مرتضی مطہری

ویکی شیعہ سے
(شہید مطہری سے رجوع مکرر)
مرتضی مطہری
متفکر، مصنف اور اسلامی انقلاب ایران کے رہنما
کوائف
لقب/کنیتشہید مطہری • استاد مطہری
تاریخ ولادت12 جمادی‌ الاول 1338ھ
آبائی شہرفریمان
تاریخ شہادت۱۱ اردیبهشت ۱۳۵۸ش
مدفنحرم حضرت معصومہ قم
علمی معلومات
مادر علمیحوزه علمیه مشهدحوزه علمیه قم
اساتذہسید حسین طباطبایی بروجردیامام خمینیعلامه طباطبایی
تالیفاتمسئلہ حجابحماسہ حسینیدیگر تالیفات
خدمات
سیاسیپہلوی حکومت سے مقابلہ
سماجیمارکسیزم سے مقابلہ، حسینیہ ارشاد تہرانی کے بانی، تہران یونیورسٹی کے استاد۔


مرتضی مطہری (1920۔1979 ء) شہید مطہری و استاد مطہری کے نام سے مشہور چودہویں صدی کے شیعہ فقیہ، فلسفی، متفکر، قلم کار اور علامہ طباطبائی اور امام خمینی کے شاگردوں میں سے تھے۔ ان کا شمار اپنے دور میں ایران کے موثرترین شیعہ علماء میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ایران میں مارکس ازم کے تفکرات سے جوانوں کو دور رکھنے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا۔ ایران میں ان کی تاریخ شہادت کو ٹیچر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔[1]

زندگی نامہ

3 فروری 1920 ء میں مشہد کے نزدیک فریمان نامی جگہ پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد حسین وہاں کے مقامی نیک عالم دین تھے۔ شہید مرتضی مطہری بچپن سے ہی بہت ہوشیار تھے پانچ سال کی عمر سے کتاب کے ساتھ عشق و محبت ان میں نمایاں تھی۔ انهوں نے بارہ سال کی عمر تک اپنے والد گرامی کے یہاں مقدمات تک کی تعلیم حاصل کی۔ 1311 شمسی میں 11 سال کی عمر میں مشہد مقدس کے مدرسہ ابدال خان میں اپنے بھائی کے ہمراہ دو سال تک دینی علوم کے حصول میں مشغول رہے۔[2]

قم کی طرف سفر

سنہ 1936 ء میں شہید مطہری مزید تعلیم کے حصول کے لئے قم کی طرف روانہ ہوئے۔ قم میں طالب علمی کےدوران شہید نے میر داماد کے نام سے معروف آیت اللہ سید محمد محقق یزدی کے پاس مکاسب اور کفایہ پڑھی۔ ایک سال آیت اللہ حجت کوہ کمرہ ای مؤسسِ مدرسہ حجتیہ) کے درس خارج میں شرکت کی۔ ان کے علاوہ آیات عظام سید صدر الدین صدر، محمد تقی خوانساری، گلپایگانی، احمد خوانساری اور نجفی مرعشی سے بھی کسب فیض کیا۔ 1323 ہ۔ش (1944 ء) میں آیت اللہ بروجردی قم تشریف لاتے ہیں اور شہید دس سال تک ان کے فقہ و اصول کے دروس میں شرکت کرتے ہیں۔ اسی دوران فلسفہ کے دروس میرزا مہدی آشتیانی سے حاصل کئے۔[3]

امام خمینی کے دروس میں شرکت

طلبگی کے آغاز سے ہی شہید مطہری جمعرات اور جمعہ کو امام خمینی کے درس اخلاق میں شرکت کیا کرتے تھے۔ بعد میں حوزہ کے بزرگ علماء کے اصرار پر امام خمینی نے درس خارج شروع کیا۔ یہ درس ابتداء میں خصوصی طور پر خود امام خمینی کےاپنے کمرے میں، لیکن تھوڑی مدت کے بعد شرکت کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے مسجد بالاسر حرم حضرت معصومہ (ع) اور آخر کار مسجد سلماسی میں منتقل کیا گیا۔ یہ درس 12 سال تک جاری رہا۔ شہید مطہری نے فلسفہ کے دروس کو بھی امام خمینی کے منظومہ سے شروع کیا۔ امام خمینی کی روش یہ تھی کہ جب تک کسی طالب کا امتحان نہیں لیتےاسے فلسفہ نہیں پڑھاتے تھے، کیونکہ آپ معتقد تھے کہ اگر کسی طالب علم میں استعداد نہ ہو اور فلسفہ پڑھے تو وہ گمراہ ہوسکتا ہے۔[4]

علامہ طباطبائی کے حضور

علامہ طباطبائی (1945 ء) میں قم تشریف لاتے ہیں اور ایک عام طالب علم کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ اکثر نماز جماعت میں آیت اللہ خوانساری کی اقتداء کرتے تھے اور چونکہ آخری صفوں میں بیٹھتے تھے کبھی کبھار چٹائی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی عبا بچھاکر نماز پڑھتے تھے۔ آپ کی سادہ زیستی نے لوگوں میں آپ کو ایک متقی عالم دین کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اکثر لوگ آپ کے فضائل سےآگاہ نہیں تھے۔ ایک دن میرزا جواد آقا خندق آبادی شہید مطہری کے پاس آکر کہتے ہیں کہ علامہ طباطبائی ایک فاضل عالم دین ہیں انہوں نے کتاب شفا کا درس شروع کیا ہے آپ بھی شرکت کریں۔ شہید مطہری کہتے ہیں کہ کتاب شفا کی تدریس ہر کسی کا کام نہیں ہے میں گمان نہیں کرتا کہ وہ بھی شفا پڑھا سکتے ہوں۔ آقای خندق آبادی زبردستی شہید مطہری کو کلاس میں لے جاتے ہیں اور اسی پہلے درس میں ہی شہید مطہری علامہ طباطبائی کے درس و بحث کے عاشق ہو جاتے ہیں۔ علامہ (1950 ء سے 1953 ء) کے دوران الہیات شفا پڑھاتے تھے۔ اس درس میں آقای منتظری، بہشتی اور واعظ زادہ خراسانی بھی شرکت کرتے تھے ۔ ایک فاضل کے بقول جب بھی شہید مطہری ان کلاسوں میں شرکت کرتے تھے تو وہ ان کلاسوں کے محور بن جاتے تھے۔ علامہ کسی مطلب کو 5 منٹ میں بیان کرتے تھے تو شہید مطہری کم از کم 20 منٹ اس کی تفصیل بیان کرنے میں لگاتے تھے۔ ان کی بحث اس قدر دلکش ہوتی تھی کہ علامہ دقت سے سنتے تھے اور ان کی گفتگو سے جھوم اٹھتے تھے۔ شہید مطہری جب کبھی علامہ کے مطالب کو نئے انداز میں بیان کرتے تھے تو حاضرین مجلس دقت کے ساتھ سنا کرتے تھے۔[5]

علمی اور تبلیغی سرگرمیاں

حوزہ علمیہ میں طالب علمی کے آغاز سے ہی ان کی تبلیغی فعالیتوں کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کے بھائی کے مطابق (سنہ 1943 ء) میں شہید مطہری نذر کرتے ہیں کہ اگر خدا نے توفیق دی تو بغیر کسی لالچ کے وہ دین کی تبلیغ کریں گے۔ اسی سال کچھ رقم مل جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ تبلیغ کے لئے دیہاتوں میں چلے جاتے ہیں ۔ 5 سال کی مدت تک اراک، ہمدان اور نجف آباد میں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے سفر کرتے رہے۔ قم میں ان کی پہلی تقریر ایام فاطمیہ کے حوالہ سےتھی اسی طرح ایک عشرہ حضرت محمد کی بعثت اور رسالت کے بارے میں تھا، جسے لوگوں نے کافی پسند کیا تھا۔ آیت اللہ بروجردی کے قم آنے کے بعد شیراز سے ان کو رپورٹ ملتی ہے کہ شیخ محمد اخباری نامی کسی شخص نے آبادہ شیراز میں اخباریت کی تبلیغ شروع کی ہے۔ شہید مطہری جو اخباریوں کے سخت مخالف تھے اور ان کو متحجر جانتے تھے، آبادہ میں جاکر 15 دن تقریریں کرکے اس شخص کے باطل افکار کے منفی اثرات کو ختم کرتے ہیں۔ [6] شہید مطہری حوزہ میں تحصیل کے دوران تبلیغی فعالیتوں کے علاوہ ادبیات، فلسفہ، (شرح منظومہ)، منطق، (شرح مطالع)، کلام (شرح تجرید)، مکاسب اور کفایہ الاصول پڑھاتے تھے۔ اس دوران تحصیل و تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات جیسے جدلیاتی مادہ پرستی کا مطالعہ فرماتے تھے۔[7]

ثقافتی سرگرمیاں

قم سے تہران جانے کے بعد شہید بہت سارے ثقافتی کاموں میں مشغول ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی اور مدرسہ مروی میں تدریس کے علاوہ بعض جرائد جیسے مکتب تشیع اور مکتب اسلام کے ساتھ تعاون کرنا شروع کرتے ہیں۔ 1957 ء میں مکتب تشیع کی تاسیس کے ذریعہ اس میں کام کرنے والوں کی فکری تربیت کرنا شروع کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ روح کی اصلیت ، قرآن اور حیات ،توحید اور تکامل جیسے موضوعات پر اسی جریدے میں مضامین شایع کرتے ہیں۔ 1958 ء سے جب مکتب اسلام نامی حریدہ شائع ہونا شروع ہوا تو اس مجلہ کے بورڈ آف رایٹرز کے ساتھ تعاون شروع کیا اور نہج البلاغہ کی سیر اور اسلام اور غرب میں جنسی اخلاق جیسے مضامین آپ کے قلم سے اس مجلے میں شایع ہونے لگے۔ تقریبا سنہ 1959 ء میں اسلامی ڈاکٹروں کی انجمن قائم ہوئی جہاں ہر دو ہفتے میں ایک جلسہ ہوا کرتا تھا اور شہید مطہری ان جلسات کے مقرروں میں سے تھے اور توحید، نبوت، معاد، حجاب کا مسئلہ، اسلامی میں غلامی، ربا، بینک اور بیمہ جیسے موضوعات پر ان جلسوںمیں سیر حاصل بحث کرتے تھے ۔ اس انجمن میں تقریر کے علاوہ سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوا کرتا تھا اور انجمن کے اعضاء شہید کے ساتھ بحث و مباحثہ کیاکرتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ماہانہ دینی انجمن اور یونیورسٹی آف اسلامک ٹیچرز میں بھی بہت ساری تقریریں کی ہیں۔

سیاسی سرگرمیاں

شہید مطہری تہران میں قیام کے دوران علمی اور ثقافتی فعالیتوں کے ساتھ ساتھ مخفی طور پر سیاسی سرگرمیوں میں بھی مشغول رہے۔ شہید مطہری اکثر اوقات سیاسی نظریات کو دینی مسائل کے ضمن میں بیان کرتے تھے۔ 6 جون 1963 ء کی اسلامی تحریک میں جب امام خمینی گرفتا ہوئے تو شاہی کارندوں نے شہید مطہری کو بھی گرفتار کیا اور 40 دن تک جیل میں رہے۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ اپنی سیاسی فعالیتوں کو جاری رکھتے ہیں۔ مسجد ہدایت میں آپ کی تقریریں بطور غیر مستقیم امام خمینی کی تحریک کو روشناس کراتی ہیں۔ ہیئت مؤتلفۀ اسلامی (متحدہ اسلامی کونسل) نامی تنظیم ایک فقہی اور سیاسی شورای تشکیل دیتی ہے۔ شہید مطہری ہمیشہ اس شورای کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ تھے اور یہ سفارش کرتے تھے کہ ان کی سمت درست اور منطقی ہونی چاہئے اور منحرف تحریکوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ انسان اور سرنوشت نامی کتاب شایع ہونے سے پہلے اسکے مضامین پمفلٹ کی شکل میں منتشر اور اس تحریک کے کارکنوں میں تقسیم ہوتے تھے اور ان کو اس کی تدریس ہوتی تھی۔[8] شہید مطہری (1976 ء) میں نجف اشرف جاکر امام خمینی سے حوزہ علمیہ قم اور اسلامی تحریک کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ اسی سال چند دوستوں سے ملکر جامعہ روحانیت مبارز کی بنیاد رکھتے ہیں۔ 1976 ء سے 1979 ء تک انقلاب اسلامی کو درپیش مسائل اور مشکلات میں گرفتار رہے۔ ایک طرف سے امام خمینی کے ساتھ رابطہ اور دوسری طرف سے انقلابی تحریک پر نظارت رکھتے تھے۔ انقلاب سے چند ماہ قبل جب امام خمینی پیرس میں تشریف فرما تھے تو وہاں جاکر امام سے ملاقات کی۔ امام خمینی شہید مطہری کے ساتھ ایک خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب شہید بات کرنے لگتے تھے تو امام خمینی نہایت ہی دقت سے سنتے تھے۔ اسی سفر میں امام خمینی، شورای انقلاب کی تشکیل کی ذمہ داری ان کو سونپتے ہیں۔[9]

امام خمینی کی فرانس سے واپسی پر شہید مطہری ان کے ہمراہ

شہادت

ایرانی کلینڈر کی 50 کی دہائی کے بعد شہید مطہری منحرف تحریکوں کے خلاف سرگرم تھے ۔ بعض گروہ مانند مجاہدین خلق شہید کے نظریات کے مخالف تھے۔ آخری سالوں میں فرقان نامی ایک اور گروہ سرگرم عمل ہوا جو شہید مطہری جیسوں کو اپنے اہداف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتے تھے ۔ مخصوصا علل گرایش بہ مادی گری نامی کتاب کے مقدمہ میں ایران میں مادہ پرستی کے عنوان سے کچھ مطالب ذکر کئے جن میں گروہ فرقان کے منحرف اور غلط عقاید اور قرآن سے متعلق ان کی غلط تفسیر کو رد کیا تھا۔ آخر کار اس گروہ نے آپ کو شہید کرنے کی ٹھان لی اور 1 مئی 1979 ء کو رات 10 بجکر 20 منٹ پر شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے۔[10]

شہید کے علمی آثار

تفصیلی مضمون: تالیفات شہید مرتضی مطہری

مرتضی مطہری نے 1325 شمسی میں قلم کاری کا کام شروع کیا اور پھر اسے اپنی زندگی کے آخر تک جاری رکھا۔ اس دوران مختلف عناوین پر اپنے آثار چھوڑیں۔ جن کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے۔

ان کے آثار کی کل تعداد 70 کے قریب ہے۔ جن میں کچھ آثار ان کی زندگی میں انتشارات صدرا کی جانب سے چھپے اور کچھ ان کے بعد کتابی صورت میں چھپے ہیں۔ آپکی کتابیں 28 جلدوں میں مجموعہ آثار کے عنوان سے موضوع وار منتشر ہوئی ہیں۔ شہید مطہری کی کتابیں عام فہم، موضوعات میں تنوع اور وسعت اور معاشرے کی ضرورت کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے مختلف زبانوں میں کئی بار شایع ہو چکی ہیں۔ امام خمینی نے بغیر استثناء شہید کے تمام آثار کو مفید قرار دیا ہے۔

حوالہ جات

  1. حمید رضا، ناصری و امیر محمد، ستوده، پاره ای از خورشید، ص69۔
  2. ایضا، ص75۔سیری در زندگانی استاد مطہری صص 32،92
  3. محمد حسین، واثقی، مصلح بیدار، ص52۔
  4. حمید رضا، ناصری و امیر محمد، ستوده، پاره ای از خورشید، ص 465۔
  5. حمید رضا، ناصری و امیر محمد، ستوده، پاره ای از خورشید، ص 201۔
  6. محمدحسین، واثقی، مصلح بیدار، ص 293-292۔
  7. مرتضی، مطہری، مجموعہ آثار، ج 1، ص 442-441۔
  8. محمد حسین، واثقی، مصلح بیدار، ص 156- 155۔
  9. حمید رضا، ناصری و امیر محمد، ستوده، پاره ای از خورشید، ص527۔
  10. حمید رضا، ناصری و امیر محمد، پاره ای از خوشید، ص406۔