خُفَّيْن پر مَسح کا مطلب وضو کے دوران جوتے یا موزوں پر مسح کرنا ہے۔ شیعہ فقہا کے مطابق خفین پر مسح باطل ہے اور وضو میں پاوں کی جلد پر مسح کرنا ضروری ہے۔ البتہ تقیہ یا ضرورت کی صورت میں موزے پر مسح کرنا جائز ہے۔ شیعہ فقہا نے موزوں پر مسح کی ممنوعیت کے لئے سورہ مائدہ کی چھٹی آیت مجیدہ «وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ؛ اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو» سے استناد کیا ہے۔ اس آیت کی روشنی میں ان کا کہنا ہے کہ مسح کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاوں پر ہو اور جوتا یا موزہ پاوں شمار نہیں ہوتے ہیں۔ موزوں پر مسح کی ممنوعیت میں بہت ساری روایات بھی منقول ہیں۔

اس کے برعکس، خفین پر مسح کے جواز میں اہل سنت کا اجماع ہے یہاں تک کہ عام حالت میں بھی یہ جائز ہے۔ اہل سنت کے مطابق وضو میں پاوں دھولیں یا خفین پر مسح کریں۔ ( پاوں کا مسح صحیح نہیں ہے)

مفہوم شناسی

مسح کا مطلب ہاتھ پھیرنا ہے۔[1] خفین عربی لفظ ہے جس کے معانی دو «خف» یعنی وہ موزے یا جوتے جو پاؤں کو مکمل ڈھانپ لیتے ہیں۔[2] اس کے مقابلے میں خُف اور نَعل ہیں جو پاؤں کے اوپر کے حصے کو مکمل نہیں ڈھانپ لیتے ہیں۔[3]

حکم شرعی

شیعہ فقہا کے فتوے کے مطابق وضو میں مسح پاؤں کی جلد پر ہونا چاہئے[4] اور موزوں پر مسح جائز نہیں ہے۔[5] البتہ اس حکم سے دو موارد کو استثنا کرتے ہوئے تقیہ کی صورت میں موزوں پر مسح کو جائز سمجھا ہے۔[6] و ضرورت[7] لہذا اگر سردی جیسی کسی چیز کا خوف ہو تو جوتوں پر مسح جائز ہے۔[8] اہل سنت کے ہاں موزوں پر مسح جائز ہونے میں اجماع ہے؛ اگرچہ عام حالت ہی کیوں نہ ہو۔[9]

دلایل شرعی

فقہا نے خفین پر مسح جائز نہ ہونے کو «وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ[؟؟]؛ اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو»[10] سے استناد کیا ہے۔[11] اس آیت کی بنا پر شیعوں کا کہنا ہے کہ مسح پاوں پر ہونا چاہئے اور جوتا (یا موزہ) پاؤں شمار نہیں ہوتے؛[12] جس طرح سے سر کا مسح سر پر ہونا چاہئے اور ٹوپی یا عمامہ پر مسح صحیح نہیں ہے۔[13] اہل بیتؑ کی روایات میں بھی جوتوں پر مسح صحیح نہ ہونے پر اسی آیت کو دلیل لایا ہے۔[14]

روایات کے مطابق امام علیؑ اس بات کے قائل تھے کہ رسول اللہؐ سورہ مائدہ کے نزول سے پہلے جوتوں پر مسح کرتے تھے؛ لیکن اس آیت کے نزول کے بعد سے جوتوں پر نہیں کیا۔[15] اور جوتوں پر مسح جائز ہونا اس آیت کی وجہ سے منسوخ ہوگیا۔[16] بہت ساری روایات بھی جوتوں پر مسح کی ممنوعیت پر وارد ہوئی ہیں۔[17]

اہل سنت کا کہنا ہے کہ سورہ مائدہ کی چھٹی آیت کے بعد بھی رسول اللہؐ جوتوں پر مسح کیا کرتے تھے۔[18] اسی وجہ سے اہل سنت اس آیت کو اس شخص سے مقید کرتے ہیں کہ جس کے پاؤں میں جوتا نہیں ہے۔[19] اہل سنت مفسر فخر رازی کا کہنا ہے کہ بعض صحابہ جوتوں پر مسح کو صحیح سمجھتے تھے اور دوسرے صحابہ اس حکم کی مخالفت نہیں کرتے تھے اور ان کا اس حکم کی مخالفت نہ کرنا جواز پر بہترین دلیل ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۲۵۶.
  2. مؤسسہ دائرة‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۴۷۳.
  3. مؤسسہ دائرة‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۴۷۳.
  4. ملاحظہ کریں: روحانی، فقہ الصادق(ع)، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹۲.
  5. آمدی، المسح فی وضوء الرسول(ع)، ص۱۳۲.
  6. روحانی، فقہ الصادق(ع)، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹۴.
  7. خویی، موسوعة الإمام الخوئی، ۱۴۱۸ق، ج۵، ص۲۰۷.
  8. آملی، المعالم المأثورة، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۹۸.
  9. نووی، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ۱۳۹۲ق، ج۳، ص۱۶۴.
  10. سورہ مائدہ، آيہ ۶.
  11. سبحانی، سلسلة المسائل الفقہیة، قم، ج۲، ص۹-۱۲.
  12. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۳، ص۴۵۷.
  13. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۳، ص۴۵۷.
  14. موسوی سبزواری، مواہب الرحمان، ۱۴۰۹ق، ج۱۱، ص۴۴.
  15. عیاشی، التفسیر، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۳۰۲.
  16. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۲۳۴.
  17. شہید اول، ذکری الشیعة فی أحکام الشریعة، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۱۵۷.
  18. ابن‌کثیر، تفسير القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۵۲.
  19. «مسح خفین»، سایت المفلحون.
  20. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۱۱، ص۳۰۷.

مآخذ

  • آمدی، محمدحسن، المسح فی وضوء الرسول(ص)، بی‌نا، بی‌تا.
  • آملی، میرزاہاشم، المعالم المأثورۃ، تقریر محمدعلی اسماعیل‌پور قمشہ‌ای، قم، نشر مؤلف الکتاب، چاپ اول، ۱۴۰۶ھ۔
  • جزیری، عبدالرحمن، و سید محمد غروی و یاسر مازح، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ و مذہب أہل البیت وفقاً لمذہب اہل البیت(ع)، بیروت، دار الثقلین، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الإمام الخوئی، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخوئی، چاپ اول، ۱۴۱۸ھ۔
  • روحانی، سید صادق، فقہ الصادق(ع)، قم، دار الکتاب، ۱۴۱۲ھ۔
  • سبحانی، جعفر، سلسلۃ المسائل الفقہیۃ، قم، بی‌نا، بی‌تا.
  • شہید اول، محمد بن مکی، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق احمد قصیر عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طباطبائی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، ۱۴۱۷ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، تحقیق و تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، المطبعۃ العلمیۃ، تہران، چاپ اول، ۱۳۸۰ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • «مسح خفین»، سایت المفلحون، تاریخ بازدید: ۱۶ مرداد ۱۴۰۰ش.
  • قرشی، سید علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دائرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذاہب اہل بیت، زیرنظر سید محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسۃ دائرۃ‌المعارف اسلامی، ۱۴۲۶ھ۔
  • موسوی سبزواری، سید عبدالاعلی، مواہب الرحمان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اہل بیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • نووی، یحیی بن شرف، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ١٣٩٢ھ۔