غسل جِنابَت وہ غسل ہے جو جنابت کی وجہ سے انجام دیا جاتا ہے۔ یہ غسل خود واجب نہیں بلکہ نماز اور طواف جیسے بعض واجبات کے لئے انجام دینا واجب ہے۔ غسل جنابت دوسرے غسلوں کی طرح ترتیبی اور ارتماسی صورت میں انجام دیا جاتا ہے۔ غسل ترتیبی میں پہلے سر اور گردن کو دھویا جاتا ہے پھر بدن کا دایاں حصہ اور اس کے بعد بایاں حصہ دھویا جاتا ہے۔ غسل جنابت وضو کی جگہ بھی لیتا ہے اور دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جنابت

غسلِ جنابت اسلام میں واجب غسلوں میں سے ایک ہے۔[1] اس غسل اور اس کے احکام کے بارے میں حدیثی،[2] فقہی[3] کتابوں اور مراجع کی توضیح المسائل[4] میں بحث ہوتی ہے۔

منی خارج ہونے (بیداری میں ہو یا نیند میں ہو) یا ہمبستری (حتی اگر منی خارج نہ ہو) کرنے سے انسان جُنُب ہوتا ہے۔[5] فقہا کے فتوے کے مطابق جس شخص پر غسل جنابت واجب ہو اس پر بعض اعمال حرام یا مکروہ ہوتی ہیں اور غسل کرنے کے بعد وہ حرام اور کراہت کا حکم ختم ہوتا ہے۔[6] مثال کے طور پر نماز پڑھنا، مسجد میں ٹھہرنا، واجب سجدہ والی سورتوں کو پڑھنا، قرآن کے متن کو چھونا اور چودہ معصومینؑ کے ناموں کو مَس کرنا جنابت والے شخص پر حرام ہے۔[7] اسی طرح کھانا، پینا، قرآن کی سات سے زیادہ آیتوں کی تلاوت کرنا، قرآن کے جلد کو چَھونا اور جان کنی میں مبتلا انسان کے پاس جانا وغیرہ مکروہ ہیں۔[8] البتہ ان میں سے بعض کی کراہت وضو کرنے سے بھی ختم ہوتی ہے۔[9]

جنابت کے فورا بعد غسل کرنا

مجتہدین کے فتوا کے مطابق غسل جنابت واجب غیری (کسی اور عبادت کی وجہ سے واجب ہوا ہے)؛[10] یعنی غسل بذات خود واجب نہیں بلکہ مستحب ہے[11] لیکن نماز جیسی بعض عبادتوں کے لئے واجب ہوتا ہے۔[12] فقہا کا یہ بھی کہنا ہے کہ غسل جنابت کو جلدی انجام دینا واجب نہیں بلکہ واجب موسع (جس واجب کا وقت وسیع ہوتا ہے) ہے؛ اس لئے جس عبادت کے لئے یہ غسل واجب ہوتا ہے اس عبادت کے وقت تک تاخیر کر سکتے ہیں۔[13]

روزے کی صحت غسل جنابت پر موقوف

اگر کسی شخص پر رمضان المبارک میں غسل جنابت واجب ہوجائے تو روزے کے لئے صبح کی اذان سے پہلے غسل کرنا چاہیے؛ اور جس پر غسل واجب ہوا ہو جان بوجھ کر اذان سے پہلے غسل بجا نہ لائے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہونگے۔[14]

غسل جنابت کا طریقہ

دوسرے غسلوں کی طرف غسل جنابت کو بھی دو طریقے یعنی ترتیبی یا ارتماسی طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔[15]

احکام

  • اگر جنابت صرف منی خارج ہونے سے ہو تو مشہور قول کے مطابق غسل سے پہلے استبراء کرنا مستحب ہے۔[16]

غسل ترتیبی میں پہلے سر اور گردن، پھر بدن کے دائیں طرف اور اس کے بعد بائیں طرف دھوئے جاتے ہیں۔[17] غسل ارتماسی میں پورے بدن کو ایک ہی دفعہ پانی میں ڈبویا جاتا ہے اور ارتماسی میں سارا بدن ایک ہی دفعے میں پانی کے نیچے آنا ضروری ہے۔[18]

غسل جنابت کے آداب

  • اگر غسل جنابت منی نکلنے کی وجہ سے واجب ہوا ہو تو فقہا کے فتوے کے مطابق غسل سے پہلے چھوٹا پیشاب کرنا مستحب ہے۔[19]
  • غسل سے پہلے ہاتھ دھونا، منہ میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور غسل کے دوران بسم‌اللّہ اور ماثور دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔[20]

غسل جنابت کا وضو کے لئے کافی ہونا

فقہا کے فتوے کے مطابق غسل جنابت وضو کے لئے کافی ہے[21] اور مشہور قول کے مطابق غسل جنابت کے بعد وضو کرنا جائز نہیں ہے۔[22] لیکن علامہ حلی کے مطابق شیخ طوسی دوسرے علما کے برخلاف غسل جنابت کے ساتھ وضو کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔[23]

  • اگر غسل جنابت کے دوران کوئی حدث اصغر (مبطلات وضو میں سے کوئی ایک) سرزد ہوجائے؛ مثلا پیشاب نکلے یا ریح خارج ہوجائے تو غسل صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ اگر غسل صحیح ہو تو اس صورت میں یہ غسل وضو کے لئے کافی ہونے میں اختلاف ہے۔[24]سید محمد کاظم طباطبایی یزدی کے فتوے کے مطابق غسل باطل نہیں ہوتا ہے لیکن وضو کرنا ہوگا۔[25]

غسل جنابت کا فلسفہ

عِلَل الشرایع میں منقول روایات کے مطابق غسل جنابت واجب ہونے کا فلسفہ بدن کو نجاست سے پاک اور صاف کرنا ہے کیونکہ جنابت تمام بدن سے خارج ہوتا ہے اسی لئے پورے بدن کو دھویا جاتا ہے۔[26] تفسیر نمونہ میں کہا گیا ہے کہ: دانشوروں کی تحقیق کے مطابق انسانی بدن میں دو طرح کے نباتاتی اعصاب ہیں جو بدن کو کنٹرول کرتے ہیں جب انسان انزال (ارگاسم) کے مرحلے میں پہنچتا ہے تو وہ دونوں اعصاب بگڑ جاتے ہیں اور بدن پر پانی ڈالنے سے وہ اعصاب اپنی جگہ آجاتے ہیں اور انزال کے اثرات چونکہ پورے بدن پر ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے جنابت میں پورے بدن کو دھونے کا حکم ہوا ہے۔[27]

حوالہ جات

  1. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص493۔
  2. ملاحظہ ہو: حر عاملی، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت، ج2، ص273 کے بعد۔
  3. ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص521۔
  4. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1381شمسی، ج1، ص208۔
  5. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص496-499۔
  6. ملاحظہ ہو: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص507۔
  7. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ص507-509۔
  8. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص520۔
  9. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص520۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج1، ص46۔
  11. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص521۔
  12. ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص521۔
  13. ملاحظہ کریں: ابن‌ادریس، موسوعۃ ابن‌ادریس الحلی، 1387شمسی، ج7، ص111۔
  14. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1420ھ، ج3، ص563۔
  15. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص522-523۔
  16. جواہر الکلام، ج3، ص108
  17. حکیم، مستمسک العروہ، 1968م، ج3، ص79۔
  18. حکیم، مستمسک العروہ، 1968ء، ج3، ص85-86۔
  19. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج3، ص108۔
  20. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص541-542۔
  21. شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسہ نشر اسلامی، ج1، ص131؛ نجفی، جواہر الکلام، 1363شمسی، ج3، ص240۔
  22. نجفی، جواہر الکلام،1362شمسی، ج3، ص240۔
  23. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1412ھ، ج1، ص340۔
  24. ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص547۔
  25. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص547۔
  26. صدوق، علل الشرایع، المكتبۃ الحيدريۃ ومطبعتہا في النجف، ج1، ص281۔
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج4، ص292-294۔

مآخذ

  • ابن‌ادریس، موسوعۃ ابن‌ادریس الحلی، قم، دلیل ما، 1387ہجری شمسی۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، محمدحسن، توضیح المسائل، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، بی‌تا۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، نجف، بی‌نا، 1968م۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، بی‌تا۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، المکتبۃ الحیدریۃ ومطبعتہا فی النجف، بی‌تا۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی (ج1)، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، الطبعۃ الاولی، 1417ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی (ج3)، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، الطبعۃ الاولی، 1420ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعہ، بہ کوشش مرکزالابحاث والدراسات الاسلامیۃ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1412ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ: سی و دوم، 1374ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔