سید محمد تیجانی سماوی، (ولادت: 1936 ء) ٹیونس کے مشہور اہل سنت عالم دین ہیں جنہوں نے بعد میں شیعہ مذہب اختیار کر لیا۔ آپ شروع میں مالکی مذہب کے پیروکار تھے اور سعودی عرب سفر کے بعد ان کا رجحان وہابیت کی طرف ہوگیا اور وہ وہابیت کی تبلیغ کرنے لگے۔ لیکن نجف اشرف سفر کرنے اور شیعہ علماء سے گفتگو کے بعد انہوں نے شیعہ مذہب کا انتخاب کیا۔
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | سید محمد |
لقب/کنیت | تیجانی سماوی |
تاریخ ولادت | سنہ 1936 ء |
آبائی شہر | قفصہ، جنوب تیونس |
علمی معلومات | |
مادر علمی | سوربن یونیورسٹی (فرانس) سے ڈاکٹریٹ |
تالیفات | پھر میں ہدایت پا گیا۔ سچوں کے ساتھ، شیعہ ہی اہل سنت ہیں، اہل بیت حلال مشکل، اہل ذکر سے پوچھو، راہ نجات، سفر و داستان |
خدمات | |
سماجی | مسلک اہل سنت ترک کرکے مذہب شیعہ اختیار کیا۔ |
شیعہ مذہب قبول کرنے کے بعد انہوں نے شیعیت کے دفاع میں کئی کتابیں تالیف کی ہیں۔ ان میں سے ایک ثُمَّ اهْتَدَیتُ (پھر میں ہدایت پا گیا) ہے جس میں انہوں نے اپنے شیعہ ہونے اور علمائے شیعہ سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ تیجانی کے شیعہ ہونے پر وہابیوں نے منفی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بعد نے ان کی تالیفات کو جعلی اور انہیں مرتد قرار دیا ہے۔
تیجانی کے بقول ان کے شیعہ ہونے میں سب سے بڑا کردار سید شرف الدین موسوی عاملی کی کتابیں المراجعات اور النص و الاجتہاد اور شیعہ مرجع تقلید سید محمد باقر صدر کی شخصیت کا رہا ہے۔
ولادت اور تعلیم
محمد تیجانی سماوی سنہ 1936 ء تیونس کے جنوبی شہر قفصہ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے قول کے مطابق ان کے خاندان کا تعلق بنیادی طور پر عراقی شہر سماوہ سے تھا۔ اس خاندان نے بنی عباس کے دور میں شمالی افریقہ ہجرت کی تھی۔[2]
تیجانی نے ابتدائی تعلیم 2 یا 3 سال تک جامعۂ زیتونہ کے میں حاصل کی؛ تیونس کو خود مختاری ملی تو جامعۂ زیتونہ بند ہوئی اور وہ ایک فرانکو عربک اسکول میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے ثانوی تعلیم مکمل کی اور یوسبای میں ماقبل جامعہ تعلیمی مرکز (Pre Academic Institute) کے استاد کے طور پر کام شروع کیا اور عرصہ 17 سال تک اس مرکز میں تدریس کے بعد تیونس کے ادارہ تعلیم سے علیحدہ ہوئے۔[3]
سید محمد تیجانی مزید تعلیم کے لئے فرانس گئے اور آٹھ سال تک جامعہ سوربن اور پیرس کے اعلی تعلیمی ادارے میں ادیان ـ بالخصوص تین توحیدی ادیان کا تقابلی جائزہ لینے میں مصروف رہے اور پیشہ ورانہ مطالعات و تحقیقات میں جامعہ سوربن سے فارغ التحصیل ہوئے۔ بعد ازاں انھوں نے اسی جامعہ سے فلسفہ و انسانیات میں، اور اس کے بعد "اسلامی تاریخ و مذاہب" کے پیشہ ورانہ شعبے میں تیسرے درجے کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی اور بعد ازاں "اسلامی فکر نہج البلاغہ اور کلام امام علی(ع) کی روشنی میں" کے عنوان سے تحقیقی رسالہ لکھ کر بین الاقوامی ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ انھوں نے نہج البلاغہ کی ادبی منزلت کی بنا پر اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ انھوں نے ڈاکٹریٹ کا درجہ حاصل کرنے کے بعد ایک سال تک "جامعہ سوربن" اور تین سال تک پیرس کے "بالزام" تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔[4]
تیجانی نے بچپن میں نصف قرآن مجید حفظ کر لیا تھا لہذا وہ ماہ مبارک رمضان میں نماز تراویح پڑھایا کرتے تھے۔[5] ان کے بقول ان کا نام تیجانی سلسلہ طریقت تیجانیہ سے لیا گیا ہے جو تیونس، مراکش، الجزایر، لیبیا، سوڈان، مصر و ... رائج ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام مشایخ اور اولیاء نے اپنا علم ایک دوسرے سے کسب کیا ہے جبکہ شیخ احمد تیجانی نے اپنا علم بطور مستقیم پیغمبر اکرم (ص) سے حاصل کیا ہے۔[6]
شیعہ مذہب کا انتخاب
تیجانی مالکی مذہب تھے۔[7] انہوں نے سنہ 1964 عیسوی میں شہر مکہ میں مسلم عربوں کے سلسلے میں منعقدہ ایک کانفرس میں شرکت کی اور یہی کانفرس وہابیت کی طرف ان کے رجحان کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔ اس کے بعد وہ وہابیت کے عقاید کی تبلیغ میں لگ گئے۔[8]
بیروت کے سفر میں ان کی ملاقات بغداد یونیورسٹی کے منعم نامی ایک استاد سے ہوئی اور انہوں نے ان سے گفتگو میں شیعوں پر کفر و شرک کی تہمتیں لگائیں۔ جبکہ منعم نے انہیں شیعوں سے آشنائی حاصل کرنے کئے عراق آنے کی دعوت دی۔[9] تیجانی نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا اور انہوں نے سفر عراق کے دوران حرم امام علی (ع)، حرم کاظمین (ع) اور عبد القادر جیلانی کے مزار کی زیارت اور شیعہ علماء سے ملاقات کی۔[10] شیعہ مراجع تقلید آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ سید محمد باقر صدر سے ملاقات سبب بنی کہ شیعوں کے بارے میں ان کے بعض عقاید کی اصلاح ہو جائے۔[11]
سید محمد تیجانی نے شیعہ علماء، خاص طور پر شہید سید محمد باقر صدر سے متاثر ہونے کا تذکرہ کیا ہے اور اپنی کتاب ثم اھتدیت میں ان سے ہوئی ملاقاتوں، ان سے کئے گئے سوالات اور ان کے جوابات کا ذکر کیا ہے۔[12]
ان ملاقاتوں کے بعد انہوں نے حقیقت تک پہچنے کے سلسلہ میں اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں: میں نے خود سے عہد کیا کہ میں فقط ان صحیح احادیث و روایات کو دلیل بناوں کا جو شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک صحیح اور معتبر ہوں گی اور جس حدیث کو صرف ایک فرقہ نے معتبر مانا ہوگا اسے چھوڑ دوں گا۔[13] انہوں نے شیعہ عقاید کا مطالعہ شروع کر دیا۔ مہم ترین کتابیں جن سے وہ سلسلہ میں متاثر ہوئے وہ سید شرف الدین موسوی عاملی کی کتب المراجعات و النص و الاجتہاد تھیں۔[14]
تألیفات
تیجانی نے شیعہ مذہب قبول کرنے کے بعد مذہب تشیع کی حقانیت کے اثبات اور اہل سنت کے نظریات کے رد میں کئی کتابیں تالیف کی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
- ثم اهتديت
- لأكون مع الصادقين
- فاسألوا أهل الذكر
- الشيعة هم أهل السنة
- كل الحلول عند آل الرسول (ص)
- اعرف الحق
- فسيروا في الأرض فانظروا
- اتقوا الله[15]
انہوں نے اپنی کتاب ثم اهتديت میں اپنے شیعہ ہونے کی داستان تحریر کی ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی سوانح حیات ذکر کرنے کے ضمن میں اپنے عراق کے سفر اور شیعہ علماء سے ملاقات و گفتگو کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اہل سنت کتابوں میں منقول احادیث سے استناد کرتے ہوئے شیعہ عقاید کا دفاع کیا ہے۔ یہ کتاب چودہ (14) زبانوں میں ترجمہ اور ایران میں متعدد مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔
اس کے دو اردو ترجمے پھر میں ہدایت پا گیا مترجم روشن علی نجفی اور مجھے راستہ مل گیا مترجم سید ذیشان حیدر جوادی شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری کتب کے ترجمے بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ذیل میں ان کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
اردو تراجم:
- ثم اهتديت کا اردو ترجمہ ڈاؤن لوڈ کریں (پی ڈی ایف فارمیٹ): پھر میں ہدایت پا گیا
- كل الحلول عند آل الرسول (ص) کا اردو ترجمہ ڈاؤنلوڈ کریں (ورڈ فارمیٹ): اہل بیت حلاّل مشکلات
- الشيعة هم أهل السنة کا اردو ترجمہ ڈاؤن لوڈ کریں (پی ڈی ایف فارمیٹ): شیعہ ہی اہل سنت ہے
- لأكون مع الصادقين کا اردو ترجمہ ڈاون لوڈ کریں (پی ڈی ایف فارمیٹ): حکم اذان
- المیہ جمعرات
- ڈاؤن لوڈ کی سہولت کے ساتھ، ڈاکٹر تیجانی کی اردو میں دستیاب کتب (پی ڈی ایف فارمیٹ): تصانیف ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی
منفی تشہیری مہم
ڈاکٹر تیجانی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے شیعہ ہونے کے بعد سے انہیں وہابیوں اور سعودیوں کی طرف سے شدید منفی رد عمل کا شکار ہونا پڑا۔ تیجانی کے بقول شروع میں تو انہوں نے تیجانی نام کے کسی انسان کا ہی، جو سنی سے شیعہ ہوا ہو، انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے دعوی کیا کہ کتاب ثم اھتدیت اسرائیلیوں کا کام ہے۔ ان میں سے بعض نے یہ بھی کہا کہ وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ وہ مرتد ہو چکا ہے۔[16]
حوالہ جات
- ↑ زندگی نامہ سید محمد تیجانی، وبگاه مرکز جهانی مستبصرین
- ↑ مشروح مصاحبہ فارس با علامہ تیجانی سماوی، وبگاه خبرگزاری فارس
- ↑ مشروح مصاحبہ فارس با علامہ تیجانی سماوی»، وبگاه خبرگزاری فارس
- ↑ مشروح مصاحبہ فارس با علامہ تیجانی سماوی»، وبگاه خبرگزاری فارس
- ↑ تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۱۱-۱۲.
- ↑ تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۱۲-۱۳
- ↑ تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۲۸-۲۹.
- ↑ تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۱۶-۱۷.
- ↑ تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۲۹-۳۱.
- ↑ تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۴۵-۴۶.
- ↑ تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۴۹.
- ↑ نگاه کریں: تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۵۳-۶۰.
- ↑ تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۷۶.
- ↑ نگاه کریں تیجانی، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم، ص۷۵.
- ↑ مجموعہ کتاب های دکتر محمد تیجانی، وبگاه تبیان
- ↑ مشروح مصاحبہ فارس با علامہ تیجانی سماوی، وبگاه خبرگزاری فارس
مآخذ
- تیجانی سماوی، سید محمد، ثم اهتدیت، منشورات مدینة العلم - آیة الله العظمی الخوئی، بیتا.
- چکیده اندیشہ ها، وبگاه بنیاد محقق طباطبایی، دیده شده در ۲۵ آبان ۱۳۹۹ش.
- زندگی نامہ سید محمد تیجانی، وبگاه مرکز جهانی مستبصرین، دیده شده در ۲۵ آبان ۱۳۹۹ش.
- مجموعہ کتاب های دکتر محمد تیجانی، وبگاه تبیان، ۶ آبان ۱۳۸۹ش، دیده شده در ۲۵ آبان ۱۳۹۹ش.
- مشروح مصاحبہ فارس با علامہ تیجانی سماوی، وبگاه خبرگزاری فارس، ۲۹ مهر ماه ۱۳۸۵ش، دیده شده در ۲۵ آبان ۱۳۹۹ش.