غسالہ

ویکی شیعہ سے

غُسالہ نجس چیز کو دھوتے وقت اس سے جدا ہونے والے پانی کو کہتے ہیں۔ شیعہ فقہا طہارت کے باب میں غسالہ کے احکام سے بحث کرتے ہیں۔ کر پانی کے غسالہ کے پاک ہونے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں لیکن آب قلیل کے غسالہ کے پاک یا نجس ہونے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے اگرچہ اکثر فقہاء نے اسے نجس قرار دیا ہے۔

تعریف

قفہ میں غسالہ اس پانی کو کہا جاتا ہے جو کسی نجس چیز کو دھوتے وقت اس سے جدا ہوتا ہے۔[1] شیعہ فقہاء طہارت کے باب میں غسالہ سے بحث کرتے ہیں۔[2]

حکم فقہی

تمام فقہا کے نزدیک آب کثیر کا غسالہ پاک ہے۔ آب قلیل کے غسالہ کے پاک اور نجس ہونا محل اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں بعض فقہا کا کے نظریات درج ذیل ہیں:

  • نجاست: بعض فقہاء جیسے علامہ حلی وغیرہ آب قلیل کے غسالہ کو نجس سمجھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ جب تک نجس چیز پاک نہ ہو اس سے جدا ہونے والا پانی نجس ہے۔[3] اکثر فقہااسی نظر کے قائل ہیں۔ [4]
  • طہارت: محقق کرکی نے اس رائے کو سید مرتضی، ابن ادریس اور شیخ طوسی کی طرف نسبت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ متقدم فقہاء اس رائے کے قائلین میں سے تھے۔[5] صاحب جواہر نیز اسی رائے کو قوی قرار دیتے ہیں۔[6]
  • تفصیل: بعض فقہا جیسے سید کاظم یزدی اس پانی کو جس سے عین نجاست کو برطرف کیا جاتا ہے، نجس جبکہ اس پانی کو جس سے عین نجاست برطرف نہیں کی جاتی سے اجتناب کرنے اور احتیاط برتنے کا حکم دیتے ہیں۔[7]

مربوط احکام

  • غسالۂ استنجاء، یعنی پیشاب و پاخانہ کے مقام دھونے کے وقت جدا ہونے والا پانی پاک ہے۔[8]
  • اگر پانی کا رنگ، بو یا ذائقہ تبدیل ہو تو غسالہ نجس ہے۔ [9]
  • بعض شیعہ فقہا نے کہا: غسالہ کے پاک ہونے کے فرض کی بنا پر وضو اور غسل اس پانی سے جائز نہیں ہے۔[10] اسی طرح غسالہ کے ساتھ نجاست کو برطرف کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف نظر ہے۔[11]

مونو گرافی

غسالہ کے موضوع پر بعض مستقل کتابیں لکھی جا چکی ہیں من جملہ ان میں محمد صالح حائری مازندرانی کی کتاب حکم الغسالہ اور سید صدر الدین صدر کی کتاب رسالہ فی احکام غسالہ کا نام لیا جاتا سکتا ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۰.
  2. برای نمونہ ر. ک. شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۴۴؛ خویی، فقہ الشیعہ، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۱۶۷.
  3. علامہ حلی، منتہی المطلب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۴۱.
  4. حکیم، مستمسک العروہ، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۲۲۹.
  5. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۲۸.
  6. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱، ۳۴۸.
  7. سید یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۱، ۴۷.
  8. محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۲۹؛ شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۴۴.
  9. علامہ حلی، منتہی المطلب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۴۱.
  10. شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۴۲.
  11. شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۴۲.
  12. رضایی، «سید صدرالدین صدر قلعہ تواضع»، ص۵۸.

مآخذ

  • رضایی، محمد، «سید صدرالدین صدر قلعہ تواضع»، فرہنگ کوثر، شمارہ ۱۶، ۱۳۷۷ش.
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، قم، مؤسسہ دارالتفسیر، ۱۴۱۶ق.
  • خویی، سید ابوالقاسم، فقہ الشیعہ-کتاب الطہارة، تقریر: سید محمد مہدی موسوی خلخالی، قم، مؤسسہ آفاق، ۱۴۱۸ق.
  • سید یزدی، محمد کاظم، العروة الوثقی فیما تعم بہ البلوی (المحشّی)،تصحیح: احمد محسنی سبزواری، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۹ق.
  • شہید اول، محمد بن مکی، اللمعہ الدمشقیہ فی فقہ الامامیہ، تصحیح: محمدتقی مروارید و علی اصغر مروارید، بیروت، دارالتراث-الدارالاسلامیہ، ۱۴۱۰ق.
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیہ فی شرح اللمعہ الدمشقیہ، حاشیہ: سید محمد کلانتر، قم، کتابفروشی داوری، ۱۴۱۰ق.
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الطہارہ، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، قم، ۱۴۱۵ق.
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تصحیح: سید احمد حسینی، تہران، کتابفوشی موسوی، ۱۴۱۶ق.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب فی تحقیق المذہب، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیہ، ۱۴۱۲ق.
  • محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، ۱۴۱۴ق.
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح: عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق.