ابلاغ آیات برائت

ویکی شیعہ سے

ابلاغ آیات برائت، مکہ میں مشرکین کے اجتماع کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ واقعہ ماہ ذی الحجہ سنہ 9ھ کو پیش آیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے پہلے یہ کام ابوبکر بن ابی‌ قحافہ کے سپرد کیا تھا لیکن اللہ کے حکم سے واپس لے کر اس کام کو حضرت علیؑ کے حوالے کردیا۔ جس حدیث میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے وہ تواتر کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں آئی ہے۔

یہ واقعہ حضرت علیؑ کے فضائل میں شمار کیا جاتا ہے اسی بنا پر حضرت علیؑ نے دوسرے صحابہ پر اپنی فضیلت اور خلافت پر اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے اس واقعے سے استدلال کیا ہے۔

واقعہ کی اہمیت اور مقام

ابلاغ آیات برائت، نویں ہجری کو مکہ میں مشرکین کے درمیان، حضرت علیؑ کے ذریعہ آیات برائت پڑھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ واقعہ حضرت علیؑ کے فضائل میں شمار ہوتا ہے۔[1] اسی طرح جیساکہ علامہ امینی نے الغدیر میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ مختلف شیعہ سنی مصادر میں نقل ہوا ہے۔[2]

واقعہ کی تفصیلات

آیات برائت، نویں ہجری سال کے آخر میں نازل ہوئیں۔[3] اور پیغمبر اسلام کو حکم ہوا کہ اسی سال کے ماہ ذی الحجہ میں مکہ کے اندر مشرکین کے اجتماع کے درمیان ان آیتوں کو ان تک پہنچائیں۔[4] اس ابلاغ کی کیفیت کے بارے میں شیعہ سنی تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ جب سورہ برائت کی دس آیتیں آنحضرت پر نازل ہوئیں تو آپ نے ابو بکر بن ابی قحافہ کو بلایا اور ان کو مشرکین مکہ کے لئے آیتیں پڑھنے کی غرض سے بھیج دیا۔ پھر آپ نے حضرت علیؑ کو بلایا اور فرمایا ابوبکر کی تلاش میں جاؤ اور وہ جہاں بھی ملیں ان سے نوشتہ لیکر مکہ کے لوگوں کی طرف نکل پڑنا اور وہ نوشتہ ان کو پڑھ کر سنادینا۔ حضرت علیؑ کو جحفہ کے مقام پر ابوبکر مل گئے، آپ نے وہ نوشتہ ان سے لے لیا۔ ابوبکر، رسول اللہؐ کی طرف واپس آ گئے اور ان سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہؐ کیا میرے بارے میں اللہ کی طرف سے کچھ نازل ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں، لیکن جبرئیل امین آئے تھے اور انہوں نے کہا کہ یہ پیغام یا تو آپ پہنچائیں گے یا آپ کے خاندان میں سے کوئی پہنچائے گا۔[5]

علامہ امینی کے بقول یہ واقعہ، تواتر کے ساتھ مختلف طریقوں سے نقل ہوا ہے[6] البتہ ان روایتوں کے درمیان جزوی طور پر کچھ اختلاف بھی ہے مثلا یہ کہ پیغمبرؐ نے پہلے یہ پیغام ابوبکر اور عمر دونوں کو دیا تھا نہ کہ صرف ابوبکر کو، اور ان کے بعد حضرت علیؑ کو ان کے تعاقب میں بھیجا۔[7] یا مثلا یہ کہ جس جگہ پر حضرت علیؑ کو ابوبکر ملے وہ مقام ذو الحلیفہ تھا۔[8]

آیات برائت نازل ہونے کے اسباب

شہر مکہ رسول خداؐ کے مقابلے میں مشرکین کا سب سے بڑا اڈہ تھا[9] یہ شہر آٹھویں ہجری سال میں فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کے اختیار میں آگیا۔[10] اس کے باوجود کچھ قبائل، اسلام کے مقابلے میں مزاحمت کر رہے تھے۔[11] یہاں تک کہ نویں ہجری سال میں جس کو سَنَۃ الوُفود بھی کہا جاتا ہے، [12] بہت سے قبیلوں نے اپنے وفود رسول اللہ کے پاس بھیجے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔[13] اسلام کے حق میں سیاسی توازن بدلنے پر آیات برائت نازل ہوئیں جن میں شرک کو ناقابل قبول اور ناقابل برداشت قرار دیا گیا۔[14]

رسول خدا کے پیغام کا مضمون

حضرت علیؑ عید قربان کی دوپہر کے بعد مکہ پہنچ گئے اور اپنے آپ کو رسول خداؐ کا قاصد بتاکر سورہ برائت کی آیتیں پڑھیں اور فرمایا "آج کے بعد سے کوئی بھی برہنہ طور پر (طواف) نہیں کرے گا اور آئندہ سال سے کوئی بھی مشرک، زیارت کے لئے نہیں آئے گا اور رسول خداؐ کے ساتھ جس نے بھی پیمان باندھا ہے وہ چار مہینے تک معتبر ہے"۔[15] بعض کتابوں میں یہ جملہ بھی پیغام کا جزو، بیان کیا گیا ہے:" مومن کے سوا کوئی بھی (جنت میں) داخل نہیں ہوگا"۔[16] تاریخ یعقوبی میں آیا ہے کہ حضرت علیؑ نے آیتوں کو مشرکین کے لئے پڑھا اور ان کو امان دی اور کہا جس نے بھی رسول خداؐ کے ساتھ چار مہینے کا پیمان باندھا تھا تو رسول خداؐ اپنے پیمان پر قائم ہیں اور جس کے ساتھ کوئی پیمان نہیں ہے اس کو پچاس رات کی مہلت دی ہے۔[17]

کہا گیا ہے کہ مشرکین کی امان ختم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے پیمان شکنی کی تھی کیونکہ سورہ برائت کی شروع کی آیتوں کے تسلسل میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جن مشرکین نے پیمان نہیں توڑا ہے ان کے پیمان کو اس کی مدت تک باقی رکھو۔[18]

حضرت علی کے فضائل میں ہونا

شیعہ عالم احمد بن علی طبرسی کی کتاب الاحتجاج علی اہل اللجاج[19] اور اہلسنت عالم دین ابن مغازلی کی کتاب مناقب الامام علی بن ابی‌طالب[20] میں آیا ہے کہ حضرت علیؑ نے دوسرے صحابیوں پر اپنی فضیلت ثابت کرنے کے لئے اور خلافت کے لئے اپنا استحقاق ثابت کرنے کی غرض سے اس واقعے سے استدلال کیا ہے۔

اسی طرح ابلاغ آیات سورہ برائت کا واقعہ، شیعہ اور سنی دونوں کی کتابوں میں حضرت علیؑ کے فضائل کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ مندرجہ ذیل کتب کو اس فہرست میں شمار کیا جاسکتا ہے:

شیعہ آثار میں:

اور اہلسنت کے آثار میں:

کچھ اہل سنت نے کہا ہے کہ اس واقعہ میں ابوبکر کا معزول کیا جانا اور ذمہ داری کو حضرت علی کے سپرد کیا جانا، حضرت علیؑ کی فضیلت پر دلالت نہیں کرتا ہے کیونکہ حضرت علیؑ کو اس وجہ سے بھیجا گیا تاکہ پیمان اسی شخص کے ذریعے ختم کیا جائے جس شخص کے ذریعہ باندھا گیا تھا یا پیمان باندھے والے کے رشتہ دار کے ذریعے۔

لیکن شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ حضرت علیؑ کا بھیجا جانا اس بات پر گواہ ہے کہ رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کی ذمہ داریاں ایک طرح کی ہیں کیونکہ یہ فرض، مشرکین سے صرف برائت کرنے کا اور دوری کرنے کا نہیں تھا اس لئے کہ یہ تو تمام مومنین کا فرض ہے کہ مشرکین سے برائت اور دوری کریں۔ بلکہ ان فرائض میں شرعی احکام پہنچانے کی ذمہ داری بھی شامل تھی۔[26]

حوالہ جات

  1. نمونہ کے طور پر دیکھئے: مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۶۵؛خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۱۶۵۔
  2. امینی، الغدیر، ۱۳۶۸، ج۶، ص۳۳۸ـ۳۴۱۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۳؛ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفہ، ج۲، ص۵۴۵؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ھ، ج۲، ص۷۳۔
  4. دانشنامہ امام علی، ۱۳۸۰ش، ج۸، ص۲۰۹؛ دیکھئے: ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۳۹۸، ج۵، ص۳۶ـ۳۷۔
  5. مثال کے طور پر دیکھیں: ابن حنبل، مسند، ۱۴۲۱ھ، ج۲، ص۴۲۷؛ ابن حنبل، فضائل الصحابہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۷۰۳، ح۱۲۰۳؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۴۲، ص۳۴۸، ح۸۹۲۹؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج۱، ص۱۶۸؛ مفید، الامالی، قم، ص۵۶۔
  6. امینی، الغدیر، ۱۳۶۸، ج۶، ص۳۳۸ـ۳۴۱۔
  7. دیکھئے: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۰ق ، ج۵، ص۱۶۵۲، ح۴۳۷۴۔
  8. ابن‌حنبل، فضائل الصحابہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۵۶۲، ح۹۴۶؛ ابن‌حنبل، مسند، ۱۴۲۱ھ، ج۴، ص۴۲۳، ح۱۳۲۱۳۔
  9. دانشنامہ امام علی، ۱۳۸۰ش، ج۸، ص۲۰۹۔
  10. طبری، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، ج۳، ص۴۲۔
  11. دانشنامہ امام علی، ۱۳۸۰ش، ج۸، ص۲۰۹۔
  12. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام محمد، ۱۳۷۸، ص۵۳۷۔
  13. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام محمد، ۱۳۷۸، ص۵۳۷۔
  14. دانشنامہ امام علی، ۱۳۸۰ش، ج۸، ص۲۰۹۔
  15. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ھ، ج۲، ص۷۴؛ اسی طرح دیکھئے: ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۳۹۸، ج۵، ۳۷۔
  16. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفہ، ج۲، ص۵۴۵۔
  17. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۷۶۔
  18. طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۹، ص۱۴۷۔
  19. طبرسی، الاحتجاج، نشر المرتضی، ج۱، ص۱۴۴۔
  20. ابن مغازلی، مناقب امیرالمؤمنین، ۱۴۲۴ھ، ص۱۷۰۔
  21. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۶۵۔
  22. حلی، کشف الیقین، ۱۴۱۱ھ، ص۱۷۲۔
  23. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، انتشارات علامہ، ج۲، ص۱۲۶۔
  24. ابن‌کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۳۹۸، ج۷، ص۳۵۷۔
  25. خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۱۶۵۔
  26. دانشنامہ امام علی، ۱۳۸۰ش، ج۸، ص۲۱۰۔ اسی طرح دیکھئے: طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۹، ص۱۶۴ـ۱۶۸۔

مآخذ

  • آیتی، محمدابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام محمد، با تجدید نظر و اضافات ابوالقاسم گرجی، چ۶، تہران، مؤسسہ انتشارات و چاپ دانشگاہ تہران، ۱۳۷۸۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار بیروت، [بے تا] (کتابخانہ دیجیتال نور)۔
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، تصحیح: ہاشم رسولی و محمدحسین آشتیانی، قم، انتشارات علامہ، [بے تا]۔
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، تحقیق: علی شیری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن‌کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن کثیر، البدایہ و النہایہ، آمادہ‌سازی: خلیل شحادہ، بیروت، دار الفکر، ۱۳۹۸۔
  • ابن‌مغازلی، علی بن محمد، مناقب امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، تحقیق: ابوعبدالرحمن ترکی بن عبداللہ الوادعی، صنعاء، دار الآثار، چاپ ۱، ۱۴۲۴ھ۔
  • ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، تصحیح: ابراہیم آبیاری، مصطفی سقا، عبدالحفیظ شبلی، بیروت، دار المعرفہ، [بے تا] (کتابخانہ دیجیتال نور)۔
  • ابن حنبل، احمد، فضائل الصحابہ، تحقیق: وصی‌اللہ محمد عباس، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء۔
  • ابن حنبل، احمد، مسند، تحقیق: شعیب الارنؤوط، عادل مرشد و دیگران، [بی‌جا]، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۱ھ/۲۰۰۱ء۔
  • امینی، عبدالحسین (علامہ)، الغدیر فی الکتاب و السنہ و الادب، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۸۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، المکتبۃ العصریہ، ۱۴۲۰ھ (کتابخانہ دیجیتال نور)۔
  • حلی، حسن بن یوسف (علامہ حلی)، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، تحقیق: شیخ مالک المحمودی، [بی‌جا]، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
  • دانشنامہ امام علی(ع)، زیر نظر علی‌اکبر رشاد، تہران، مرکز نشر آثار پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ ۱، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فى التفسير بالماثور، قم، كتابخانہ عمومى حضرت آيت‌اللہ العظمى مرعشى نجفى( رہ)، چاپ ۱، ۱۴۰۴ھ۔
  • طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ ۲، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح: فضل‌اللہ یزدی طباطبائی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ ۳، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تصحیح: محمدباقر موسوی خرسان، مشہد، نشر المرتضی، [بے تا] (کتابخانہ دیجیتال نور)۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت: [بے نا]، [بے تا] (کتابخانہ دیجیتال نور)۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر (تفسیر العیاشی)، تحقیق: ہشام رسولی، تہران، مکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، چ۱، ۱۳۸۰ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق و تصحیح: مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، کنگرہ شیخ مفید، چ۱، ۱۴۱۳ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الأمالی، تحقیق: حسین استادولی، علی‌اکبر غفاری، قم: منشورات جماعۃ المدرسین فی الحوزہ العلمیہ، [بے تا]۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، [بے تا] (نور ڈیجیٹل لائبریری)۔