید مرتضی، المسائل الناصریات، ۱۴۱۷ق، ص۱۰۰۔
  4. بنی‌ ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح‌المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۶۴۔
  5. طباطبایی حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۴۷۹؛ موسوی خلخالی، فقہ الشیعہ، ج۳، ص۳۵۴۔
  6. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، ص۸۵؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۶، ص۲۰۲۔
  7. الطباطبایی الحکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۴۷۹؛ موسوی خلخالی، فقہ الشیعۃ، ج۳، ص۳۵۴۔
  8. نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۴، ص۹۷۔
  9. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، ص۹۱۔
  10. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ج۱، ص۱۹۷ و ۲۰۲۔
  11. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳، ص۱۰۱؛ طباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، المکتبۃ العلمیۃ الإسلامیۃ، ج۱، ص۱۶۹۔
  12. طباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، المکتبۃ العلمیۃ الإسلامیۃ، ج۱، ص۱۶۹۔
  13. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳، ص۱۰۱-۱۰۲۔
  14. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۸۹۔

مآخذ

  • بنی‌ ہاشمی خمینی، محمد حسن، توضیح المسائل مراجع: مطابق با فتاوای سیزدہ نفر از مراجع معظم تقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی (جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم)، ۱۳۸۵ش۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، المسائل الناصریات، تہران، رابطۃ الثقافۃ و العلاقات الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌ الدین بن نورالدین علی، الروضۃُ البہیۃ فی شرح اللُّمعۃ الدّمشقیۃ، قم، مکتبۃ الدواری، ۱۴۱۰ھ۔
  • الطباطبائی الیزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، مکتب آیۃ ‌اللہ العظمی السید السیستانی، بی‌تا۔
  • الطباطبایی الحکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۳۸۴ھ۔
  • غدیری، عبداللہ عیسی ابراہیم، القاموس الجامع للمصطلحات الفقہیۃ، بیروت، دار الحجۃ البیضاء، ۱۴۱۸ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فقہ الإمام الصادق، قم، مؤسسہ انصاریان، ۱۴۱۴ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۳۶۲ش۔