علیہ السلام

ویکی شیعہ سے
خط ثلث میں عبارت «علیہ السلام»

عَلَیہ‌السَّلام ایک دعائیہ اور احترام بھرا جملہ ہے جس کے معنی ہیں اس پر اللہ کی رحمت ہو۔ یہ جملہ انبیاء، اماموں، بعض امام زادوں اور بعض فرشتوں کے لیےاللہ سے ان کے لیے رحمت کی درخواست کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔

اہل بیت اور مومنین پر درود و سلام بھیجنے کے جواز کے لیے قرآن کی ان آیات سے استدلال کیا جاتا ہے۔ سورہ بقرہ آیت نمبر157، سورہ احزاب آیت نمبر 43 اور سورہ انعام آیت نمبر 54۔ ان آیات میں تمام مومنین پر درود و سلام بھیجا گیا ہے۔ شہید ثانی نے دینی تعلیمات لکھنے کے آداب کے سلسلے میں اماموں کے ناموں کے بعد "علیہ السلام" لکھنے کی تاکید ہے۔ اہل سنت کے یہاں اماموں کے اسمائے گرامی کے بعد «رَضِی اَللہُ عَنْہ؛ اللہ اس پر راضی ہو» کا جملہ استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ وہ لوگ صحابہ کے ناموں کے بعد «رَضِی اَللہُ عَنْہ»استعمال کرتے ہیں؛ البتہ بعض موارد میں حضرت علیؑ کے نام کے بعد«علیہ‌السلام» کا جملہ استعمال کیا گیا ہے جبکہ باقی تین خلفا کے نام کے بعد اس جملے کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں «علیہ‌السلام» کے بارے میں ایسا طریقہ رائج ہونے کے باوجود ابن تیمیہ کے شاگرد ابن کثیر کا خیال ہے کہ اس دعائیہ جملے کو حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ مختص کردینا اور باقی خلفا کے ناموں کے بعد اسے ذکر نہ کرنا مناسب نہیں۔

شیعوں کے ہاں حضرت فاطمہؑ، حضرت زینبؑ اور حضرت خدیجہ کبریؑ کی تکریم اور احترام کے لیے «علیہ‌السلام» کے بجائے «سَلامُ‌اللہْ‌عَلَیہا» کا جملہ استعمال کیا جاتا ہے اور حضرت محمدؐ کے نام کے بعد «صلی اللہ علیہ و آلہ؛ وہ اور ان کےخاندان پر اللہ کی رحمت ہو» کا جملہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

جملہ «علیہ‌السلام» کی اختصاری علامت «ع» یا « ؑ» ہے جبکہ «سَلامُ‌اللہْ‌عَلَیہا» کے لیے حرف «س» یا « ؑ » لکھا جاتا ہے۔

استعمالات اور مشابہ عبارتیں

«علیہ‌السلام» ایک دعائیہ جملہ ہے جس کے معنی ہیں «اس پر اللہ کی رحمت ہو»۔ اس جملے کو شیعہ اماموں، انبیاء، [1] بعض امام زادہوں جیسے حضرت عباسؑ،[2] حضرت علی‌اکبر علیہ‌السلام، [3] حضرت علی اصغر علیہ السلام [4] اور بعض فرشتوں جیسے جبرئیل [5] کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جب اماموں یا پیغمبروں کی تعداد دو ہوں تو اس وقت جملہ «عَلیہِمَاالسَّلام؛ ان دونوں پر درود و رحمت ہو»[6] اور اگر دو سے زیادہ ہوں تو جملہ «عَلَیہمُ‌السَّلام؛ ان پر درود و سلام ہو» استعمال ہوتا ہے.[7] شیعہ حضرات اماموں کے نام کے بعد اس رائج جملے کے علاوہ دیگر جملات جیسے «سَلامُ اللہ عَلَیہ، صَلَواتُ اللہ عَلَیہ»،[8] «عَلَیہِ الصَّلاةُ وَ السَّلام»،[9] اسی طرح یہ جملے جیسے «عَلَیہِ اَفْضَلُ الصَّلاةِ وَ السَّلام؛ اس پر بہترین درود و سلام ہو» و «عَلَیہِ آلافُ التَّحِیةِ وَ الثَّنا؛ اس پر ہزاروں درود و ثنا ہو» [10] استعمال کرتے ہیں۔ خاندان اہل بیتؑ کی مستورات[11] جیسے حضرت فاطمہ زہراؑ،[12]حضرت زینبؑ،[13]حضرت معصومہؑ [14] اور زوجہ رسول خداؐ حضرت خدیجہ کبریؑ،[15] مادر حضرت عیسیٰ حضرت مریم بنت عمران [16] اور زوجہ فرعون حضرت آسیہ [17] کے لیے جملہ «سلامُ‌اللہ‌عَلَیہا؛ اس پر اللہ کا درود ہو» یا «عَلَیہا‌السَّلام» استعمال ہوتا ہے۔ حضرت محمدؐ کے لیے «علیہ السلام» کے بجائے جملہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَ آلِہ؛ آپؐ اور آپؐ کے خاندان پر اللہ کی رحمت ہو» مستعمل ہے۔[18] اہل سنت کے ہاں بھی انبیاء [19] اور بعض فرشتوں[20] کی تکریم و تجلیل کے لیے جملہ «علیہ السلام» استعمال کیا جاتا ہے؛ لیکن شیعوں کے اماموں کے لیے صحابہ کرام کی طرح جملہ «رَضِی اَللہُ عَنْہ؛ اللہ اس پر راضی ہو» استعمال کرتے ہیں۔[21] [یادداشت 1] اہل سنت صرف امام علیؑ کے نام کے ساتھ «کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہ» والا جملہ بھی استعمال کرتے ہیں۔[22] اسی طرح اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ «علیہ السلام» کا جملہ استعمال ہوا ہے۔[23] اہل سنت کے تاریخ نگار اور مفسر ابن کثیر[24] اور سلفی عالم دین محمد صالح المُنَجِّد [25] کا کہنا ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ جملہ «علیہ السلام» اہل سنت علما کی جانب سے نہیں بلکہ کتابوں کے کاتبوں کی طرف سے لکھا جاتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں پیغمبر خداؐ کے نام کے بعد «صَلَّی اللہُ عَلَیہِ و سَلَّم» (و آلہ کے بغیر)، [26] کبھی «صَلَّی اللہُ عَلَیہِ و آلہ و سلم»[27] اور کبھی «علیہ السلام» والا جملہ استعمال کیا جاتا ہے۔[28] شیخ مفید کی سنہ 566ہجری قمری میں طبع شدہ کتاب الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد کے ایک خطی نسخے کے مطابق شیعہ اماموں کے اسماء کے ساتھ جملہ «علیہ السلام» استعمال ہوتا رہا ہے۔[29]

احکام اور فلسفہ

دسویں صدی کے شیعہ فقیہ شہید ثانی نے دینی متون کی تحریر کے آداب کے سلسلے میں لکھا ہے کہ اماموں کے نام کے بعد جملہ «علیہ السلام» لکھا جائے۔[30] آٹھویں صدی کے شیعہ فقیہ فخر المحققین محمد بن حسن حلی لکھتے ہیں کہ تمام مومنین پر درود و سلام بھیجنے کو شیعہ علماء ایک جائز عمل سمجھتے ہیں؛[31] البتہ ان کی نظر میں بہتر اور ادب کا تقاضا یہ ہےکہ درود و سلام بھیجنے کے عمل کو پیغمبرؐ اور اماموں کے ساتھ مختص کیا جائے اور عام مومنین کے لیے ایسا نہ کیا جائے۔[32] اس نظریے کے بالمقابل، ابن کثیر کے شاگرد ابن تیمیہ حرانی [33] اور وہابی مفتی عبد العزیز بن باز،[34] کا نظریہ یہ ہے کہ جملہ «علیہ السلام»کو امام علیؑ کے نام کے ساتھ مختص کردینا اور اسے دیگر تین خلفا کے ناموں کے بعد ذکر نہ کرنا ایک مناسب عمل نہیں ہے۔ اماموں پر سلام بھیجنے کے جواز میں درج ذیل قرآنی آیات سےاستدلال کیا جاسکتا ہے؛ سورہ توبہ آیت:103، [35] سورہ بقرہ آیت: 157؛ سورہ احزاب آیت: 43 اور سورہ انعام آیت: 54؛ ان آیات میں تمام مومنین پر سلام و درود بھیجا گیا ہے۔[36] اسی طرح قرآن کے سورہ صافات کی آیت 130«سَلَامٌ عَلیٰ اِلْ یاسِینَ» سے بھی اماموں پر سلام و درود بھیجنے کے عمل کے جواز میں استدلال کیا جاسکتا ہے؛ قرآنی تفاسیر [37] اور روایات [38] کے مطابق آل یاسین سے مراد آل محمد ہیں۔ [39]

پیغمبران خدا پر سلام بھیجنے کے جواز میں بھی قرآنی آیات سے استدلال کیا گیا ہے جس کے مطابق مجموعی طور پر تمام پیغمبروں پر[40] اور بعض پیغمبروں کا نام لیکر [41] سلام بھیجا گیا ہے۔[42]البتہ امالی شیخ صدوق [43] اور امالی شیخ طوسی،[44] میں منقول بعض روایتوں میں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر کا نام لینے کی صورت میں پہلے پیغمبر خاتم ؐ پر درود بھیجا جائے اوربعد میں دوسرے پیغمبر پر درود بھیجا جائے۔ ان روایتوں کی مانند وسائل الشیعہ میں بھی ایک روایت موجود ہے جس کے مطابق پہلے پیغمبر خاتمؐ اور آپؐ کے اہلبیتؑ پر درود بھیجا جائے اور اس کے بعد دوسرے پیغمبر پر درود بھیجا جائے.[45] بعض شیعہ علما پیغمبروں کے نام کے بعد یہ عبارت «عَلیٰ نَبِیِّنَا وَ آلِہِ وَ علیہ‌السلام؛ ہمارے پیغمبر اور ان کی آل پر دروداور اس پر (اپنے مد نظر پیغمبر کا نام لیں) درود»)استعمال کرتے ہیں [46]

سعدی
بہ لبیک حُجّاج بیت‌الحرامبہ مدفون یثرب علیہ‌السلام
...کہ ما را در آن ورطۂ یک نفسز ننگ دو گفتن بہ فریاد رس[47]

اختصاری علامت

جملہ «علیہ‌السلام» اور «سلام‌اللہ‌علیہا» کی اختصاری علامت کے طور پر بالترتیب «ؑ»، یا (ع) اور (س) یا «ؑ» مستعمل ہیں[48] بعض علما ان جملات کی اختصاری علامت کو ایک رائج غلطی اور اہلبیتؑ کی شان میں بے حرمتی تصور کرتے ہیں[49] اس کے مقابلے میں شیعہ مصنف، شاعر اور فارسی ادبیات کے ماہر محمدکاظم کاظمی لکھتے ہیں کہ جملہ «علیہ‌السلام»کی اختصاری علامت خود اس جملے کے تکرار کرنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ اس سے اولا تو متن کا نظم محفوظ رہتا ہے اور ثانیا متن کے مطالعہ کرنے والے کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ اس متن کا لکھنے والا پیغمبروں یا اماموں کے نام کے بعد ان کی تکریم و احترام سے غافل نہیں رہا ہے۔[50]

متعلقہ مضامین

کرم اللہ وجہہ

نوٹ

  1. تیرہویں صدی کے شیعہ عالم دین ادیب دَرّہ‌ صوفی کا کہنا ہے کہ شیعہ حضرات «رَضِی اَللہُ عَنْہ» کا جملہ غیر معصوم افراد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ (نظام اعرج، شرح النظام،‌ دار الحجة للثقافہ، پاورقی، ص25.)

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ذیل واژہ علیہ‌السلام.
  2. ملاحظہ کریں: محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امیرالمؤمنینؑ بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ،‌ 1389شمسی، ج1، ص185؛ مدرسی و شوشتری‌زادہ، حضرت علی‌اکبرؑ، 1379شمسی، ص8.
  3. بملاحظہ کریں: محمدی ری‌شہری، گزیدہ شہادت‌نامہ امام حسینؑ، 1391شمسی، ص55؛ مدرسی و شوشتری‌زادہ، حضرت علی‌اکبرؑ، 1379شمسی، ص8.
  4. ملاحظہ کریں: محمدی ری‌شہری، گزیدہ شہادت‌نامہ امام حسینؑ، 1391شمسی؛ ظہیری، قصص الحسینؑ، 1386ہجری شمسی، ج1، ص181.
  5. ملاحظہ کریں: محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امیرالمؤمنینؑ بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ،‌ 1389شمسی، ج1، ص130؛ مدرسی و شوشتری‌زادہ، حضرت علی‌اکبرؑ، 1379ہجری شمسی، ص6.
  6. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل واژہ عَلَیہِمَاالسَّلام.
  7. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل واژہ علیہم‌السلام.
  8. نظام اعرج، شرح النظام،‌ دار الحجة للثقافہ، پاورقی، ص25.
  9. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل واژہ علیہ‌الصلوات‌والسلام.
  10. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل واژہ علیہ‌آلاف‌التحیةوالثنا.
  11. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل واژہ سلام‌اللہ‌علیہا.
  12. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج11، ص88؛ ری‌شہری، دانش‌نامہ امیرالمؤمنینؑ بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ،‌ 1389ہجری شمسی، ج1، ص185.
  13. ملاحظہ کریں: صافی گلپایگانی، حسینؑ شہید آگاہ و رہبر نجات‌بخش اسلام، 1366ہجری شمسی، ص451؛ ری‌شہری، دانش‌نامہ امیرالمؤمنینؑ بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ،‌ 1389ہجری شمسی، ج1، ص166.
  14. ملاحظہ کریں: صافی گلپایگانی، سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، 1391ہجری شمسی، ج2، ص278؛ فاضل موحدی لنکرانی، آیین کیفری اسلام، 1390ہجری شمسی، ج1، ص516.
  15. ملاحظہ کریں: ری‌شہری، دانش‌نامہ امیرالمؤمنینؑ بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ،‌ 1389ہجری شمسی، ج11، ص223؛ صافی گلپایگانی، اشعة من عظمة الامام الحسینؑ،‌ 1434ھ، ص105.
  16. ملاحظہ کریں: ری‌شہری، دانش‌نامہ امیرالمؤمنینؑ بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ،‌ 1389ہجری شمسی، ج7، ص394؛ صافی گلپایگانی، سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، 1391ہجری شمسی، ج4، ص190.
  17. ۔ملاحظہ کریں: ہاشمی رفسنجانی، فرہنگ قرآن، 1385ہجری شمسی، ج16، ص247؛ مظاہری، اخلاقیات العلاقة الزوجیة، 1414ھ، ص240.
  18. دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ذیل عبارت صلی اللہ علیہ و آلہ.
  19. ملاحظہ کریں: زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص61 و 129؛ فخر رازی، تفسیر کبیر، 1420ھ، ج1، ص136.
  20. رجوع کریں: زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص350؛ فخر رازی، تفسیر کبیر، 1420ھ، ج1، ص73 و ج22، ص171.
  21. ملاحظہ کریں: ابومنصور ازہری ہروی، الزاہر فی غریب الفاظ الشافعی،‌دار الطلائع، ص93؛ سیوطی، الدر المنثور، دارالفکر، ج4، ص524؛ سہرندی، رسالة رد الروافض، 1432ھ،‌ ص4.
  22. ابن‌کثیر، تفسیر، 1412ھ، ج3، ص524؛ ابن حجر الہیتمی، الفتاوی الحدیثیہ،‌ دار الفکر، ج1، ص41.
  23. ملاحظہ کریں: مجاہد بن جبر، تفسیر مجاہد، 1410ھ، ص674؛ ثعلبی، تفسیر الثعلبی، 1422ھ،‌ ج1، ص136.
  24. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1420ھ، ج6، ص477.
  25. المنجد، موقع الاسلام سؤال و جواب، 1430ھ، ج9، ص101.
  26. ملاحظہ کریں: ثعلبی، تفسیر الثعلبی، 1422ھ،‌ ج7، ص116؛‌ ابن جزی کلبی، التسہیل لعلوم التنزیل، 1416ھ، ج2، ص467.
  27. ملاحظہ کریں: ثعلبی، تفسیر الثعلبی، 1422ھ،‌ ج7، ص116؛‌ ابن جزی کلبی، التسہیل لعلوم التنزیل، 1416ھ، ج2، ص467.
  28. ملاحظہ کریں: زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص2؛ فخر رازی، تفسیر کبیر، 1420ھ، ج1، ص175.
  29. شیخ مفید، الارشاد، 1416ھ، ج1، ص15، مقدمہ.
  30. شہید ثانی، منیة المرید، 1409ھ، ص346 و 347.
  31. فخرالمحققین، ایضاح الفوائد، 1387ہجری شمسی، ج1، ص528.
  32. فخرالمحققین، ایضاح الفوائد، 1387ہجری شمسی، ج1، ص528.
  33. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1420ھ، ج6، ص478.
  34. بن باز، عبدالعزیز بن عبداللہ، مجموع فتاوی و مقالات متنوعہ، رئاسة ادارة البحوث العلمیة، ج6، ص399.
  35. فخرالمحققین، ایضاح الفوائد، 1387ہجری شمسی، ج1، ص528.
  36. صانعی، پاسخ بہ شبہات در شب‌ہای پیشاور، 1385ہجری شمسی، ص32-33.
  37. ملاحظہ کریں: مقاتل بہ سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان،‌ 1423ھ، ج3، ص618؛ طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج8، ص714.
  38. کوفی، تفسیر فرات کوفی، 1410ھ، ص356؛ شیخ صدوق، الامالی، ص472.
  39. صانعی، پاسخ بہ شبہات در شب‌ہای پیشاور، 1385ہجری شمسی، ص33.
  40. سورہ صافات، آیہ: 181.
  41. تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: سورہ صافات، آیات 79 و 109.
  42. صانعی، پاسخ بہ شبہات در شب‌ہای پیشاور، 1385ہجری شمسی، ص33.
  43. شیخ صدوق، الامالی، 1376ہجری شمسی، ص380.
  44. طوسی، امالی، 1414ھ، ص424.
  45. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج7، ص208.
  46. ملاحظہ کریں: صافی گلپایگانی، منتخب الاثر فی الامام الثانی عشرؑ، 1422ھ، ج2، ص356؛ اشتہاردی، حقیقت معجزہ از انبیاء و ائمہؑ، 1389ہجری شمسی، ج1، ص75.
  47. سعدی، بوستان، 1366ہجری شمسیojri xmsi، ص422.
  48. ملاحظہ کریں: سبحانی تبریزی، آیین وہابیت، 1386ہجری شمسی، ص274؛ مظاہری، مظہر حق، 1388ہجری شمسی، ص46.
  49. فرحزاد، «کیا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جگہ صرف (ص) لکھنا درست ہے؟»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن ایکنا.
  50. کاظمی، «دلیل استفادہ از علایم اختصاری برای تعظیم و تکریم امامان»، خبرگزاری خبرآنلاین.

مآخذ

  • ابن جزی کلبی غرناطی، أبو القاسم محمد بن أحمد، التسہیل لعلوم التنزیل، تحقیق عبداللہ الخالدی، بیروت، شرکة‌ دار الارقم بن ابی الارقم، 1416ھ.
  • ابن حجر الہیتمی، احمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیہ، بی‌جا،‌ دار الفکر، بی‌تا.
  • ابن‌کثیر، ابوالفداء‌ اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بی‌جا،‌ دار طیبة للنشر و التوزیع، 1420ھ.
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر ابن‌کثیر، تحقیق و تقدیم یوسف عبدالرحمن المرعشلی، بیروت، دارالمعرفة للطباعة و النشر و التوزیع، 1412ھ/1992ء.
  • ابومنصور ازہری ہروی، ابو منصور محمد بن احمد، الزاہر فی غریب الفاظ الشافعی، تحقیق مسعد عبد الحمید السعدنی، بی‌جا،‌ دار الطلائع، بی‌تا، تاریخ النشر بالشاملة 8 ذی‌الحجہ 1431ھ.
  • اشتہاردی، علی‌پناہ، حقیقت معجزہ از انبیاء و ائمہؑ، قم، نشر زائر، 1389ہجری شمسی.
  • المنجد، محمدصالح، موقع الاسلام سؤال و جواب، تاریخ النشر بالشاملة 8 ذو الحجة 1431ق، تم نسخہ من الانترنت فی 1430ھ.
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، سخن، 1381ہجری شمسی.
  • بن باز، عبدالعزیز بن عبداللہ، مجموع فتاوی و مقالات متنوعة، جمع و اشراف محمد بن سعد الشویعر، بی‌جا، رئاسة ادارة البحوث العلمیة و الافتاء بالمملکة العربیة السعودیة، بی‌تا، تاریخ النشر بالشاملة 8 ذی‌الحجة 1431ھ.
  • ثعلبی، ابواسحاق احمد بن محمد، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، تحقیق ابی‌محمد بن عاشور، مراجعة و تدقیق نظیر الساعدی، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، تحقیق و تصحیح مؤسسة آل البیتؑ، قم، مؤسسة آل البیتؑ، 1409ھ.
  • دہخدا، علی‌اکبر و دیگران، لغت‌نامہ، تہران، دانشگاہ تہران، 1390ہجری شمسی.
  • زمخشری، محمود بن عمرو، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، 1407ھ.
  • سبحانی تبریزی، جعفر، آیین وہابیت، تہران، مشعر، 1386ہجری شمسی.
  • سعدی، مصلح‌الدین، بوستان، تصحیح محمدعلی فروغی، تہران، ققنوس، 1366ہجری شمسی.
  • سہرندی، احمد بن عبدالاحد عمری فاروقی، رسالة رد الروافض، بی‌جا، بی‌تا، بی‌نا، تاریخ النشر بالشاملة: 12 شعبان 1432ھ.
  • سیوطی، جلال‌الدین عبدالحرمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور، بیروت،‌ دار الفکر، بی‌تا، تاریخ النشر بالشاملة: 8 ذو الحجة 1431ھ.
  • شبیری زنجانی، موسی، توضیح المسائل، قم، مرکز فقہی امام محمدباقرؑ وابستہ بہ دفتر آیت‌اللہ شبیری زنجانی، 1397ہجری شمسی.
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، منیة المرید فی آداب المفید و المستفید، تحقیق و تصحیح رضا مختاری، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1409ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، 1376ہجری شمسی.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد، بیروت،‌ مؤسسہ آل البیتؑ لاحیاء التراث، 1416ھ.
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، منتخب الاثر فی الامام الثانی عشرؑ، قم، مکتبة آیة‌اللہ الصافی الگلپایگانی، 1422ھ.
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، حسینؑ شہید آگاہ و رہبر نجات‌بخش اسلام، مشہد، مؤسسہ نشر و تبلیغ، 1366ہجری شمسی.
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، اشعة من عظمة الامام الحسینؑ،‌ قم، مکتب آیة اللہ لطف‌اللہ الصافی الگلپایگانی، 1434ھ.
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، قم، دفتر نشر آثار آیت‌اللہ صافی گلپایگانی، 1391ہجری شمسی.
  • صانعی، نیرہ سادات، پاسخ بہ شبہات در شب‌ہای پیشاور، تہران، مشعر، 1385ہجری شمسی.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تصحیح و تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی و سید فضل‌اللہ یزدی طباطبایی، بیروت،‌ دار المعرفة، 1408ھ.
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، تحقیق و تصحیح مؤسسة البعثة، قم، 1414ھ.
  • ظہیری، علی‌اصغر، قصص الحسینؑ، قم، پیام حجت، 1386ہجری شمسی.
  • فاضل موحدی لنکرانی، محمد، آیین کیفری اسلام: شرح فارسی تحریر الوسیلة (حدود)، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہارؑ، 1390ہجری شمسی.
  • فخر رازی، التفسیر الکبیر، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1420ھ.
  • فخرالمحققین، محمد بن حسن، ایضاح الفوائد فی شرح اشکالات القواعد، تصحیح علی پناہ اشتہاردی و دیگران، بہ اہتمام محمدحسین کوشان، قم، اسماعیلیان، 1387ھ.
  • فرحزاد، حبیب‌اللہ، «آیا در نوشتہ‌ہا نوشتن(ص) بہ جای(صلی اللہ علیہ و آلہ) صحیح است»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن (ایکنا)، تاریخ درج مطللب: 25 تیر 1396ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 30 فروردین 1401ہجری شمسی.
  • کاظمی، «دلیل استفادہ از علایم اختصاری برای تعظیم و تکریم امامان»، خبرگزاری خبرآنلاین، تاریخ درج مطلب: 24 دی 1391ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 30 فروردین 1401ہجری شمسی.
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق و تصحیح محمد کاظم، تہران، وزارت ارشاد اسلامی، 1410ھ.
  • مجاہد بن جبر، ابوالحجاج قرشی مخزومی، تفسیر مجاہد، تحقیق محمد عبدالسلام ابوالنیل، مصر،‌ دار الفکر الاسلامی الحدیثة، 1410ھ.
  • محمدی ری‌شہری، محمد و دیگران، گزیدہ شہادت‌نامہ امام حسینؑ بر پایہ منابع معتبر، قم،‌ دار الحدیث، 1391ہجری شمسی.
  • محمدی ری‌شہری، محمد و دیگران،‌ دانش‌نامہ امیرالمؤمنینؑ بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ،‌ قم،دار الحدیث، 1389ہجری شمسی.
  • مدرسی، محمدتقی و محمد (امیر) شوشتری‌زادہ، حضرت علی‌اکبرؑ، تہران، محبان الحسینؑ، 1379ہجری شمسی.
  • مظاہری، حسین، مظہر حق، قم، مؤسسہ فرہنگی مطالعاتی الزہراء(س)، 1388ہجری شمسی.
  • مظاہری، حسین، اخلاقیات العلاقة الزوجیة، بیروت،‌ دار التعارف للمطبوعات، 1414ھ.
  • مقاتل بن سلیمان، ابوالحسن بن بشیر ازدی بلخی، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق عبداللہ محمود شحاتہ، بیروت،‌ دار احیاء التراث، 1423ھ.
  • مکارم شیرازی، ناصر و جمعی از نویسندگان، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب السلامیہ، 1380ہجری شمسی.
  • نظام اعرج نیشابوری، شرح النظام علی الشافیہ، تحقیق محمدزکی جعفری، قم،‌ دار الحجة للثقافہ، چاپ اول، بی‌تا.
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر و محققان مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن: کلید راہیابی بہ موضوعات و مفاہیم قرآن کریم، قم، بوستان کتاب قم، 1385ہجری شمسی.