مندرجات کا رخ کریں

عورت کی امامت

ویکی شیعہ سے

عورت کی امامت، مشہور فقہاء کے مطابق خواتین کی نماز جماعت میں عورت کی امامت جائز ہے، لیکن اگر جماعت میں مرد بھی شامل ہوں تو اس صورت میں عورت کی امامت جائز نہ ہونے پر فقہاء کا اجماع ہے۔

آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ صافی گلپایگانی جیسے فقہاء نے عورتوں کے لیے عورت کی امامت کو مکروہ قرار دیا ہے، جبکہ امام خمینی اور آیت اللہ فاضل لنکرانی احتیاط کی بنیاد ہر اسے صحیح نہیں جاتے ہیں۔ بارہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ یوسف بن احمد بحرانی نے صرف ان مستحب نمازوں میں جسے جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے جیسے نماز استسقاء (بارش کے لئے پڑھی جانے والی نماز) صحیح قرار دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسئلے میں فقہی اختلاف کی وجہ احادیث میں موجود اختلاف ہے۔

شرعی حکم

اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری ٹی وی پر عورت کی امامت میں قائم نماز جماعت دکھائی گئی

نماز جماعت میں عورت کی امامت ان فقہی مسائل میں سے ہے، جس پر مختلف اسلامی مذاہب میں بحث کی گئی ہے۔[1] اس سلسلے میں دو حالتیں بیان کی گئی ہیں[2]: پہلی حالت میں، اگر مقتدی مرد ہوں یا مرد و عورت دونوں شامل ہوں، تو شیعہ[3] اور اہل سنت[4] فقہاء کا اتفاق ہے کہ عورت امام جماعت نہیں بن سکتی؛ اسی بنیاد پر وہ نماز جمعہ کے لئےعورت کئ امامت کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔[5]

دوسری حالت میں، جب تمام مقتدی عورتیں ہوں، تو انیسویں صدی کے شیعہ فقیہ صاحب جواہر نے فقہائے شیعہ کا مشہور نظریہ کے تحت عورت کی امامت کو جائز بتایا ہے۔[6] شیخ طوسی (وفات: 460 ہجری) نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے باوجود، بعض فقہاء جیسے آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ صافی گلپایگانی نے عورتوں کے لیے عورت کی پیش‌نمازی کو مکروہ کہا ہے۔

ایک اور گروہ، جیسے بارہویں صدی کے شیعہ فقیہ صاحب حدائق معتقد ہیں کہ عورت صرف مستحب نمازوں جیسے نماز استسقاء اور نماز عیدین کی امامت کرسکتی ہے، لیکن واجب نمازوں میں عورت کی امامت درست نہیں ہے۔ دوسری طرف، امام خمینی اور آیت اللہ فاضل لنکرانی معتقد ہیں کہ "احتیاط واجب" کی بنیاد پر عورتوں کے لئے امام جماعت میں بھی مرد ہونا چاہیے۔ اہل‌سنت مذاہب میں مالکیہ کے علاوہ باقی تمام مذاہب نے عورتوں کے لیے عورت کی امامت کو قبول کیا ہے۔

فقہاء کے فتویٰ کی بنیاد

ساتویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ محقق حلّی نے مردوں کی نماز جماعت کے لیے عورت کی امامت کے جائز نہ ہونے کو علمائے دین کا متفقہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ سے مروی ایک حدیث[7] سے استناد کیا ہے۔[8] اپ معتقفد ہیں کہ اسلام میں عورت کو پردے اور حیا کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ امام جماعت کو نمایاں اور شناختہ شدہ ہونا چاہیے۔[9]

کہا جاتا ہے کہ عورتوں کے لیے عورت کی امامت کے جواز یا عدم جواز پر فقہاء کے فتوں میں اختلاف کی وجہ احادیث میں موجود اختلاف ہے کہ وہ تین قسموں پر مشتمل ہیں:[10]

  1. مطلقا جائز قرار دینے والی احادیث: اس طرح کی احادیث عام طور پر عورتوں کی نماز جماعت کے لئے عورت کی امامت کو، خواہ واجب ہو یا مستحب، جائز قرار دیتی ہیں۔[11]
  2. مطلقا عدم جواز کے قائل احادیث: یہ احادیث نماز جماعت کے لئے عورت کی امامت کو صراحتاً حرام قرار دیتی ہیں۔[12]
  3. تفصیل والی احادیث: یہ احادیث واجب اور مستحب نمازوں میں [13] اور بعض اوقات نماز جنازہ اور دیگر نمازوں میں بھی فرق کی قائل ہیں۔[14]

تیسری صدی ہجری کے مورخ و سیرت نگار ابن سعد کی کتاب الطبقات الکبری میں ذکر کردہ حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمّ ورقہ نامی عورت کو اپنے گھر والوں کے لئے نماز جماعت کی امامت کی اجازت دی تھی۔[15] سعودی عرب، شہر قطیف کے امام جمعہ حسن الصفار (پیدائش 1958ء) اسی حدیث کی بنیاد پر معتقد ہیں کہ عصر حاضر میں بھی خواتین کے خصوصی اجتماعات میں عورتیں، عورتوں کی نماز کی امامت کرسکتی ہیں۔[16]

حوالہ جات

  1. نمونہ کے لئے رجوع کریں: محقق حلّی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص438؛ ابن‌ادریس، السرائر، 1410ھ، ح1، ص281؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج13، ص336؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1424ھ، ج1، ص790۔
  2. رجبی، «امامت زن برای زن در نماز جماعت از منظر مذاہب فقہی»، ص74 و 75۔
  3. نمونہ کے لئے رجوع کریں: جزیری و دیگران، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، 1419ھ، ج1، ص547؛ ابن‌ادریس، السرائر، 1410ھ، ح1، ص281؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج13، ص336؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1424ھ، ج1، ص790۔
  4. جزیری و دیگران، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، 1419ھ، ج1، ص547۔
  5. شہید ثانی، روض الجنان، 1409ھ، ج2، ص768۔
  6. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج13، ص337۔
  7. محدث نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج3، ص333، حدیث 3715۔
  8. محقق حلّی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص438۔
  9. محقق حلّی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص438۔
  10. رجبی، «امامت زن برای زن در نماز جماعت از منظر مذاہب فقہی»، ص75-77۔
  11. نمونہ کے لئے رجوع کریں: شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج3، ص31، حدیث 23؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، بی‌تا، ج8، ص336، حدیث 10۔
  12. حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، بی‌تا، ج8، ص334، حدیث 4۔
  13. نمونہ کے لئے رجوع کریں: شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص396؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، بی‌تا، ج8، ص333-334، حدیث 1۔
  14. نمونہ کے لئے رجوع کریں: شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص375؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، بی‌تا، ج8، ص334، حدیث 3۔
  15. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1410ھ، ج8، ص235۔
  16. «مفارقۃ بین التنظیر وواقع المرأۃ الدینی»، مکتبۃ الشیخ حسن الصفار۔

مآخذ

  • ابن‌ادریس حلّی، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، محقق و مصحح: موسوی، حسن بن احمد، ابن مسیح، ابو الحسن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • ابن‌سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد‏، الطبقات الکبری‏، تحقیق: عطا، محمد عبد القادر، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اول، 1410ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، محقق و مصحح: ایروانی، محمد تقی، مقرم، سید عبد الرزاق، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1405ھ۔
  • بنی‌فضل، مرتضی، مدارک تحریر الوسیلۃ، تہران، تنظیم و نشر آثار امام خمینی( رہ)، چاپ اول، 1380ہجری شمسی۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سید محمدحسین، توضیح المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1424ھ۔
  • جزیری، عبد الرحمن، و دیگران، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ و مذہب أہل البیت وفقاً لمذہب أہل البیت(ع)، بیروت، دار الثقلین، چاپ اول، 1419ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الإمام الخوئی، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخوئی، چاپ اول، 1418ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشيعۃ إلي تحصيل مسائل الشريعۃ، تحقیق مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث قم، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، بی‌تا (نسخہ مدرسہ فقاہت).
  • رجبی، حسین، «امامت زن برای زن در نماز جماعت از منظر مذاہب فقہی»، در نشریہ پژوہشنامہ مذاہب اسلامی، شمارۂ 1، 1393ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، روض الجنان فی شرح إرشاد الأذہان، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1402ھ۔
  • شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، محقق، موسوی خرسان، حسن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، محقق و مصحح: خراسانی، علی، شہرستانی، سید جواد، طہ نجف، مہدی، عراقی، مجتبی، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ اول، 1407ھ۔
  • محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1408ھ۔
  • محقق حلّی، نجم الدین جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، مؤسسہ سید الشہداء(ع)، چاپ اول، 1407ھ۔
  • «مفارقۃ بین التنظیر وواقع المرأۃ الدینی»، مکتبۃ الشیخ حسن الصفار، تاریخ نشر: 8 دسامبر 2022ء، تاریخ مشاہدہ: 13 خرداد 1404ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق و مصحح: قوچانی، عباس، آخوندی، علی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔