عبد اللہ بن عمر بن خطاب یا ابن عمر (3 بعثت-73ھ) پیغمبر(ص) کے صحابی، دوسرے خلیفہ کا بیٹے و آنحضرت (ص) کے برادر نسبتی تھے۔ وہ دس سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ مسلمان ہوئے اور ان سے پہلے مدینہ ہجرت کی۔ اہل سنت مآخذ میں انہیں سادہ اور کمزور شخصیت کا مالک کہا گیا ہے جو ظالم حاکم کے خلاف اعتراض کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے بعد تین خلیفہ کے ساتھ بیعت کی۔ عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا کام ان کے سپرد کیا۔ عثمان نے انہیں قضاوت کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے قبول نہ کیا۔ عبداللہ نے حضرت علی(ع) کے دور خلافت میں اگرچہ آپ(ع) کی بہت فضیلتوں کو بیان کیا لیکن آپ(ع) کی بیعت نہ کی اور یزید بن معاویہ کے ساتھ بیعت کر لی۔ جب امام حسین(ع) کوفہ کی طرف جا رہے تھے تو انہوں نے آپ(ع) کو یزید کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا لیکن امام(ع) نے قبول نہ کیا۔ ابن عمر آخر سنہ 73 ھ کو 84 سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسے اور فخ کے علاقے میں مہاجرین کے قبرستان میں دفن ہوئے۔

عبد اللہ بن عمر
عبد اللہ بن عمر کی قبر
عبد اللہ بن عمر کی قبر
کوائف
مکمل نامعبد اللہ بن عمر بن خطاب
کنیتابو عبد الرحمن
تاریخ پیدائشسنہ 3 بعثت
جائے پیدائشمکہ
محل زندگیمکہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
نسب/قبیلہقریش
اقاربعمر بن خطاب، عثمان بن مظعون، حفصہ
وفاتسنہ 73 ہجری، مکہ
مدفنمکہ
دینی معلومات
اسلام لانا10 برس کی عمر میں
قبول اسلام کی کیفیتوالد کے ہمراہ
جنگوں میں شرکتجنگ خندق، جنگ موتہ
ہجرتمدینہ
نمایاں کارنامےحضرت علی (ع) کی بیعت نہ کرنا، خلفاء کی موافقت، یزید کی بیعت

شخصیت

عبد اللہ بن عمر بن خطاب یا ابن عمر پیغمبر اکرم(ص) کے صحابی، دوسرے خلیفہ کے فرزند اور پیغمبر (ص) کی زوجہ کے بھائی تھے۔[1] اس کی کنیت عبد الرحمن تھی اور بعثت کے تیسرے سال پیدا ہوا۔[2] ان کی والدہ عثمان بن مظعون کی بیٹی تھیں جن کا نام زینب تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ دس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے اور اس سے پہلے مدینہ ہجرت کی۔ بعض کی نظر میں ان کے اسلام لانے کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[3]

ابن عمر اپنی زندگی میں بڑی احتیاط کرتے، اسی وجہ سے فتوا دینے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔[4] اہل سنت کے مآخذ میں انہیں ایک کمزور [5] اور سادہ شخصیت کا مالک کہا گیا ہے[6] جنہیں لوگوں کا حکومت کے خلاف آواز اٹھانا پسند نہیں تھا حتی کہ ظالم حکومت پر اعتراض کرنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔[7] اور کہتے تھے مجھے اختلافات کی جنگ پسند نہیں ہے اور جس کی بھی جیت ہو میں اسی کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔[8]

کہا گیا ہے کہ حکومت کے سلسلے میں، ابو موسی اشعری نے عبداللہ بن عمر کو خلیفہ مقرر کرنے کی تجویز پیش کی لیکن عمرو عاص نے کہا کہ اس میں حکومت کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔[9]

پیغمبر اکرم (ص) کا زمانہ

عبداللہ بن عمر جنگ بدر اور جنگ احد کے وقت بچہ تھے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ جنگ خندق وہ پہلی جنگ تھی جس میں آپ(ص) نے اسے شرکت کی اجازت دی۔ وہ اس جنگ میں پندرہ سال کا تھا۔ اس کے بعد دوسری جنگوں میں بھی شرکت کی۔[10] اہل سنت کے تاریخی مآخذ میں بیان ہوا ہے کہ جنگ موتہ میں جب دشمن کی جیت کا احساس ہوا تو، عبداللہ بن عمر اور کچھ دوسرے مسلمان میدان جنگ کو چھوڑ کر مدینہ واپس چلے گئے۔ بھاگنے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) سے معذرت کی اور آپ(ص) نے بھی معاف فرما دیا۔[11]

پہلے تین خلیفہ کا زمانہ

عبداللہ کو حکومت اور سیاست کے لئے مناسب نہ سمجھا گیا اسی لئے صرف کچھ جنگوں میں شرکت کے علاوہ اس کے بارے میں کوئی خاص خبر نہیں ملتی۔ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد اور ابوبکر کے دور خلافت میں، وہ سپاہ اسامہ کا ایک فرد تھا۔ عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لئے ایک شورای تشکیل دی جس میں عبداللہ کو اپنا مشاور قرار دیا لیکن اسے اپنے بعد خلیفہ ہونے کی اجازت نہ دی۔[12] اسی زمانے میں اس نے جنگ نہاوند اور فتح مصر میں شرکت کی۔[13]

تاریخ میں موجود ہے کہ عبداللہ نے کبھی بھی قضاوت نہ کی اور جب عثمان نے اسے مشورہ دیا، تو اس نے قضاوت کی مخالفت کی اور اسے قبول نہ کیا۔ [14] یزید بن ہارون نقل کرتا ہے کہ ابن عمر لوگوں کو کہتا تھا کہ میں جس کے ساتھ رہا ہوں وہ مجھ سے زیادہ سمجھدار تھا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو میری قضاوت کی ضرورت ہے یا مجھ سے کوئی مسائل کے بارے میں سوال کرو گے، تو ضرور کچھ سیکھتا۔[15]

عثمان کے قتل کے بعد، بعض نے من جملہ مروان بن حکم نے اسے خلافت کا مشورہ دیا، تو اس نے جواب دیا کہ اگر بہت کم تعداد میں بھی لوگ میری خلافت کے خلاف ہوں تو میں اسے قبول نہیں کروں گا۔[16]

امام علی(ع) کا دور خلافت

جب امام علی(ع) خلافت پر آئے، تو عمار یاسر نے آپ(ع) سے اجازت لی تا کہ عبداللہ کے ساتھ بیعت کے سلسلے میں بات کرے۔ عبداللہ نے امام علی(ع) کی بہت زیادہ تعریف کی، لیکن آپ(ع) سے بیعت نہ کی۔[17] عبداللہ کو زیادہ تر اپنی عبادت کی فکر رہتی تھی اور وہ اپنے اندر سماجی مسائل میں داخل ہونے کا شوق نہیں رکھتا تھا، اسی وجہ سے امام علی(ع) نے عمار کو حکم دیا کہ "عبداللہ" کو چھوڑ دو، وہ ایک کمزور انسان ہے۔[18] اسی لئے جب کسی نے کہا کہ میں عبداللہ کی طرح کسی کام میں دخل اندازی نہیں کرتا، تو امام علی(ع) نے فرمایا کہ عبداللہ نے نہ تو حق کی مدد کی، اور نہ ہی باطل کو ختم کیا۔ [19]

ابن عمر نے اگرچہ امام علی(ع) کی بیعت نہ کی لیکن آپ(ع) کے مخالفین کی صف میں بھی داخل نہ ہوا اور امام(ع) کے مخالفین کی حمایت نہ کی۔[20] بعض اہل سنت کے مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ عبداللہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں اس وجہ سے بہت غمگین اور پریشان تھا کہ امام علی(ع) کی حمایت کیوں نہیں کی اور کہتا تھا: اپنے کسی بھی کام پر نادم اور پشیمان نہیں ہوں، سوائے اس کہ امام علی(ع) کے ہمراہ فتنہ گر افراد کے خلاف جنگ نہ کر سکا۔[21]

امام حسین(ع) کو جنگ سے منع کرنا

عبداللہ حق اور باطل میں مقابلے میں خاموشی اخیتار کرتا تھا اور کہتا تھا حتی کہ ظالم حکومت کے خلاف بھی آواز اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اس نے امام حسین(ع) سے کہا کہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا حسین(ع) کو شہید کر دیا جائے گا اور اسی لئے اس نے امام حسین(ع) کو کوفہ کی طرف جانے سے منع کیا اور مدینہ واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن امام(ع) نے قبول نہ کیا اور اپنے سفر کو جاری رکھا۔ اس وقت عبداللہ نے یزید سے بیعت کی ہوئی تھی اور اسے پیغمبر اکرم(ص) کا جانشین سمجھتا تھا۔[22]

معاویہ کے نام خط

عبداللہ نے معاویہ کو خط لکھا اور کہا: تم نے سمجھا ہے کہ کیونکہ میں نے علی(ع) اور مہاجرین کو چھوڑ دیا اس لئے تمہارا ساتھ دوں گا اور یہ جو کہا ہے کہ میں نے علی(ع) کی بیعت نہیں کی اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی کوئی وصیت مجھے یاد نہیں تھی اس لئے مجبوراً میں نے بے طرفی اختیار کی ہے اور خود سے کہا ہے کہ اگر یہ ہدایت کا راستہ ہے، تو زیادہ زیادہ یہی ہے کہ میں ثواب سے محروم ہو جاؤں گا، اور اگر گمراہی کا راستہ ہے، تو اس سے مجھے نجات مل جائے گی۔ اس لئے اس کے بعد مجھ سے کوئی امید نہ کرنا۔[23] طبری نقل کرتا ہے کہ ابو موسی اشعری سے سوال کیا کہ کس شخص کو امت کی سرپرستی کے لئے انتخاب کیا جائے۔ اس سے عبداللہ بن عمر کا کہا لیکن عبداللہ نے یہ قبول نہ کیا اور کہا کہ میں معاویہ کو لوگوں کی سرپرستی کے لئے انتخاب کرتا ہوں۔[24]

اسی طرح معاویہ نے خلافت کے بارے میں میں اپنے بیٹے یزید سے کہا کہ مجھے چند افراد سے ڈر لگتا ہے کہ وہ خلافت کو لے لیں گے ان میں ایک عبداللہ بن عمر ہے اور اس کے بعد کہا کہ عبداللہ نے عبادت اور پارسائی کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے اس لئے اگر سب لوگ تمہاری بیعت کریں گے تو سب کے بعد وہ بھی تمہاری بیعت کر لے گا۔[25]

یزید کی بیعت

معاویہ کی وفات کے بعد مدینہ کے حاکم ولید بن عتبہ نے عبداللہ سے کہا کہ وہ یزید کے ساتھ بیعت کرے، عبداللہ نے کہا کہ اسے اختلاف پسند نہیں ہے، لیکن اگر سب لوگوں نے بیعت کر لی، تو وہ بھی کر لے گا اور چونکہ اس نے کوئی مخالفت نہ کی اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا۔[26] واقدی کہتا ہے ولید بن عتبہ جب ابن زبیر اور حسین سے بیعت نہ لے سکا تو وہ رات کے وقت مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں عبداللہ بن عمر نے انہیں دیکھا اور سوال کیا کہ مدینہ میں کیا خبر چل رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ معاویہ کی موت اور یزید کی بیعت۔ ابن عمر نے ان سے کہا کہ خدا سے ڈریں اور مسلمانوں کے اکٹھ کو نہ بکھیریں، اس کے بعد کچھ عرصہ تک مدینہ رہا اور جب دیکھا کہ مختلف شہروں کے لوگ یزید کے ساتھ بیعت کر رہے ہیں تو وہ بھی ولید کے پاس گیا اور بیعت کر لی۔[27] اور کہا: اگر (خیر) بھلائی ہے تو راضی ہیں اور اگر مصیبت ہے ہے تو صبر کریں گے۔[28]

کچھ مدت کے بعد جب لوگوں نے یزید سے بیعت توڑ دی تو، عبداللہ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ یزید کے ساتھ ہماری بیعت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(ص) کے ساتھ بیعت تھی اور میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ اگر کوئی اپنی بیعت کو توڑے گا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اسی لئے اگر کوئی یزید سے بیعت توڑے گا تو میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رہے گا۔[29]

اس کے بعد کہا گیا ہے کہ عبداللہ نے حجاج کے ساتھ بیعت کی، وہ رات کو تا کہ اسے لوگ نہ دیکھیں حجاج کے گھر بیعت کے لئے جاتا ہے اور حجاج بھی اسی لئے اپنے پاؤں کو کمبل سے باہر نکالتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اس کے پاؤں کے ساتھ بیعت کرو۔[30]

علمائے اہل سنت کے قول

ابن عمر کی شخصیت اپنے والد کی طرح یہ تھی کہ وہ اہل سنت کے سیاسی اور دینی تفکرات کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ وہ پیغمبر اکرم (ص) کے صحابی ہونے کے علاوہ دوسرے خلیفہ کے فرزند بھی تھے۔[31] ان دو رتبوں کے علاوہ اہل سنت اسے پیغمبر اکرم(ص) اور ابوبکر اور عمر کی احادیث کا راوی بھی کہتے ہیں، اور خلیفہ کا فرزںد ہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔[32] ابن اثیر نے عبداللہ کے بارے میں بہت فضائل نقل کیے ہیں اور اسے اہل سنت کے بزرگوں سے کہا ہے اور یہ کہ انہوں نے پیغمبر(ص) کے بعد ساٹھ سال تک فتوے دیئے ہیں۔[33]

اس کے مقابلے میں بعض معتقد ہیں کہ ابن عمر نے پیغمبر اکرم(ص) سے بہت کم روایات نقل کی ہیں، جیسے کہ شعبی کہتا ہے کہ میں ایک سال تک اس کے ساتھ رہا، اور اس سے کوئی حدیث نہیں سنی۔[34] اور بعض من جملہ جابر بن عبداللہ اس سے روایت نقل کرتے ہیں۔[35] میرزا حسین نوری تحریف قرآن کی ابحاث من جملہ وہ دلائل جن پر اسناد کرتا ہے، تحریف قرآن کے بارے میں اہل سنت کی روایات عبداللہ بن عمر سے ہیں۔[36] اسی طرح اہل سنت بعض روایات جیسے کہ امام علی(ع) کی فضیلت، [37] قرآن کی مختلف قرائتیں، [38] صدقہ [39] اور دوسرے موضوعات ان ہی سے نقل کرتے ہیں۔

زہد اور عبادت

اہل سنت کے مآخذ کے مطابق، عبداللہ کوشش کرتا تھا کہ جتنی عبادتیں رسول اکرم(ص) سے دیکھی اور سنی ہیں انہیں انجام دے اور وہی مقام جہاں پر پیغمبر اکرم(ص) آرام فرماتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، سفر کرتے اور اسی مقام پر نماز پڑھتے تھے۔[40] اس کے زہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، اس کے باوجود اگر کسی حاکم کی طرف سے کوئی ہدیہ ملتا تو اسے رد نہیں کرتے اور سب ہدیے تحفے قبول کر لیتے تھے۔[41] اور دنیا پسند نہیں تھے، بہت حج انجام دیئے اور زیادہ صدقہ دیتے تھے۔[42]

 
مکہ، فخ کا علاقہ، عبداللہ بن عمر کی قبر

وفات

سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر سے نقل کرتا ہے کہ حجاج کے ایک دوست کے نیزے کا سرہ میرے پاؤں پر لگا اور یہی زخم عبداللہ کی بیماری کا باعث بنا۔ ایک دن حجاج اس کی عیادت کے لئے آیا تو عبداللہ نے کہا تم نے مجھے مارا ہے اور تم نے حکم دیا ہے کہ کچھ لوگ خدا کے حرم میں اپنے ساتھ اسلحہ لے کر آئیں۔ وہ آخر کار سنہ 73 ھ کو 84 سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا۔[43]

ابن عمر نے موت کے وقت وصیت کی کہ اسے حرم کے حصے سے باہر دفن کیا جائے، لیکن اس پر عمل نہ کیا گیا، حجاج نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسے فخ کے علاقے میں مہاجرین کی قبروں کے ساتھ دفن کیا۔[44]

حوالہ جات

  1. ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.
  2. ابن حجر،‌ الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج ۴، ص ۱۵۶.
  3. ابن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۰.
  4. ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۱.
  5. ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج‏ ۱، ص ۷۳.
  6. ابن اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج‏ ۴، ص ۶.
  7. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج‏ ۴، ص ۱۶۴.
  8. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج‏ ۴، ص ۱۳۳.
  9. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفين، ۱۴۰۴ق، ص ۵۴۲.
  10. ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.
  11. ابن كثير، البدايۃ و النہايۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۴، ص ۲۴۸.
  12. الطبري، تاريخ‏ ،۱۳۸۷ق، ج‏ ۴،ص ۲۲۹.
  13. ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۶.
  14. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۹.
  15. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۰۸.
  16. ابن عبد البر، الاستيعاب فى معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج ۳، ص ۹۵۳.
  17. ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج‏ ۱، ص ۷۳.
  18. ابن قتيبۃ الدينوري، الإمامۃوالسياسۃ، ۱۴۱۰ق، ج‏ ۱، ص ۷۳.
  19. شريف رضى، نہج البلاغۃ، ۱۴۱۴ق، ص ۵۲۱.
  20. ابن عثم، الفتوح،۱۴۱۱ق، ج ۲،ص ۵۲۹.
  21. ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.
  22. صدوق، امالي، ۱۳۷۶ش، ص ۱۵۳.
  23. ابن عثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲،ص ۵۲۹.
  24. الطبري، تاريخ‏ ،۱۳۸۷ق، ج‏ ۵،ص ۵۸.
  25. ابن اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج‏ ۴، ص ۶.
  26. الطبري، تاريخ‏، ۱۳۸۷ق، ج‏ ۵،ص ۳۴۲.
  27. الطبري، تاريخ‏ ،۱۳۸۷ق، ج‏ ۵،ص ۳۴۳.
  28. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج‏ ۴، ص ۱۶۴.
  29. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج‏ ۴، ص ۱۶۴.
  30. البلاذرى، انساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۰، ص۴۴۷.
  31. جعفریان، «تأثیر موضعگیریہای شخصی در فقہ سیاسی اہل سنت»، ص۵۴.
  32. ابن حجر،‌ الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج ۴، ص ۱۵۶.
  33. ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.
  34. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج‏ ۴، ص ۱۰۸.
  35. ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۹.
  36. جعفريان، افسانہ تحريف قرآن‏، ۱۳۸۲ش‏، ص ۱۲۸.
  37. تہرانى‏، امام‌ شناسى، ۱۴۲۶ق، ج ۲، ص ۱۸۳.
  38. جعفريان، افسانہ تحريف قرآن‏، ۱۳۸۲ ش‏. ص ۱۳۱.
  39. طباطبائی، الميزان، ۱۳۶۴ش، ج ‏۲، ص ۶۵۳.
  40. ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.
  41. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج‏ ۴، ص ۱۱۲.
  42. ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.
  43. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ۱۴۱۰ق، ج‏ ۴، ص ۱۶۸.
  44. ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج‏ ۴، ص ۱۶۹.

مآخذ

  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹.
  • ابن الأثير، الجزری على بن محمد ، أسد الغابۃ فى معرفۃ الصحابۃ، بيروت، دار الفكر، ۱۴۰۹ق.
  • ابن الأثير، عز الدين على بن ابى الكرم، الكامل في التاريخ ، بيروت، دار صادر - دار بيروت، ۱۳۸۵ق.
  • ابن بابويہ، محمد بن على، الأمالي (للصدوق)، تہران، كتابچى، چاپ ششم، ۱۳۷۶ش.
  • ابن حجر العسقلانى، احمد بن على، الإصابۃ فى تمييز الصحابۃ، تحقيق عادل احمد عبد الموجود و على محمد معوض، بيروت، دارالكتب العلميۃ، الطبعۃ الأولى، ۱۴۱۵ق.
  • ابن سعد، الطبقات الكبرى، تحقيق محمد عبد القادر عطا، بيروت، دار الكتب العلميۃ، الطبعۃ الأولى، ۱۴۱۰ق.
  • ابن عبد البر، أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد، الاستيعاب فى معرفۃ الأصحاب، تحقيق على محمد البجاوى، بيروت، دار الجيل، الطبعۃ الأولى،۱۴۱۲ق.
  • ابن قتيبۃ الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم، الإمامۃ و السياسۃ المعروف بتاريخ الخلفاء، تحقيق علي شيري، بيروت، دارالأضواء، الطبعۃ الأولى، ۱۴۱۰ق.
  • ابن كثير، اسماعيل بن عمر، البدايۃ و النہايۃ، بيروت، دار الفكر، ۱۴۰۷ق.
  • البلاذرى، أحمد بن يحيى بن جابر، كتاب جمل من انساب الأشراف، تحقيق سہيل زكار و رياض زركلى، بيروت، دار الفكر، ط الأولى، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • الطبري، محمد بن جرير، تاريخ الأمم و الملوک ، تحقيق محمد أبوالفضل ابراہيم ، بيروت، دار التراث ، الطبعۃ الثانيۃ، ۱۳۸۷ق.
  • الكوفى، أحمد بن اعثم، كتاب الفتوح، تحقيق على شيرى، بيروت، دارالأضواء، ط الأولى، ۱۴۱۱ق.
  • جعفريان، رسول، افسانہ تحريف قرآن‏، ترجمہ محمود شريفى‏، تہران‏، انتشارات امير كبير، چاپ اول‏،۱۳۸۲ ش‏.
  • جعفریان، رسول،‌ «تأثیر موضع گیریہای شخصی در فقہ سیاسی اہل سنت»، مجلہ کیہان اندیشہ، شماره ۵۳، خرداد۱۳۷۴ش.
  • شريف الرضى، محمد بن حسين، نہج البلاغۃ (للصبحي صالح)، قم،ہجرت، چاپ اول، ۱۴۱۴ق.