مندرجات کا رخ کریں

نماز میں استخلاف

ویکی شیعہ سے

نماز میں اِستِخلاف، سے مراد نماز جماعت میں امام جماعت کی جگہ کسی دوسرے شخص کا جانشین بننا ہے، جب امام جماعت کسی کی بنا پر نماز مکمل کرنے پر قادر نہ رہے۔ اسلامی فقہ کے مطابق مستحب ہے کہ ایسی صورت میں واجد الشرائط شخص، جماعت میں امامت کی ذمہ داری سنبھالنے اور نماز کو باجماعت مکمل کرنے کے لئے منتخب کیا جائے۔

مفہوم اور اہمیت

نماز میں اِستِخلاف، دراصل نماز میں امام جماعت کی جگہ دوسرے شخص کو جانشین اور نائب بنایا جانا ہے؛ یعنی اگر نماز کے دوران کسی ناگہانی عذر کی وجہ سے امام جماعت یا امام جمعہ نماز مکمل کرنے پر قادر نہ ہو تو وہ کسی ایسے فرد کو، جو امامت کے شرائط پر پورا اُترتا ہو، اپنا جانشین مقرر کرسکتا ہے تاکہ وہ نمازیوں کی نماز مکمل کرے۔[1] امام جماعت کا انتقال، بے ہوشی، اچانک بیماری، بطلان وضو[2]، ناک سے خون بہنا، شدید پیٹ درد، نماز کے دوران یاد آنا کہ وضو نہیں کیا تھا[3] وغیرہ کو ان وجوہات میں شمار کیا جاتا ہے جو نماز میں استخلاف کا باعث بنتے ہیں۔ اس حکم کی بنیاد اہل بیتؑ سے مروی احادیث ہیں،[4] جو فقہاء کے فتاویٰ کا مصدر اور بنیاد قرار پاتے ہیں۔[5]

یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ امام جماعت عام حالت میں بھی نماز کو (باطل) چھوڑ کر کسی دوسرے کو اپنا نائب مقرر کرسکتا ہے تاکہ جماعت باقی رہے۔[6] بعض فقہاء کی تعبیر میں اس عمل کو استخلاف کے بجائے "اِستنابہ" کہا گیا ہے۔[7]

فقہی احکام

  • نماز میں استخلاف (چاہے عذر کی بنیاد پر ہو یا اختیاری طور پر) کے جائز ہونے پر فقہاء کے اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔[8]
  • جانشین کا انتخاب صرف امام جماعت ہی نہیں، بلکہ مقتدی (نمازی) بھی کرسکتے ہیں،[9] بشرطیکہ منتخب شدہ فرد امامت کی تمام شرائط (جیسے عدالت، بلوغت، اور فقہی اہلیت) کا حامل ہو۔[10]
  • فقہ امامیہ کے مطابق نماز جماعت میں استخلاف (جانشین) مستحب ہے،[11] کیونکہ جماعت خود واجب نہیں بلکہ ایک مستحب عمل ہے۔[12] تاہم، بعض امامیہ فقہاء کا فتویٰ ہے کہ اگر نماز جمعہ کے دوران امام فوت ہوجائے، تو مقتدیوں (نمازیوں) پر واجب ہے کہ ایک جانشین مقرر کریں تاکہ نماز جمعہ کا فریضہ مکمل کیا جا سکے۔[13]

حوالہ جات

  1. شیخ طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیہ، 1387ھ، ج1، ص145۔
  2. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج4، ص320۔
  3. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج13، ص369۔
  4. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج8، ص426۔
  5. سبزواری، کفایۃ الاحکام، 1423ھ، ج1، ص147۔
  6. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص115؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج1، ص317۔
  7. شہید اول، الدروس الشرعیہ، 1417ھ، ج1، ص224؛ سبزواری، کفایۃ الاحکام، 1423ھ، ج1، ص147۔
  8. عاملی، مدارک الاحکام، 1411ھ، ج4، ص363۔
  9. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج4، ص320۔
  10. کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج2، ص381۔
  11. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج4، ص320۔
  12. خویی، موسوعۃ الامام الخویی، 1418ھ، ج‌17، ص 331‌۔
  13. جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، 1423ھ، ج‌11، ص 304‌۔

مآخذ

  • جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامى بر مذہب اہل بيت(ع)، 1423ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1409ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الامام الخویی، قم، مؤسسہ احیاء آثار الامام الخویی، 1418ھ۔
  • سبزواری، محمدباقر بن محمدمؤمن، کفایۃ الاحکام، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‌، 1423ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‌، 1417ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تہران، المکتبۃ المرتضویہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، 1387ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1414ھ۔
  • عاملی، محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1411ھ۔
  • کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1414ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1404ھ۔