مسودہ:مہر نبوت
مہرِ نبوت، حضرت محمدؐ کے دونوں شانوں کے درمیان ایک نشان تھا جو آپ کی نبوت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ احادیث کے مطابق یہ نشان گوشت کے ایک ابھار یا تل کی صورت میں موجود تھا جسے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے مختلف ادوار میں بعض افراد نے دیکھا تھا؛ یوسف یہودی نے پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے وقت، سلمان فارسی نے مسلمان ہوتے وقت اور بَحیرا راہب نے آپؐ کے بچپن میں اسے دیکھا تھا۔
اہل عرفان مہر نبوت کو ایک ظاہری شکل سے بالاتر، غیبی فتوحات اور عالم تکوین کے حقائق کا رمز سمجھتے ہیں، جبکہ اہل سنت محدثین نے اسے معجزہ قرار دیتے ہوئے اپنی کتابوں میں اس کی تفصیلات نقل کی ہے۔
اہمیت اور تعارف
مہر نبوت حضرت محمدؐ کے معجزات میں سے ایک تھا[1] جسے توریت میں آپ کی نبوت کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔[2] شیعہ منابع میں بنیادی طور پر مہر نبوت کے اصل وجود پر زور دیا گیا، جبکہ اہل سنت منابع میں اس کی تفصیلات بھی نقل ہوئی ہیں۔[3] اہل سنت محدثین جیسے تِرمذی نے شمائل النبی میں[4] اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں[5] مہر نبوت کی وضاحت کے لئے الگ الگ باب مختص کئے ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے دونوں شانوں کے درمیان گوشت کا ایک ابھار یا تل موجود تھا جو نشان نبوت یا مہر نبوت کے نام سے مشہور تھا[6] اور یہ نشان پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد آپ کے جسم سے محو ہو گیا۔[7] ایک حدیث کے مطابق اسرافیل نے اللہ کے حکم سے پیغمبر اکرمؐ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت لگائی تھی جس پر "لا إلہَ إلا اللہ و مُحمَّدٌ رسولُ اللہ" نقش تھا۔[8] مختلف منابع میں مہر نبوت کی ظاہری شکل و صورت مختلف بیان کی گئی ہے۔ بعض منابع میں اسے سیب اور بعض منابع میں کبوتر کے انڈے جیسی شکلوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔[9] قطب الدین راوندی نے اہل سنت منابع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ مہر نبوت متواتر احادیث سے ثابت ہے اور سب کے نزدیک تصدیق شدہ ہے اور حضرت محمدؐ کی ولادت سے پہلے ہی انبیائے ماسبق نے اس کی خبر دی تھی۔[10]
عرفاء کا نظریہ
اہل عرفان نے دیگر مکاتب فکر سے زیادہ مہر نبوت پر توجہ دیا ہے اور بعض شیعہ عرفاء نے اس کی تاویل اور تفسیر بھی کی ہیں۔[11] نویں صدی ہجری کے عارف صائن الدین ترکہ اصفہانی نے پیغمبر اکرمؐ کے دونوں شانوں کے درمیانی حصے کو غیبی فتوحات اور کشفی علوم کے داخل ہونے کی جگہ قرار دیا ہے۔[12] اسی طرح علم عرفان کے محقق محمد خواجوی نے مہر نبوت کو ایک الٰہی نقش اور تکوینی اسرار کا رمز قرار دیا ہے اور اس کی حقیقی شناخت کو مبدأ و معاد کی معرفت کے قوس نزولی اور قوس صعودی سے آگاہی پر موقوف قرار دیا ہے۔[13]
وہ افراد جنہوں نے مہر نبوت کا مشاہدہ کیا
سلمان فارسی: یہودی راہبوں کی زبانی حضرت محمدؐ کی نبوت کی نشانیوں کے بارے میں سن رکھا تھا اور مہر نبوت دیکھنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھے۔[14] ایک دن ایک صحابی کی تجہیز و تکفین کے موقع پر سلمان فارسی پیغمبر اکرمؐ کے پیچھے چل رہے تھے، پیغمبر اکرمؐ ان کی نیت سے آگاہ ہوئے تو اپنی چادر ہٹا کر انہیں مہر نبوت دکھائی۔[15] مہر نبوت دیکھنے کے بعد سلمان فارسی مسلمان ہو گئے۔[16]
یوسف یہودی: تفسیر علی بن ابراہیم کے مطابق یہودی بعثت سے پہلے ہی آخری نبی کی نشانیوں بشمول دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت سے واقف تھے۔[17] یوسف یہودی نے پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے وقت آپ کے دونوں شانوں کے درمیان تل دیکھا اور بے ہوش ہو گیا۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ نبوت بنی اسرائیل سے منتقل ہو گئی ہے۔[18]
بحیرا: شیخ صدوق کے مطابق بحیرا راہب نے شام کے سفر کے دوران پیغمبر اکرمؐ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کا مشاہدہ کیا جس وقت آپ کی عمر آٹھ سال تھی۔ اس موقع پر اس نے حضرت ابوطالب کو نصیحت کی کہ یہودیوں اور دوسرے خطرات سے آپ کی حفاظت کریں۔[19]
عباس بن عبدالمطلب: ابن عباس کے نقل کے مطابق ان کے والد عباس نے پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے بعد آپ کے جسم پر مہر نبوت دیکھی تھی۔[20]
وہ افراد جو مہر نبوت سے واقف تھے
اسی طرح حبشہ کے فاتح سیف بن ذی یزن نے عبد المطلب کو خبر دی کہ تہامہ میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے شانوں کے درمیان تل ہوگا اور آئندہ کی قیادت اور رہبری اسی کی ہوگی اور انہوں نے عبد المطلب کو یہودیوں کے شر سے اس بچے کی حفاظت کرنے کی نصیحت کی۔[21] اسی طرح روم کے بادشاہ ہرقل نے پیغمبر اکرمؐ کی نشانیوں بشمول مہر نبوت کے بارے میں تحقیق کے لئے ایک شخص کو مدینہ بھیجا؛ یہ شخص مدینہ آنے کے بعد اس مسئلے کو بھول گیا تھا لیکن پیغمبر نے اسے یاد دلایا۔[22]
مہر نبوت کے بارے میں ابن عباس کی روایت کا تنقیدی جائزہ
روضۃ الواعظین میں ابن عباس اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ عبد اللہ بن عبد المطلب اور حضرت محمدؐ دونوں کی ولادت نیز مہر نبوت کے گواہ تھے، لیکن انہوں نے پہلے تو مہر نبوت دیکھنے کی بات چھپائی تھی اور بعد میں بھول گیا تھا یہاں تک کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہیں یہ بات دوبارہ یاد آئی۔[23] شیعہ تاریخی محقق سید جعفر مرتضی اس روایت کو جعلی اور عباس بن عبد المطلب کے لئے جھوٹی فضیلت تراشی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق عباس پیغمبر اکرمؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، تو وہ کیسے پیغمبر کے والد گرامی کی ولادت کے گواہ ہو سکتے ہیں اور کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ بات بھول گئے ہوں اور پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کے بعد بھی اسے یاد نہ آئی ہو، یہاں تک کہ آٹھویں ہجری میں جب وہ مسلمان ہوا تو اسے یہ بات یاد آئی ہو۔[24]
حوالہ جات
- ↑ کاشانی، منہج الصادقین، 1336شمسی، ج2، ص282۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، 1371شمسی، ج8، ص433۔
- ↑ نفیسی، «تحقیق دربارہ ماہیت مہر نبوت»، ص20۔
- ↑ ترمذی، شمائل النبی، 1395شمسی، ص35۔
- ↑ بیہقی، دلائل النبوہ، 1405ھ، ج1، ص259۔
- ↑ امامی و شرفایی، «مُہر نبوت کے عرفانی شرحوں پر ایک نگاہ»، ص30۔
- ↑ امامی و شرفایی، «مُہر نبوت کے عرفانی شرحوں پر ایک نگاہ»، ص32۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج15،ص353۔
- ↑ نفیسی، «تحقیق دربارہ ماہیت مہر نبوت»، ص14۔
- ↑ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص32؛ مجلسی، بحار الانوار، 1362شمسی، ج16، ص174 ـ 175۔
- ↑ امامی و شرفایی، «نگاہی بہ شروح عرفانی مہر نبوت»، ص29 و 31۔
- ↑ امامی و شرفایی، «نگاہی بہ شروح عرفانی مہر نبوت»، ص37۔
- ↑ خواجوی، مدارج الفتوۃ فی شرح مہر النبوہ، 1354شمسی، ص5۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص218۔
- ↑ شیخ صدوق، کمال الدین، 1395شمسی، ج1، ص165؛ ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص220۔
- ↑ شیخ صدوق، کمالالدین، 1395شمسی، ج1، ص165؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج1، ص180۔
- ↑ قمی، تفسیر قمی، 1363شمسی، ج1، ص33، 80 و 191۔
- ↑ شیخ صدوق، کمال الدین، 1395شمسی، ج1، ص196 ـ 197۔
- ↑ شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج1، ص182 ـ 186، اسی طرح ملاحظہ کریں: ابناسحاق، سیرہ ابن اسحاق، 1368شمسی، ص75۔
- ↑ شیخ صدوق، کمالالدین، 1395ھ، ج1، ص176۔
- ↑ شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج1، ص177 ـ 180۔
- ↑ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص104۔
- ↑ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375شمسی، ج1، ص64 ـ 65۔
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1415ھ، ج2، ص66 ـ 68۔
مآخذ
- ابناسحاق، محمد، سیرہ ابناسحاق، قم، دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
- ابنہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بیروت، دار المعرفۃ، بیتا۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القران، مشہد، آستان قدس رضوی، 1371ہجری شمسی۔
- امامی، علیاشرف و محسن شرفایی، «مُہر نبوت کے عرفانی شرحوں پر ایک نگاہ»، پژوہشہای ادب عرفانی، شمارہ 27، پاییز و زمستان 1393ہجری شمسی۔
- بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1405ھ۔
- ترمذی، محمد بن عیسی، شمائل النبی، عمان، أروقہ، 1395ہجری شمسی۔
- جمعی از علما، الاصول الستۃ عشر، قم، دار الشبستری للمطبوعات، پہلی اشاعت، 1363ہجری شمسی۔
- خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد و ذیولہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
- خواجوی، محمد، مدارج الفتوۃ فی شرح مہر النبوہ، شیراز، کتابخانہ احمدی، 1354ہجری شمسی۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1395ھ۔
- عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، بیروت، دار الہادی، 1415ھ۔
- فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین، قم، انتشارات رضی، پہلی اشاعت، 1375ہجری شمسی۔
- قطب راوندی، سعید بن ہبۃاللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسۃ الامام المہدی(عج)، پہلی اشاعت، 1409ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، 1363ہجری شمسی۔
- کاشانی، ملافتح اللہ، منہج الصادقین فی الزام المخالفین، تہران، کتابفروشی محمدحسن علمی، تیسری اشاعت، 1336ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1362شمسی/1403ھ۔
- نفیسی، ابوتراب، «حضرت خاتم الانبیاء محمد بن عبد اللہؐ کی مہر نبوت کی حقیقت کے بارے میں تحقیق»، مطالعات اسلامی، شمارہ 15، تابستان 1354ہجری شمسی۔