صراط

ویکی شیعہ سے
(پل صراط سے رجوع مکرر)

صراط جہنم کے اوپر ایک پل ہے اور قیامت کے دن سب انسان اس پل سے عبور کریں گے۔ بعض احادیث کے بقول صراط کے اوپر مواقف لگے ہوں گے جہاں انسان کے اعتقادات اور اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا اور پل صراط سے عبور انسان کے دنیا میں کئے گئے اعمال کے تحت ہوگا، بعض افراد بہت تیزی سے اس سے گزر جائیں گے اور بعض ہزاروں سال اس پر گرفتار رہیں گے اور بعض اس کے اوپر سے جہنم میں گر جائیں گے۔ اہل تشیع کے اعتقادات کے مطابق پل صراط پر اہم سوال جو کیا جائے گا وہ آئمہ معصومین(ع) کی ولایت کا ہو گا۔

واژہ شناسی

قرآن کریم میں تین کلمات صراط طریق اور سبیل کے معنی ایک دوسرے کے نزدیک ہیں اور عام طور پر تینوں کا ترجمہ راہ کیا جاتا ہے۔ راغب اصفہانی ان تین الفاظ کا فرق اس طرح بیان کرتا ہے: صراط کا معنی شاہراہ، یعنی اصلی اور روشن راہ ہے، [1] سبیل کا معنی آسان اور ہموار راہ ہے، اور طریق وہ راہ ہے جس سے صرف پیدل چلنے والا ہی گزر سکتا ہے۔[2]

صراط کی حقیقت

علامہ تہرانی کتاب معاد شناسی میں لکھتے ہیں: صراط یعنی راہ یا چیز کہ اس سے گزر کر ایک چیز سے دوسری چیز تک پہنچا جا سکتا ہے، اور دو چیزوں کے درمیان رابطہ اور واسطہ ہے۔ خداوند نے انسانیت کے مقام کو وصول کے لئے، کمال کے محقق ہونے، اور خدا کے تقرب کے لئے راستہ معین کیا ہے۔ صراط اللہ، یعنی خدا کی طرف راہ، اور کیونکہ خداوند کا کوئی خارجی مکان نہیں ہے اس لئے اس سے مراد انسان کے نفس کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ ہر انسان کے نفس میں خدا کی طرف جانے کا ایک سبیلی راہ موجود ہے۔ وہ باطنی اور سبیلی راہ قیامت کے دن جنت کی طرف جانے والے پل کی صورت میں مجسم ہو جائے گا۔ آئمہ معصومین (ع) نے خداوند تک پہنچنے کے لئے سب سے نزدیک اور تیزی سے جانے والا راستہ انتخاب کیا ہے اس لئے انکو صراط مستقیم کہا گیا ہے، ایسا راہ جو تلوار سے زیادہ تیز ہے اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ [3]

صراط قرآن میں

لفظ صراط قرآن میں ٤٥ بار مختلف آیات میں ذکر ہوا ہے اور ہر جگہ مفرد کی صورت میں آیا ہے، ٣٢ آیات میں مستقیم کی صفت سے توصیف ہوا ہے۔[4] آئمہ معصومین(ع) کی روایات کے مطابق صراط شیعہ کے اہم عقائد سے ہے۔[5]

جہاں تک کہ جہان آخرت اس دنیا میں کئے گئے اعمال کا نتیجہ ہے، اس لئے اس جہان میں کئے گئے اعمال اور رفتار جو انسان اس دنیا میں انتخاب کرتا ہے اس کا آخرت سے گہرا رابطہ ہے. حقیقت میں یوں کہا جائے گا کہ صراط اور سخت راہ جو آخرت میں ہے، وہ انسان کے اس دنیا میں کئے گئے اعمال کا نتیجہ ہے۔

روایات اور تفسیر کی کتابوں میں سب سے زیادہ صراط کے بارے میں جو بحث کی گئی ہے، وہ سورہ حمد کی آیت ٦ ہے: "اھدنا الصراط المستقیم" پرودگارا! ہمیں سیدھے راستے اور صراط مستقیم پر قرار دے۔

صراط مستقیم

علامہ تہرانی نے معروف جملے "الطرق الی اللہ بعدد انفاس الخلآئق" خدا کی طرف جانے کے جو راستے موجود ہیں ان کی تعداد پوری مخلوق کے نفس اور جان کے برابر ہے۔) کے بعد لکھا ہے ہر موجود میں نفسیاتی اور باطنی طور پر خدا سے ایک رابطہ موجود ہے لیکن صراط مستقیم خدا کا قرب حاصل کرنے کا ایک بہترین مسیر اور راہ ہے اور جو مختلف طریقے راہ مستقیم کے نزدیک ہیں وہ افراد کو خدا تک پہنچانے کی توانائی رکھتے ہیں۔[6]

قرآن کی آیات اور روایات میں، صراط مستقیم کے لئے کچھ اصول بیان ہوئے ہیں: [7]

  • خدا کی معرفت حاصل کرنے کا راہ [8]
  • امیرالمومنین(ع)
  • آئمہ معصومین(ع)
  • خدا کا دین [10]
  • حق تعالیٰ کی عبادت [11]

جہاں تک کہ صراط مستقیم صرف ایک ہے، امام خمینی اس کی تفسیر اور ان اصولوں کو جمع کرتے ہوئے اور ان تمام حقائق کے ایک ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ صراط انسانی صورت، جو کہ وہی انسانی صفات ہیں اور امام اور ہدایت اور شریعت، اور وہ پل جو دوزخ کے اوپر ہے سب کے لئے صحیح ہ، کیونکہ یہ سب راہ جو بیان ہوئے ہیں جنت اور عالم نور اور خدا کا تقرب حاصل کرنے کے راستے اور وسیلے ہیں۔ [13]

صراط کی خصوصیات

اہل بیت(ع) کے ذریعے بیان کی گئی بہت سی روایات کے مطابق صراط جہنم کے اوپر ایک پل ہے جو بالوں سے زیادہ باریک اور تلوار کے سرے سے زیادہ تیز ہے، [14] جہنم لوگوں اور جنت کے درمیان ہے اور ہر ایک کو اس پل سے جو کہ جہنم کے اوپر ہے اس سے گزرنا ہو گا. بعض بجلی کی تیزی کی طرح اس کے اوپر سے گزر جائیں گے، بعض گھوڑے کے بھاگنے کی رفتار سے گزریں گے، بعض سینے کے بل چلتے ہوئے اور بعض اس کے اوپر سے اس طریقے سے لٹکتے ہوئے گزریں گے کہ ان کے بدن کا بعض حصہ آگ میں ہو گا۔

صراط کے بال سے زیادہ باریک ہونے کے بارے میں بعض عالموں نے یوں توضیح دی ہے: صراط، بالوں سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے جیسے امیرالمومنین(ع) کی سیرت تھی کیونکہ آپ(ع) کی زندگی بہت ہی دقیق اور بعض تعبیر کے مطابق بالوں سے زیادہ باریک تھی... اور آپ(ع) کی عدالت آپکے پیروکاروں کے لئے ایک نمونہ رہے گی. روایات میں صراط مستقیم کا ایک معنی، حضرت علی(ع) کو کہا گیا ہے کہ انسان اپنے اعمال اور اخلاق کو آپ(ع) کی طرح بنانے کی کوشش کرے۔[15] یہ معلوم نہیں ہے کہ صراط جہنم کے اندر سے ہو گا یا اس کے اوپر بنا ہوا پل ہو گا۔[16]

صراط کے مواقف

صراط کی ایک سختی، وہ مواقف ہوں گے جہاں پر روک کرانسان سے سوال کئے جائیں گے۔ شیخ صدوق کہتے ہیں کہ صراط پر موجود مواقف پر انسان سے ان واجبات اور حرام کے بارے میں سوال ہو گا جن کی وہ دنیا میں رعایت کرتا، ہر حرام اور واجب کے نام پر ایک موقف ہو گا، اگر اس کام میں کوتاہی کی ہو گی تو اس موقف پر ہزار سال کھڑا رہے گا اور اس کے بارے میں سوال جواب ہوں گے اور اگر دنیا میں اس کو صحیح انجام دیا ہو گا اور مراعات کی ہو گی تو جلدی سے دوسرے موقف پر پہنچ جائے گا اور آخر میں بہشت تک پہنچ جائے گا۔ صراط کے اہم ترین مواقف درج ذیل ہیں: [17]

  • مظلوم کی حمایت
  • نماز اور اس کی بجا لانے کی کیفیت
  • دولت کمانے اور اس کے خرچ کرنے کے بارے میں سوال

صراط پر استقامت کے عناصر

قرآنی آیات اور احادیث کے مطابق، وہ عناصر جو صراط پر انسان کی استقامت کا باعث بنیں کے وہ درج ذیل ہیں: [18]

  • خدا کی رحمت کا امیدوار ہونا
  • پانچ نمازوں کا پابند ہونا
  • مومنین کی مدد کرنا
  • مومن بھائی کو قرض دینا
  • مومن کا غم دور کرنا
  • مریض کی دیکھ بھال کرنا

سب سے پہلے صراط سے کون گزرے گا

روایات کے مطابق، پیغمبر اکرم (ص) امام علی(ع) کے ہمراہ وہ پہلے افراد ہوں گے جو صراط سے عبور کریں گے۔[19]

حوالہ جات

  1. مفردات غریب القرآن، ص۲۳۰، مادّة (س ر ط). و نیز رجوع کریں: ابن منظور، لسان العرب، ج۷، ص۱۳؛ طباطبائی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ج۱، ص۳۱، حکیم، سید محمد باقر، تفسیر سورة حمد، ص۲۱۹.
  2. مفردات غریب القرآن، ص۳۱۲، واژة طرق
  3. معاد شناسی، ج۸، ص۴۶
  4. یات: فاتحہ: ۷، ۶/بقره: ۲۱۳،۱۴۲/آل عمران: ۱۰۱، ۵۱/مائده:۱۶/ نساء: ۶۸، ۱۷۵/ انعام: ۳۹، ۱۶۱، ۱۵۳، ۱۲۶، ۸۷/ اعراف: ۸۶/۱۶/ یونس: ۲۵/ ہود: ۵۶/ ابراہیم: ۱/حجر: ۴۱/ نحل: ۱۲۱، ۷۶/ مریم: ۴۳، ۳۶/ طہ: ۱۳۵/ حج: ۵۴،۲۴/ مؤمنون: ۷۴، ۷۳/ نور: ۴۶/ سبأ: ۶/یس: ۶۶، ۶۱،۴/ صافات: ۱۱۸، ۲۳/ ص:۲۲/ شوری: ۵۳،۵۲/ زخرف: ۶۴،۶۱،۴۱/ فتح: ۲۰/۲/ ملک: ۲۲.
  5. مانند زیارت آل یس و روایات: صفات الشیعہ، ص۵۱؛ و نیز: بحار، ج۶۶، ص۹، ح۱۱.
  6. معادشناسی،ج۸، ص۱۷
  7. زکی زاده رنانی، پل صراط، ص۲۰
  8. معانی الأخبار، ص۳۲، باب معنی صراط).
  9. "بسم الله الرحمن الرحیم یس و القرآن الحکیم إنک لمن المرسلین علی صراط مستقیم". (یس: ۱-۴).
  10. "قل إننی هدانی ربی إلی صراط مستقیم دیناً قیما ملة ابراهیم حنیفاً". (انعام: ۱۶۱). یہ آیت زیادہ تر عقیدتی زاویہ کو مشخص کرتی ہے۔
  11. "و ان اعبدونی هذا صراط مستقیم". (یس:۶۲). که در یہ آیت عملی زاویے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
  12. "و من یعتصم بالله فقد هدی إلی صراط مستقیم . (آل عمران: ۱۰۱).
  13. اسرار الصلوة، ص۳۹۶
  14. الکافی، ج۸، ص۳۱۲، ح۴۸۶
  15. امام خمینی، چالیس حدیث، ص۴۸
  16. معادشناسی، ج۸، ص۲۸
  17. زکی زاده رنانی، پل صراط، ص۵۳
  18. زکی زاده رنانی، پل صراط، ص۷۸
  19. عیون أخبار الرضا (علیہ السَّلام)، ج۲، ص۲۷۲، ح۶۳.

مآخذ

  • قرآن کریم
  • قرآن کریم
  • زکی زاده رنانی، علیرضا، پل صراط، انتشارات دیوان، قم، ۱۳۸۶ش
  • امام خمینی، آداب الصلوة، مؤسسة نشر و تنظیم آثار امام خمینی، چاپ هفتم ۱۳۷۸ ش.
  • شیخ صدوق، الامالی، یک جلد، انتشارات کتابخانه اسلامیه، ۱۳۶۲ ش.
  • سبحانی، جعفر، اندیشه های جاوید، مؤسسه امام صادق(ع)، [بیتا].
  • سیدعلی بن موسی بن طاوس، إقبال الاعمال، یک جلد، دارالکتب الإسلامیة تهران، ۱۳۶۷ ش.
  • علامه مجلسی، بحارالانوار، ۱۱۰ جلد، مؤسسة الوفاء بیروت لبنان، ۱۴۰۴ ق.
  • عمادالدین طبری، بشارة المصطفی، یک جلد، چاپ کتابخانه حیدریه نجف، ۱۳۸۳ ق.
  • محمدبن حسن بن فروخ صفار، بصائر الدرجات، یک جلد، انتشارات کتابخانه آیت‌الله مرعشی قم، ۱۴۰۴ ق.
  • ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، دراسة و تحقیق علی شیری، دارالفکر بیروت لبنان ۱۴۱۵ ق.
  • شیخ صدوق، التوحید، صححه و علق علیه: السیدهاشم الحسینی الطهرانی، منشورات جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة بقم المقدسة.
  • ، ثواب الاعمال، یک جلد، انتشارات شریف رضی قم، ۱۳۶۴ ش.
  • الخصال، دو جلد در یک مجلد، انتشارات جامعه مدرسین قم، ۱۴۰۳ ق.
  • سلیمی، «صراط»، در دانشنامه فرهنگ مردم ایران، ج۲، تهران، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، بی‌تا.
  • سیدعلی بن موسی بن طاوس، جمال الاسبوع، یک جلد، انتشارات رضی قم.
  • امام خمینی (قدس سره)، جهاد اکبر، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ نهم، ۱۳۷۸ ش.
  • چهل حدیث، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ بیستم، ۱۳۷۸ ش.
  • محمدبن جریر طبری، دلائل الامامة، یک جلد، دارالذخائر للمطبوعات، قم.
  • احمدبن عبدالله طبری، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، نشر مکتبة القدسی مصر، ۱۳۵۶ ق.
  • علامه حلّی، الرسالة السعدیة، تحقیق عبدالحسین محمد علی بقال، نشر کتابخانه عمومی حضرت آیت‌الله مرعشی نجفی (رَحمَة‌ُالله) قم، الطبعة الاولی ۱۴۱۰ ق.
  • شیخ صدوق، صفات الشیعة، یک جلد، انتشارات اعلمی تهران.
  • ابن ابی جمهور احسائی، عوالی اللئالی، ۴ جلد، انتشارات سیدالشهداء(ع) قم، ۱۴۰۵.
  • شیخ صدوق، علل الشرایع، یک جلد، انتشارات مکتبة الداوری قم.
  • عیون أخبار الرضا (علیهِ‌السَّلام)، ۲ جلد در یک مجلد، انتشارات جهان، ۱۳۷۸ ق.
  • شیخ صدوق، فضائل الاشهر الثلاثة، تحقیق میرزا غلامرضا عرفانیان، نشر‌دار الحجة البیضاء‌دار الرسول الاکرام (صَلَی اللهُ عَلیه وَآله وسَلم)، الطبعة الثانیة ۱۴۱۲ ق.
  • سیدعلی اکبر قرشی، قاموس قرآن، هفت جلد در سه مجلد، انتشارات دارالکتب السلامیه، چاپ ششم ۱۳۷۱ ش.
  • ثقة الاسلام کلینی، الکافی، ۸ جلد، دارالکتب الإسلامیة تهران، ۱۳۶۵ ش.
  • جعفربن محمدبن قولویه، کامل الزیارات، ۱ مجلد، تحقیق شیخ جواد القیومی، مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة الاولی ۱۴۱۷ ق.
  • علامه حلی حسن بن یوسف، کشف الیقین، یک جلد، مؤسسه چاپ و انتشارات وابسته به وزارت فرهنگ و ارشاد، ۱۴۱۱ ق.
  • علی المتقی بن حسام الدین الهندی، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، مؤسسة الرسالة بیروت ۱۴۰۹ ق.
  • ابن منظور، لسان العرب، ۱۵ مجلد، نشر أدب الحوزة، الطبعة الأولی ۱۴۰۵ ق.
  • محمدبن أحمدبن الحسن بن شاذان القمی، مائة منقبة فی فضائل و مناقب أمیرالمؤمنین و الائمة من ولده (عَلیهِم‌السَّلام)، مدرسة الامام المهدی (علیهِ‌السَّلام) الطبعة الاولی ذی الحجة، ۱۴۰۷ ق.
  • صدر الدین شیرازی، محمد بن ابراهیم، تفسیر القرآن الکریم، نشر بیدار، قم، چاپ دوم، ۱۳۶۶ش.
  • حسن بن سلیمان الحلی، مختصر بصائر الدرجات، منشورات المطبعة الحیدریة فی النجف الطبعة الاولی ۱۳۷۰ ق.
  • احمدبن محمدبن خالد برقی، المحاسن، یک جلد، دارالکتب الإسلامیة قم، ۱۳۷۱ ق.
  • احمدبن حنبل، مسند احمد، انتشارات دارالمعارف مصر، ۱۹۸۰ م.
  • شیخ صدوق، معانی الاخبار، یک جلد، انتشارات جامعه مدرسین قم، ۱۳۶۱ ش.
  • ، من لا یحضره الفقیه، ۴ جلد، انتشارات جامعه مدرسین قم، ۱۴۱۳ ق.
  • محمدفؤاد عبدالباقی، المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، مؤسسه اعلمی للمطبوعات بیروت، طبع اول ۱۴۲۰ ق.
  • سلیمان بن أحمد الطبرانی، المعجم الکبیر، تحقیق: حمدی عبد المجید السلفی، نشر مکتبة ابن تیمیة القاهرة، ۲۵ مجلد، الطبعة الثانیة.
  • سلیمان بن أحمد الطبرانی، المعجم الاوسط، ۹ مجلد، تحیق ابراهیم الحسینی، نشر دارالحرمین.
  • علی بن أبی بکر الهیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، مکتبة القدسی بالقاهرة-دارالکتب العلمیة بیروت لبنان.
  • شیخ فخرالدین طریحی، مجمع البحرین، شش مجلد.
  • شیخ عباس قمی (رَحمَة‌ُالله)، منازل الاخرة، انتشارات انصاری، چاپ دوم، زمستان ۱۳۷۷ ش.
  • ابن الأثیر، النهایة فی غریب الحدیث، ۵ مجلد، مؤسسه اسماعیلیان قم، الطبعة الرابعة ۱۳۶۴ ش.