مردار

ویکی شیعہ سے



مُردار یا مَیتَہ، یعنی انسان کا جسم یا اس حیوان کا جسم جو خون جہندہ رکھتا ہے چاہے وہ خود مرا ہو یا کسی نے اسے مارا ہو یا شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو۔ فقہ میں مردار کے سلسلے میں کچھ احکام پائے جاتے ہیں جیسے نجاست، گوشت کا حرام ہو جانا، اس کی خرید و فروش یا اس کا استعمال حرام ہونا۔

مردار کا مفہوم

اسلامی فقہ میں انسان کی لاش یا خون جہندہ رکھنے والے حیوان کی لاش کو مردار کہا جاتا ہے؛ وہ حیوان خود سے مرا ہو یا کسی نے اس کو مارا ہو یا شرعی طریقے سے ذبح نہ ہوا ہو۔[1] میتہ کی اصطلاح، مُذَکّیٰ (ذبح شدہ)کے مقابل میں ہے۔

شرعی آثار

خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کے مردار کے سلسلے میں فقہ میں کچھ احکام پائے جاتے ہیں۔ اور یہ احکام ان حیوانوں پر جاری نہیں ہوں گے جن میں خون جہندہ نہیں پایا جاتا ہے:

نجاست

دس نجاستوں میں سے ایک مردار بھی ہے۔ اور ہر جاندار کا مردار نجس ہوتا ہے چاہے وہ انسان ہو یا غیر انسان ہو حلال گوشت ہو یا حرام گوشت ہو۔ یہ نجاست ان اجزاء کو شامل نہیں ہوتی ہے جن میں جان نہ ہو، جیسے اون، بال، پر، ہڈی، سینگ، چونچ، دانت، ناخن، پنجہ، کھر اور وہ انڈا جس کے اوپر کا چھلکا بند ہو، چاہے یہ اجزاء کسی حلال گوشت کے ہوں یا کسی حرام گوشت کے۔ البتہ جو حیوانات نجس العین ہیں جیسے کتا اور سور تو ان کے جسم کے تمام اجزاء نجس ہیں چاہے ان میں جان ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح کسی زندہ انسان سے یا زندہ حیوان کے جسم سے الگ ہونے ہونے والے وہ اجزاء بھی نجس ہیں جن میں جان ہوتی ہے۔[2]

کتے اور سور کے علاوہ باقی تمام حرام گوشت جانوروں کا تذکیہ کیا جاسکتا ہے اور تذکیہ کے ذریعے سے ان کا گوشت اور کھال پاک ہوجاتی ہے۔[3] البتہ آیت اللہ مکارم کی نظر کے مطابق اگر خون جہندہ رکھنے والا حیوان خود سے مر گیا ہو تو وہ نجس ہے لیکن اگر غیر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو تو وہ پاک ہے لیکن مستحب ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ اسی طرح مردار کے دانت، ہڈی اور سینگ میں سے ان حصوں کے پاک ہونے میں اشکال ہے جن میں جان ہو اور اگر اس میں کوئی چوٹ لگے تو حیوان کو تکلیف ہوتی ہے۔[4] اسی طرح وہ جیلیٹن جو کتا اور سور کے علاوہ دوسرے حرام گوشت جانور یا غیرشرعی طریقے سے ذبح شدہ حیوان کی ہڈیوں سے بنائی گئی ہو، اگر اس کے اجزا پر بہت زیادہ تبدیلیاں انجام پائی ہوں اور پھر جا کے جیلیٹن میں تبدیل ہوئی ہو تو اس پر استحالہ کا حکم لگے گا اور وہ پاک اور حلال ہے۔[5]

مردہ انسان کا بدن بھی غسل میت سے پہلے نجس ہوتا ہے۔ البتہ فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ مرنے کے بعد سے ٹھنڈا ہونے تک کے درمیان بدن نجس ہوتا ہے یا پاک ہوتا ہے۔[6]

گوشت کا حلال نہ ہونا

مردار کا گوشت کھانا حرام ہے۔ حلال گوشت جانوروں کا گوشت تذکیہ کرنے کے بعد حلال ہو جاتا ہے لیکن حرام گوشت جانوروں کا گوشت تذکیہ کرنے سے حلال نہیں ہوتا ہے۔ جن حلال گوشت جانوروں میں خون جہندہ نہیں پایا جاتا (جیسے مچھلی) اگر وہ خود مر جائے تو ان کا کھانا حلال نہیں ہےحلال نہیں ہے اگرچہ پاک ہے۔[7] سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں تذکیہ نہ ہونے والے جانوروں کا گوشت کھانا حرام کر دیا گیا ہے۔[یادداشت 1]

لین دین اور استعمال کی حرمت

مشہور فقہاء کی نظر کے مطابق خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کے مردار یا ان کے وہ اجزاء جن میں روح پائی جاتی ہے، کی خرید و فروش یا ان کا استعمال کرنا حرام ہے، کیونکہ یہ نجس ہوتے ہیں اور ان کو اکیلا یا حلال گوشت کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا حرام ہے۔[8] بعض فقہاء نے ان جگہوں پر مردار کے استعمال کی اجازت دی ہے جہاں شریعت کے اعتبار سے طہارت کی شرط نہیں ہے۔[9] کچھ دوسرے فقہاء نے کہا ہے کہ اگر نجس چیزوں کے لین دین میں کوئی عقلائی منفعت ہو تو معاملہ صحیح ہے اگرچہ وہ منفعت حرام ہی کیوں نہ ہو۔[10]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. سورہ مائدہ، آیہ ۳؛ حُرِّمَتْ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزيرِ وَ ما أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوذَةُ وَ الْمُتَرَدِّيَةُ وَ النَّطيحَةُ وَ ما أَکَلَ السَّبُعُ إِلاَّ ما ذَکَّيْتُمْ وَ…:[؟؟] ترجمہ: تمہارے اوپر حرام کردیا گیا ہے مردار -خون - سور کا گوشت اور جو جانور غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اورمنخنقہ اور موقوذہً اور متردیہ اور نطیحہ اور جس کو درندہ کھا جائے مگریہ کہ تم خود ذبح کرلو۔۔۔

حوالہ جات

  1. طباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۵۸-۶۰.
  2. طباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۵۸و۵۹.
  3. طباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۱۵۰؛ مسخ شدہ حیوانات جیسے بندر یا دریائی حرام گوشت جانور کا تذکیہ ہوسکتا ہے یا نہیں اس میں اختلاف۔ پایا جاتا ہے۔ دیکھئے: نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۳۶، ص۱۹۲-۲۰۱.
  4. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۷۰.
  5. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۷۰.
  6. شیخ انصاری، کتاب الطہارۃ، ۱۴۱۵ھ، ج۵، ص۴۴و۴۵؛ طباطبایی حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۳۳۶.
  7. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۵۶۸و۵۶۹.
  8. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، ۱۴۱۵ھ، ج۱، ص۳۱.
  9. طباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۶۲و۶۳.
  10. یثربی، مدارج الفقہیۃ المکاسب المحرمۃ، ۱۴۲۸ھ، ج۱، ص۴۸و۸۰.

مآخذ

  • بنی ‌ہاشمی خمینی، سید محمد حسین، توضیح المسائل (محشّٰی)، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۴ق (رسالہ آیت‌اللہ خمینی، ہمراہ با فتاوای آیات: خوئی، گلپایگانی، اراکی، فاضل، بہجت، تبریزی، سیستانی، خامنہ‌ای، صافی، مکارم، زنجانی و نوری).
  • شیخ انصاری، مرتضی ، کتاب الطہارۃ، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری‌، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب المحرمۃ و البیع و الخیارات، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
  • طباطبایی حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی،‌ قم، چاپ اول، مؤسسۃ‌ دار التفسیر‌، ۱۴۱۶ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی فیما تعم بہ البلوی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم،‌ ۱۴۰۹ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ دوم، ۱۴۲۷ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، مصحح: عباس قوچانی و علی آخوندی‌، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربیی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ھ۔
  • یثربی، سید محمد، مدارج الفقہیۃ المکاسب المحرمۃ، چاپ اول، ۱۴۲۸ق/۱۳۸۶ش.