سخی مزار

ویکی شیعہ سے
سخی مزار
زیارتگاہ سخی
ابتدائی معلومات
بانیاحمد شاہ ابدالی
تاسیس12ویں صدی ہجری کا اواخر
استعمالزیارتگاہ
محل وقوعکابل افغانستان
مربوط واقعاتپیغمبر اکرمؐ کا کپڑا اور قدمگاہ امام علی(ع)
مشخصات
معماری
تعمیر نوحیات بیگم 1298 شمسی


سخی مزار افغانستان کے دارالحکومت کابل کے علاقے کارتہ سکھی میں واقع ایک مکان ہے۔ میں ایک جگہ ہے جہاں 1182 ہجری میں پیغمبر اسلامؐ سے منسوب کپڑے کو بدخشان سے قندھار لے جاتے ہوئے کچھ مدت کے لیے رکھا گیا تھا۔ کپڑا لے جانے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ امام علیؑ اس کپڑے کے پاس کچھ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تب سے یہ جگہ شیعہ اور سنیوں کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ نیز اس جگہ شمسی نئے سال کے آغاز کے دوران سخی شاہ مردان کا علَم لہرایا جاتا ہے۔

مزار کی ابتدائی عمارت افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی (1134-1186ھ /1722-1773ء) نے بنوائی تھی۔ طالبان نے 14 فروری سنہ 2023ء کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے مزار کو بند کردیا تھا کہ وہاں مشرکانہ رسمیں چل رہی ہیں۔ اس سے قبل 2016 میں داعش کی طرف سے سخی مزار کے خلاف دہشت گردانہ حملے بھی کیے گئے تھے۔

محل وقوع

جنوبی منظر (فوٹو:روئٹرز نیوز ایجنسی)
مغربی منظر

زیارت سخی اسمائی پہاڑ ( ٹی وی پہاڑ) کے مغربی دامن پر اور کابل کے علاقے کارتے سخی میں واقع ہے۔[1] اس کے بالمقابل کابل یونیورسٹی، علی آباد ہسپتال اور حسینیہ عرفان واقع ہیں۔ اس کے جنوبی حصے میں، امام علیؑ مسجد (میر علی احمد حجت نے تعمیر کی) اور اس کے باہر، سلام ٹیلے پر، مسجد اور مدرسہ علمیہ محمدیہ واقع ہیں جنہیں واعظ بہسودی نے تعمیر کرایا ہے۔ اس مزار کے مغربی اور جنوبی علاقے میں ایک قبرستان ہے۔[2] جہاں سید علی احمد حجت،[3] امان اللہ خان کی والدہ حیات بیگم، واعظ بہسودی اور کمیونسٹ، مجاہدین اور طالبان حکومت کے تشدد سے مارے جانے والے متعدد افراد کی قبریں ہیں۔[4]

تاریخچہ

کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ایک کپڑا جو سنہ 1109 سے 1181 ہجری تک فیض آباد، بدخشان میں تھا[5] اور 1182ھ کے اواخر میں یہ کپڑا احمد شاہ ابدالی کے حکم سے ولی‌ اللہ خان اعتماد الدولہ کے ذریعے ولایت بدخشان کے علاقہ فیض آباد سے قندہار لے جایا گیا۔ سنہ 1182 ہجری کے اوائل میں یہ کپڑا کابل پہنچا اور موجودہ مزار کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اور یہاں رکھنے کی مدت چالیس دن سے 8 مہینے تک ذکر ہوئی ہے۔ اس دوران کابل اور گردونواح سے لوگ اس کپڑے کی زیارت کے لیے آتے تھے۔[6] سنہ 1180ھ کو بھی کپڑا منتقل ہونے کا سال قرار دیا گیا ہے۔[7]

روایت ہوئی ہے کہ کپڑا لے جانے والے صوفیاء نے چند دنوں کے بعد دو راتوں کو لگاتار خواب میں دیکھا کہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس ایک شخص جس نے اپنی تلوار پتھر پر رکھی ہوئی ہے کچھ لوگوں کے ساتھ کپڑے کے پاس نماز پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اس شخص نے اپنا تعارف امام علیؑ سے کرایا۔ اسی وجہ سے اس وقت سے یہ مقام حضرت علی علیہ السلام کی قدمگاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ پتھر دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔[8] یہ پتھر مزار کی شمالی دیوار میں پہاڑ کی طرف واقع ہے جو سنگِ ذوالفقار سے مشہور ہے۔ کپڑا لے جانے والوں نے قندھار پہنچ کر احمد شاہ ابدالی کو یہ واقعہ بیان کیا تو اس نے وہاں "سخی، شاہ مردان" کے نام سے ایک مزار بنانے کا حکم دیا۔ اس مزار کی تاریخ اس کے اندر، دیوار میں نصف کتبے پر درج ہوئی ہے۔[9]

عمارت

مزار کی پہلی عمارت احمد خان ابدالی (1134-1186ھ /1722-1773ء) نے تعمیر کروائی تھی۔[10] سنہ 1187ھ میں مزار کے قریب پانی کا کنواں کھودا گیا اور درخت لگائے گئے۔ سنہ 1298ھ میں افغانستان کے امان اللہ خان شاہ کی والدہ حیات بیگم نے برطانیہ سے افغانستان کی آزادی کی بحالی میں اپنے بیٹے کی کامیابی کے بعد اس کی مرمت شروع کی اور 1299ھ میں اسے مکمل کر کے ایک گنبد تعمیر کیا۔[11] میر علی احمد حجت نے اس میں ایک اور چھوٹے گنبد کو اضافہ کیا۔[12] حجت نے 1343 شمسی کو روضہ سخی کے جنوب میں ایک مسجد بھی بنوائی۔[13]

علم کشائی

نوروز کے دن حضرت علیؑ سے منسوب علَم کشائی کا منظر

ہر سال نوروز کے دن تحویل سال کے موقعے پر اس جگہ پر شیعہ اور اہل سنت سب مل کر حضرت علیؑ کے نام پر پرچم لہرایا جاتا ہے اور اس تقریب میں ایک شیعہ عالم دین اور ایک سنی عالم باری باری تقریر کرتے ہیں۔[14] اس تقریب میں سرکاری لوگ بھی شرکت کرتے ہیں اور مذکورہ علَم چالیس دن تک بلند رہتا ہے۔[15]

بروز منگل 14 فروری سنہ 2023ء کو طالبان کے امر بالمعروف اور نہی از منکر پر مامور افراد نے اس مزار کو بند کر دیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق طالبان نے اس مزار کے زائرین کو بھی وہاں سے یہ کہہ کر باہر نکال دیا کہ اس جگہ پر عَلَم کو بوسہ دینے سمیت مشرکانہ افعال انجام دئے جاتے ہیں۔[16]

دہشتگردی کے حملے

سنہ 2016ء سے، سخی مزار اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں پر دہشت گردی کے کئی حملے ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ پہلا حملہ عاشورہ کی رات 11 اکتوبر سنہ 2016ء کو داعش کے کچھ اعضا نے مزار کے اندر موجود لوگوں کے خلاف کیا۔[17] جبکہ دوسرا حملہ 21 مارچ سنہ 2018ء کو مزار کی طرف جانے والی سڑک پر واقع ہوا[18] اور مزار کی طرف علَم کشائی کے لئے جانے والے لوگوں کے درمیان تین بم پھٹنے سے 29 افراد مارے گئے اور 52 زخمی ہوئے۔[19] جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کیا۔[20]

حوالہ جات

  1. بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاہ‌ہای خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص101.
  2. بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی۔
  3. احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاہ‌ہای خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص100.
  4. «روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاہ معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.
  5. وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقہ شریفہ، 1366ش، ص18.
  6. وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقہ شریفہ، 1366ش، ص28.
  7. بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380.
  8. بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.
  9. بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.
  10. «روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاہ معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.
  11. وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقہ شریفہ، 1366ش، ص28.
  12. «روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاہ معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.
  13. زیارتگاہ سخی در نوروز، خبرگزاری فارس.
  14. احمدی، «نوروز در افغانستان».
  15. «زیارت سخی» مکان مقدس شیعیان و اہل تسنن در کابل»، خبرگزاری تسنیم.
  16. «تداوم فشار طالبان بر شیعیان افغانستان...»، خبرگزاری شفقنا.
  17. «44 کشتہ و زخمی در حملہ بہ زیارت سخی کابل»، خبرگزاری فارس.
  18. «نوروز خونین کابل»، سایت روزنامہ اطلاعات روز.
  19. کابل میں سخی مزار کے قریب خود کش حملہ، 29افراد ہلاک 52 زخمی، طالبان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر دی روزنامہ پاکستان۔
  20. «داعش مسئولیت حملہ بہ مراسم جشن نوروز در کابل را بہ عہدہ گرفت»، خبرگزاری ابنا.

مآخذ