دماء ثلاثہ

ویکی شیعہ سے
(دماء ثلاثۃ سے رجوع مکرر)

دماء ثلاثہ یا تینوں خون حیض، نفاس اور استحاضہ؛ ایسے خون کو کہا جاتا ہے جو عورت کی شرمگاہ سے خارج ہوتے ہیں اور فقہ کی اصطلاح میں ان تینوں خون کو دماء ثلاثہ کہا جاتا ہے۔ اسلامی احکام میں حیض اور نفاس، بعض عبادتوں کو بجا لانے جیسے نماز، روزہ، حج، مسجدوں میں داخل ہونے اور اسی طرح ہمبستری کے لئے مانع بنتے ہیں۔ خون سے پاک ہونے کے بعد خواتین کو غسل انجام دینا چاہیے۔ خون استحاضہ عبادت کے لئے رکاوٹ نہیں ہے لیکن عبادت انجام دینے کے لئے مخصوص شرائط کے ساتھ غسل کرے یا وضو انجام دے۔

تینوں خون

اسلامی احکام میں جو خون عورت کی شرمگاہ سے نکلتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں جن کو فقہ کی اصطلاحی میں دماء ثلاثہ کہا جاتا ہے۔[1] فقہی کتابوں میں اس کو کتاب طہارت میں ذکر کیا ہے اور توضیح المسائل میں اس کو واجب غسل کی بحث میں بیان کیا گیا ہے۔

تینوں خون میں فرق

خون حیض وه خون ہے جو بلوغ کے بعد ہر مہینے عورت کی عادت کے مطابق عورت کی رحِم سے نکلتا ہے۔ یہ خون اکثر اوقات گاڑھا، کالا، گرم ہوتا ہے اور جلن کے ساتھ نکلتا ہے۔ حیض کے ایام میں عورت کو حائض کہا جاتا ہے۔[2]

نفاس وہ خون ہے جو وضع حمل کے دوران بچے کا پہلا عضو باہر نکلتے ہی عورت کی شرمگاہ سے جاری ہوتا ہے۔[3] خون نفاس کے دوران والی عورت کو نُفَساء کہا جاتا ہے۔

استحاضہ یہ خون نفاس، حیض، زخم، اور بکارت زائل ہونے کا خون نہیں ہے۔ یہ خون سرد، زرد و پتلا ہوتا ہے اور جلن کے بغیر نکلتا ہے۔ ان دنوں میں عورت کو مُستَحاضَہ کہا جاتا ہے۔ استحاضہ کے خون کی مقدار مختلف افراد کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف ہوتی ہے اور اسی وجہ سے استحاضہ کو استحاضہ قلیلہ، استحاضہ متوسطہ و استحاضہ کثیرہ تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔[4]

فقہی احکام

  • طہارت سے مشروط عبادتیں جیسے: نماز، روزہ، طواف، اعتکاف بجا لانا، مسجد اور پیغمبر اکرم و ائمہ علیہم السلام کے حرم میں داخل ہونا، اور واجب سجدہ والی سورتوں کو پڑھنا حیض اور نفاس والی عورت کے لئے صحیح نہیں ہے۔[5]
  • جو عورت حیض یا نفاس سے پاک ہو چکی ہے اسکو روزہ رکھنے کے لئے طلوع فجر سے پہلے غسل یا تیمم کرنا ہوگا اور اگر جان بوجھ کر غسل نہ کرے تو روزہ باطل ہوگا۔ [6]
  • حیض یا نفاس کی حالت میں قرآن کے واجب سجدے والی سورتوں کے علاوہ باقی قرآن کی تلاوت کرنا اشکال نہیں ہے۔[7]
  • اگر ان تینوں خون میں سے کوئی ایک کسی کے بدن یا کپڑوں پر لگے تو اس کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے لیکن ان کے علاوہ دوسرا کوئی خون ہو تو ایک درہم کی مقدار سے کم ہو تو اس کے ساتھ بھی نماز صحیح ہے۔[8]
  • حیض یا نفاس کی حالت میں عورت کی شرمگاہ سے ہمبستری حرام ہے۔ [9]
  • لیکن حیض یا نفاس کی حالت میں عورت کے دُبُر میں وطی کرنا بعض مجتہدوں کے فتووں کے مطابق حرام اور بعض فتووں کے مطابق شدید مکروہ ہے۔[10]

حوالہ جات

  1. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۰ش، ج۳، ص۶۵۲.
  2. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۰ش، ج۳، ص۳۹۳.
  3. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۳۹-۶۴۰.
  4. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۰ش، ج۱، ص۴۲۰.
  5. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۰۲-۶۰۴.
  6. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۶۵
  7. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۰۳.
  8. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۱۴-۲۱۵.
  9. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۰۵.
  10. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۶۰۵-۶۰۶.

مآخذ

  • ہاشمی شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، قم، مؤسسہ دائرہ المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۹۰ش.
  • یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۷ق.