معجزہ
خداشناسی | |
---|---|
توحید | توحید ذاتی • توحید صفاتی • توحید افعالی • توحید عبادی • صفات ذات و صفات فعل |
فروع | توسل • شفاعت • تبرک |
عدل (افعال الہی) | |
حُسن و قُبح • بداء • امر بین الامرین | |
نبوت | |
خاتمیت • پیامبر اسلام • اعجاز • عدم تحریف قرآن | |
امامت | |
اعتقادات | عصمت • ولایت تكوینی • علم غیب • خلیفۃ اللہ • غیبت • مہدویت • انتظار فرج • ظہور • رجعت |
ائمہ معصومینؑ | |
معاد | |
برزخ • معاد جسمانی • حشر • صراط • تطایر کتب • میزان | |
اہم موضوعات | |
اہل بیت • چودہ معصومین • تقیہ • مرجعیت |
معجزہ، علم کلام کی ایک اصطلاح ہے، جس سے مراد وہ غیر معمولی عمل ہے جو نبوت کے دعوے کے ساتھ انجام دیا جائے اور جس کی انجام دہی دوسرے لوگ عاجز ہوں۔ قرآن میں انبیاء کے بہت سے معجزات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور مسلم علماء کے مطابق ہر نبی کا معجزہ اس دور کے تقاضوں کے مطابق ہوتا تھا۔ چند مشہور معجزات یہ ہیں: حضرت عیسیٰ کا مردوں کو زندہ کرنا، عصائے موسی کا اژدہا میں تبدیل ہونا، ید بیضاء اور حضرت ابراہیم کے لئے آگ ٹھنڈی ہونا
مسلم علماء قرآن پاک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی اور ابدی معجزہ قرار دیتے ہیں۔ بعض شیعہ روایات میں ائمہ علیہم السلام کے معجزات ان کی امامت کے ثبوت کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔
شیعہ متکلمین کے مطابق معجزہ علت و معلول کے اصولوں کے منافی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے، جس میں عادتاً متوقع چیز کی جگہ ایک غیر معمولی اور خارق العادہ امر وجود میں آتا ہے۔ یہ تبدیلی بغیر علت کے نہیں ہوتی، بلکہ کسی قدرتی اور مافوق الفطرت علت یا ان دونوں کے امتزاج کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔
تعریف
معجزہ علم کلام کی ایک اصطلاح ہے، جس سے مراد وہ غیر معمولی عمل ہے جو نبوت کے دعوے کے ساتھ انجام دیا جائے اور جس کی انجام دہی دوسرے لوگ عاجز ہوں۔[1]۔ شیعہ متکلم اور فلسفی عبد الرزاق لاہیجی کے مطابق انبیاء کی نبوت کے دعوے میں صداقت کو پہچاننے کا واحد ذریعہ ان کے ذریعے مجعزے کا ظہور ہے۔[2] البتہ بعض علماء جیسے آیت اللہ جعفر سبحانی معجزے کو انبیاء کے دعووں کی صداقت کو پہچاننے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ قرار دیتے ہیں۔[3]
ایک طرف چونکہ معجزہ کی تعریف اور اس کی خصوصیات نبوت کے مسئلے اور نبی کے قول کی صداقت سے جڑی ہوئی ہے، اس بنا پر یہ بحث علم کلام کا حصہ شمار ہوتی ہے[4]۔ دوسری طرف، چونکہ یہاں پر معجزہ کا علت و معلول کے قانون کے ساتھ مطابقت رکھنے اور نہ رکھنے سے بحث کی جاتی ہے اس بنا پر فلسفے میں بھی اس سے بحث کی جاتی ہے اور بعض فلاسفہ نے معجزہ اور قانون علت کے رابطے پر تفصیلی بحث کی ہے[5]۔ اسی طرح معجزہ کو کائنات میں خدا کی بلاواسطہ مداخلت تصور کی جاتی ہے اس لئے کلام جدید میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث آتا ہے اور خاص طور پر فطری قوانین کے ساتھ معجزے کے تعلق کے بارے میں غور و خوض کیا جاتا ہے[6]۔ مزید برآں، الہیات اور کلام جدید میں معجزے کو کائنات میں خدا کے خارق العادہ امور کے طور پر خدا کے وجود کے اثبات میں بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔[7]
قرآن میں لفظ "معجزہ" اور اس کے مشتقات 26 مرتبہ عجز اور ناتوانی کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔[8] تاہم، ان میں سے کسی کا مفہوم معجزے کے اصطلاحی معنی کے مطابق نہیں ہے۔ معجزہ کی اصطلاح زیادہ تر متکلمین استعمال کرتے ہیں[9]۔ قرآن میں معجزے کے اصطلاحی معنی کو بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جیسے «بَیِّنہ(واضح دلیل)،[10] «آیہ(واضح نشانی)»،[11] «برہان(واضح دلیل)»،[12] «سلطان(یقینی دلیل)»[13]، «بصیرت»[14] اور «عَجَب(حیرت انگیز)»،[15] وغیرہ [16]۔
الہی ادیان کا مشترکہ عقیدہ
انگلستان کے دینی محقق اور «خدا کے بارے میں» نامی کتاب کے مصنف مایکل پامر (ولادت: 1945ء) کے مطابق تمام الہی ادیان معجزے پر اعتقاد رکھتے ہیں اور مختلف ادوار میں اس کے واقع ہونے کے قائل ہیں۔[17] شہید مطہری مختلف قرآنی دلائل کی روشنی میں معجزے کی اصالت اور انبیاء کے ذریعے مختلف معجزات کے ظہور[18] کو ناقابلِ تردید حقیقت اور دینِ اسلام کی بنیادی ضروریات میں سے قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق معجزات نہ صرف نبوت کے دعوے کی صداقت بلکہ الہامی پیغامات کی حقانیت کی واضح نشانیاں بھی ہیں۔[19]
معجزہ، ارہاص اور کرامت
«اِرْہاص» علم کلام کی ایک اصطلاح ہے اور خارق العادہ امور پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بعض اوقات معجزہ کے ساتھ اشتباہ ہو جاتا ہے؛ تاہم، ان دونوں کے درمیان مختلف پہلوؤں سے فرق پایا جاتا ہے۔[20] ارہاص کسی شخص کی نبوت یا رسالت پر مبعوث ہونے سے پہلے رونما ہونے والے خارق العادہ امور کو کہا جاتا ہے اور اس کا مقصد متعلقہ شخص کو نبوت پر مبعوث ہونے کے لئے تیار کرنا ہے؛[21] اس کے برعکس، معجزہ اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب نبی نبوت کا دعویٰ کرے اور اپنے دعوے کی صداقت کو چیلنج کے ساتھ پیش کرے۔۔[22]
اسی طرح، معجزہ اور کرامت کے درمیان بھی واضح فرق موجود ہے۔ کرامت سے مراد وہ خارق العادہ امور ہیں جو نبوت یا رسالت کے دعوے کے بغیر کسی ولی یا نیک شخص کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ جبکہ معجزہ کی شرائط میں سے ایک نبوت کا دعویٰ کرنا ہے اور یہ خارق العادہ عمل نبوت کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے بطور چیلنج انجام دیا جاتا ہے۔[23]
معجزہ اور سحر و جادو میں فرق
سحر اور معجزہ کے درمیان مختلف فرق بیان کئے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں:
- ماہیت:
معجزہ خارق العادہ اور فطرت کے عام اصولوں سے ہٹ کر ہوتا ہے، جو عام انسان کی عقل اور فہم سے بالاتر ہے؛ جبکہ سحر حقیقت میں خارق العادہ نہیں ہوتا بلکہ وہ عام امور ہیں جو انسان مشق اور ریاضت کے ذریعے انجام دے سکتا ہے، لیکن اس کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔[24]
- قدرت کا منبع:
ساحر اپنا کام محدود انسانی قدرت کے بل بوتے پر انجام دیتا ہے؛ جبکہ معجزہ خدا کی لامحدود اور بے پایاں قدرت کا مظہر ہے، جو نبی یا ولی کے ذریعے اس کے اذن سے ظاہر ہوتا ہے ۔[25]
- حدود اور تیاری:
سحر کچھ محدود امور تک محدود ہوتا ہے، جن کے لیے ساحر کو پہلے سے تیاری، مشق اور ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ ساحر ہر قسم کے خارق العادہ امور انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جبکہ معجزہ خدا کی قدرت سے انجام پاتا ہے، اس میں کوئی محدودیت نہیں ہوتی اور اسے انجام دینے کے لیے پیشگی مشق یا تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ معجزہ ہر وقت خدا کی اجازت سے ممکن ہوتا ہے۔[26]
- مقاصد اور نیت:
معجزہ ہمیشہ خدا کے اذن سے ہوتا ہے اور نیک مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس میں کوئی دھوکہ دہی یا فساد شامل نہیں ہوتا۔ جبکہ سحر یا جادو اکثر غلط یا فاسد مقاصد کے لیے ہوتا ہے، جیسے لوگوں کو دھوکہ دینا، نقصان پہنچانا یا غیر اخلاقی مقاصد حاصل کرنا۔[27]
- سرچشمہ اور اثرات:
کتاب الاشارات و التنبیہات میں ابنسینا کے مطابق معجزہ اور سحر دونوں کا سرچشمہ نفس میں موجود ایک مضبوط قوت ہے جو کائنات کے فطری امور میں تصرف کرنے کے ذریعے یہ امور انجام دتی ہے؛ اس فرق کے ساتھ کہ معجزہ پاک و پاکیزہ نفوس سے نیک مقاصد کے لئے ظاہر ہوتا ہے جبکہ سحر اور جادو ناپاک نفوس سے ظاہر ہوتا ہے اور یہ متعلقہ شخص کو غلط اور فاسد امور کی ترغیب دیتا ہے۔[28]
نبوت کی صداقت پر معجزہ کی دلالت
امامیہ اور معتزلہ کے مطابق معجزہ کی صداقت حسن و قبح عقلی کے قاعدے پر موقوف ہے؛[29] کیونکہ اگرچہ خدا کسی جھوٹے شخص سے بھی معجزہ ظاہر کرانے پر قادر ہے لیکن یہ ایک قبیح اور ناپسند فعل ہے اور قاعدہ حسن و قبح عقلی کے مطابق یہ کام خدا کی حکمت کے خلاف ہے۔ پس معجزہ متعلقہ شخص کی نبوت کے دعوے کی صداقت پر دلالت کرتی ہے۔[30] اشاعرہ کے مطابق خدا کی سنت(اللہ کی حکمت اور طریقہ) اس بات پر قائم ہے کہ انبیاء کی نبوت کا دعوا ہمیشہ معجزہ کے ساتھ ہوتا ہے، تاہم، کسی جھوٹے شخص سے بھی معجزہ ظاہر ہو سکتا ہے، لیکن یہ خدا کی سنت کے خلاف ہے، یعنی ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ خدا کسی جھوٹے شخص کو معجزہ دے کر اس کے دعوے کی تصدیق کرے۔۔[31]
معجزہ کا منشاء اور علت
فلاسفہ اور متکلمین کے نزدیک معجزہ علت و معلول کے اصول کو توڑنے والا یا بغیر کسی سبب کے واقع ہونے والا عمل نہیں ہے؛[32] لیکن معجزہ کا سبب کیا ہے یا یہ کس سے صادر ہوتا ہے اس بارے میں ان کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے:[33]
- اشاعرہ: توحید فاعلی میں اپنے خاص تصور کے تحت خدا کو کائنات کے تمام واقعات کا واحد سبب اور مؤثر مانتے ہیں۔[34] اس بنا پر ان کے نزدیک معجزات براہِ راست خدا کے افعال اور بلاواسطہ اس کے معلول ہیں۔[35]
- بعض فلاسفہ: جیسے ابن سینا اور ملاصدرا معجزات کو نبی کی نفس یا روح سے منسوب کرتے ہیں۔[36] ملاصدرا کے مطابق بعض انسانوں کی نفوس الٰہی ہوتی ہیں اور ان میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ گویا پوری کائنات کا نفس ہیں۔ جس طرح ان کے جسم ان کے حکم کے تابع ہوتے ہیں، اسی طرح کائنات کے تمام عناصر بھی ان کے تابع ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ نفس مادیات کے قید و بند سے آزاد اور اعلیٰ وجودی حقائق سے مشابہ ہوگا، اتنا ہی وہ مادی دنیا پر زیادہ اثر ڈالنے کی طاقت رکھے گا۔[37]
- علامہ طباطبائی اور آیت اللہ جوادی آملی جیسے فلاسفہ معجزات کو ایسے غیر معمولی مادی اسباب کا نتیجہ مانتے ہیں جو عام انسانی فکر اور عمل کی پہنچ سے باہر ہیں۔[38] بعض کا کہنا ہے کہ صرف انبیاء اپنے عالم غیب سے وابستگی کی بنا پر ان غیر معمولی مادی اسباب سے آگاہ ہیں جبکہ عام انسان ان سے بے خبر ہوتے ہیں۔[39]
- ایک اور امکان یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ معجزات ملائکہ کے افعال ہیں، جنہیں قرآن میں "مدبرات" کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[40]
معجزہ اور فطری قوانین
متکلمین اور فلاسفہ کی جانب سے معجزہ اور قانونِ علیت کے ساتھ اس کے تعلق پر مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
نظریۂ تأویل
اس نظریے کے حامی معجزات کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کی تاویل کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ معجزات عالمِ طبیعت میں انہی عادی اور فطری علل و اسباب کے تحت واقع ہوتے ہیں۔ معجزہ نہ کوئی خارق العادت امر ہے اور نہ فطرت کے عمومی قوانین کی بر خلاف۔[41] یہ نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ قرآن نے نظامِ تخلیق کو "سنت الٰہی" قرار دیا ہے اور جیسا کہ قرآن کی آیت "وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِيلًا" (آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے)[42] میں صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ سننِ الٰہی تغیر پذیر نہیں ہیں۔[43] لہٰذا معجزہ کسی صورت سننِ الٰہی یا قوانینِ فطرت کے خلاف نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ ایسا کرنا سننِ الٰہی میں تبدیلی کے مترادف ہوگا، جو محال ہے۔[44]
شہید مطہری نے اس نظریے کو "نظریۂ تأویل" کا نام دیا ہے اور سر سید احمد خان کو اس نظریے کا قائل قرار دیا ہے۔[45]
اشاعرہ کا نظریہ
اشاعرہ کے نزدیک معجزہ فطرت کے عادی قوانین کے خلاف اور ان کی معمول کی روش سے متصادم عمل ہے۔ ان کے مطابق خدا کی مشیت اس بات پر قائم ہے کہ وہ کائنات کے نظام کو ان قوانین کے مطابق چلائے جو اس نے خود تخلیق کیے ہیں۔ تاہم چونکہ خدا ہی کائنات کا واحد سبب اور مؤثرِ حقیقی ہے، اس لیے وہ جب چاہے ان قوانین میں تصرف کر سکتا ہے اور عادت یا قوانینِ طبیعت کے برعکس عمل کر سکتا ہے۔ معجزہ اسی نوعیت کا عمل ہے، جو خدا کی براہِ راست مشیت سے صادر ہوتا ہے۔[46]
فلاسفہ کا نظریہ
مرتضیٰ مطہری نے فلاسفہ کی طرف ایک نظریے کو منسوب کیا ہے، جس کے مطابق کائنات کے فطری قوانین تخلف ناپذیر ہیں۔ یہ قوانین قاعدۂ علیت اور علت و معلول کے اصول کے تحت قائم ہیں اور کبھی بھی معطل یا منسوخ نہیں ہوتے۔ لہٰذا ان کے نزدیک معجزہ خارقِ عادت یا فطری قوانین کے خلاف نہیں ہے۔[47] مطہری نے اس نظریے کو قبول کرتے ہوئے[48] وضاحت کی ہے کہ معجزہ کسی فطری قانون کو منسوخ یا باطل کرنے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قانون کا دوسرے قانون پر غالب آنے کے مصادیق میں سے ہے۔[49]
اقسام
معجزے کو مختلف جہات کی بنیاد پر متعدد اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔[50] خواجہ نصیرالدین طوسی نے اپنی کتاب شرح الاشارات و التنبیہات میں معجزے کو قولی اور فعلی معجزہ میں تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے قولی معجزے کو اہل معرفت اور خواص کے لیے جبکہ فعلی معجزے کو عوام الناس کے لیے موزوں قرار دیا ہے۔[51] قرآن مجید، نبی اکرمؐ کا قولی معجزہ تھا،[52] البتہ ان کے دیگر عملی معجزے بھی نقل کیے گئے ہیں۔[53] آیت اللہ جوادی آملی کے بقول، نبی اکرمؐ اپنے معجزات کے ذریعے عوام کو قائل کرتے تھے، جبکہ ان کے خاص صحابہ قرآن پر ہی اکتفا کرتے تھے جو ان کا قولی معجزہ تھا، اور ان سے عملی معجزہ طلب نہیں کرتے تھے۔[54]
بعض علماء نے معجزات کو حسی اور عقلی میں بھی تقسیم کیا ہے۔[55] کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں اہل سنت مفسر جلال الدین سیوطی کے مطابق بنی اسرائیل کی فکری عدم کمال کے سبب ان کے انبیاء کو حسی معجزات دئے گئے تھے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی فکری رشد و کمال کے باعث نبی اکرمؐ کو عقلی معجزات سے نوازا گیا ہے۔[56] شیخ حر عاملی نے معجزے کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے: غیبی امور کی خبر دینا، دعا کی قبولیت، انسانی ادراک سے ماورا اور خارق العادہ امور کی انجام دہی۔[57]
برہان معجزہ
بعضی لوگ معجزات اور دعا کی قبولیت جیسے خاص امور کو وجود خدا کے اثبات کے دلائل میں شمار کرتے ہیں۔[58] کہا گیا ہے کہ مغرب میں فلسفہ اور الٰہیات کے مباحث میں وجود خدا کے اثبات کے لیے پیش کیے جانے والے دلائل میں اس دلیل کو بھی شامل کی گئی ہے۔[59] محمد مہدی نراقی نے اپنی کتاب انیس الموحدین میں اس دلیل کو خدا وجود کو ثابت کرنے کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا ہے۔[60] نراقی کے مطابق انبیاء اور اولیاء کی طرف سے صادر ہونے والے معجزات اور خارق العادہ امور عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا ان کسی انسان سے ایسے امور کا صادر ہونا ایک حکیم اور قادر مطلق خالق کی قدرت اور حکمت کا مظہر ہے۔[61]
قرآن میں انبیاء کے معجزات
معجزات و ارہاصات | |||||||||||||||||||||||||||||
|
قرآن کے مطابق بعض انبیاء کی زندگی میں معجزات اور خارق العادہ اعمال کا سراغ ملتا ہے۔ ان میں سے چند معجزات درج ذیل ہیں:
- حضرت ابراہیم پر آگ ٹھنڈی ہونے کا معجزہ، قرآن میں سورہ انبیاء کی آیت نمبر 69، اور سورہ عنکبوت کی آیت 24 میں مذکور ہے۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت 260 کے مطابق چار پرندوں دوبارہ زندہ کرنا بھی حضرت ابراہیم کے معجزات میں شامل ہے۔[62]
- آیت «وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَیٰ تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ» کے مطابق خدا نے حضرت موسی کو 9 معجزات عطا کئے تھے۔[63] قرآن میں مذکور حضرت موسی کے معجزات میں سے بعض یہ ہیں: عصائے موسی کا سانپ میں تبدیل ہونا،[64] ید بیضاء،[65] طوفان، ٹڈی دل اور خون کی بارش، قحط اور پھلوں کی کمی،[66] سمندر کا دو حصوں میں تقسیم ہو جانا اور بنی اسرائیل کا اس میں سے گزرنا،[67] 12 چشموں کا جاری ہونا،[68] بنی اسرائیل کے مقتول کا زندہ ہونا،[69] سایہ دار بادل[70] اور کوہ طور کا سر بنی اسرائیل کے سروں پر بلند ہونا۔[71]
- سورہ آلعمران کی آیت نمبر 49 کے مطابق مردوں کو زندہ کرنا، پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا، غیبی باتوں کی خبر دینا، پرندے کے مجسمے کو زندگی دینا حضرت عیسی کے خارق العادہ امور اور معجزات تھے۔[72]
- قرآن کو حضرت محمدؐ کا زندہ و جاوید معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔[73] بعض لوگ صرف قرآن کو حضرت محمدؐ کا معجزہ قرار دیتے ہیں۔[74] ان کے مقابلے میں اکثر علماء[75] سورہ قمر کی 1 سے 5 تک کی آیات کا حوالے دیتے ہوئے شقالقمر کے معجزے کو بھی پیغمبر اکرمؐ کی طرف نسبت دیتے ہیں۔[76] شہید مطہری حضرت محمدؐ کی معراج کی داستان کو بھی آپ کا معجزہ اور خارق العادہ عمل قرار دیتے ہیں۔[77]
انبیاء کے معجزات میں فرق
بعض محققین کا کہنا ہے کہ انبیاء کے زمانوں کے مختلف ہونے کی بنا پر انہیں مختلف معجزات سے نوازا گیا تھا تاکہ ان کے ذریعے اپنی قوم اور اس زمانے کے لوگوں پر حجت تمام کر سکیں اور ہر دور کے ماہرین اس بات کا اعتراف کریں کہ یہ امور اس دور کے عام ا نسان کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ امور خارق العادہ اور انسانی قدرت اور طاقت سے ماورا ہیں۔[78]
تاریخ یعقوبی میں امام صادقؑ سے مروی ہے کہ خدا نے کسی نبی یا پیغمبر کو مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ اسے اپنے زمانے کے لوگوں پر عالب آنے والی چیزوں کے ساتھ: حضرت موسی کو ایک ایسی قومی میں مبعوث کیا تھا جن کی اکثریت سحر اور جادو میں مشہور تھے؛ اس بنا پر ان کے نبی کو سحر اور جادو کو باطل کرنے والے معجزے کے ساتھ بھیجا گیا، جیسے عصا، ید بیضاء اور دریا کو دو حصوں میں تقسیم کرنا۔ حضرت داود کو ایک ایسے زمانے میں مبعوث کیا جس میں اکثر لوگ صنعت و حرفت میں مشہور تھے؛ اس بنا پر ان کے لئے لوہے کو نرم بنا دیا۔ حضرت سلیمان کے زمانے میں لوگ تعمیرات اور عجیب طلسمات میں مشہور تھے اس بنا پر ان کے لئے جنات کو مسخر کر دیا۔ حضرت عیسی کے زمانے میں لوگ طبابت میں مشہور تھے لھذا ان کو پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا کی طاقت کے ساتھ مبعوث کیا۔ حضرت محمدؐ کے دور میں لوگ کلام اور سَجْع (قافیہ کے ساتھ کلام کرنا) میں مہارت رکھتے تھے لھذا آپؐ کو قرآن جیسے عظیم معجزے کے ساتھ مبعوث کیا۔[79]
ائمہ معصومین کے معجزات
شیعہ حدیثی منابع میں شیعہ ائمہؑ کی طرف مختلف خارق العادہ امور کی نسبت دی گئی ہے بعض علماء ان احادیث کو متواتر قرار دیتے ہیں۔[80] شیخ حر عاملی کتاب اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات میں ان میں سے بعض معجزات کو جمع کیا ہے اور انہیں شیعہ ائمہ کی امامت پر دلیل قرار دیا ہے۔[81] سید ہاشم بحرانی نے بھی مدینۃ معاجز الائمۃ الاِثنی عشر نامی کتاب میں تقریبا 2066 معجزات کو 12 ابواب میں 12 ائمہ کے لئے ذکر کیا ہے۔[82]
حر عاملی غیبی امور سے آگاہی کو بھی ائمہ معصومین کے معجزات اور کرامات میں شمار کیا ہے۔[83] بعض شیعہ علماء معجزہ کی تعریف میں کہتے ہیں: معجزہ اس خارق العادہ کام کو کہا جاتا ہے جو خدا کے خاص اذن اور اجازت سے صادر ہوتا ہے اور اس کا مقصد متعلقہ شخص کے الہی منصب جیسے نبوت اور امامت کو ثابت کرنا ہے۔[84] اسی طرح کتاب عللالشرایع میں امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کے مطابق خدا نے معجزے کو اپنے انبیا اور اوصیا کے لئے عطا کیا تاکہ ان کے منصب الہی پر فائز ہونے کے ادعا کو ثابت کیا جا سکے[85] اسی بنا پر شیعہ ائمہؑ کی طرف سے ان کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے صادر ہونے والے خارق العادہ امور کو بھی معجزہ کہا جاتا ہے۔[86]مثال کے طور پر حجر الاسود کا امام سجادؑ کی امامت کی گواہی دینا ان کے معجزات اور امامت کے اثبات کے دلائل میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔[87] کتاب دلائل الامامۃ میں منقول ایک حدیث کے مطابق محمد بن حنفیہ نے امامت کے مسئلے میں امام سجادؑ کے ساتھ اختلاف کیا۔ امام سجادؑ نے ان سے گفتگو کی لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔ آخر میں دونوں نے حجر الاسود کو حَکَم قرار دیا۔ حجر الاسود نے خدا کے حکم سے امام سجادؑ کی امامت کی گواہی دی۔[88]
بعض شیعہ کلامی کتب میں قلعہ خبر کے دروازے کو اکھاڑنا، پیغمبر اکرمؐ کو اذیت پہنچانے والے بعض جنات کے ساتھ جنگ اور رد الشمس وغیرہ کو امام علیؑ کے معجزات میں شمار کیا گیا ہے اور آپ کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے ان سے استناد کیا گیا ہے۔[89]
کتابیات
اکثر کلامی اور تفسیری کتابوں میں معجزہ کے بارے میں بحث کی جاتی ہے؛ تاہم بعض مسلمان محققین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی تحریر کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- کتاب تناقضنما یا غیبنمون؛ نگرشی نو بہ معجزہ»، تألیف محمدامین احمدی: اس کتاب میں مصنف نے معجزہ کے بارے میں اسلامی فلسفہ اور مغربی فلسفہ کے درمیانی تطبیقی گفتگو کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں بعض مسلمان اور مغربی ماہرین کے نظریات کو ذکر کیا ہے ہے اس کتاب کے اہم مباحث میں معجزہ کی تعریف ، معجزہ کا امکان اور قوع اور معجزہ کو معجزہ کہنے کی وجہ اور علت شامل ہیں۔[90]
- کتاب معجزہ در قلمرو عقل و دین، تحریر محمد حسن قدردان قراملکی؛ مصنف نے اس کتاب میں معجزہ کی تعریف اور اس کے اقسام، معجزہ، سحر اور کرامت میں فرق، معجزہ کا قاعدہ علیت کے ساتھ تعلق، معجزہ کے منکرین کے اعتراضات اور ان کے جوابات وغیرہ کے بارے میں بحث کی ہے۔
- کتاب "مرزہای اعجاز"(معجزے کی حدود) ، یہ کتاب آیت اللہ خوئی کی کتاب البیان فی تفسیر القرآن کی بحث معجزہ کا ترجمہ ہے جسے آیت اللہ جعفر سبحانی نے تحریر کیا ہے۔[91]
- کتاب معجزہ بزرگ، مصنف محمد ابوزہرہ (متوفی: 1395ھ)، مصر کے قرآنی محقق اور مورخ، یہ کتاب قرآن کے اعجاز کے بارے میں عربی زبان میں تحریر کی گئی ہے اور محمود ذبیحی نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔[92]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مفید، النکت الاعتقادیہ، 1413ھ، ص35۔
- ↑ لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372ہجری شمسی، ص93-94۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص391؛ خرازی، بدایۃ المعارف الالہیۃ، 1422ھ، ج1، ص244۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص359۔
- ↑ پیترسون و دیگران، عقل و اعتقاد دینی، 1393ہجری شمسی، ص289۔
- ↑ پیترسون و دیگران، عقل و اعتقاد دینی، 1393ہجری شمسی، ص287-289۔
- ↑ ملاحظہ کریں: ہیک، فلسفہ دین، 1390ہجری شمسی، ص74؛ پامر، دربارہ خدا، 1393ہجری شمسی، ص310-311۔
- ↑ راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، ذیل واژہ «عجز»۔
- ↑ سبحانی، دانشنامہ کلام اسلامی، 1387ہجری شمسی، ص67۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ73؛ سورہ حدید، آیہ25؛ سورہ فاطر، آیہ25۔
- ↑ سورہ غافر، آیہ78۔
- ↑ سورہ نساء، آیہ 174؛ سورہ قصص، آیہ32۔
- ↑ سورہ ابراہیم، آیہ11؛ سورہ دخان، آیہ19۔
- ↑ سورہ انعام، آیہ104۔
- ↑ سورہ جن، آیہ1؛ سورہ کہف، آیہ9۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص359؛ قدردان قراملکی، معجزہ در قلمرو عقل و قرآن، 1381ہجری شمسی، ص35-39۔
- ↑ پامر، دربارہ خدا، 1393ہجری شمسی، ص309۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص363۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص362۔
- ↑ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، 1372ہجری شمسی، ص94۔
- ↑ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، 1372ہجری شمسی، ص94؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص11۔
- ↑ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص11۔
- ↑ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان در اصول اعتقادات، 1372ہجری شمسی، ص94؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج13، ص45۔
- ↑ نراقی، انیس الموحدین، 1369ہجری شمسی، ص104۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج13، ص242۔
- ↑ نراقی، انیس الموحدین، 1369ہجری شمسی، ص104؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج13، ص242۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج13، ص242-243۔
- ↑ ابنسینا، الاشارات و التنبیہات، نشر البلاغۃ، ص160۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج17، ص222-223؛ سبحانی، محاضرات فی الالہیات، 1428ھ، ص261۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج17، ص222-223۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج17، ص223۔
- ↑ ملاحظہ کریں: مکی عاملی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ (تقریرات درس آیتاللہ سبحانی)، 1413ھ، ج3، ص73؛ سبحانی، منشور جاوید، انتشارات مؤسسہ امام صادق(ع)، ج3، ص345۔
- ↑ مکی عاملی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ (تقریرات درس آیتاللہ سبحانی)، 1413ھ، ج3، ص3، ص73۔
- ↑ ملاحظہ کریں: غزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد، 1409ھ، ص121۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص365-366۔
- ↑ ابنسینا، الاشارات و التنبیہات، دار البلاغۃ، ص160؛ ملاصدرا، المبدأ و المعاد، 1354ہجری شمسی، ص482۔
- ↑ ملاصدرا، المبدأ و المعاد، 1354ہجری شمسی، ص482۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1363ہجری شمسی، ج1، ص76-77؛ جوادی آملی، تبیین براہین اثبات خدا، 1384ہجری شمسی، ص264۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ، 1413ھ، ج3، ص76۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: سبحانی، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ، 1413ھ، ج3، ص76۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص364۔
- ↑ سورہ احزاب، آیہ 62۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص365۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص365۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص364۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص366۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص377۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص392۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص377۔
- ↑ خواجہ نصیر، شرح الاشارات و التنبیہات، 1375ہجری شمسی، ج3، ص372۔
- ↑ خواجہ نصیر، شرح الاشارات و التنبیہات، 1375ہجری شمسی، ج3، ص372۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج2، ص211؛ باقلانی، اعجاز القرآن، 1421ھ، ص9۔
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج15، ص129۔
- ↑ جوادی آملی، تبیین براہین اثبات خدا، 1384ہجری شمسی، ص264۔
- ↑ سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1394ھ، ج4، ص3۔
- ↑ سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1394ھ، ج4، ص3۔
- ↑ حر عاملی، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، 1425ھ، ج1، ص10۔
- ↑ ہیک، فلسفہ دین، 1390ہجری شمسی، ص74۔
- ↑ براتی، جوادی، «مدلول معجزہ از دیدگاہ علامہ طباطبایی و سوئین برن»، ص16۔
- ↑ نراقی، انیس الموحدین، 1369ہجری شمسی، ص53-54۔
- ↑ نراقی، انیس الموحدین، 1369ہجری شمسی، ص53-54۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج14، ص303 و ج2، ص376-377۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج13، ص218۔
- ↑ سورہ طہ، آیات 19-20؛ سورہ قصص، آیہ 31، سورہ نمل، آیہ 10؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج13، ص218۔
- ↑ سورہ قصص، آیہ 32؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج13، ص218۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ133۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ117؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج13، ص218۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ60؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج13، ص218۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ67؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج13، ص218۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ57؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج13، ص218۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ63؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج13، ص218۔
- ↑ سورہ آل عمران، آیہ49۔
- ↑ ملاحظہ کریں: باقلانی، اعجاز القرآن، 1997م، ص9-10؛ ابنکثیر، معجزات النبی، المکتبۃ التوفیقیۃ، ص9؛ خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ص43۔
- ↑ مطہری، وحی و نبوت، 1388ہجری شمسی، ص65-66۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، 1415ھ، ج9، ص443؛ ابنکثیر، معجزات النبی، المکتبۃ التوفیقیۃ، ص27۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، 1415ھ، ج9، ص443؛ راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص31؛ ابنکثیر، معجزات النبی، المکتبۃ التوفیقیۃ، ص27۔
- ↑ مطہری، وحی و نبوت، 1388ہجری شمسی، ص67۔
- ↑ قدردان قراملکی، معجزہ در قلمرو عقل و قرآن، 1381ہجری شمسی، ص81-83؛ طیب، اطیب البیان، 1378ہجری شمسی، ج1، ص41-42۔
- ↑ یعقوبی،دار صادر، ج2، ص34-35۔
- ↑ ملاحظہ کریں: حر عاملی، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، 1425ھ، ج1، ص18؛ بحرانی، مدینۃ معاجز الأئمۃ الإثنی عشر، ج1، ص28 و 41۔
- ↑ حر عاملی، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، 1425ھ، ج1، ص2-3۔
- ↑ فارس حصون و دیگران، «مقدمہ»، در کتاب مدینۃ معاجز الأئمۃ الإثنی عشر، تألیف سید ہاشم بحرانی، 1413ھ، ج1، ص20۔
- ↑ حر عاملی، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، 1425ھ، ج1، ص12 و 16۔
- ↑ مفید، النکت الاعتقادیہ، 1413ھ، ص44؛ سید مرتضی، الذخیرہ فی علم الکلام، 1411ھ، ص332؛ خویی، البیان فی تفسیر القرآن، دار الزہراء، ص35۔
- ↑ شیخ صدوق، علل الشرایع، مکتبۃ داوری، ج1، ص122۔
- ↑ ملاحظہ کریں: بحرانی، مدینۃ المعاجز، 1413ھ، ج1، ص41 و 43۔
- ↑ ملاحظہ کریں: بحرانی، مدینۃ المعاجز، 1413ھ، ج4، ص280-281۔
- ↑ طبری، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص203۔
- ↑ ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص370۔
- ↑ «تناقضنما یا غیبنمون: نگرشی نو بہ معجزہ»، سایت پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی۔
- ↑ سبحانی، اعجاز قرآن، 1385ہجری شمسی، ص15-16۔
- ↑ ذبیحی، «مقدمہ»، در کتاب «معجزہ بزرگ»، تألیف محمد ابوزہرہ، 1379ہجری شمسی، ص14-15۔
مآخذ
- ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الأمم، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1412ھ۔
- ابنسینا، حسین بن عبداللہ، الاشارات و التنبیہات، قم، نشر البلاغۃ، بیتا۔
- ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، معجزات النبی، کربلا، المکتبۃ التوفیقیۃ، بیتا۔
- باقلانی، محمد بن طیب، اعجازالقرآن، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1421ھ۔
- بحرانی، سیدہاشم، مدینۃ معاجز الأئمۃ الإثنی عشر، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
- براتی، فرجاللہ و محسن جوادی، «مدلول معجزہ از دیدگاہ علامہ طباطبایی و سوئین برن»، فلسفہ دین، سال چہارم، شمارہ 1، بہار و تابستان 1394ہجری شمسی۔
- پامر، مایکل، دربارہ خدا، ترجمہ نعیمہ پورمحمدی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1393ہجری شمسی۔
- پیترسون، مایکل و دیگران، عقل و اعتقاد دینی، ترجمہ احمد نراقی و ابراہیم سلطانی، تہران، انتشارات طرح نو، 1393ہجری شمسی۔
- تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، قم، الشریف الرضی، 1409ھ۔
- «تناقضنما یا غیبنمون: نگرشی نو بہ معجزہ»، سایت پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، تاریخ بازدید: 15 آبان 1403ہجری شمسی۔
- جمعی از محققان، دانشنامہ کلام اسلامی، قم، انشارات مؤسسہ امام صادق(ع)، 1387ہجری شمسی۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تبیین براہین اثبات خدا، قم، مرکز نشر اسراء، 1384ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، قم، انتشارات محلاتی، 1425ھ۔
- خرازی، سیدمحسن، بدایۃ المعارف الالہیۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1422ھ۔
- خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، شرح الاشارات و التنبیہات، قم، نشر دار البلاغۃ، 1375ہجری شمسی۔
- خویی، البیان فی تفسیر القرآن، قم، منشورات انوار الہدی، [بیتا]۔
- ذبیحی، محمود، «مقدمہ»، در کتاب «معجزہ بزرگ»، تألیف محمد ابوزہرہ، مشہد، آستان قدس رضوی، 1379ہجری شمسی۔
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، بیروت، دار القلم، 1412ھ۔
- سبحانی، جعفر، اعجاز قرآن، قم، انتشارات مؤسسہ امام صادق(ع)، 1385ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بیتا۔
- سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، انتشارات مؤسسہ امام صادق(ع)، بیتا۔
- سبحانی، جفر، محاضرات فی الالہیات، قم، انتشارات مؤسسہ امام صادق(ع)، 1428ھ۔
- سید مرتضی، الذخیرہ فی علم الکلام، قم، موسسہ النشر الاسلامی، 1411ھ۔
- سیوطی، عبد الرحمن بن أبی بکر، الاتقان فی علوم القرآن، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1394ھ۔
- شیخ صدوق محمد بن علی، علل الشرایع، قم، مکتبۃ داوری، بیتا۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، احیاء التراث العربی، 1415ھ۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
- طیب، عبدالحسین، اطیب البیان، تہران، انتشارات اسلام، 1378ہجری شمسی۔
- علامہ حلی، یوسف بن مطہر، کشف المراد، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1413ھ۔
- غزالی، ابوحامد، الاقتصاد فی الاعتقاد، بیروت، دار الکتب العامیۃ، چاپ اول، 1409ھ۔
- قدردان قراملکی، محمدحسن، معجزہ در قلمرو عقل و قرآن، قم، انتشارات بوستان کتاب، 1381ہجری شمسی۔
- قطب الدین راوندی، سعید بن ہبۃاللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسۃ الإمام المہدی علیہ السلام، 1409ھ۔
- لاہیجی، حسن بن عبدالرزاق، سرمایہ ایمان، تہران، نشر زہرا، 1372ہجری شمسی۔
- لاہیجی، حسن بن عبدالرزاق، گوہر مراد، انتشارات سایہ، 1383ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، وحی و نبوت، قم، انتشارات صدرا، 1388ہجری شمسی۔
- مکی عاملی، حسن، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ (تقریرات درس آیتاللہ جعفر سبحانی)، قم، انتشارات مؤسسہ امام صادق(ع)، 1413ھ۔
- ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، المبدأ و المعاد، تہران، انجمن حکمت و فلسفہ ایران، چاپ اول، 1354ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، انتشارات موسسہ الوفاء، 1403ھ۔
- مفید، الارشاد فی معرفہ الحجج علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- مفید، النکت الاعتقادیہ، قم، الموتمر العالمی، 1413ھ۔
- مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
- نراقی، ملامحمدمہدی، انیس الموحدین، تہران، الزہرا، 1369ہجری شمسی۔
- ہیک، جان، فلسفہ دین، ترجمہ بہزاد سالکی، تہران، انتشارات بین المللی الہدی، 1390ہجری شمسی۔
- یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا۔