آب مضاف

ویکی شیعہ سے

آب مضاف (یعنی مضاف پانی)، ایسا پانی جس میں کسی چیز کی ملاوٹ ہو اور وہ خالص نہ ہو اور لوگوں کی نظر میں اسے پانی نہ کہا جائے. مثلاً گدلا پانی، گلاب کا عرق، کسی فروٹ کا جوس، وغیرہ یہ مضاف پانی ہے. مضاف پانی، مطلق پانی کے مقابلے میں ہے اور اس بارے میں فقہی کتابوں میں طہارت کے باب میں گفتگو ہوئی ہے. مضاف پانی سے غسل یا وضو صحیح نہیں ہے اور نجس چیز مضاف پانی سے پاک نہیں ہو سکتی.

احکام

  • مضاف پانی، خود اپنے پاک ہونے کی صورت میں، پاک ہے، لیکن کسی نجس چیز کی نجاست کو دور نہیں کر سکتا، اور اسی طرح کسی حدث کو ختم نہیں کر سکتا، یعنی مضاف پانی سے وضو اور غسل باطل ہے.
  • ایسا پانی جو پہلے مضاف تھا اب اس کے بارے میں شک ہو کہ آیا مطلق ہو گیا ہے یا نہیں، تو وہ مضاف ہی ہو گا.
  • مضاف پانی اگرچہ زیادہ ہو جب وہ نجاست سے اتصال پیدا کرے گا تو نجس ہو جائے گا، لیکن مضاف پانی زور سے اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر کی طرف گررہا ہو جیسے ایک فوارے کی صورت میں، تو اگر نیچے والا حصہ نجس ہو گا تو اس کی وجہ سے اوپر والا حصہ نجس نہیں ہو گا اسی طرح اگر اوپر والا حصہ نجس ہو گا تو اس کی وجہ سے نیچے والا حصہ نجس نہیں ہو گا، کیونکہ عام لوگوں کی نظر میں یہ دو الگ الگ پانی ہیں. [1]
  • بعض مراجع تقلید کے مطابق، جو مضاف پانی نجس ہے اگر وہ بخار میں تبدیل ہو جائے تو پاک ہو جائے گا اور اس سے حاصل شدہ پانی بھی پاک ہو گا.
  • نجس مضاف پانی اگر کُر یا جاری پانی میں اس طرح سے مل جائے کہ اب اسے مضاف نہ کہا جائے، تو اس صورت میں پاک ہو گا، اگرچہ اس صورت میں پاک ہونا مسامحہ سے خالی نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں مضاف کے پانی میں، کر یا جاری پانی کا عنوان آ جاتا ہے اور مضاف سے خارج ہو جاتا ہے. [2]

حوالہ جات

  1. طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج ۱، ص ۲۶-۲۸
  2. طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۷ق، ج ۱، ص ۲۸-۲۹

مآخذ

  • ماخذ: فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۱، ص ۱۱۱.
  • طباطبائی یزدی، محمد کاظم، العروة الوثقی، مؤسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین، قم، ۱۴۱۷ -۱۴۲۰ھ۔