ماہواری

ویکی شیعہ سے
(خون حیض سے رجوع مکرر)

ماہواری (ماہانہ عادت، حیض) بلوغ سے یائسگی تک عورت کے رحم سے حیض جاری ہونے کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر 5 سے 7 دن تک ہوتا ہے۔ اس مدت میں عورت کو «حائض» کہا جاتا ہے اور اس کے بعض خاص فقہی احکام بھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عورت کے لیے ان دنوں میں ان اعمال کا انجام دینا حرام ہے جن کے لیے طہارت شرط ہے۔ قرآن میں حیض عورت کے لیے تکلیف دہ اور ملال آور قرار دیا گیا ہے اور اس حالت میں ہمبستری کی ممانعت آئی ہے۔ ماہواری کے بعد بعض امور کے لیے غسل حیض انجام دینا واجب ہے۔

خون حیض

عورت کے رحم سے مختلف خون کا آنا ممکن ہے جن کے مختلف احکام ہیں: زخم کا خون، وضع حمل کا خون نفاس، خون استحاضہ اور خون حیض. خون حیض عام طور پر گاڑھا اور سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ چونکہ رحم سے خارج ہونے والے مختلف خون کے حساب سے اس کے احکام مختلف ہیں اور اسی وجہ سے خون حیض کی شناخت کے لیے فقہ میں بعض معیار اور شرائط بیان ہوئی ہیں۔

احکام حائض

قرآن میں خون حیض کو تکلیف دہ اور ملال آور بیان کیا ہے اور اس حالت میں ہمبستری سے منع کیا ہے۔[یادداشت 1] کتاب وسائل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں احکام حیض کے بارے میں 375 احادیث بیان ہوئی ہیں جن کے مطابق حائض کے مخصوص احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  • مجنب شخص پر حرام تمام چیزیں حائض پر بھی حرام ہیں، جیسے مسجد میں ٹھہرنا، مسجد میں کوئی چیز رکھنا، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے اندر سے عبور کرنا، اللہ کا نام اور قرآنی آیات کو چھونا، طہارت سے مشروط عبادتوں جیسے نماز، روزہ، طواف اور اعتکاف کو انجام دینا۔[1] حائض عورت پر عادت کے دنوں کے نماز کی قضا واجب نہیں ہے لیکن ماہ رمضان کے روزوں کی قضا اس پر واجب ہے۔[2]
  • واجب سجدہ والی سورتوں کا پڑھنا۔[3]
  • عادت کے دنوں میں ہمبستری کرنا مرد اور عورت دنوں پر حرام ہے اور اکثر فقہا کا کہنا ہے کہ اس پر کفارہ بھی ہے۔[4]
  • حائض کی طلاق باطل ہے۔[5]
  • ماہواری کے ایام ختم ہونے کے بعد بعض عبادات جیسے نماز، روزہ کے لیے غسل حیض واجب ہوتا ہے۔

مکروہات

حیض کے دوران بعض کام مکروہ ہیں:[6]

مستحبات

حائض عورت کے لیے مستحب ہے کہ نماز کے وقت خود کو خون سے پاک کرے اور وضو کر کے نماز پڑھنے والی جگہ پر ذکر، دعا اور صلوات میں مشغول رہے۔[7]

غسل حیض

وہ عبادتیں جنہیں انجام دینے کے لئے طہارت شرط ہے ان کے لیے ماہواری کے ایام ختم ہونے کے بعد غسل حیض انجام دینا واجب ہے۔ جیسا کہ مسجد میں ٹھہرنے کے لیے حیض، نفاس، استحاضہ یا جنابت سے پاک ہونا شرط ہے۔[8] غسل حیض، غسل جنابت کی طرح ہے اور فرق صرف نیت میں ہے۔ اکثر فقہا کے مطابق نماز کے لیے غسل حیض کے علاوہ وضو بھی کرنا ضروری ہے۔[9]

تأخیر عادت برای زیارت

وہ تمام کام جو مجنب شخص پر حرام ہیں ماہواری کے دنوں میں حائض عورت پر بھی حرام ہیں۔ بعض مراجع تقلید نے[10] حائض اور مجنب کے لیے ائمہؑ کے حرم میں ٹھہرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ بعض زوار جو کربلا، نجف، مکہ یا مدینہ جاتی ہیں اور زیارات کو اطمینان سے انجام دینے کے لیے طبی گولیاں کھاتی ہیں جس سے ان کی ماہواری میں تاخیر ہوتی ہے۔ ایسا کام اگر عورت کی صحت کے لیے زیادہ نقصان دہ نہ ہو تو اسےاستعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔[11]

حیض سے پاک خواتین

رسول اکرمؐ کی ایک حدیث میں «بَتول» کا لفظ خون نہ دیکھنے والی خواتین کے معنی میں آیا ہے۔ اس حدیث میں حضرت مریم و حضرت فاطمہؑ کو بتول کا لقب دیا گیا ہے۔[12]

امام باقرؑ نے حضرت فاطمہ کے القاب میں سے ایک «طاہرہ» ذکر کیا ہے اور اس کو ایسے شخص کے معنی میں لیا ہے جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے اور کبھی خون حیض یا نفاس نہیں دیکھتی ہیں۔[یادداشت 2]

دوسرے ادیان اور احکام حائض

زرتشت

کتاب زرتشت کی تیسری فصل «شایست نِشایست» (شایستہ اور غیرشائستہ) میں حائض عورت کو «دَشتان» نام دیا ہے اور اس کے بعض مخصوص اعمال ہیں: اس دوران اگر وہ قالین یا بالشت پر پاؤں رکھے تو وہ نجس ہونگے، پکا ہوا کھانا اگر اس سے تین قدم کے فاصلے سے قریب ہو تو وہ ناپاک ہوتا ہے، اس دوران بدن پر پانی نہیں لگانا ہوگا، اگر اس دوران ہاتھ دھوئے تو گویا اس نے گناہ کیا ہے اور اس کا کفارہ ہے، اگر سورج یا کسی بھی روشنی یا کسی چوپائے جانور یا نباتات کو دیکھے، یا اشو (مومن مرد) سے بات کرے تو گویا گناہ کیا ہے اور ناپاکی اس تک منتقل کیا ہے، اگر حائض عورت کے بدن سے کسی کا کپڑا لگے تو وہ کپڑا نجس ہے اور اس کو گائے کے پیشاب سے دھونا ہوگا۔۔۔ وغیرہ۔[13]

یہودیت

تورات کے مطابق یہودی حائض عورت کو نجس سمجھتے ہیں: « اگر کسی عورت کے بدن سے خون جاری ہو اور سات دن تک حیض میں رہے اور جو بھی اسے چھو لے وہ شام تک نجس رہے گا اور جس چیز پر حائض سوئے وہ نجس ہے، جس چیز پر وہ بیٹھے وہ نجس ہے، جو شخص اس کے بستر کو چھو لے تو اپنے کپڑے دھو لے اور پانی سے غسل کرے نیز شام تک نجس ہے۔۔۔۔ اور اگر کوئی مرد اس سے ہمبستری کرے جبکہ عورت حیض کی حالت میں ہو تو سات دن تک وہ نجس ہوگا۔[14]

حوالہ جات

نوٹ

  1. وَیسْأَلُونَک عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ هُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیضِ وَ لاتَقْرَبُوهُنَّ حَتَّیٰ یطْهُرْنَ (ترجمہ: اور اے پیغمبر یہ لوگ تم سے ایاّم حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دو کہ حیض ایک اذیت اور تکلیف ہے لہذا اس زمانے میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ پھر جب پاک ہوجائیں تو جس طرح سے خدا نے حکم دیا ہے اس طرح ان کے پاس جاؤ. بہ تحقیق خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔۔)[؟–222]
  2. عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ عَنْ آبَائِهِ(ع) قَالَ: إِنَّمَا سُمِّیتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ الطَّاهِرَةَ لِطَهَارَتِهَا مِنْ کلِّ دَنَسٍ وَ طَهَارَتِهَا مِنْ کلِّ رَفَثٍ وَ مَا رَأَتْ قَطُّ یوْماً حُمْرَةً وَ لانِفَاساً. مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶

مآخذ

  • توضیح المسائل مراجع، دفتر انتشارات اسلامی۔
  • خمینی (امام)، سید روح الله، تحریر الوسیلۃ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، مکتبۃ الداوری، ۱۳۸۵ھ۔
  • قندوزی حنفی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودة لذوی القربی، قم، اسوه، ۱۴۲۲ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مزداپور، کتایون، شایست نشایست، تہران، مؤسسه مطالعات و تحقیقات فرہنگی، ۱۳۶۹ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، انتشارات دایرة المعارف فقہ اسلامی۔