مندرجات کا رخ کریں

واجب غسل

ویکی شیعہ سے

واجب غسل وہ غسل ہیں جو حدثِ اکبر اور نذر و قَسم کی وجہ سے انسان پر واجب ہوتے ہیں، اور ان کے ذریعہ حدث اکبر سے طہارت (پاکیزگی) حاصل ہوتی ہے۔ نماز جیسی بعض عبادتوں کے لئے ان چھ غسلوں کا انجام دینا ضروری ہے۔ ان چھ غسلوں میں غسل جنابت، غسل مس میت، غسل میت اور خواتین کے مخصوص تین غسل، حیض، غسل نفاس اور غسل استحاضہ ہیں۔

بعض فقہا کے مطابق واجب غسل خود سے واجب نہیں ہیں؛ بلکہ وجوب غیری؛ یعنی ان اعمال کی انجام دہی کے لئے جن کے لئے طھارت شرط ہے، واجب ہوتے ہیں ۔ غسل عہد، قسم اور نذر کسی عبادت کے لئے شرط نہیں بلکہ صرف اس لئے واجب ہوتے ہیں تاکہ شرعی عہد کے سلسلہ میں کیا ہوا وعدہ وفا ہوسکے۔

اکثر شیعہ فقہا کا کہنا ہے کہ اگر کسی انسان پر کئی غسل واجب ہوں تو ان سب کی نیت سے ایک غسل انجام دے سکتا ہے۔ تمام شیعہ فقہا کا نظریہ ہے کہ غسل جنابت کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں ہے اور ان میں سے اکثر فقہا نے اس بات پر اجماع کا بھی دعوا کیا ہے، لیکن باقی واجب غسلوں کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔

واجب غسل کا تعارف اور اہمیت

واجب غسل وہ غسل ہے جو "حدثِ اکبر" کی وجہ سے انسان پر واجب ہوتا ہے، اور طہارت انجام دینے کے ذریعہ حاصل ہوجاتا ہے۔ فقہی لحاظ سے ان غسلوں کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ فقہا کے فتووں کے مطابق غسل نذر کے سوا بعض عبادات جیسے نماز، روزہ اور حج کے بعض اعمال کی صحت کا انحصار انہی غسلوں کے انجام دینے پر ہے۔ اسی طرح مساجد میں داخل ہونے، شیعہ اماموں کے روضوں میں جانے یا قرآنی آیات کو چھونے کے لیے بھی ان غسلوں کا انجام دینا ضروری ہے اور غسل کے بغیر جائز نہیں۔ عورتوں کے مخصوص تین غسلوں کے بارے میں بھی فقہا کا مشہور نظریہ ہے کہ ہمبستری کرنے کے لیے ان غسلوں کا ہونا ضروری ہے۔

واجب غسل کی اقسام

شیعہ فقہ کے مطابق، چھ غسل اور ان کے ساتھ نذر اور قسم کے غسل واجب ہوتے ہیں:[1]

چھ واجب غسل یہ ہیں:

نذر، قسم یا عہد کی صورت میں غسل واجب ہوجاتا ہے؛ جیسے کوئی نذر کرے کہ زیارت کے لیے غسل کرے گا۔[2] مشہور فقہا کے مطابق، صرف غسل میت اور غسل نذر، بذاتہ خود واجب ہوتے ہیں جبکہ باقی غسل واجب غیری ہیں یعنی وہ خود بخود واجب نہیں ہوتے بلکہ ان عبادتوں کو انجام دینے کے لیے جن میں طھارت شرط ہے، واجب ہوتے ہیں۔[3]

واجب غسل کے احکام

شیعہ فقہی متون میں واجب غسل کے لیے احکام بیان کئے گئے ہیں:

  • غسل کو انجام دینے کا طریقہ، ترتیبی یا ارتماسی۔[4]
  • غسل انجام دینے کا وقت، جو کسی عبادت کے لئے شرط ہو (جیسےغسل جنابت) عبادت کے وقت سے متعلق ہے، جیسے اگر کوئی روزہ رکھنا چاہتا ہے تو وہ طلوع فجر سے پہلے غسل کرے۔[5] یا نماز کے لیے غسل، نماز پڑھنے کے وقت واجب ہوتا ہے۔[6]

غسل کے بعد وضو کا حکم

شیعہ فقہاء غسل جنابت کو وضو کا متبادل سمجھتے ہیں اور اس بارے میں اجماع کا دعوا کیا گیا ہے۔[7] حتی مشہور فقہاء، غسلِ جنابت کے بعد وضو کرنا ناجائز سجمھتے ہیں۔ [8] تاہم شیخ طوسی نے غسلِ جنابت کے ساتھ وضو کو مستحب قرار دیا ہے۔[9]

دیگر واجب غسلوں کو وضو کے لئے کافی ہونے کے بارے میں مراجع تقلید کے درمیان اختلاف ہے۔ مشہور فقہا کا نظریہ یہ ہے کہ وہ وضو کے لئے کافی نہیں ہیں۔[10] البتہ چودہویں اور پندرہوں صدی ہجری کےبعض مراجع جیسے آیت اللہ خوئی، آیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ شبیری زنجانی معتقد ہیں کہ غسلِ استحاضہ متوسطہ کے علاوہ باقی واجب غسلوں کے بعد وضو کے بغیر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

چند غسلوں کی جگہ ایک غسل انجام دینا

اگر کسی شخص پر ایک سے زائد واجب یا مستحب غسل ( یا واجب اور مستحب دونوں) ہوں، اور وہ ان سب کی نیت سے ایک ہی غسل کر لے، تو وہ غسل تمام غسلوں کے لیے کافی ہوگا۔[11] چاہے تمام غسل مستحب ہوں یا کچھ واجب اور کچھ مستحب — اکثر فقہا کے مطابق ایک ہی غسل سب کے لیے کافی ہے۔[12]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، ج4، ص182؛ ہمدانی، مصباح الفقیہ، 1419ھ، ج3، ص219؛ آملی، مصباح الہدی، 1380ھ، ج4، ص70۔
  2. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، ج4، ص182؛ ہمدانی، مصباح الفقیہ، 1419ھ، ج3، ص219؛ آملی، مصباح الہدی، 1380ھ، ج4، ص70۔
  3. خمینی، «تعلیقہ» در کتاب العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج1، ص466؛ طباطبایی حکیم، مستمسک العروۃ، دار إحیاء التراث العربی، ج3، ص68، 72 و 341۔
  4. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417، ج1، ص522۔
  5. حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، دار إحیاء التراث العربی، ج3، ص38۔
  6. رسالہ توضیح المسائل آیت‌اللہ مکارم شیرازی، بخش غسل، مسئلہ373۔
  7. شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ص131، مسئلہ74؛ علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، 1413ھ، ج1، ص339؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج3، ص240۔
  8. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج3، ص240۔
  9. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، 1413ھ، ج1، ص340۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج3، ص 240؛ حکیم، مستمسک العروۃ، دار احیاء التراث العربی، ج3، ص345۔
  11. حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، دار إحیاء التراث العربی، ج3، ص137۔
  12. نراقی، مستند الشیعۃ، مؤسسۃ آل البیت، ج2، ص367؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج2، ص114 و 137؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج1، ص522 و 525؛ حکیم، مستمسک العروۃ، دار احیاء التراث العربی، ج3، ص137 و 140۔

مآخذ

  • آملی، میرزا محمدتقی، مصباح الہدی، تہران، بی‌نا، 1380ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، بی‌تا.
  • رسالہ توضیح‌المسائل آیت‌اللہ مکارم شیرازی، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب، چاپ پنجاہ دوم، 1429ھ۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • خمینی، سید روح‌اللہ، «تعلیقہ» در کتاب العروۃ الوثقی، تألیف سید محمدکاظم طباطبایی یزدی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، 1421ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، بی‌جا، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بی‌تا.
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، 1421ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احیاء التراث، 1362شمسی.
  • نراقی، احمد بن محمد مہدی، مستند الشیعۃ، مشہد، مؤسسۃ آل‌البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، بی‌تا.
  • ہمدانی، آقا رضا، مصباح الفقیہ، قم، المؤسسۃ الجعفریّۃ لإحیاء التراث، 1419ھ۔