ایام اللہ

ویکی شیعہ سے

ایامُ اللہ، ان ایام کو کہا جاتا ہے جن میں اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالی کی قدرت زیادہ آشکار ہوئی ہے۔ مفسروں نے قرآن مجید کی جن آیات میں یہ لفظ آیا ہے ان کے ذیل میں مؤمنین کی نجات اور ان پر نعمتوں کے نزول نیز مشرکین پر نزول عذاب کے ایام کو ایام اللہ سے تفسیر کیا ہے۔ ایام اللہ کا مقصد ان نعمتوں اور نقمتوں کو یاد کر کے ان سے درس عبرت لینا ذکر کرتے ہیں۔ امام باقرؑ سے مروی ایک حدیث کے مطابق قیام امام مہدیؑ، رجعت اور قیامت ایام اللہ کے مصادیق میں سے ہیں۔ بعض روایات میں روز عاشورا کو بھی ایام اللہ میں سے قرار دیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے باتی امام خمینی نے ایران کے اسلامی انقلاب کے بعض اہم ایام من جملہ سنہ 1979ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن یعنی 22 بہمن (11 فروری) کو بھی ایام اللہ قرار دیا ہے۔

تعریف

ایام اللہ ان ایام کو کہا جاتا ہے جن میں اہم واقعات رونما ہوئے ہیں[1] جن کی وجہ سے ان ایام میں خدا کی قدرت زیادہ واضح اور آشکار نظر آتی ہے۔[2] یہ لفظ قرآن میں دو مرتبہ آیا ہے۔[3] سورہ ابراہیم میں حضرت موسی کو اپنی قوم کو ایام اللہ کی یاد دلانے کا حکم دیا ہے چونکہ یہ ایام عبرت لینے کے ایام ہوتے ہیں۔[4] اسی طرح سورہ جاثیہ میں بھی ایمان لانے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ جو لوگ ایام اللہ پر امید نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں تاکہ خدا ہر قوم کو ان کے اعمال کے مطابق مجازات کریں۔[5]

تفسیر نمونہ میں ایام اللہ اور ان ایام میں واقع ہونے والے واقعات کی یاد آوری کا مقصد عتبرت لینا اور قوموں کو خبردر کرنا قرار دیا ہے۔[6] حضرت علیؑ نے مکہ کے گورنر قثم بن عباس کو اپنے خط میں حج کے مراسم میں لوگوں کو ایام اللہ کی یادآوری کرنے کا حکم دیا۔[7]

تفسیر

مفسرین ایام اللہ کی تفسیر میں مختلف نظریات بیان کرتے ہیں:

  • نعمتوں کے نزول کے ایام: وہ ایام جن میں انبیاء اور ان کی امتوں پر خدا کی نعمات نازل ہوئی ہیں؛ مثلا حضرت موسی کی قوم یعنی بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملنے کا دن، حضرت نوح کی قوم کا کشتی نوح سے باہر آنے کا دن اور حضرت ابراہیم کو نمرود کی آگ سے نجات ملنے کا دن۔[8]
  • نزول عذاب کے ایام:‌ وہ ایام جن میں سرکش اور طاغی اقوام جیسے قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب نازل ہوئے۔[9]
  • عذاب اور نعمت کے ایام: ہر وہ دن جس میں خدا کی قدرت دوسرے ایام کی نسبت زیادہ واضح اور آشکار نظر آتی ہے۔[10] تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ ہر وہ دن جس میں انسانی زندگی میں ایک نیا باب کھلا ہے اور ان کو درس عبرت دی گئی ہے جیسے انبیاء میں سے کسی نبی کا مبعوث ہونا یا کسی ظالم و جابر اور مشرک بادشاہ کی نابودی وغیرہ ایام اللہ میں سے ہیں۔[11] امالی شیخ طوسی میں پیغمبر اکرمؐ سے مروی ایک حدیث کے مطابق ایام اللہ سے مراد وہ ایام ہیں جن میں خدا کی نعمتیں یا خدا کا عذاب نازل ہوا ہو۔[12]

فیض کاشانی کے مطابق حقیقت میں ان نظریات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ مؤمن کو نعمت‌ دینا حقیقت میں کافروں پر عذاب کا مترادف ہے اور یہ ایام کسی قوم کے لئے نعمت کا دن ہے تو دوسرے کے لئے عذاب کا دن ہے۔[13]

مصادیق

احادیث میں ایام اللہ کے لئے مصادیق ذکر ہوئے ہیں۔ امام باقرؑ سے مروی ایک حدیث کے مطابق تین دنوں کو ایام‌اللّہ کہا جاتا ہے: قیام قائم(عج)، رجعت اور قیامت کا دن۔[14] البتہ علی بن ابراہیم بن ہاشم قمی رجعت کی جگہ موت کو ذکر کیا ہے۔[15] بعض احادیث میں روز عاشورا کو بھی ایام اللہ میں شمار کیا گیا ہے۔[16]

اسی طرح امام خمینی نے ہجرت پیغمبر، فتح مکہ، جنگ صفین اور زلزلہ، سیلاب وغیرہ جو انسانوں کی تنبیہ کے لئے واقع ہوتے ہیں کو بھی ایام اللہ قرار دیتے ہیں۔[17] ان تمام باتوں کے باوجود کہ جاتا ہے کہ ایام اللہ مذکورہ ایام میں منحصر نہیں بلکہ اس کے مزید مصادیق بھی پائے جاتے ہیں۔[18]

ایران اسلامی انقلاب کے ایام اللہ

ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی نے اسلامی جمہوری ایران کی تاریخ کے بعض ایام کو ایام اللہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ سنہ 1979ء کو ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن یعنی 22 بہمن(11 فروری)،[19] اسی سال کا 17 شہریور (8 سمتبر 1978ء) اسی طرح وه واقعات جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کا پیش خیمہ بنا جیسے قیام 15 خرداد(5 جون) من جملہ ان واقعات میں سے تھے۔[20] امام خمینی کے مطابق ایام اللہ میں واقع ہونے والے واقعات پوری تاریخ میں انسانوں کی بیداری اور درس عبرت کا سبب ہے۔ اس بنا پر آپ معتقد تھے کہ ایام اللہ کو زندہ رکھنا چاہئے۔[21]

حوالہ جات

  1. شعرانی، نثر طوبی، ۱۳۸۰، ج۲، ص۶۰۴۔
  2. قرشی بنایی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۷، ص۲۸۱۔
  3. ملاحظہ کریں: سورہ ابراہیم، آیہ۵؛ سورہ جاثیہ، آیہ۱۴۔
  4. سورہ ابراہیم، آیہ۲۵۔
  5. سورہ جاثیہ، آیہ۱۴۔
  6. مکارم، تفسیر نمونہ نمونہ،۱۳۷۷ش، ج‌۱۰، ص‌۲۷۵۔
  7. نہج‌البلاغہ، تحقیق صبحی صالح، نامہ۶۷، ج۱، ص۴۵۷۔
  8. طبری، جامع‌البیان، ۱۴۲۰ق، ج‌۱۳، ص۲۳۹؛ طوسی، تبیان، بیروت، ج‌۶، ص‌۲۷۴۔
  9. طبری، جامع‌البیان، ۱۴۲۰ق، ج‌۱۱، ص‌۲۲۷؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۴۰۸ق، ج‌۵، ص‌۲۰۹۔
  10. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۴۰۸ق، ج‌۶، ص‌۴۶۷؛ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۴ق، ج‌۱۲، ص۱۸۔
  11. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۷ش، ج۱۰، ص۲۷۲۔
  12. شیخ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص‌۴۹۱۔
  13. فیض کاشانی، تفسیر صافی، ۱۳۷۳ش، ج‌۳، ص‌۸۰۔
  14. شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۱۰۸، ح۷۵۔
  15. قمی، تفسیر قمی، ۱۴۰۴ق، ج‌۱، ص‌۳۹۷۔
  16. ابن ابی‎جمہور، عوالی اللئالی العزیزیۃ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۱۳۸۔
  17. امام خمینی، صحیفہ نور، ۱۳۶۹ش، ج۹، ص۶۳۔
  18. قرشی بنایی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۷، ص۲۸۱۔
  19. امام خمینی، صحیفہ نور، ۱۳۶۹ش، ج۱۹، ص۱۰۱۔
  20. امام خمینی، صحیفہ نور، ۱۳۶۹ش، ج۹، ص۶۵۔
  21. امام خمینی، صحیفہ نور، ۱۳۶۹ش، ج۱۷، ص۱۱۔

مآخذ

  • ابن ابی‌جمہور، محمد بن علی، عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الاحادیث الدینیۃ، تصحیح مجتبی عراقی، قم، دار سیدالشہداء، ۱۴۰۵ق۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ نور، تہران، انتشارات سروش، ۱۳۶۹ش۔
  • شعرانی، ابوالحسن، نثر طوبی، گردآوندہ محمد قریب، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۰۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ش۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، بی‌تا۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی التفسیر القرآن، دارالمعرفۃ، بیروت، ۱۴۰۸ق۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تأویل القرآن، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۰ق۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، مؤسسہ‌اعلمی، بیروت، ۳۹۴۱ ق۔
  • فیض کاشانی، محمد، تفسیر الصافی، تہران، مکتبہ الصدر، ۱۳۷۳ش۔
  • قرشی بنایی، علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۱۲ق۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، ۱۴۰۴ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ‌، تہران،‌ دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۳ش۔
  • نہج‌البلاغہ، تحقیق صبحی صالح، بیروت، دارالکتاب البنانی، بی‌تا۔