منی

ویکی شیعہ سے

مَنِی ایک غلیظ اور سفید رنگ کا مائع ہے جس کا بدن سے نکلنا جنابت کا باعث بنتا ہے۔ شیعہ فقہاء اور بعض اہل سنت فقہا کے فتوے کے مطابق منی نجس ہے۔ عادی حالت میں منی خارج ہونے سے روزہ باطل ہوتا ہے اور جس شخص سے منی نکلے اسے چاہئے کہ نماز کے لیے غسل کرے۔

فقہی لحاظ سے منی کی علامات ذکر ہوئی ہیں جن کے ذریعے شک کی حالت میں منی کو پہچانا جاسکتا ہے وہ علامات مندرجہ ذیل ہیں:

شدید جنسی لذت، اچھل کر نکلنا اور منی کے نکلنے کے بعد بدن کا سست ہو جانا۔

منی کے بارے میں کچھ احکام ذکر ہوئے ہیں جو جدید مسائل میں شمار ہوتے ہیں۔ شیعہ فقہا کی نظر میں کسی عورت کے رحِم میں نامحرم مرد کا نطفہ رکھ دینا حرام ہے۔ لیکن اگر کسی مرد کی منی لیبارٹری میں رکھی گئی ہو اور اس کے مرنے کے بعد وہی نطفہ اس کی بیوی کے رحم میں قرار دیں تو اس صورت میں یہ عمل جائز ہونے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور اختلاف کا مبنی بھی یہی ہے کہ موت کے بعد مرد اور عورت کی محرمیت اور زوجیت ختم ہوتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسپرم کی خرید و فروخت کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ اختلاف اس سپرم کی مالیت ہونے اور نہ ہونے کی بنا پر ہے۔

مفہوم شناسی

منی گھاڑا اور سفید مایع ہوتا ہے[1]جو عام طور پر جنسی لذت کے دوران شرمگاہ سے خارج ہوتی ہے۔[2]

فقہی حکم

شیعہ فقہا کے فتوے کے مطابق انسان کی منی نجاسات میں سے ہے۔[3] اور منی خارج ہونے کو انزال کہتے ہیں۔[4] فقہ میں انزال جنابت کے عوامل میں سے شمار ہوتا ہے۔[5] شیعہ فقہا میں سے محمدحسن نجفی کہا کہنا ہے کہ خون جہندہ رکھنے والے جانورں کی منی بھی نجس ہے۔[6] جس سے منی نکلی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ جن عبادتوں کے لیے طہارت شرط ہے، جیسے نماز، ان کے لیے غسل کرے۔[7] بدن سے منی جان بوجھ کر نکالے (جیسے ہمبستری، یا استمناء) تو روزہ باطل ہوتا ہے۔[8]

اہل سنت کا نظریہ

منی کی نجاست یا نجس نہ ہونے کے بارے میں اہل سنت کے فقہا کی ایک نظر نہیں ہے۔ ابوحنیفہ اور مالک بن اَنَس منی کو نجس سمجھتے ہیں؛[9]اس فرق کے ساتھ کہ ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر منی خشک ہوجائے تو اسے رگڑنے سے پاک ہوجاتی ہے اور دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔[10] شافعی‌[11] اور حنبلی‌ انسان کی منی کو پاک سمجھتے ہیں۔[12]

منی کی علامات

فقہ میں منی کی بعض علامتیں ذکر ہوئی ہیں جن کے ذریعے شک کی صورت میں اس کو پہچانا جاتا ہے۔ اکثر فقہا کے نزدیک مردوں میں منی جنسی شہوت کے ساتھ ہوتی ہے نیز نکلتے ہوئے اچھل کر نکلتی ہے اور اس کے بعد بدن سست پڑجاتا ہے۔[13] لیکن مریض سے منی اچھل کر نکلنا شرط نہیں ہے اور مائع نکلنے کے ساتھ بدن سست پڑ جانا یہی منی کے حکم میں ہے۔[14] بعض فقہا کا کہنا ہے کہ اگر بدن سے مائع بدن سے جنسی لذت کے ساتھ اچھل کر نکلے یا اچھل کر نکلے اور بدن سست پڑ جائے تو یہ منی کہلاتا ہے۔[15] لیکن عورتوں میں منی کی علامتیں مردوں سے مختلف ہیں۔ اکثر فقہا کے مطابق عورت کے مقام مخصوص سے ترشحات (رطوبتیں) کا خروج اگر شہوت (اوج لذت) کے ساتھ ہو وہ منی کے حکم میں ہے. اچھل کر نکلنے اور بدن سست ہونے کو عورت کیلئے منی کی علامت قرار نہیں دیا ہے۔[16]

منی کا مذی، وذی اور ودی سے فرق

انسان کے بدن سے نکلنے والے دیگر مائعات اور منی کے درمیان فقہا نے فرق بیان کیا ہے اور منی کے علاوہ نکلنے والے مائعات؛ مَذْىْ، وَذْىْ اور وَدْىْ کا نام لیا ہے۔

  • «مَذْی»: ایسا مائع ہے جو کم شہوت یا ملاعبت(خاص طور جنسی مزاح،چھیڑچھاڑ وغیرہ) کے موقع پر انسان کے عضو مخصوص سے نکلتا ہے۔[17] یہ مایع چکناہٹ پر مشتمل ہوتا ہے لیکن منی کی علامتیں نہیں پائی جاتی ہیں۔ اور مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ پایائی جاتی ہے۔[18]
  • «وذی»:ایسا مائع ہے جو کبھی کبھار منی نکلنے کے بعد نکلتا ہے۔[19]
  • «ودی»: ایسا مائع ہے جو کبھی کبھار پیشاب کے بعد خارج ہوتا ہے۔[20]

شیعہ فقہا کے مطابق مذی، وذی اور ودی نجس نہیں ہیں[21]اور وضو باطل نہیں ہوتا ہے[22]

سپرم کی خرید و فروخت اور ٹیسٹ ٹیوب کا حکم

آج کل مرد کا مادہ منویہ (سپرم) کو مستقبل میں حمل ٹھہرانے کے لئے استعمال کرنے کی غرض سے سپرم بینک میں رکھا جاتا ہے۔[23] اسی لئے سپرم کے بارے میں کچھ مسائل پیش ہوتے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • سپرم کو ٹیوب کے ذریعے رحم میں منتقل کرنا: کسی زندہ مرد کا سپرم جو زوجیت کے رشتے کے دوران اس سے لیا گیا ہو اسے شوہر کی وفات کے بعد ٹیوب کے ذریعے بیوی کی رحم میں رکھنا جائز ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔[24] کہا جاتا ہے کہ شیخ طوسی[25] ابن ادریس،[26] علامه حلی،[27] فاضل هندی[28] اور سید عبدالاعلی سبزواری،[29] جیسے فقہا کے مبنی کے مطابق موت سے میاں بیوی کا رشتہ ختم نہیں ہوتا ہے کیونکہ میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل میت دے سکتے ہیں، لہذا مرد کا سپرم اس کی وفات کے بعد بیوی کے رحم میں ٹیوب کے ذریعے منتقل کرنا جائز ہے۔[30] بعض نے سپرم کو ٹیوب سے منتقل کرکے حمل ٹھہرانے کو شوہر کی وفات کے بعد جائز نہیں سمجھا ہے۔[31] شیعہ فقہاء نے نامحرم مرد کے سپرم کو کسی عورت کو حمل ٹھہرانے کے لئے استعمال کرنے کو حرام جانا ہے۔[32]
  • سپرم کی خرید و فروخت: سپرم عین نجس ہے اور اعیان نجس کا خرید و فروخت فقہا کی نظر میں حرام ہے۔[33] شیخ انصاری اور امام خمینی کا کہنا ہے کہ عین نجس خاص کر سپرم کی خرید و فروخت کا حرام ہونا نجاست ہونے کے ناطے نہیں ہے؛ بلکہ شریعت اور عرف میں اس کی مالیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔[34] آیت الله منتظری کا کہنا ہے کہ عصرِ حاضر میں منی یا سپرم کے لئے منفعت اور مالی قدر و قیمت بھی ہے اور مصنوعی طور پر حمل ٹھہرانے کے لئے کار آمد ہے۔ نیز میڈیکل تجربے بھی اس پر انجام پاتے ہیں اس لئے اس کا خرید و فروخت جائز ہے۔[35]
  • باپ سے منسوب: اگر کوئی عورت کا حمل ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے ٹھہر جائے حاملہ اور اس کے نتیجے میں جو بچہ متولد ہوگا وہ اسی شخص کا ہوگا جس کا سپرم اور نطفہ ہے۔[36]فقہا اور لغت و عرف کی نظر میں اولاد اسی کا ہوگا جس کے نطفے سے بنتا ہے۔[37]

حوالہ جات

  1. تبیان؛ تفاوت تعاریف طبی و فقہی در مورد مایع منی، بازبینی ۲۶ آذر ۱۳۹۷ش
  2. عبدالرحمان، معجم المصطلحات و الالفاظ الفقہیہ، ج۳، ص۳۶۹.
  3. سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ق، ص۹۶-۹۷.
  4. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۳.
  5. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۳؛ سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۹۵.
  6. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۵، ص۲۹۰.
  7. بنی‌ہاشمی خمینی، ۱۳۹۲ھ، ج۱، ص۲۶۴.
  8. ملاحظہ کریں: بحرانی، الحدائق الناضرہ، ۱۴۰۵ھ، ج۱۹، ص۱۲۹-۱۳۰.
  9. جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۵؛ سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۹۶.
  10. سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۹۶.
  11. شافعی، احکام القرآن، دار الکتب العلمیہ، ص۸۱-۸۲.
  12. جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۵ حوالہ۳؛ سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۹۶.
  13. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۸.
  14. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۱۲.
  15. بنی‌ہاشمی خمینی، ۱۳۹۲ھ، ج۱، ص۲۶۵.
  16. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۱۳؛ ملاحظہ فرمائیں: بنی‌ہاشمی خمینی، ۱۳۹۲ھ، ج۱، ص۲۶۵و۲۶۶.
  17. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۱۱.
  18. عاملی، الاصطلاحات الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۹۶.
  19. عاملی، الاصطلاحات الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ص۲۲۹؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۱۵.
  20. عاملی، الاصطلاحات الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ص۲۲۹.
  21. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۹ھ، ص۳۱.
  22. ملاحظہ کریں: سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۱۱۹؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۴۱۴.
  23. مرتضوی، «نگهداری اسپرم و بهره‌برداری از آن در فقه امامیه»، ص۹.
  24. مرتضوی، «نگهداری اسپرم و بهره‌برداری از آن در فقه امامیه»، ص۱۱.
  25. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۷۵.
  26. ابن ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۶۸.
  27. علامه حلی، تذکرة‌الفقهاء، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۳۹.
  28. فاضل هندی، کشف اللثام، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۲۱۹.
  29. سبزواری، مهذب‌الاحکام، دارالتفسیر، ج۳، ص۴۲۳.
  30. مرتضوی، «نگهداری اسپرم و بهره‌برداری از آن در فقه امامیه»، ص۱۱.
  31. فاضل لنکرانی، احکام پزشکان و بیماران، ۱۴۲۷ق، ص۹۶.
  32. فاضل لنکرانی، احکام پزشکان و بیماران، ۱۴۲۷ق، ص۹۸.
  33. شیخ انصاری، کتاب‌المکاسب، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۹.
  34. شیخ انصاری، کتاب‌المکاسب، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۹۷-۹۸؛ امام خمینی، المکاسب المحرمه، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۸.
  35. منتظری، دراسات فی المکاسب، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۹۲.
  36. فاضل لنکرانی، احکام پزشکان و بیماران، ۱۴۲۷ق، ص۹۸-۹۹.
  37. بحرانی، حدائق‌الناضره، ۱۴۰۵ق، ج۲۳، ص۳۱۱-۳۱۲.

مآخذ

  • ابن ادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، المکاسب‌المحرمہ، قم، مؤسسة إسماعيليان، چاپ سوم، ۱۴۱۰ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرہ فی احکام العترة الطاہرہ، تصحیح محمدتقی ایروانی و سیدعبدالرزاق مقرم، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۵ھ۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سیدمحمدحسن، توضیح‌المسائل مراجع، مطابق با فتاوای شانزدہ نفر از مراجع معظم تقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۹۲ش.
  • جزیری، عبدالرحمن بن محمد عوض، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ق/۲۰۰۳ء۔
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب‌الاحکام فی بیان حلال و الحرام، قم، دارالتفسیر، بی‌تا.
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الامامیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۵ھ۔
  • شافعی، محمد بن ادریس، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیہ.
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب‌المکاسب، قم، مجمع الفكر الإسلامی، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تہران، المكتبة المرتضوية لإحياء الآثار الجعفرية، چاپ سوم، ۱۳۸۷ھ۔
  • عاملی، یاسین عیسی، الاصطلاحات الفقہیہ فی الرسائل العلمیہ، بیروت، دارالبلاغہ، ۱۴۱۳ھ۔
  • عبدالرحمان، محمود، معجم المصطلحات و الالفاظ الفقہیہ،
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة‌الفقہاء، قم، مؤسسة آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
  • فاضل ہندی، محمد بن حسن، کشف اللثام و الابہام عن قواعد الاحکام، قم، جماعة المدرسين في الحوزة العلمیة بقم، مؤسسة النشر الإسلامی، ۱۴۱۶ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، احکام پزشکان و بیماران، قم، مركز فقہى ائمہ اطہار (ع)، چاپ اول، ۱۴۲۷ھ۔
  • مرتضوی، سید محسن و مجتبی نوروزی، «نگہداری اسپرم و بہرہ‌برداری از آن در فقہ امامیہ»، مجلہ علمی-پژوہشی فقہ پزشکی، شمارہ ۳۸ و ۳۹، بہار و تابستان ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح المسائل، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب علیہ‌السلام، ۱۴۲۹ھ۔
  • منتظری، حسینعلی، دراسات فی المکاسب، قم، نشر تفکر، ۱۴۱۵ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء العربی، ۱۴۰۴ھ۔