نماز

ویکی شیعہ سے
(نمازوں سے رجوع مکرر)

نماز، اسلام کی سب سے اہم عبادت ہے جو اذکار اور مخصوص حرکتوں پر مشتمل ہے۔ احادیث میں نماز کو «دین کا ستون» اور «اعمال کی قبولیت کی شرط» کہا گیا ہے۔ نماز کے مخصوص احکام اور آداب ہیں؛ جن میں با وضو ہونا اور قبلہ رخ ہونا شامل ہیں۔ اسی طرح نماز کو جماعت کے ساتھ یا فُرادا پڑھ سکتے ہیں البتہ جماعت کے ساتھ پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔

نماز یا واجب ہے یا مستحب: واجب نماز میں نماز یومیہ، نماز آیات، نماز طواف، نماز میت، والدین کی قضا نماز اور نذر، عہد یا قسم کی وجہ سے واجب ہونے والی نمازیں شامل ہیں۔ یومیہ نماز کی نافلہ نمازیں اور نماز شب مستحب نمازوں میں سے ہیں۔

احادیث میں نماز ترک کرنے یا نماز پڑھنے میں سستی کرنے کے کچھ آثار ذکر ہوئے ہیں جن میں سے ایک اہل بیتؑ کی شفاعت سے محروم ہونا ہے۔ نماز کو اول وقت کے بجائے دیر سے پڑھنا یا خضوع و خشوع کے بغیر پڑھنا نماز کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح اللہ کی یاد، شرک اور بت برستی کا مقابلہ، برائیوں سے اجتناب نماز واجب ہونے کی حکمتوں کے عنوان سے ذکر ہوئے ہیں۔

نماز دوسرے ادیان میں بھی پائی جاتی ہے؛ اگرچہ پڑھنے کا طریقہ ہر شریعت میں اپنے حساب سے الگ ہے۔

اہمیت

نماز مسلمانوں کی ایک عملی عبادت ہے جس کا قرآن 98 بار[1] ذکر آیا ہے۔[2] قرآنی آیات کے مطابق نماز انسان کو گناہ سے روکتی ہے،[3] ہدایت کا ذریعہ بنتی ہے،[4] سختیوں اور مشکلات میں انسان کی مدد کرتی ہے،[5] اور اللہ کی طرف سے انبیاء کو نماز کی بہت تاکید ہوئی ہے[6] اور انبیاء بھی اپنے گھر والوں کو اس کی بہت تاکید کرتے تھے۔[7]

نماز ضروریات اسلام،[8] اور ان عبادات میں سے ہے جسے مجتہدین کے فتوے مطابق کسی بھی صورت میں ترک نہیں کرسکتے ہیں[9] اور اس کا ترک کرنا گناہ کبیرہ[10] اور کفر و منافقت کی نشانی ہے۔[11] وسایل‌الشیعہ اور مُستَدرَک میں 11600 سے زائد احادیث نماز کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔[12] فقہی کتابوں میں بھی کتاب‌الصلاۃ کے نام سے ایک باب نماز کے ساتھ مختص ہوتا ہے جس میں اس کے آداب اور احکام کو بیان کیا جاتا ہے۔[13]

نماز کے بارے میں مستقل کچھ کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ سنہ 1998 کے اعداد و شمار کے مطابق 2000 کتابیں اور رسالے لکھے گئے ہیں جبکہ سینکڑوں غزل اور نظم بھی اس بارے میں لکھے گئے ہیں۔[14] 2019ء تک نماز پڑھنے کے لئے دنیا بھر میں 36 لاکھ مساجد بنائی گئی ہیں۔[15] اسی طرح بعض جگہوں میں نماز خانہ کے نام سے نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ مخصوص کی جاتی ہے۔[حوالہ درکار]


محمدی ری‌شہری (متوفی 2022ء) کے مطابق نماز، بعثت کے آغاز میں مکہ میں واجب ہوئی ہے۔[16] بحار الانوار کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعثت کے ایک دن بعد امام علیؑ، حضرت خدیجہ اور بعض دیگر کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔[17]

نماز روایت کی زبان میں

خوشنویسی حدیث الصَّلوَةُ عِمَادُ الدِّين، عبدالرحیم کہیا ترکی کے ثلث نویس کے قلم سے

روایات میں نماز کے بارے میں مختلف تعبیریں آئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

نماز کا طریقہ

پہلی رکعت

رکوع کا طریقہ

سب سے پہلے وضو کرتے ہیں اور پھر قبلہ رخ کھڑے ہو کر نیت کرتے ہیں۔ اس کے بعد تکبیرۃالاِحرام پڑھتے ہیں؛ یعنی دونوں ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھا کر: «اَللہُ اَکبَر» کہتے ہیں۔ اس کے بعد سورہ حمد اور اس کے بعد کوئی اور سورہ پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد رکوع میں جاتے ہیں۔ رکوع کا ذکر پڑھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ سجدے میں ذکر پڑھنے کے بعد دو زانو بیٹھتے ہیں اور دوبارہ سجدہ کرتے ہیں اور ذکر پڑھتے ہیں۔[32] رکوع میں «سُبحانَ رَبّیَ العظیمِ و بِحَمدِہ» اور سجدہ میں «سُبحانَ رَبّیَ الاَعلیٰ وَ بِحَمدِہ» یا تین مرتبہ «سبحانَ‌اللہ» پڑھتے ہیں۔[33]

دوسری رکعت

سجدہ کرنے کا طریقہ

دوسرے سجدے کے بعد کھڑے ہوکر پہلی رکعت کی طرح سورہ حمد اور دوسرا سورہ پڑھتے ہیں اور پھر قنوت پڑھتے ہیں۔ قنوت میں ہاتھ کی ہتھلیوں کو آسمان کی طرف بلند کر کے قنوت کی دعا پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد رکوع اور رکوع کا ذکر پہلی رکعت کی طرح پڑھتے ہیں۔ رکوع کے بعد کھڑے ہوکر سجدے میں چلے جاتے ہیں اور دو سجدے بجا لاتے ہیں۔[34] دعائے قنوت «رَبَّنا آتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّار»[یادداشت 1] اس کے علاوہ کوئی اور دعا یا ذکر بھی پڑھ سکتے ہیں۔

تشہد

تشہد اور سلام پڑھتے ہوئے بدن کی حالت

دوسرے سجدے کے بعد دو زانوں بیٹھ کر تشہداَشْہَدُ اَنْ لااِلہَ اِلاَّ اللہ وَحْدَہُ لاشَرِیكَ لَہُ، وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَداً عَبْدُہُ وَ رَسُولُہ، اَلّلہُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد)[یادداشت 2]پڑھتے ہیں۔[35]

سلامِ نماز

دو رکعت والی نماز میں تشہد کے بعد سلام نماز (اَلسَّلامُ عَلَیْكَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللہ وَ بَرَکاتُہُ، اَلسَّلامُ عَلَیْنا وَ عَلی عِبادِ اللہ الصّالِحینَ، اَلسَّلامُ عَلَیكُمْ وَ رَحْمَةُ اللہ وَ بَرَکاتُہُ)[یادداشت 3] پڑھا جاتا ہے اور یوں نماز مکمل ہوجاتی ہے۔[36]

تیسری اور چوتھی رکعت‌

تشہد کے بعد کھڑے ہو کر تین مرتبہ تسبیحات اربعہ (سُبْحانَ اللہ وَ الْحَمْدُ لِلہ وَ لا اِلہَ اِلّا اللہ وَ اللہ أكْبَر)[یادداشت 4] پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد رکوع اور سجدہ بجا لاتے ہیں۔ تین رکعت والی نماز میں تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد تشہد اور سلام پڑھ کر نماز ختم کرتے ہیں۔ چار رکعتی نماز میں تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد دوبارہ کھڑے ہوتے ہیں اور تسبیحات اربعہ پڑھنے کے بعد رکوع اور دو سجدے بجا لاتے ہیں اور تشہد و سلام پڑھ کر نماز ختم کرتے ہیں۔[37]

نماز کے آداب اور احکام

سجدہ گاہ کی ایک تصویر جس پر شیعہ، نماز کے دوران جس پر پیشانی رکھتے ہیں۔
ایران میں دوسری جماعت کی کتاب میں نماز سکھانے کا طریقہ

نماز شروع کرنے سے پہلے اس کے مقدمات کو انجام دینا ضروری ہے۔ ابتدا وضو یا غُسل یا تیمم انجام دیا جاتا ہے۔ (ان تینوں میں سے اپنے وظیفے کو تشخیص دینے کیلئے اپنے اپنے مرجع تقلید کی طرف مراجعہ کرنا ضروری ہے) پھر مناسب لباس پہن کر قبلہ (کعبہ) جوکہ مکہ میں ہے کی طرف رخ کرکے کھڑے ہونا ضروری ہے۔

واجبات نماز

واجبات نماز وہ گیارہ چیزیں ہیں جنھیں فقہا نماز کے اصلی اجزا سمجھتے ہیں۔ واجبات نماز درج ذیل ہیں۔ 1. نیت، 2. قیام (کھڑا ہونا)، 3. تکبیرۃ الاحرام 4. رکوع، 5. سجود، 6. قرائت (قرائت حمد کے ساتھ ایک سورہ)، 7. ذکر (مثل ذکر رکوع یا سجدہ)، 8. تشہد 9. سلام، 10. ترتیب 11. موالات (یعنی نماز کے اجزا کو پے در پے انجام دینا)۔[38] واجبات نماز رکن اور غیر رکن میں تقسیم ہوتے ہیں: درج بالا واجبات میں سے ابتدائی پانچ کو نماز کا رکن کہا جاتا ہے کہ جن میں سے کوئی ایک بھولے سے یا جان بوجھ کر کم یا زیادہ کرے تو نماز باطل ہوتی ہے۔ دوسرے چھے واجبات غیر رکن ہیں جنھیں اگر جان بوجھ کر کم یا زیادہ کریں تو نماز باطل ہوتی ہے۔[39]

مبطلات نماز

درج ذیل موارد میں سے کسی ایک سے نماز باطل ہوجاتی ہے:

  • حدث اکبر (وہ کام جو غُسل کا باعث بنتا ہے) یا اصغر (وہ کام جو وضو کو باطل کرتا ہے۔)؛
  • قبلہ سے منہ موڑنا؛
  • جان بوجھ کر بات کرنا؛
  • آواز کے ساتھ جان بوجھ کر ہنسنا؛
  • تَکَتُّف: ہاتھ باندھنا؛
  • دنیوی امور کے لئے آواز کے ساتھ رونا؛[40]
  • سورہ حمد کے بعد آمین کہنا؛
  • ایسا کام جس سے نماز کی حالت ختم ہوجائے؛ جیسے چھلنگیں لگانا اور تالیاں بجانا؛
  • کھانا یا پینا؛
  • دو رکعتی یا تین رکعتی نماز میں رکعتوں کی تعداد میں شک کرے یا چار رکعتی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں شک کرنا؛
  • ارکان نماز کو بھول کر یا جان بوجھ کر کم یا زیادہ کرنا، یا جان بوجھ کر غیر رکن واجبات نماز میں سے کسی کو کم یا زیادہ کرنا[41]

دیگر احکام

آیت‌اللہ مرعشی نجفی کی امامت میں حرم حضرت معصومہؑ میں نماز جماعت
  • وضو: واجب نمازوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے۔[42] بعض موارد میں وضو کے بدلے تیمم کیا جاتا ہے؛ جیسے پانی نہ ملے، پانی مضر ہو یا وضو کے لئے وقت کم ہو ۔[43]
  • مکان نمازگزار: نماز پڑھنے کی جگہ کے بارے میں کچھ شرائط ذکر ہوئی ہیں؛ جگہ مباح ہو اور (غصبی نہ ہو)، جگہ میں حرکت نہ ہو، نجس نہ ہو، پیشانی رکھنے کی جگہ گھٹنوں والی جگہ سے چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچے نہ ہو۔[44]
  • نمازی کا لباس: مرد نماز کے دوران عورتین (شرمگاہ آگے اور پیچھے سے) چھپائے اور عورت پورے بدن کو ڈھانپ لے؛ لیکن چہرہ، ہاتھوں کو کلائی تک اور پاؤں کو ٹخنوں تک چھپانا واجب نہیں۔[45]
  • نماز میں قبلہ (کعبہ) رخ ہو۔[46]
  • نماز قصر: مسافر چار رکعتی نماز کو دو رکعت پڑھے۔[47] شرعی سفر کے تحقق کے لئے کچھ شرائط ضروری ہیں۔ جن میں سے ایک سفر میں آنا جانا مجموعی طور پر مسافت 8 فرسخ (40 سے 45 کلومیٹر کے درمیان) سے کم نہ ہو۔[48]

آداب نماز

نماز کے کچھ آداب اور مستحبات ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: نماز کو اول وقت میں پڑھنا، نماز کے دوران زینت کرنا، مسجد میں اور جماعت کے ساتھ پڑھنا، نماز کے شروع میں دعا کرنا، حضور قلب اور خشوع کے ساتھ نماز پڑھنا۔[49] نماز ختم ہونے کے بعد بھی کچھ اعمال ذکر ہوئے ہیں جنھیں تعقیباتِ نماز کہا جاتا ہے؛ مثلا آیت‌الکرسی پڑھنا، تسبیحات حضرت زہراؑ پڑھنا اور سجدہ شکر بجالانا[50] ان میں سے بعض اعمال مفاتیح‌ الجنان میں ذکر ہوئی ہیں۔[51]

واجب اور مستحب نمازیں

سید علی قاضی طباطبایی کا دستخط: «اگر نماز کو محفوظ کرلیا تو آپ کی سب چیزیں محفوظ رہیں گی۔»

واجب نمازیں ان نمازوں کو کہا جاتا ہے جنھیں اگر معین وقت میں نہ پڑھے تو ان کی قضا واجب ہے۔ یہ نمازیں درج ذیل ہیں:

  1. یومیہ نمازیں 17 رکعت ہیں: جو پانچ وقت (صبح، ظہر، عصر، مغرب اور عشا) میں پڑھی جاتی ہیں اور ان کے یہی نام ہیں؛
  2. نماز آیات: وہ نماز جو بعض قدرتی آفات جیسے سورج گرہن، چاند گرہن اور زلزلہ کے دوران واجب ہوتی ہے؛
  3. نماز مَیّت: وہ نماز ہے جسے دفن سے پہلے مسلمان میت کے جنازے پر پڑھی جاتی ہے اور مسلمان میت کو یہ نماز پڑھے بغیر دفن کرنا جائز نہیں ہے؛؛
  4. نماز طواف: وہ نماز جو طواف کعبہ کے بعد پڑھی جاتی ہے؛
  5. والدین کی قضا نماز بڑے بیٹے پر؛
  6. نذر، قسم اور عہد کی وجہ سے واجب ہونے والی نماز۔[52]

مستحب نمازیں

مستحب یا نَوَافِل نمازیں ان نمازوں کو کہا جاتا ہے جن کو پڑھنا واجب نہیں لیکن پڑھنے تاکید ہوئی ہے؛ جیسے یومیہ نمازوں کی نفل نمازیں اور نماز شب۔[53] تمام مستحب نمازیں، نماز وِتر کے علاوہ سب دو رکعتی ہیں۔[54]

نماز میں سہل انگاری کے نتائج

«إِنَّ شَفَاعَتَنَا لَا تَنَالُ مُسْتَخِفّاً بِالصَّلَاة؛ جو شخص نماز کو اہمیت نہ دے اسے ہماری شفاعت نہیں ملتی ہے»

شیخ صدوق، الامالی، 1376شمسی، ص484

««مَن اَحسَنَ صَلاتَہ حتّى تَراہا الناس، وَ أساءَہا حينَ يَخلو، فَتِلکَ استہانة؛ جس نے لوگوں کے سامنے توجہ سے اور خلوت میں بغیر توجہ کے پڑھے تو اسے نماز کو اہمیت نہ دینا کہا جاتا ہے۔»

نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج3، ص26

  • شفاعت اہل بیتؑ سے محروم رہنا۔[55] ابوبصیر نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ جب آپؑ نے احتضار کی حالت میں اپنے رشتہ داروں کو بلایا اور فرمایا: إنَّ شَفاعَتَنا لاتَنالُ مُستَخِفَّاً بِالصّلاۃ؛ ترجمہ "بتحقیق ہماری شفاعت اس شخص تک نہیں پہنچتی جو نماز کو اہمیت نہیں دیتا ہے۔"[56]
  • پندرہ خصوصیتوں میں مبتلا ہونا: حضرت زہراؑ، پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتی ہیں کہ جو شخص نماز کو اہمیت نہ دے اللہ تعالی اسے 15 خصلتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔[57]
  • بے برکت عمر؛
  • بے برکت مال؛
  • بے نور چہرہ؛
  • اعمال کا ثواب نہ پانا؛
  • دعا مستجاب نہ ہونا؛
  • دوسروں کی دعا اس کے حق میں مستجاب نہ ہونا؛
  • رسوائی کی موت؛
  • بھوکا مرنا
  • پیاسا مرنا، جتنا بھی پانی پئے اس کی پیاس نہیں مٹے گی؛
  • قبر میں ایک فرشتہ اسے اذیت دیتا ہے؛
  • قبر کی تاریکی؛
  • فشار قبر؛
  • قیامت میں ایک فرشتہ اسے منہ کے بل گھسیٹتا ہے اور مخلوق دیکھ رہی ہوگی؛
  • قیامت کے دن حساب و کتاب میں سختی؛
  • خدا اس کی طرف رحمت کی نگاہ نہیں کرتا ہے اور دردناک عذاب ہوگا۔[58]

کسی عذر کے بغیر نماز کو اول وقت پر نہ پڑھنا،[59] اور نماز کو خضوع اور خشوع کے بغیر پڑھنا نماز کو اہمیت نہ دینے کے موارد میں شمار کئے جاتے ہیں۔[60]

شیعہ مذہب اور اہل سنت مذہب کے نماز میں فرق

شیعہ اور مذاہب اہل‌سنت کی نماز کے مابین پائے جانے والے فرق مندرجہ ذیل ہیں:

عنوان شیعہ مالکی شافعی حنفی حنبلی
سورہ حمد پڑھنا پہلی اور دوسری رکعت میں واجب ہے۔ تمام واجب اور مستحب نماز کی تمام رکعتوں میں پڑھنا واجب ہے۔ تمام واجب اور مستحب نمازوں کی تمام رکعتوں میں پڑھنا واجب ہے۔ پہلی اور دوسری رکعت میں واجب ہے۔ تمام رکعتوں میں واجب ہے۔[61]
سورہ کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا سورہ کا جز ہے اور پڑھنا واجب ہے۔ نہ پڑھنا مستحب ہے۔ سورہ کا جز ہے اور پڑھنا واجب ہے۔ نہ پڑھنا جائز ہے سورہ کا جز ہے اور پڑھنا واجب ہے۔[62]
قنوت تمام نمازوں میں مستحب ہے صرف نماز صبح میں جائز ہے۔ صرف نماز صبح میں جائز ہے۔ صرف نماز وتر میں جائز ہے۔ صرف نماز وتر میں جائز ہے۔[63]
جَہر و اِخفات (نماز کے بعض اجزا کو بلند یا آرام سے پڑھنا) فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کو جہر کے ساتھ، اور ظہر و عصر کو اخفات کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کو جہر کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔ فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کو جہر کے ساتھ، اور ظہر و عصر کو اخفات کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ جہر اور اخفات کسی بھی نماز میں نہ تو واجب ہے اور نہ ہی مستحب فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کو جہر کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔[64]
تَکَتُّف (نماز میں ہاتھ باندھنا حرام ہے اور مشہور کے مطابق نماز باطل ہوتی ہے۔ جائز ہے، لیکن نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب مستحب اور سنت ہے۔ مستحب اور سنت ہے۔ مستحب اور سنت ہے۔[65]
سورہ حمد کے بعد آمین کہنا حرام ہے اور نماز باطل ہوتی ہے۔ مستحب ہے۔ مستحب ہے۔ مستحب ہے۔ مستحب ہے۔[66]
رکوع اور طمأنینہ رکوع میں ہاتھ زانو تک پہنچنے کی مقدار تک جھکنا، اور طمأنینہ واجب ہے۔ ہاتھ زانو تک پہنچنے کی مقدار تک جھکنا، اور طمأنینہ واجب ہے۔ ہاتھ زانو تک پہنچنے کی مقدار تک جھکنا، اور طمأنینہ واجب ہے۔ صِرف جھکنا کافی ہے اور طمأنینہ ضروری نہیں۔ ہاتھ زانو تک پہنچنے کی مقدار تک جھکنا، اور طمأنینہ واجب ہے۔[67]
رکوع کا ذکر واجب ہے۔ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ واجب ہے۔[68]
رکوع کے بعد قیام واجب ہے۔ واجب ہے۔ واجب ہے۔ واجب نہیں ہے۔ واجب ہے۔[69]
اعضائے سجدہ سجدے میں پیشانی، دونوں ہاتھ کی ہتھلیاں، دونوں گھٹنے اور پاؤں کے دونوں انگوٹھوں کا زمین پر لگے رہنا واجب ہے۔ پیشانی کا زمین پر لگنا واجب ہے لیکن باقی اعضاء واجب نہیں پیشانی کا زمین پر لگنا واجب ہے لیکن باقی اعضاء مستحب ہے۔ پیشانی کا زمین پر لگنا واجب ہے لیکن باقی اعضاء مستحب ہیں۔ ساتوں اعضاء کے علاوہ ناک بھی زمین پر رکھنا واجب ہے۔[70]
سجدے میں طمأنینہ ضروری ہے۔ ضروری ہے۔ ضروری ہے۔ ضروری نہیں ہے۔ ضروری ہے۔[71]
سجدے کا ذکر واجب ہے۔ مستحب ہے۔ مستحب ہے۔ مستحب ہے۔ مستحب ہے۔[72]
تشہد نماز کے درمیان اور آخر میں واجب ہے نماز کے درمیان اور آخر میں مستحب ہے۔ نماز کے درمیان میں مستحب اور آخر میں واجب ہے۔ نماز کے درمیان اور آخر میں مستحب ہے۔ نماز کے درمیان اور آخر میں واجب ہے۔[73]
سلام نماز متأخرین کے مشہور فتوا کے مطابق واجب ہے۔ واجب ہے۔ واجب ہے۔ مستحب ہے۔ واجب ہے۔[74]
نماز میں رکعتوں کی تعداد میں شک چار رکعتی نماز میں دوسری رکعت کے بعد شک ہو تو زیادہ پر بنا رکھ کر نماز احتیاط پڑھنا چاہئے واجب نمازوں میں کم پر بنا رکھ کر باقی نماز پڑھتے ہیں۔ واجب نمازوں میں کم پر بنا رکھ کر باقی نماز پڑھتے ہیں۔ واجب نمازوں میں اگر زندگی کا پہلا شک ہے تو نماز کو دوبارہ پڑھیں اور اس کے بعد والے شک میں کم پر بنا رکھنا چاہئے۔ تمام واجب نمازوں میں کم پر بنا رکھ کر نماز کو آگے بڑھاتے ہیں۔[75]
نماز مسافر چار رکعتی نماز کو قصر (دو رکعت) پڑھیں۔ قصر اور پوری پڑھنے میں انسان کا اختیار ہے۔ قصر اور کامل میں اختیار ہے۔ قصر پڑھنا ضروری ہے۔ قصر اور کالم میں اختیار ہے۔[76]
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا جایز ہے۔ سفر میں جائز ہے۔ سفر میں جائز ہے۔ جائز نہیں ہے۔ سفر میں جائز ہے۔[77]

فلسفہ نماز

وَأَقِمِ الصَّلَاۃ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ؛ اور نماز قائم کریں۔ بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے.

نوری، سورہ عنکبوت: آیت 45

امام رضاؑ سے منقول ایک روایت میں نماز واجب ہونے کے فلسفے کو اللہ کی ربوبیت کا اقرار، شرک اور بت پرستی سے مقابلہ، اللہ تعالی کی عظمت کے سامنے تَذَلّل اور ذلت کا اظہار، غفلت سے دوری، اللہ کی یاد، گناہ اور برائیوں سے اجتناب وغیرہ ذکر ہوئے ہیں۔[78] تفسیر نمونہ میں روح کے نظم کی تقویت، پاکیزگی کی دعوت، اخلاق فضائل کی پرورش، دوسرے اعمال کی قدر و منزلت کا اعتراف اور گناہوں کی مغفرت کو نماز واجب ہونے کی حکمتوں میں ذکر کیا ہے۔[79]

اسی طرح آیہ شریفہ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي[80] میں نماز کا مقصد اللہ کی یاد کو بیان کیا ہے۔[81] حضرت فاطمہؑ کی ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ اللہ نے بندوں پر نماز واجب کیا تاکہ وہ تکبر سے بچے رہیں۔[82] نہج‌ البلاغہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ نماز خودخواہی اور تکبر کو ختم کرتی ہے۔[83]

نماز دیگر ادیان میں

تمام شریعتوں میں نماز موجود ہے، لیکن اس کا طریقہ مختلف ہے۔ کا وجود مختلف انداز میں رہا ہے۔[84] دین یہود میں «تِفیلا» جسے «تفیلیم» یا «تفیلوت» یعنی نماز اجتماع میں پڑھی جاتی ہے۔ اس کے احکام «سیدور» یا میشنا (یہودیوں کی ادعیہ کتابیں) میں مذکور ہیں۔[حوالہ درکار]

کہا جاتا ہے کہ عام دنوں میں تین مرتبہ اور شَبات (ہفتہ) کے دن اور دیگر مقدس دنوں میں ان کا اُرتُدُکس نامی فرقہ موسف نام کی ایک اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔[85]

عیسائی مذہب میں خدا(باپ) یا دیگر اشخاص تثلیث (پسر یا روح‌ُالقُدُس) سے رابطہ برقرار کرنے کیلئے نماز پڑھی جاتی ہے۔ مسیحت کے مختلف فرقوں میں نماز کو مختلف صورتوں میں پڑھتے ہیں۔ نمازیں اجتماعی صورت (نیایش‌ سرایی) میں پڑھی جاتی ہے جیسے عشائے ربانی اور انفردی صورت میں بھی پڑھی جاتی ہے۔[86]

مونوگراف

کتاب آداب الصلاۃ، تألیف امام خمینی

نماز کے بارے میں مختلف زبانوں میں بہت ساری کتابیں لکھی اور ترجمہ کی گئی ہیں۔[87] ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • آداب نماز، مصنف امام خمینی: اس کتاب میں قلبی آداب اور معنوی اسرار ذکر ہوئے ہیں۔ کتاب کے دو دیباچے ہیں جنھیں مؤلف نے اپنے بیٹوں کے نام لکھا ہے۔
  • اسرار الصلوۃ، تالیف مرزا جواد ملکی تبریزی: تہذیب، حضور قلب اور نماز کی شناخت کے بارے میں لکھی گئی ہے۔
  • اسرار نماز، تألیف امام خمینی: نماز کی عرفانی تفسیر، اذان سے تشہد اور سلام سلام تک
  • الصَّلاۃ فی الکتابِ و السُّنۃ، تالیف محمد محمدی ری‌شہری: اس کتاب میں نماز کے وجوب کے بارے میں قرآنی آیات اور شیعہ و سنی احادیث بیان ہوئی ہیں۔ نیز نماز کا فلسفہ، نماز اسلام سے پہلے، نماز کی برتری، نماز کی خصوصیات، اوقات نماز، آداب نماز اور۔۔۔ شامل ہیں۔
  • رازہای نماز، تألیف عبداللہ جوادی آملی: نماز اور اس کے احکام کو فلسفی نگاہ سے بیان کیا ہے۔

متعلقہ مضمون

نوٹ

  1. اے اللہ ہمین دنیا اور آخرت کی خیر و نیکی عطا کر اور آخرت میں بھی ہمیں نیکی اور خیر عطا کر۔ ہمیں آگ کی عذاب سے نجات دے۔
  2. اس حقیقت کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عبادت کا لائق ہو اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کا بندہ ہے۔ اللہ تعالی محمد و آل محمد پر درود بھیجے۔
  3. سلام ہو اے پیغمبر اور اللہ کی رحمت اور برکت آپ پر ہو۔ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر۔ سلام ہو تم پر اور اللہ کی تم پر رحمت ہو۔
  4. اللہ پاک و منزہ ہے اور حمد و ثنا اس سے مخصوص ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

حوالہ جات

  1. مقدمہ‌ای بر فلسفہ نماز، انتشارات بین المللی یادآوران، دکتر محمد مسعود نوروزی، ص116
  2. ملاحظہ کریں: سورہ حج، آیہ 41؛ سورہ بقرہ، آیہ 3؛ سورہ نساء103و162؛ سورہ مائدہ6؛ سورہ انفال آیات 2،3و4؛ سورہ ابراہیم آیہ31؛ سورہ مومنون آیہ 2؛ سورہ نمل آیات 2و3.
  3. سورہ عنکبوت، آیہ 45.
  4. سورہ اعلی، آیہ 15و14.
  5. سورہ بقرہ، آیہ 45.
  6. ملاحظہ کریں سورہ مریم، آیہ 31.
  7. ملاحظہ کریں؛ سورہ مریم، آیہ 55.
  8. وزیری‌فرد، «بررسی انکار ضروری دین و آثار آن در فقہ»، ص183.
  9. مدرسی، احکام مقدمات نماز، 1387شمسی، ص61.
  10. طیب، اطیب البیان، 1378شمسی، ج14، ص168.
  11. پایندہ، نہج الفصاحہ، 1387شمسی، ص279.
  12. ملاحظہ کریں؛ حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج4، ص6 تا ج8، ص539؛ نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج3، ص5 تا ج6، ص548.
  13. ملاحظہ کریں؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج7، ص2 بہ بعد.
  14. صحتی سردرودی، «کتاب‌شناسی گزینشی و توصیفی نماز»، ص42.
  15. «كم عدد المساجد في العالم»، اکبر موقع عربی بالعالم.
  16. محمدی ری‌شہری، شناخت‌نامہ نماز، 1392شمسی، ج1، ص58.
  17. ملاحظہ کریں؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج18، ص179-180.
  18. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج4، ص27.
  19. متقی، کنز العمال، 1364ھ، ج7، ح18851.
  20. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص268.
  21. مجلسی، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج2، ص6، 17، 220 و283.
  22. قطب راوندی، شہاب الاخبار، 1388شمسی، ص59.
  23. ابن‌شعبہ، تحف العقول، ‌1363شمسی، ص455.
  24. پایندہ، نہج الفصاحہ، ‌‌1387شمسی، حدیث 1588.
  25. صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج1، ص103.
  26. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج82، ص232.
  27. متقی، کنز العمال، 1364ھ، ج7، ص291.
  28. آمدی، غررالحکم، دانشگاہ تہران، ص56.
  29. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ‌1376شمسی، ج1، ص248.
  30. آمدی، غرر الحکم، دانشگاہ تہران، ج2 ص166.
  31. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج82، ص232.
  32. ملاحظہ کریں؛ سازمان پژوہش و برنامہ‌ریزی آموزشی وزارت آموزش و پرورش، ہدیہ‌ہای آسمان، 1401شمسی، ص53-54.
  33. خمینی، توضیح المسائل، 1387شمسی، ص161-163.
  34. ملاحظہ کریں؛ سازمان پژوہش و برنامہ‌ریزی آموزشی وزارت آموزش و پرورش، ہدیہ‌ہای آسمانی، 1401شمسی، ص54-55.
  35. ملاحظہ کریں؛ سازمان پژوہش و برنامہ‌ریزی آموزشی وزارت آموزش و پرورش، ہدیہ‌ہای آسمانی، 1401شمسی، ص55.
  36. ملاحظہ کریں؛ سازمان پژوہش و برنامہ‌ریزی آموزشی وزارت آموزش و پرورش، ہدیہ‌ہای آسمانی، 1401شمسی، ص55.
  37. ملک‌ پورافشار، آموزش نماز و وضو، 1396شمسی، ص10-11.
  38. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج2، ص433.
  39. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج2، ص433.
  40. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی(محشی)، 1419ھ، ج2، ص5-29؛ بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، 1424ھ، ج1، ص614-627.
  41. بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، 1424ھ، ج1، ص628-630.
  42. بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، 1424ھ، ج1، ص185.
  43. بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، 1424ھ، ج1، ص365.
  44. ملاحظہ کریں؛: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج2، ص362-385.
  45. خمینی، توضیح المسائل(محشی)، 1424ھ، ج1، ص441و442.
  46. بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، 1424ھ، ج1، ص431.
  47. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص414.
  48. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص414.
  49. ملاحظہ کریں؛ محمدی ری‌شہری، الصلاۃ فی الکتاب و السنۃ، 1377شمسی، ج1، ص49-63.
  50. ملاحظہ کریں؛ محمدی ری‌شہری، الصلاۃ فی الکتاب و السنۃ، 1377شمسی، ج1، ص140-144.
  51. ملاحظہ کریں؛ قمی، مفاتیح الجنان، بخش تعقیبات نماز، ص12-19.
  52. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج2، ص244.
  53. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج2، ص244-245.
  54. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج2، ص246.
  55. شیخ صدوق من لایحضرہ الفقیہ،‌1367شمسی، ج1، ص206.
  56. شیخ صدوق من لایحضرہ الفقیہ ج1 ص206.
  57. ابن‌طاووس، فلاح السائل، 1406ھ، ص22.
  58. ابن‌طاووس، فلاح السائل، 1406ھ، ص22.
  59. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج80، ص6.
  60. «سبک شمردن نماز»، خبرگزاری حوزہ.
  61. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسہ، 1421ھ، ج1، ص109.
  62. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص110.
  63. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص110.
  64. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص110.
  65. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص110.
  66. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص110-111.
  67. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص111.
  68. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص111.
  69. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص111.
  70. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص112.
  71. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص112.
  72. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص112.
  73. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص112و113.
  74. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص114.
  75. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص114.
  76. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص139.
  77. مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج‌1، ص142.
  78. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج3، ص4.
  79. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج16، ص290-294.
  80. سوره طه، آیه14.
  81. نگاه کنید به مطهری، «فلسفه عبادت»، ص15-17.
  82. طبرسی، الاحتجاج،‌ 1403ھ، ج1،‌ ص107.
  83. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، کلمات قصار 252، ص512.
  84. راغب اصفہانی، مفردات، 1412ھ، ص491.
  85. باقریان، «بررسی چگونگی نماز در ادیان الہی»، ص219.
  86. ملاحظہ کریں؛: فاطمہ، «نگاہی بہ اشکال مختلف نماز در برخی ادیان الہی».
  87. ملاحظہ کریں؛ «کتابشناسی نماز»، ص57و58.

مآخذ

  • آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، تہران، دانشگاہ تہران.
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1376ہجری شمسی۔
  • ابن‌شعبہ، حسن بن علی، تحف العقول، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1363ہجری شمسی۔
  • ابن‌طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل‏، قم، بوستان کتاب، 1406ھ۔
  • امام خمینی، توضیح المسائل‏، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، تہران‏، چاپ ہفتم، 1387ہجری شمسی۔
  • باقریان، لعیا، «بررسی چگونگی نماز در ادیان الہی»، دو فصلنامہ معارف فقہ علوی،«ویژہ نامہ ہمایش ملی نماز، تعالی فردی و اجتماعی»، سال چہارم اردیبہشت 1397ہجری شمسی۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سید محمدحسین، رسالہ توضیح المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1424ھ۔
  • پایندہ، ابوالقاسم، نہج الفصاحہ (مجموعہ کلمات قصار حضرت رسول(ص))، دارالعلم، 1387ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، 1409ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق و تصحیح صفوان عدنان داوودی، بیروت‌ـ‌دمشق، دار القلم - الدار الشامیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • سازمان پژوہش و برنامہ‌ریزی آموزشی وزارت آموزش و پرورش، ہدیہ‌ہای آسمان (تعلیم و تربیت اسلامی) دوم دبستان، تہران، شرکت افست، چاپ یازدہم، 1401ہجری شمسی۔
  • «سبک شمردن نماز»، خبرگزاری حوزہ، مشاہدہ: 19 خرداد 1402ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، خصال صدوق، جامعہ مدرسین، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، نشر صدوق، 1367ہجری شمسی۔
  • صحتی سردرودی، محمد، «کتاب‌شناسی گزینشی و توصیفی نماز»، پاسدار اسلام، ش189، شہریور 1376ہجری شمسی۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی(محشی)، تحقیق و تصحیح احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1419ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تحقیق محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
  • طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • فاطمہ، نصرت، «نگاہی بہ اشکال مختلف نماز در برخی ادیان الہی».
  • قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، شہاب الاخبار، قم، دارالحدیث، 1388ہجری شمسی۔
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، قم،اسوہ، بی‌تا.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • «کتابشناسی نماز؛ معرفی و نقد»، گلستان قرآن، شمارہ 79، شہريور 1380ہجری شمسی۔
  • متقی ہندی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال، دائرۃ المعارف العثمانیۃ، بعاصمۃ حیدرآباد، 1364ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ‏، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، الصلاۃ فی الکتاب و السنۃ، ترجمہ عبدالہادی مسعودی، قم، دار الحدیث، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، شناخت‌نامہ نماز، مؤسسہ علمی و فرہنگی دارالحدیث، 1392ہجری شمسی۔
  • مدرسی، سید محمدتقی، احکام مقدمات نماز، قم، انتشارات محبان الحسین(ع)، چاپ چہارم، 1387ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، «فلسفہ عبادت»، در فصلنامہ تماشاگہ راز، شمارہ 2، تابستان 1391ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، الفقہ علی المذاہب الخمسہ، بیروت، دار التیار الجدید‌ـ‌دار الجواد، چاپ دہم، 1421ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونہ‌، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ سی و دوم، 1374ہجری شمسی۔
  • ملک‌پور افشار، ابراہیم، آموزش نماز و وضو، انتشارات پورافشار، قم، چاپ نوزدہم، 1396ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق و تصحیح عباس قواچانی و علی آخوندی، بیروت، دار اِحیاءالتراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • نوروزی، محمدمسعود، مقدمہ‌ای بر فلسفہ نماز، انتشارات بین‌المللی یادآوران.
  • نوری، میرزاحسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1408ھ۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
  • وزیری‌فرد، محمدجواد، «بررسی انکار ضروری دین و آثار آن در فقہ»، در دو فصلنامہ علامہ، شمارہ 39، بہار و تابستان 1391ہجری شمسی۔