مندرجات کا رخ کریں

خمر

ویکی شیعہ سے

خَمْر کا مطلب انگور کی شراب ہے، جس کا پینا اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ فقہی کتابوں میں ہر نشہ آور مشروب شراب کے حکم میں آتا ہے اور اس کا پینا تمام مسلمانوں کے نزدیک حرام اور اس کی حرمت دین کے بنیادی اصولوں میں سے شمار ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں شراب پینے کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے جو گناہ کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے درمیان دشمنی اور نفرت پیدا کرتا ہے اور انہیں خدا کی یاد سے غافل کر دیتا ہے۔ البتہ قرآن میں ایسی شراب کا بھی ذکر آیا ہے جو جنت میں میسر ہوگی۔ جنت کی شراب دنیا کی شراب کی مانند نقصان دہ نہیں ہوگی۔

فقہائے اسلام کے فتاوا کے مطابق، شراب نجس ہے اور اس کی خرید و فروخت باطل اور غیرشرعی ہے۔ نیز انگور یا کھجور کو شراب بنائے جانے کی نیت سے بیچنا بھی حرام اور ہے۔ علاج کے لیے بھی اس کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کے وقت جائز سمجھا گیا ہے۔ جو شخص شراب پیتا ہے اس پر شرعی حد لاگو ہوتی ہے جو کہ اسی (80) کوڑے ہیں۔

مفہوم خَمر اور شراب نوشی کی ممانعت

خَمر لغت میں انگور کی شراب کو کہتے ہیں۔[1] آیات قرآن میں شراب کو خَمر کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔[2] بعض فقہی کتابوں میں بھی اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔[3] اگرچہ بعض لغت کی کتابوں میں ہر مست کنندہ مائع کو خمر کہا گیا ہے۔[4] بعض فقہاء نے بھی ہر مست کنندہ مشروب کو خمر کے حکم میں قرار دیا ہے۔[5]

اسلام میں شراب نوشی حرام ہے[6] اور یہ گناہان کبیرہ میں سے ہے۔[7] شراب پینے کی حرمت، تمام مسلمانوں کے درمیان ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اور یہ دین کے ضروریات میں سے ہے؛ یعنی اگر کوئی شخص اسے حلال سمجھے تو وہ کافر شمار کیا جاتا ہے۔[8]

قرآن میں خَمر کا ذکر

قرآن کریم کی چند آیات میں خَمر یا شراب کا مختلف تعبیرات کے ساتھ ذکر آیا ہے اور اس کی بعض خصوصیات بیان کی گئی ہیں،[9] ان میں سے کچھ یہ ہیں: یہ مست کنندہ ہے،[10] سر درد پیدا کرتی ہے،[11] گناہ کا باعث بنتی ہے،[12] عقل کو زائل کردیتی ہے،[13] ناپاک چیز ہے،[14] شیطانی عمل ہے،[15] انسانوں کے درمیان دشمنی اور کینہ پیدا کرتی ہے[16] اور لوگوں کو خدا کی یاد اور نماز سے غافل کر دیتی ہے۔[17] البتہ قرآن کی بعض آیات میں جنت کے اوصاف بیان کرنے کے دوران ایسی شراب کا بھی ذکر آیا ہے جس کی نہریں بہتی ہوں گی،[18] لیکن وہ شراب لذت بخش ہوگی[19] اور دنیاوی شراب کی طرح مست کنندہ،[10] سر درد کا باعث،[11] گناہ کا سبب[12] یا عقل کو زائل[13] نہیں کرے گی۔

شراب نوشی

ہر مست کنندہ مشروب کا استعمال شراب نوشی کہلاتا ہے۔[20] اسلام میں ہر قسم کی شراب کا پینا حرام ہے۔[21] چاہے وہ انگور، کھجور، کشمش یا کسی اور چیز سے بنائی گئی ہو۔[22] فقہاء کے فتویٰ کے مطابق، شراب پینے والا فاسق شمار ہوتا ہے اور اس کی گواہی عدالت میں قابلِ قبول نہیں۔[23] اسلامی فقہ کے مطابق شراب نوشی پر حد (شرعی سزا) عائد ہوتی ہے[24] جو اسی (80) کوڑے ہیں۔[25] البتہ اگر شراب پینے والا گواہوں کی گواہی سے پہلے توبہ کر لے تو اس پر حد جاری نہیں کی جاتی۔[26]

اسلام میں شراب کی حرمت کا اعلان

اگرچہ شراب کی حرمت اسلام میں ضروریاتِ دین میں سے شمار ہوتی ہے،[27] لیکن اس کے حرام ہونے کے وقت اور طریقۂ اعلان کے بارے میں دو مختلف نظریات پائے جاتے ہیں: دفعی تحریم کا نظریہ اور تدریجی تحریم کا نظریہ۔ ان دونوں نظریات میں اختلاف کا اصلی سبب یہ ہے کہ شراب کی حرمت پر دلالت کرنے والی آیات مکی ہیں[28] یا مدنی؟[29] جو علما شراب کے دفعی حرام ہونے کا نظریہ پیش کرتے ہیں ان کے مطابق شراب مکہ میں دفعتاً حرام قرار دی گئی ہے[30] جبکہ اہل سنت کے مطابق شراب پہلے حلال تھی اور اس کی حرمت تدریجی مراحل میں بیان ہوئی ہے۔[31] بعض شیعہ علما بھی تدریجی تحریم کے نظریے کی تائید کرتے ہیں، لیکن اس بات پر اختلاف موجود ہے کہ شراب کی حرمت کے اعلان کا طریقہ کیا تھا۔[32]

شراب کی نجاست

فقہاء اور مفسرین نے سورہ مائدہ کی آیت 90 اور 91[33] اور اس سے متعلقہ روایات[34] کی بنیاد پر خَمر کو نجس قرار دیا ہے۔ امام خمینی[35] اور سید ابوالقاسم خوئی (وفات: 1992ء)[36] نے بھی خمر کو نجس قرار دیا ہے۔ آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم علامہ حلی نے فقہاء کا اجماع نقل کیا ہے کہ خمر نجس ہے اور اس کی حرمت کی بنیاد بھی اسے نجاست قرار دیا گیا ہے۔[37] انہوں نے سید مرتضی (وفات: 436ھ) اور شیخ طوسی (وفات: 460ھ) سے بھی نقل کیا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خمر کی نجاست پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔[38] البتہ شیخ صدوق (305-381ھ) اور مقدس اردبیلی (وفات: 993ھ) نے خمر کے پاک ہونے کا نظریہ پیش کیا ہےاور اس کی طرف میلان بھی ظاہر کیا ہے۔[39]

شراب کے شرعی احکام

خمر کے بعض احکام درج ذیل ہیں:

  • شراب مالیت نہیں رکھتی ہے، یعنی اس کی خرید و فروخت باطل ہے؛[40] سوائے ان موارد کے جو اہلِ ذمّہ (کافر ذمی) سے متعلق ہوں یا وہ شراب جو سِرکہ بنانے کے لیے تیار کی گئی ہو۔[41]
  • انگور، کھجور، یا دیگر اشیاء کو شراب بنانے کی نیت سے فروخت کرنا حرام ہے اور اس کا معاملہ باطل ہے؛ البتہ اگر کوئی شخص کسی بادہ ساز کو انگور وغیرہ بیچتا ہے بغیر اس نیت کے کہ وہ شراب بنائے، تو اس صورت میں فقہاء کی آراء یکساں نہیں ہیں؛ بعض اسے حرام کہتے ہیں اور بعض مکروہ سمجھتے ہیں۔[42]
  • شراب کو بطور دوا استعمال کرنا، چاہے پینے کے ذریعے ہو یا کسی اور طریقے سے، اکثر اسلامی مذاہب کے مطابق جائز نہیں ہے، صرف ضرورت و اضطرار کی حالت میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔[43]

حوالہ جات

  1. زبیدی، تاج‌العروس، 1414ھ، ذیل واژہ «خمر»؛ طریحی، 1416ھ، ذیل واژہ «خمر».
  2. آیہ 219 سورہ بقرہ؛ آیہ 90 سورہ مائدہ.
  3. ملاحظہ کیجیے: بہبہانی، الرسائل الفقہیہ، 1378شمسی، ص79؛ نراقی، عوائد الأیام، 1417ھ، ص57.
  4. ملاحظہ کیجیے: ابن‌منظور، لسان العرب، 1414ھ، ذیل واژہ «خمر»؛ فیروزآبادی، القاموس المحیط، 1415ھ، ذیل واژہ «خمر»
  5. ملاحظہ کیجیے: شہیدثانی، الروضۃ البہیۃ (سلطان العلماء)، 1412ھ، ج2، ص371؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج6، ص6-5، شیخ بہائی، مشرق الشمسین، 1414ھ، ص433.
  6. علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیۃ، 1420ھ، ج5، ص343.
  7. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص571؛ شیخ صدوق، ثواب الأعمال، 1406ھ، ص479؛ علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1374شمسی، ج2، ص195 و ج6، ص135-131.
  8. ملاحظہ کیجیے: نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج36، ص373؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج2، ص157.
  9. آیہ 219 سورہ بقرہ؛ آیہ 90 سورہ مائدہ؛ آیہ 15 سورہ محمد؛ آیہ 36 و 41 سورہ یوسف؛ آیہ 67 سورہ نحل؛ آیہ 25 سورہ مطفّفین؛ آیہ 23 سورہ طور؛ آیہ 5 و 17 سورہ انسان؛ آیہ 34 سورہ نبأ؛ آیہ 45 سورہ صافّات؛ آیہ 18 سورہ واقعہ.
  10. 10.0 10.1 آیہ 47 سورہ صافّات.
  11. 11.0 11.1 آیہ 19 سورہ واقعہ.
  12. 12.0 12.1 آیہ 23 سورہ طور.
  13. 13.0 13.1 آیہ 47 سورہ صافّات.
  14. آیہ 90 سورہ مائدہ.
  15. آیہ 90 سورہ مائدہ.
  16. آیہ 91 سورہ مائدہ.
  17. آیہ 91 سورہ مائدہ.
  18. آیہ 15 سورہ محمد.
  19. آیہ 46 سورہ صافات.
  20. ہاشمی‌ شاہرودی، فرہنگ فقہ،‌ 1426ھ، ج4، ص634.
  21. علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیۃ، 1420ھ، ج5، ص343.
  22. ملاحظہ کیجیے: نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج41، ص46؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج2، ص454.
  23. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج41، ص47.
  24. ملاحظہ کیجیے: طباطبایی، ریاض المسائل، 1422ھ، ج13، ص547-544؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج2، 455-453
  25. ملاحظہ کیجیے: محقق حلّی، المختصر النافع، 1410ھ، ص222.
  26. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج2، ص456.
  27. ملاحظہ کیجیے: نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج36، ص373؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج2، ص157.
  28. علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1374شمسی، ج4، ص359-361 و ج6، ص134 و ج18، ص63-62.
  29. ملاحظہ کیجیے: قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364شمسی، ج6، ص286.
  30. علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1374شمسی، ج6، ص135؛ حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج25، ص304؛ شیخ صدوق، الأمالی، 1417ھ، ص502؛ ملاحظہ کیجیے: ابن‌ ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص260؛ دینوری، الشعر و الشعراء، 1423ھ، ج1، ص250.
  31. ملاحظہ کیجیے: طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج2، ص210؛فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج6، ص396؛ ابن‌ابی‌حاتم، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج2، ص39؛ زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 1407ھ، ج1،ص260-259؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364شمسی، ج6، ص286.
  32. سبحانی، مصادر الفقہ الاسلامی و منابعہ، 1419ھ، ص16؛ مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص328.
  33. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، 1417ھ، ج4، ص17-15؛ طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1372شمسی، ج3، ص370؛ شہید اول، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعہ، 1419ھ، ج1، ص114.
  34. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1364شمسی، ج1، ص279. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص405؛ حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج3، 469-468.
  35. امام خمینی، موسوعہ الإمام الخمینی (الطہارۃ)، 1434ھ، ج3، ص251.
  36. خویی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1407ھ، ج4، ص191.
  37. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ھ، ج1، ص469.
  38. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، 1413ھ، ج1، ص469.
  39. شیخ صدوق، المقنع، 1415ھ، ص453؛ مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج1، ص312.
  40. زحیلی،الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 1404ھ، ج3، ص25-22؛ نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج22، ص30.
  41. ملاحظہ کیجیے: زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 1404ھ، ج5، ص745-714؛ ابن‌اخوہ، معالم القربۃ فی احکام الحسبہ، 1976ء، ص84
  42. زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 1404ھ، ج4، ص186و34 و471-470؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج22، ص33-30؛ شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ص19-16.
  43. ملاحظہ کیجیے: کلینی، کافی، 1407ھ، ج 6، ص 413-415؛ زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، 1404ھ، ج6، ص162-156؛ نجفی، جواہرالکلام، 1362شمسی، ج 36، ص 444ـ447

مآخذ

  • ابن‌ ابی‌ حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، ریاض، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، 1419ھ۔
  • ابن‌ اخوہ، محمد بن محمد، معالم القربۃ فی احکام الحسبۃ، تحقیق: محمد محمود شعبان، مصر، بی‌نا، 1976ء۔
  • ابن‌ منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار الفکر للطباعہ و النشر و التوزیع، 1414ھ۔
  • ابن‌ ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویہ، تصحیح: ابراہیم ابیاری، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى(رہ)، 1392ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، موسوعہ الإمام الخمینی (کتاب الطہارۃ)، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ سوم، 1434ھ۔
  • بہبہانی، محمدباقر، الرسائل الفقہیہ، قم، مؤسسۃ العلامۃ المجدد الوحید البہبہانی، 1378ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، تحقیق و تصحیح گروہ پژوہش مؤسسہ آل‌البیت، قم، مؤسسہ آل‌البیت، چاپ اول، 1409ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، تقریر: علی غروی تبریزی، قم، نشر لطفی، 1407ھ۔
  • زبیدی، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دارالفکر، 1414ھ۔
  • زحیلی، وہبہ، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، دمشق، دار الفکر، 1404ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، تصحیح: محمد عبدالسلام شاہین، بیروت، دار الکتب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • سبحانی، جعفر، مصادر الفقہ الاسلامی و منابعہ، بیروت، دار الاضواء، 1419ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، قم، مؤسسہ آل‌البیت، چاپ اول، 1419ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، شارح: حسن بن محمد سلطان العلماء، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1412ھ۔
  • شیخ بہائی، محمد بن حسین، مشرق الشمسین و اکسیر السعادتین، تحقیق: سید مہدی رجایی، مشہد، مبحث البحوث الاسلامیہ، 1414ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، قم، کنگرہ جہانی بزرگ داشت شیخ اعظم انصاری، چاپ اول، 1415ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عِقاب الاعمال‏، قم، دار الشریف الرضی، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، اَلاَمالی، قم، مؤسسہ البعثۃ، چاپ اول، 1417ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، مؤسسہ امام ہادی(ع)، 1415ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، اَلتِّبیان فی تفسیرِ القرآن، تحقیق احمد قصیر عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1417ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الأحکام فی شرح المقنعۃ للشیخ مفید، تصحیح: محمد آخوندی، تہران، دار الکتب العلمیۃ، چاپ چہارم، 1365ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ایران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، 1412ھ۔
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1374ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فیروزآبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، نشر ناصر خسرو، 1364ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1424ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح إرشاد الأذہان، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، 1403ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جَواہر الکلام فی شرحِ شرائعِ الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دارُ اِحیاء التُّراثِ العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
  • نراقی، احمد بن محمد مہدی، عوائد الأیام فی بیان قواعد الأحکام و مہمات مسائل الحلال و الحرام، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1417ھ۔