آب کر

ویکی شیعہ سے

آب کر (یعنی کر کا پانی)، مطلق پانی کی معین مقدار ہے کہ جو نجاست کے اتصال سے نجس نہیں ہوتا اور اس سے نجس اشیاء کو پاک کیا جا سکتا ہے.

کر کے پانی کا حجم ایک ایسے برتن کے برابر جس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی ساڑھے تین بالشت ہو کہ جس کا معادل علماء میں اختلاف کی بنا پر ٣٧٦ کلو گرام سے ٤٨٠ کلو گرام کہا گیا ہے.

آب کر کا اندازہ اور وزن

مشہور قول کی بنا پرکر اتنا پانی ہے جو ایک ایسے برتن کو بھر دے جس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی ساڑھے تین پالشت ہو. اس بنا پر اس کا مجموعہ ٨-٧-٤٢ بالشت ہے. اور اس کا مجموعہ ٣٦ اور ٢٧ بالشت بھی کہا گیا ہے. [1] پانی کے وزن کے بارے میں نیز مختلف رائے موجود ہے:

  • ٣٧٦/٧٤٠ کلو گرام
  • ٣٧٧ کلو گرام
  • ٣٨٤ کلو گرام [2]

بعض نے کہا ہے: اگر پانی کی مقدار ٤٨٠ کلو گرام ہو تو، تمام فقہاء کی نظر میں وہ پانی، کر کا پانی ہے.[3]

احکام

پانی کی مقدار کُر کے برابر ہونا دو طریقوں سے ثابت ہو سکتا ہے، (اول) انسان کو خود اس کے بارے میں یقین ہو (دوم) دو عادل مرد اس کے بارے میں خبر دیں. اگر ایک مورد اعتماد یا عادل مرد پانی کے کُر ہونے کا اعلان کرے تو کیا یہ پانی کر ہے اس کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے. [4]

کُر کا پانی مطلق پانی کی اقسام سے ہے اور اس میں پاک کرنے کی صلاحیت موجود ہے [5] اور نجاست کے اتصال سے نجس نہیں ہوتا، مگر یہ کہ اس کا رنگ، بو یا مزہ نجاست سے اتصال کے وقت تبدیل ہو جائے. [6] تو اس صورت میں اس کے پاک ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس کا اتصال آب کثیر سے ہو اور وہ اس میں اتنا مل جائے کہ وہ تبدیلیاں ختم ہو جائیں. [7]

نجس اشیاء کُر کے پانی میں ایک بار دھونے سے پاک ہو جاتی ہیں. اور یہ کہ بعض جگہ پر کئی بار دھویا جائے جیسے کہ پیشاب سے نجس شدہ اشیاء، یا نجس برتن، اور ایسے نجس کپڑے کہ جن کے اندر پانی دھنس جاتا ہے، ان کے دھونے کے بارے میں نظریات مختلف ہیں.[8]

مشہور قول کے مطابق دو پہلے موارد (پیشاب سے نجس شدہ اشیاء اور نجس برتن) اور اسی طرح آخری مورد کے بارے میں بھی مشہور کی نظر میں کئی بار دھونے کی ضرورت نہیں ہے. [9]

اگر پانی، کُر باقی رہنے کے بارے میں شک ہو تو وہ کُر کا حکم رکھتا ہے اور اگر قلیل پانی کے بارے میں شک ہو کہ وہ کُر میں تبدیل ہو گیا ہے یا نہیں تو وہ قلیل کا حکم رکھتا ہے. [10]

حوالہ جات

  1. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص ۱۷۲ـ۱۷۳
  2. بنی‌هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع؛ مسأله۱۶، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۳۸-۳۹.
  3. بنی‌هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع؛ مسأله۱۶، ۱۳۷۸ش، ج۱، ص۳۸-۳۹.
  4. طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۶.
  5. طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۶.
  6. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۵۳ـ۱۵۴.
  7. طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۳.
  8. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۱۳ـ۱۱۴.
  9. موسوی سبزواری، مهذب الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۱۸، ص۳۳ و ۴۰.
  10. طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۶ـ۳۷.

مآخذ