امام جمعہ

ویکی شیعہ سے

امام جمعہ، نماز جمعہ کے پیش نماز کو کہا جاتا ہے۔ فقہا کے فتاویٰ کے مطابق، عدالت، حلال‌ زادہ ہونا، ایمان، بلوغ اور مرد ہونا نماز جمعہ کی امامت کی اہم شرطیں ہیں۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ اور امام علیؑ خود نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے یا بعض افراد کو اس کے قیام کے لئے منصوب کیا کرتے تھے۔

اسلامی حکومتوں میں امامت جمعہ ایک حکومتی منصب بھی ہوا کرتا تھا۔ اسی لئے حکام وقت خود نماز جمعہ قائم کرتے تھے یا ائمہ جمعہ کو منصوب کیا کرتے تھے۔ جیسے اموی، عباسی، عثمانی اور صفوی دور میں ائمہ جمعہ حاکموں کی طرف سے منصوب کئے جاتے تھے۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے منصوب کئے جانے والے افراد پر مشتمل «کمیٹی برائے امور ائمہ جمعہ» کے ذریعہ تمام شہروں کی نماز جمعہ کی منیجمنٹ اور نظارت کا کام انجام دیا جاتا ہے۔

نماز جمعہ

تہران میں پہلی نماز جمعہ آیت اللہ طالقانی کی امامت میں
تفصیلی مضمون: نماز جمعہ

امام جمعہ اسے کہا جاتا جاتا ہے کہ جو نماز جمعہ کی امامت کے فرائض انجام دیتا ہے۔[1] نماز جمعہ دو رکعت ہے جو جمعہ کے دن نماز ظہر کے بدلے پڑھی جاتی ہے۔ یہ نماز جماعت کی شکل میں پڑھی جاتی ہے۔ شیعہ فقہا کے فتوا کے مطابق امام کی موجودگی میں یا اس کی اجازت سے یا اس کے نائب کی اجازت سے واجب ہے۔[2] غیبت امام زمانہ(عج) میں نماز جمعہ کے قیام کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ شہید اول، کے مطابق اکثر فقہا کی نظر میں غیبت کے زمانے میں نماز جمعہ کا قیام جائز ہے۔ لیکن پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے بعض شیعہ فقہا جیسے سَلّار دیلمی، سید مرتضی اور ابن‌ادریس حلی، غیبت کے زمانے میں نماز جمعہ کے قیام کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔[3]

امامت جمعہ، حکومتی منصب

معاصر تاریخ کے محقق کے مطابق، جمعہ کی امامت ہمیشہ سے ایک حکومتی منصب رہا ہے۔[4] صدر اسلام میں، نماز جمعہ پیغمبر اکرم(ص)،[5] امام علی(ع) کے ذریعہ قائم ہوتی تھی یا ان افراد کے ذریعہ اس کا قیام عمل میں آتا تھا جو ان کی طرف سے منصوب کئے جاتے تھے۔[6] اسی طرح اموی، عباسی و عثمانی، ادوار حکومت میں خود خلفا یا ان کی طرف سے منصوب کئے جانے والے افراد نماز جمعہ قائم کیا کرتے تھے۔ خلفا خلافت کے مرکز میں ہونے والے امام جمعہ کو منصوب کرتے تھے اور دوسرے شہروں کے ائمہ جمعہ کا انتخاب ان شہروں کے والیوں اور گورنروں کے ذریعہ ہوتا تھا۔[7]

ایران میں صفوی دور حکومت (907-1135ھ)، میں ائمہ جمعہ کا انتصاب بادشاہوں کی طرف سے ہوتا تھا۔[8] اس دور میں غالبا ہر شہر کا شیخ‌الاسلام اس منصب پر فائز ہوتا تھا؛ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی ایسا عالم بھی بادشاہ کے کہنے پر امامت جمعہ کے منصب پر فائز ہوتا تھا جو شیخ الاسلام نہیں ہوتا تھاجیسے [[ملا محسن فیض کاشانی۔[9] محقق کرکی، شیخ بہائی، میر داماد، محمد تقی مجلسی، علامہ مجلسی، محمد باقر سبزواری اور لطف‌ الله اصفہانی اس دور کے ائمہ جمعہ تھے۔[10] قاجار دور حکومت، (1210ـ1344ھ) میں امامت جمعہ کا منصب تقریبا موروثی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اس دور میں تہران میں خاتون‌آبادی خاندان اور اصفهان میں مجلسی خاندان امامت جمعہ کا عہدیدار ہوا کرتا تھا۔[11]

شرائط اور احکام

امام جمعہ کے شرائط وہی ہیں جو امام جماعت کے شرائط ہیں۔[12] در فقہی مآخذ میں عقل،[13] بلوغ،[14] ایمان،[15] عدالت[16] و حلال‌ زادہ ہونا[17] امام جماعت کے شرائط شمار کئے گئے ہیں۔[18] مرد ہونا بھی امام جمعہ کی ایک شرط ہے۔ اس بنا پر عورتوں کے لئے بھی کسی عورت کا امام جمعہ ہونا صحیح نہیں ہے۔[19]

فقہا کے فتاویٰ کے مطابق، مستحب ہے کہ امام جمعہ واضح اور فصیح زبان میں گفتگو کرے، اوقات نماز کی پابندی کرتا ہو، اپنی باتوں پر عمل کرتا ہو،[20] خطبہ دہتے وقت اس کے سر پر عمامہ ہو، عصا یا اسلحہ لے کر کھڑا ہو اور اس کا رخ نمازیوں کی طرف ہو۔[21]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. دهخدا، لغتنامہ، امام جماعت کے ذیل میں۔
  2. دیکھیے: شہید اول، الذکریٰ الشیعہ، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۱۰۴؛ محقق کرکی، جامع‌ المقاصد، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۳۷۹؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۱۵۱-۱۹۳۔
  3. شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ۱۰۴-۱۰۶۔
  4. جعفریان، صفویہ در عرصہ دین فرہنگ و سیاست، ۱۳۷۹ش، ص۲۵۵۔
  5. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج‌۱۰، ص۴۳۱-۴۳۲۔
  6. دیکھیے: نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۱، ص۱۵۴۔
  7. رحمان‌ ستائش، «جمعہ»، ص۷۰۲۔
  8. دیکھیے: جعفریان، دوزاده رسالہ فقهی درباره نماز جمعہ از روزگار صفوی، ۱۳۸۱ش، ص۲۷۔
  9. جعفریان، صفویہ در عرصه دین فرہنگ و سیاست، ۱۳۷۹ش، ص۲۳۷۔
  10. رحمان‌ ستائش، «نماز جمعہ»، ص۷۰۲۔
  11. رحمان‌ ستائس، «جمعہ»، ص۷۰۲۔
  12. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۲۵۱۔
  13. نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۳، ص۳۲۳۔
  14. نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۳، ص۳۲۵۔
  15. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۳، ص۲۷۳۔
  16. نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۳، ص۷۵۔
  17. نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۳، ص۳۲۴ ۔
  18. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۲۵۱۔
  19. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۲۵۱۔
  20. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۳۲۹۔
  21. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۲۴۷۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، استفتائات، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۲ش۔
  • امام خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیلہ، تحقیق مؤسسہ تنظیم و نشر آثار الامام الخمینی، تہران، مطبعۃ مؤسسۃ العروج، ۱۳۹۲ش/۱۴۳۴ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌الله، صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، بی‌تا۔
  • «شہيدان محراب چند نفر ہستند و نامشان چيست؟»، پایگاه اطلاع‌رسانی فرہنگ ایثار و شہادت، انتشار ۲۵ مهر ۱۳۹۵ش، مشاہده ۲۳ اسفند ۱۳۹۹ش۔
  • جعفریان، رسول، دوزاده رسالہ فقہی درباره نماز جمعہ از روزگار صفوی، قم، انصاریان، ۱۳۸۱ش۔
  • جعفریان، رسول، صفویہ در عرصہ دین، فرہنگ و سیاست، قم، پژوهشکدہ حوزہ و دانشگاہ، ۱۳۷۹ش۔
  • حائری، علی، روزشمار شمسی، قم، دفتر عقل، ۱۳۸۶ش۔
  • چہ کسانی به نیابت از رہبری نماز جمعہ می‌خوانند؟، خبرآنلاین، انتشار ۴ مرداد ۱۳۹۳ش، مشاهده ۲۳ اسفند ۱۳۹۹ش۔
  • دہخدا، علی‌ اکبر، لغت نامہ، انتشارات دانشگاه تہران، ۱۳۷۷ش۔
  • رحمان‌ ستائش، محمد کاظم، «جمعہ»، در دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، ج۱۰، تہران، ۱۳۸۵ش۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، موسسہ آل البیت علیهم السلام، ۱۴۱۹ق۔
  • شیرخانی، علی، زندگی و گزیده اندیشہ سیاسی آیت‌الله طالقانی، علوم سیاسی، شماره۲، ۱۳۷۷ش
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ محمد جواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • «مراسم بزرگداشت شہید محراب با حضور بلندپایہ ترین مقامات عراق»، خبرگزاری ابنا، انتشار: ۲۱ فروردین ۱۳۹۵ش، مشاہده: ۱۶ اسفند ۱۳۹۹ش۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسۃ آل‌ البیت علیہم‌السلام لاحیاء التراث، ۱۴۰۸ق۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، ۱۴۰۴ق۔