سپاہ صحابہ
عمومی معلومات | |
---|---|
بانی | حقنواز جہنگوی |
مبداء | 1985ء |
عقیدہ | اہل سنت |
وسعت مکانی | پاکستان، افغانستان |
اہم شہریں | جہنگ، لاہور، کراچی، ڈیرہ اسماعیل خان |
اہم واقعات | دہشت گرد حملے/شیعوں کے خلاف سیاسی سرگرمیاں |
دیگر اسامی | حزب ملت اسلامیہ، اہل سنت والجماعۃ |
مذہبی معلومات | |
از فرق | حزب جمعیت العلماء اسلام |
عقائد | تکفیر، اسلامی خلافت کا احیاء |
موجودہ رہبر/امام | محمداحمد لدہیانوی |
رہبران/ائمہ | حقنواز جہنگوی، ایثارالحق قاسمی، اعظم طارق |
فرقے | لشکر جہنگوی |
حالت | دہشت گرد گروہ |
سپاہ صحابہ، پاکستان میں سب سے بڑا تکفیری اور شیعہ مخالف گروہ ہے جو 1985ء کو صوبہ پنجاب میں کچھ انتہا پسند وہابی مولویوں کے توسط سے حق نواز جھنگوی کی قیادت میں قائم ہوا۔ سپاہ صحابہ اور اس کی عسکری شاخ لشکر جھنگوی نے شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہوئے پچھلے تقریباً چار دہائیوں سے پاکستان اور افغانستان میں فرقہ وارانہ اور شیعہ مخالف پرتشدد کاروائیوں میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ سپاہ صحابہ کے اقدامات کی وجہ سے پاکستانی حکومت نے بار بار اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی ہے اور اس کے پانچ رہنما فرقہ وارانہ کاروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
سپاہ صحابہ کی شیعہ دشمنی کی جڑیں پنجاب کے علاقے جہنگ میں شیعوں کی سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں کی روک تھام، بعض صحابہ کے بارے میں شیعوں کے تنقیدی نقطہ نظر اور پاکستان میں ایرانی اسلامی انقلاب اور شیعہ مذہب کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں میں مضمر ہیں۔
سپاہ صحابہ جنرل ضیاءالحق کی حمایت سے قائم ہوئی اور اس وقت سے اب تک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور طالبان جیسے ممالک اور گروہوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ سپاہ صحابہ مختلف تکفیری اور دہشت گرد گروہوں جیسے جیش محمد، لشکر طیبیہ، حرکت المجاہدین، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور داعش کے خراسانی دھڑے کے ساتھ بھی روابط رکھتی ہے۔
اہمیت اور پس پردہ حقائق
سپاہ صحابہ پاکستان کا پہلا اور سب سے بڑا تکفیری اور شیعہ مخالف گروہ ہے، جس نے بار بار شیعوں کو غیر مسلم اور واجب القتل قرار دیا ہے۔[1] حالانکہ بعض محققین جیسے حسن عباس کے مطابق پاکستان میں ایران کے بعد سب سے بڑی شیعہ کمیونٹی آباد ہیں۔[2] سپاہ صحابہ عموما پاکستان کی وفاقی حکومت اور فوج کے ساتھ پیچیدہ اور چہ بسا ہمسو روابط رکھتی ہے[3] اور یہ گروہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے عرب خلیجی ممالک سے مالی تعاون حاصل کرتا ہے اور پاکستان میں مذہبی نیابتی فسادات میں پیش پیش رہتا ہے۔[4]
پاکستان اور عالمی تحقیقاتی ذرائع کے مطابق سپاہ صحابہ پر 1985 سے 2023ء کے درمیان پاکستان میں شیعہ رہنماؤں، علماء، عزاداروں، ڈاکٹروں، ایرانی سفیروں اور شیعہ زیارت گاہوں پر حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ اس دوران اس گروہ کے متعدد ارکان کو پاکستانی سکیورٹی اداروں کی جانب سے متعدد بار گرفتار اور بعض اوقات سزا بھی دیتے آئے ہیں۔[5]
لشکر جھنگوی جو کہ سپاہ صحابہ کا عسکری دھڑا ہے، حالیہ برسوں میں فرقہ وارانہ کاروائیوں میں سب سے بڑا کردار ادا کر رہا ہے اور اس کی سرگرمیاں پنجاب سے نکل کر خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور اور بلوچستان کے شہر کوئٹہ تک پھیل چکی ہیں۔[6] انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور افغانستان میں اس گروہ کے حملے ہزارہ کمیونٹی پر مرکوز ہیں۔[7] افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراسان کے بڑھتے ہوئے اثرات کے بعد لشکر جھنگوی کے سابق جنگجووں کے اس گروہ میں شامل ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔[8]
تاریخی تحولات
"سپاہ صحابہ" ستمبر 1985ء کو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے عروج اور پاکستان اور مغربی ممالک کی مکمل حمایت سے افغانستان میں جہادی گروہوں کی سرگرمیوں کے دوران حق نواز جھنگوی نے ضیاءالرحمن فاروقی، ایثار الحق قاسمی اور اعظم طارق جیسے انتہاپسند شیعہ مخالف وہابی علماء کے ساتھ مل کر قائم کیا[9]۔ یہ گروہ جو "حزب جمعیت العلماء اسلام" کا نیم خود مختار دھڑا تھا، سنہ 1989 میں "سپاہ صحابہ پاکستان" کے نام سے پہچانے جانے لگا۔[10] حق نواز جھنگوی جو سپاہ صحابہ کا ایک اہم دیوبندی رہنما تھا اور شیعہ مخالف تقاریر کے لیے مشہور تھا، فروری 1990ء میں قتل ہو گیا۔[11]
سپاہ صحابہ 1993 سے 1996 تک "پاکستان پیپلز پارٹی" کی حکومتی اتحاد میں شامل تھی جس دوران اس کے اراکین پنجاب کی صوبائی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔[12] سنہ 1996ء میں سپاہ صحابہ "قومی یکجہتی کونسل" کا حصہ بن گئی جس کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنا تھا۔[13] سنہ 2001ء کے اوائل میں سپاہ صحابہ اور ان کے شیعہ رقیب گروہوں تحریک جعفریہ پاکستان اور سپاہ محمد پاکستان نے آپس میں کشیدگی کو کم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کی رضامندی کا اظہار کیا۔[14] تاہم، پرتشدد کاروائیوں کے جاری رہنے کی بنا پر یہ مصالحتی کوششیں ناکام ہو گئیں۔[15]
امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد اکتوبر 2001ء میں پاکستان کی حکومت کو سنی انتہاپسند گروپوں پر دباؤ ڈالنا پڑا، جن میں سپاہ صحابہ بھی شامل تھی۔ اعظم طارق، کو جو اس وقت سپاہ صحابہ کا رہنما تھا اور طالبان کے دور حکومت (1996-2001) کے دوران افغانستان کے متعدد دورے کر چکا تھا، فروری 2001 میں پاکستانی حکومت نے گرفتار کر لیا۔ جنوری 2002ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سپاہ صحابہ پر پابندی عائد کر دی۔[16] تاہم، سپاہ صحابہ نے "تحریک ملت اسلامیہ" کے نام سے اپنے کام کا آغاز کیا،[17] لیکن جب 2003ء میں اس پر بھی پابندی لگا دی گئی تو سپاہ صحابہ نے اپنا نام تبدیل کر کے "اہل سنت و الجماعت" رکھ لیا۔[18] امریکہ نے اپریل 2005ء میں سپاہ صحابہ کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔[19] پاکستانی حکومت نے 2012ء میں اہل سنت و الجماعت پر بھی پابندی لگا دی۔[20]
سپاہ صحابہ کے رہنماؤں میں ایثار الحق قاسمی اور اعظم طارق پاکستان کی قومی اسمبلی کی ممبرشپ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔[21] اعظم طارق پر سپاہ صحابہ کی قیادت کے دوران شیعہ رہنماؤں کے قتل اور شیعوں کے خلاف حملوں کے 103 الزامات لگائے گئے تھے۔ وہ پارلیمنٹ میں اپنی رکنیت کے دوران صحابہ کے دفاع کے نام پر"ناموس صحابہ" بل پیش کرنے والوں میں سے تھا۔[22] محمد احمد لدھیانوی، جو 2009ء سے اہل سنت والجماعت کے نام سے سپاہ صحابہ کے سربراہ ہیں اور اس دوران ان کے پاکستان کی مرکزی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہے۔[23] لدھیانوی اور ان کے بعض دیگر مذہبی رہنماؤں نے سنہ 2017ء کو پاکستانی حکومت کے خلاف کسی بھی کارروائی کے غیر اسلامی ہونے کا فتویٰ دیا۔ علاوہ ازیں، لدھیانوی اور "تحریک المجاہدین" کے رہنما فضل الرحمن خلیل سنہ 2018ء کو پاکستان آرمی کے ایک بلند پایہ آفیسر کے ساتھ شمالی وزیرستان کا دورہ کیا اور وہاں کے عوام کو تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت سے روکنے کی کوشش کی۔[24]
مأموریت و اہداف
سپاہ صحابہ کا مقصد پاکستان کو ایک سنی مسلم ریاست بنانا ہے، جہاں شیعیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جائے۔ سنہ 1998ء میں سپاہ صحابہ کے رہنما ضیاء القاسمی نے کہا تھا: "حکومت نے شیعیوں کو بہت زیادہ اہمیت دی ہوئی ہے۔"[25] جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے تحقیقی ادارے کے مطابق سپاہ صحابہ کی بنیادی مہم شیعیوں کو پاکستان سے نکالنا اور ان کی موجودگی کو ختم کرنا ہے۔[26] اس گروہ کے شدت پسند عناصر شیعیوں کے لیے تین راستے تجویز کرتے ہیں:
«سپاہ صحابہ کے ایک کمانڈر کی طرف سے سنہ 2011 میں شیعیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا: "تمام شیعہ موت کے مستحق ہیں۔ ہم پاکستان کو ناپاک لوگوں سے پاک کر دیں گے۔ پاکستان پاک لوگوں کی سرزمین ہے اور شیعیوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔ ہم پاکستان کو شیعیوں کا قبرستان بنائیں گے۔ ان کے گھروں کو بمبوں اور خودکش حملہ آوروں کے ذریعے تباہ کر دیا جائے گا۔"The New Yorker, The Shiite Murders: Pakistan’s Army of Jhangvi, March 9,2013
سپاہ صحابہ کا ایک اور مقصد اسلامی نظام خلافت کا احیاء اور سنی شریعت کا تحفظ ہے۔[28] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ پاکستان کشمیر میں بھارت اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف نیز ملک میں اپنی پالیسیوں کے حق میں فتویٰ جاری کرنے کے لیئے ایسے گروہوں کو استعمال کرتا ہے۔[29]
شیعہ مخالف جذبات کا پس منظر اور عوامل
متصادم معاشی مفادات، بعض صحابہ کی بنسبت شیعوں کا تنقیدی نقطہ نظر اور پاکستانی شیعوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ کے بارے میں خدشات سپاہ صحابہ کی شیعہ مخالف جذبات کی بنیادی وجوہات اور عوامل ہیں۔
اقتصادی عوامل
سپاہ صحابہ کی شیعہ دشمنی کے پس منظر میں اقتصادی، مذہبی، سیاسی، اور نیابتی عوامل شامل ہیں۔ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ اس گروہ کی دشمنی پنجاب کے علاقے "جہنگ" کی جغرافیائی اور سماجی و سیاسی ساخت سے جڑی ہوئی ہے۔[30] جہنگ میں شیعہ زمینداروں کی اکثریت تھی، جو پنجاب کے جنوبی اور وسطی حصے میں مقامی سیاست اور اقتصاد پر میں غالب تھے۔[31] اس علاقے میں شیعہ زمینداروں اور اہل سنت تاجروں اور صنعت کاروں کے درمیان اقتصادی کشمکش نے ایک فرقہ وارانہ تصادم کو جنم دیا، جس میں سپاہ صحابہ نے اہم کردار ادا کیا۔[32]
اعتقادی عوامل
اگرچہ سپاہ صحابہ کے تمام رہنما پاکستان کے دیوبندی مدارس کے فارغ التحصیل ہیں اور دیوبندی مکتبہ فکر میں تکفیر کے حوالے سے زیادہ سخت موقف نہیں ہے۔[33] دیوبندی مکتبہ فکر کے بزرگ علماء جیسے خلیل احمد سہارنپوری[34]، حسین احمد مدنی[35]اور محمد انور شاہ کشمیری وغیرہ تکفیر کے معاملے میں احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کی تصریح کرتے تھے کہ شیعہ کافر نہیں ہیں۔[36] تاہم، سپاہ صحابہ نے شیعیوں کے خلاف تین اہم دعوے کرتے ہوئے ان کے بعض عقائد اور بعض کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی تکفیر کرتے تھے:
- شیعہ صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں: سپاہ صحابہ کا دعویٰ ہے کہ شیعہ اکثر صحابہ کرام کو علی ابن ابی طالبؑ کی ولایت کا انکار کرنے کی وجہ سے مرتد سمجھتے ہیں۔
- امامت اور ختم نبوت کا تضاد: سپاہ صحابہ کا کہنا ہے کہ شیعہ عقیدہ امامت جو امام علیؑ کی ولایت اور عصمت پر مبنی ہے، ختم نبوت کو تسلیم کرنے کے خلاف ہے۔
- قرآن کی تحریف: سپاہ صحابہ کا دعویٰ ہے کہ شیعہ نہ صرف قرآن کی معنوی بلکہ ظاہری تحریف کے بھی قائل ہیں۔ سپاہ صحابہ کے رہنما فاروقی اس ادعا کو شیعوں کی مختلف کتابوں جیسے اصول کافی، احتجاج طبرسی اور محدث نوری کی کتاب فصل الخطاب سے مستند قرار دیتا ہے۔[37]
جمہوری اسلامی ایران کے اثر و رسوخ کو روکنا
سپاہ صحابہ کی شیعہ دشمنی ایک حد تک پاکستان میں شیعہ کمیونٹی میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف ردعمل کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔[38] عرب خلیجی ریاستوں کے سنی اکثریتی ممالک کی طرف سے سپاہ صحابہ کی مالی اور معنوی حمایت اسی تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے۔[39] کیونکہ ان ممالک کو ایران کے شیعہ اثر و رسوخ کی بڑھوتری کا خدشہ تھا۔
نیو یارکر کے مطابق ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سعودی عرب اور دیگر سنی ممالک نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے پاکستان میں سنی مدارس اور گروپوں کو تقویت دی، اور اس کا مقصد ایران کے شیعہ نظریات کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنا تھا۔ ضیاء الحق کی حکومت نے سعودی عرب کے تعاون سے سنی شدت پسندی کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں سپاہ صحابہ جیسے گروہ ابھرے، جو ایران کے اثرات کے خلاف سرگرم رہے۔[40]
شیعیوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں
1980 کی دہائی سے اب تک پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا ہے اور اس میں سب سے زیادہ ملوث گروہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی ہیں۔[41] شیعوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کچھ اس طرح ہیں:
- نیو یارکر کی رپورٹ کے مطابق 1999 سے 2003 کے درمیان شیعہ مسلمانوں کی ہلاکتوں کی تعداد 600 تھی اور 500 شیعہ ڈاکٹر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔[42]
- ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا کہ 2008 سے 2016 کے دوران پاکستان میں 500 شیعہ ہزارہ مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔[43]
- 2012 سے 2015 کے دوران 1900 شیعہ افراد بم دھماکوں اور مسلح حملوں میں ہلاک ہوئے۔[44]
- اگست 1988 میں تحریک جعفریہ پاکستان کے اس وقت کے صدر اور پاکستان کے شیعہ مسلمانوں کے قائد سید عارف حسین حسینی کا پشاور میں قتل۔[45]
- دسمبر 1990 میں لاہور میں ایران کے ثقافتی مشیر صادق گنجی کا قتل۔[46]
- 1994 میں پنجاب میں فرقہ وارانہ تشدد، جس میں 73 افراد ہلاک اور 300 زخمی ہوئے۔[47]
- جنوری 1997 میں 7 شیعہ افراد کا قتل، جن میں ایرانی سفارتکار محمد علی رحیمی بھی شامل تھے۔[48]
- جنوری 1998 میں لاہور میں عزاداروں پر حملہ، جس میں 27 افراد ہلاک اور 34 زخمی ہوئے۔[49]
- فروری 2002 میں راولپنڈی میں شیعہ مسجد پر حملہ، جس میں 11 افراد ہلاک اور 14 زخمی ہوئے۔[50]
- مارچ 2004 میں کوئٹہ میں عاشورہ کے جلوس پر حملہ، جس میں 40 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے۔[51]
- جنوری 2005 میں گلگت میں آغا ضیاء الدین رضوی اور 17 دیگر افراد کا قتل۔[52]
- مارچ 2005 میں بلوچستان کے گنڈہوا میں شیعہ زیارت گاہ پر حملہ، جس میں 50 افراد ہلاک اور 100 زخمی ہوئے۔[53]
- اپریل 2006 میں علامہ حسن ترابی پر ناکام حملہ، جنہیں بعد میں اسی سال جولائی میں کراچی میں قتل کیا گیا۔[54]
- فروری 2010 میں کراچی میں دو بم دھماکوں میں 25 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے۔[55]
- جولائی 2010 میں قبائلی علاقوں میں 16 افراد کا قتل۔[56]
- ستمبر 2010 میں لاہور میں بم دھماکے میں 35 افراد ہلاک اور 160 زخمی ہوئے۔[57]
- ستمبر 2010 میں کوئٹہ میں شیعہ قافلے پر حملہ، جس میں 50 افراد ہلاک ہوئے۔[58]
- فروری 2011 میں کراچی میں 10 افراد کا قتل، جن میں پانچ شیعہ وکیل شامل تھے۔[59]
- نومبر 2011 میں کراچی میں شیعہ کیمپ پر حملہ، جس میں 2 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 11 زخمی ہوئے۔[60]
- دسمبر 2011 میں کراچی میں رضا عسکری کی ٹارگٹ کلنگ۔[61]
- جنوری 2012 میں 32 مختلف حملوں میں 58 شیعہ افراد ہلاک اور 67 زخمی ہوئے۔[62]
- اکتوبر اور نومبر 2012 میں محرم کے دوران 30 شیعہ افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے۔[63]
- جنوری 2011 میں کوئٹہ میں ایک سپورٹس ہال میں بم دھماکہ، جس میں 81 افراد ہلاک ہوئے۔[64]
- فروری 2013 میں لاہور میں سید علی حیدر اور ان کے بیٹے کی ٹارگٹ کلنگ، اور کراچی میں سید عظیم حیدر کاظمی کی ٹارگٹ کلنگ۔[65]
- فروری 2011 میں کوئٹہ کے ایک ہزارہ بازار میں بم دھماکہ، جس میں 84 افراد ہلاک اور 169 زخمی ہوئے۔[66]
- نومبر 2013 میں راولپنڈی میں عاشورا کے دوران حملہ، جس میں 8 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوئے۔[67]
حکومتوں کے ساتھ تعلقات
کہا جاتا ہے کہ سپاہ صحابہ کو پاکستان کے سابق حکمران ضیاء الحق (1977-1988) کے دور حکومت میں اس لیے تشکیل دیا گیا تھا تاکہ اسلام پسندوں کو جمہوریت پسندوں کے خلاف ایک طاقتور گروہ بنایا جا سکے۔[68] اس بات کو ڈپلومیٹ میگزین میں ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان 1980 کی دہائی میں ضیاء الحق کے اسلامی آمریت کے دوران شیعہ اور سنی کے درمیان لڑائی کے میدان میں تبدیل ہو گیا تھا۔[69] فرقہ وارانہ تنازعات کے محقق حسن عباس کا خیال ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستان کے شیعوں اور سنیوں کے درمیان تعلقات اکثر دوستانہ تھے۔[70]
پاکستان کی مرکزی حکومت، آئی ایس آئی (پاکستان کی خفیہ ایجنسی) اور فوج ہمیشہ سپاہ صحابہ جیسے شدت پسند گروپوں کی حمایت کرتی رہی ہیں،[71] اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں (2001-2008) اگرچہ ان جیسی تنظیموں پر پابندیاں عاید کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی ان گروپوں کی حمایت کرتی تھی اور بعض اوقات ان کے خلاف مؤثر کارروائی سے چشم پوشی کی گئی ہے۔
پاکستان کے علاوہ عرب خلیجی ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو سپاہ صحابہ کو مالی امداد فراہم کرنے والی ریاستیں سمجھی جاتی ہیں۔[72]
طالبان حکومت کو 1990ء کی دہائی میں سپاہ صحابہ کے بیرونی ملک مالی امداد اور حمایت کرنے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔[73]رپورٹ کے مطابق 1980ء کی دہائی میں عرب افغان جنگجوؤں کی تربیت کے لیے افغانستان کے شہر خوست میں جو کیمپ قائم کیے گئے تھے، 1990ء کی دہائی میں اسے سپاہ صحابہ کے حوالے کر دیے گئے۔[74]دوسری جانب طالبان افغانستان کے کئی رہنما سپاہ صحابہ کے زیرِ انتظام مدارس میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔[75] جنوری 2003ء کی ایسوسی ایٹڈ پریس رپورٹ میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ سپاہ صحابہ طالبان افغانستان کی حمایت کرتا ہے۔[76] سپاہ صحابہ اور پاکستان کی دیگر کئی شدت پسند تنظیموں نے 20 ستمبر 2001ء کو افغان جہاد کونسل تشکیل دی اور امریکہ کے افغانستان پر حملے کو طالبان کے خلاف کارروائی کے بجائے اسلام کے خلاف جنگ قرار دیا۔[77]
دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات
سپاہ صحابہ کے دیگر دہشت گرد اور شدت پسند گروہوں جیسے جیش محمد، لشکر طیبہ، حرکت المجاہدین، ازبکستان اسلامی تحریک اور القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔[78] رپورٹ کے مطابق جیش محمد کو سپاہ صحابہ کی جانب سے حمایت یافتہ جہادی تنظیم کہا جاتا ہے۔[79] انسٹی ٹیوٹ آف کانفلیکٹ مینجمنٹ کے مطابق رمزی احمد یوسف جو 1993ء میں نیویارک ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا، سپاہ صحابہ سے منسلک تھا۔[80] لشکر طیبہ کو سپاہ صحابہ کا عسکری ونگ کہا جاتا ہے اور یہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور القاعدہ کے ساتھ وابستہ ہے۔[81] کچھ رپورٹس میں اس کے داعش خراسان شاخ کے ساتھ جڑنے کا بھی ذکر ہے۔[82]
سماجی بنیاد اور بھرتی کے مراکز
صوبہ پنجاب خاص طور پر جھنگ کا علاقہ سپاہ صحابہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ، قبائلی علاقہ جات (جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں) اور پاکستان کے دیگر مقامات پر بھی اس تنظیم کی سرگرمیاں موجود ہیں۔[83] پنجاب کے شہر سرگودھا، بہاولپور، جھنگ، ملتان اور مظفر گڑھ کو سپاہ صحابہ کے مرکزی مراکز سمجھے جاتے ہیں۔[84]
پاکستان میں فعال دیوبندی اور وہابی مدارس، خصوصاً پنجاب میں موجود دیوبندی مدارس، سپاہ صحابہ کے شدت پسندوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔[85] پاکستان میں دیوبندی اور وہابی مدارس کی تعداد میں گزشتہ دہائیوں کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے مطابق 2007ء میں پاکستان میں 13 ہزار مدارس تھے، جبکہ 2010ء تک یہ تعداد بڑھ کر 17 ہزار ہو گئی ہے۔[86]
مالی وسائل
سپاہ صحابہ کے مالی وسائل مختلف ذرائع سے آتے ہیں، جیسے حکومتِ پاکستان کی غیر رسمی امداد، پنجاب کے تاجروں اور کاروباری افراد کے عطیات، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسی غیر ملکی حکومتوں کی امداد، منشیات کی لین دین، منظم جرائم، بھتہ خوری اور منظم تربیت یافتہ عناصر کی محنت سے ہونے والی آمدنی۔[87] 2010ء کی جنوبی ایشیا دہشت گردی پورٹل رپورٹ کے مطابق سپاہ صحابہ کے پنجاب میں 500 دفاتر اور شاخیں ہیں، جبکہ پورے پاکستان میں اس کے ایک لاکھ رجسٹرڈ کارکن موجود ہیں۔ سپاہ صحابہ کی 17 شاخیں دیگر ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بنگلہ دیش، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی فعال ہیں۔[88]
دھڑے بندیاں
لشکر جھنگوی پاکستان کی سب سے مہلک دہشت گرد تنظیم اور سپاہ صحابہ کی مشہور ترین شاخ ہے، جسے 1996ء میں سپاہ صحابہ کے شدت پسند عناصر نے قائم کی۔[89] کہا جاتا ہے کہ لشکر جھنگوی کو سپاہ صحابہ کی شیعہ مسلح گروہوں کے ساتھ نسبتاً مفاہمتی پالیسیوں اور مذاکرات کی طرف جھکاؤ کے خلاف ردعمل کے طور پر بنائی گئی، لیکن کچھ مبصرین اسے سپاہ صحابہ کا عسکری ونگ سمجھتے ہیں اور اس کے انشقاق کو سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔[90]
سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد اس تنظیم کے اندرونی اختلافات کے باعث چھ چھوٹے گروہ سامنے آئے، جنہیں ببر جھنگوی، ببر الحق، تنظیم الحق، الفاروق، بنیاد البدر اور اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔ یہ دھڑے مقامی مولویوں کی قیادت میں کام کرتی تھیں اور وقت کے ساتھ یا تو دوبارہ سپاہ صحابہ میں شامل ہو گئیں یا لشکر جھنگوی کا حصہ بن گئیں۔[91]
رہنما
- حق نواز جھنگوی (1985-1990)، مارا گیا۔
- ایثار الحق قاسمی (1990-1991)، مارا گیا۔
- ضیاء الرحمن فاروقی (1991-1997)، مارا گیا۔
- محمد اعظم طارق (1997-2003)، مارا گیا۔
- علی شیر حیدری (2003-2009)، مارا گیا۔
- محمد احمد لدھیانوی (2009- حالیہ وقت تک)۔[92]
درج بالا افراد کے علاوہ قاضی محمد احمدی رشیدی، محمد یوسف مجاہد، طارق مدنی اور محمد طیب قاسم سپاہ صحابہ کے مؤثر افراد میں شمار ہوتے ہیں۔[93]
حوالہ جات
- ↑ Refworld, Pakistan: The Sipah-e-Sahaba (SSP), including its activities and status (January 2003 - July 2005), International Crisis Group, A New Era of Sectarian Violence in Pakistan, 2022, p3, «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریانہای سلفی۔
- ↑ Abbas, Shiism and Sectarian Conflict in Pakistan, 2010
- ↑ The Diplomat, What Role Does the State Play in Pakistan’s Anti-Shia Hysteria
- ↑ Refworld, Pakistan: The Sipah-e-Sahaba (SSP), including its activities and status (January 2003 - July 2005), Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan, Dawn, Bomber kills Hasan Turabi
- ↑ International Crisis Group, A New Era of Sectarian Violence in Pakistan, 2022, p5
- ↑ International Crisis Group, A New Era of Sectarian Violence in Pakistan, 2022, p5
- ↑ International Crisis Group, A New Era of Sectarian Violence in Pakistan, 2022, p5
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی و جریانہای سلفی۔
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی و جریانہای سلفی۔
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریانہای سلفی۔
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ International Crisis Group, A New Era of Sectarian Violence in Pakistan, 2022, p5۔
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP)Pakistan
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریانہای سلفی۔
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ ّInternational Crisis Group, A New Era of Sectarian Violence in Pakistan, 2022۔
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ Institute for Conflict Management, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ Institute for Conflict Management, Sipah-e- Sahaba Pakistan
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی و جریانہای سلفی۔
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی و جریانہای سلفی۔
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی و جریانہای سلفی،۔
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی و جریانہای سلفی۔
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیتپژوہی و جریانہای سلفی۔
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan۔
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ the New Yorker, The Shiite Murders: Pakistan’s Army of Jhangvi
- ↑ ُThePrint, Violence against Shia Muslims continues unabated in Pakistan
- ↑ The New Yorker, The Shiite Murders: Pakistan’s Army of Jhangvi, The Wire, The Rising Threat Against Shia Muslims in Pakistan
- ↑ The Wire, The Rising Threat Against Shia Muslims in Pakistan
- ↑ ThePrint, Violence against Shia Muslims continues unabated in Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ The Express Tribune, Agha Ziauddin’s killer shot dead
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Reliefweb, Brutal sectarian violence against Shias continues unabated
- ↑ Reliefweb, Brutal sectarian violence against Shias continues unabated
- ↑ Reliefweb, Brutal sectarian violence against Shias continues unabated
- ↑ Reliefweb, Brutal sectarian violence against Shias continues unabated
- ↑ South Asia Terrorism Portal,
- ↑ Shiitnews, 11 years passed since martyrdom of Shaheed Askari Raza
- ↑ Shiitnews, 11 years passed since martyrdom of Shaheed Askari Raza
- ↑ Reliefweb, Brutal sectarian violence against Shias continues unabated
- ↑ The Wire, The Rising Threat Against Shia Muslims in Pakistan
- ↑ The New Yorker, The Shiite Murders: Pakistan’s Army of Jhangvi
- ↑ The New Yorker, The Shiite Murders: Pakistan’s Army of Jhangvi
- ↑ The New Yorker, The Shiite Murders: Pakistan’s Army of Jhangvi
- ↑ The Wire, The Rising Threat Against Shia Muslims in Pakistan
- ↑ Institute for Conflict Management, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ The Diplomat, «What Role Does the State Play in Pakistan’s Anti-Shia Hysteria»۔
- ↑ Abbas, Shiism and Sectarian Conflict in Pakistan, 2010۔
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ South Asia Terrorsim Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP)
- ↑ «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہشی و جریانہای سلفی۔
- ↑ REfworld,Pakistan: The Sipah-e-Sahaba (SSP), including its activities and status (January 2003 - July 2005)
- ↑ REfworld,Pakistan: The Sipah-e-Sahaba (SSP), including its activities and status (January 2003 - July 2005)
- ↑ South Asia Terrorsim Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan۔
- ↑ Refworld, Pakistan: «The Sipah-e-Sahaba (SSP), including its activities and status (January 2003 - July 2005)»
- ↑ Institute for Conflict Management, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ Congressional Research Service, Terrorist and Other Militant Groups in Pakistan, 2022۔
- ↑ International Crisis Group, A New Era of Sectarian Violence in Pakistan, 2022, p5
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ South Asia Terrorism Portal, «Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan»
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan۔
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan۔
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP)
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan۔
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan۔
- ↑ Stanford University, Sipah-e-Sahaba Pakistan
- ↑ South Asia Terrorism Portal, Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan
مآخذ
- «سپاہ صحابہ و لشکر جہنگوی» پایگاہ تخصصی وہابیت پژوہی و جریانہای سلفی، تاریخ درج مطلب: 4 شہریور 1399ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 13 بہمن 1401ہجری شمسی۔
- Abbas, Hassan, Shiism and Sectarian Conflict in Pakistan, Combating Terrorism Center at West Point, September 22, 2010.
- Dawn, bomber-kills-hasan-turabi«Bomber kills Hasan Turabi», Published July 15, 2006, Accessed February 1,2023.
- Refworld, «Pakistan: The Sipah-e-Sahaba (SSP), including its activities and status (January 2003 - July 2005)», Publication Date: 26 July 2005.
- The Diplomat, hysteria/ «What Role Does the State Play in Pakistan’s Anti-Shia Hysteria», Published September 17, 2020.
- South Asia Terrorism Portal and Institute for Conflict Mangement, «Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan»
- Dawn, bomber-kills-hasan-turabi«Bomber kills Hasan Turabi», Published July 15, 2006, Accessed February 1,2023.
- Stanford University, MAPPING MILITANT ORGANIZATIONS, «Sipah-e-Sahaba Pakistan», Published April 19 2010, Accessed February 29, 2023.
- Institute for Conflict Management, «Sipah-e- Sahaba Pakistan (SSP) Pakistan», Accessed February 2, 2023.
- International Crisis Group, A New Era of Sectarian Violence in Pakistan, September 5, 2022, Accessed January 28, 2023.
- Congressional Research Service, Terrorist and Other Militant Groups in Pakistan, Updated October 25, 2022, Accessed February 4, 2023.
- Shiitnews, 11 years passed since martyrdom of Shaheed Askari Raza, Published December 31, 2022, Accessed February 10, 2023.
- The Express Tribune, Agha Ziauddin’s killer shot dead, Published January 19, 2017, Accessed February 12, 2023.
- The Wire, The Rising Threat Against Shia Muslims in Pakistan, Published June 11, 2016, Accessed February 12, 2023.
- The New Yorker, The Shiite Murders: Pakistan’s Army of Jhangvi, Published March 9, 2013, Accessed Feb 25, 2023.
- Reliefweb, Brutal sectarian violence against Shias continues unabated, Published February 8, 2012, Accessed February 13, 2023.
- The Print, Violence against Shia Muslims continues unabated in Pakistan, Published March 7, 2022, Accessed, February 13, 2023.