مندرجات کا رخ کریں

بعثت

ویکی شیعہ سے
(بعثت پیغمبر سے رجوع مکرر)

بعثت حضرت محمدؐ کے پیغمبری پر مبعوث ہونے اور آپؐ کی رسالت کے آغاز کو کہا جاتا ہے جو 27 رجب، چالیس عام الفیل کو واقع ہوا۔ اسی لئے شیعہ 27 رجب کو عید مبعث کے عنوان سے مناتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کی بعثت دین اسلام کا آغاز اور سرزمین حجاز سے بت پرستی کے خاتمے کی ابتدا تھی۔

بعثت کے معنی

بعثت خدا کی طرف سے کسی شخص کا پیغمبری کے لئے منتخب ہونے اور اس کی نبوت کے آغاز کو کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعثت تمام انبیاءؑ کا نبوت پر مبعوث ہونے کو کہا جاتا ہے لیکن اس لفظ سے حضرت محمدؐ کا انتخاب ذہن میں آتا ہے۔[1] اسی لئے اسلامی تہذیب میں مبعث یا عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن حضرت محمدؐ مبعوث بہ رسالت ہوئے۔[2]

غار حراء جہاں پیغمبر اکرمؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی

بعثت کا لفظ عربی میں مبعوث کرنے کے معنی میں آیا ہے۔[3] اسی طرح بھیجنے[4] اور روانہ کرنے کے معنی میں بھی یہ لفظ مستعمل ہے۔[5] بعثت کا لفظ قرآنی اصطلاح میں لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجنے کے معنی میں آیا ہے۔[6] اسی طرح قرآن کریم میں قیامت کے دن مردوں کے زندہ کیے جانے کو بھی بعثت سے تعبیر کیا گیا ہے۔[7]

پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کا زمان اور مکان

پیغمبر اکرمؐ 40 سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے جبکہ غیر مشہور قول کے مطابق 43 سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔[8] مورخین کے مطابق بعثت کا واقعہ پیر کے دن 27 رجب سنہ 40 عام الفیل کو پیش آیا۔ ان دنوں ایران میں خسرو پرویز کی حکومت بیسویں سال میں داخل ہو چکی تھی۔ بعض تاریخی اقوال کے مطابق 17 یا 18 رمضان، یا ربیع الاول کے مہینے کی کسی تاریخ کو مبعث کا واقعہ پیش آیا، اگرچہ اہل تشیع کے نزدیک 27 رجب کو ہی[9] رسول اکرمؐ غار حرا میں نبوت پر فائز ہوئے ہیں۔

رسول اللہ کی بعثت کے آغاز کا واقعہ

حضرت محمدؐ غار حراء میں عبادت میں مشغول تھے اسی اثنا میں سورہ علق کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور سورہ مدثر کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔[10]پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؑ اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؑ کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد سورہ شعراء کی آیت نمبر 214 وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ (ترجمہ: اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے) کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی اور اسی سال سورہ حجر کی آیت نمبر 94فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ (ترجمہ: پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو) کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ[یادداشت 1] میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ بلندی پر چڑھ کر اپنے نئے اشعار اور مختلف قصے سنانے میں مشغول تھے، عمومی طور پر دین اسلام کی دعوت دی۔[حوالہ درکار] ابو لہب اور بعض دوسرے افراد نے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپؐ کو اذیت وتکلیف پہنچائی لیکن حضرت ابوطالب نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کے شر کو آپؐ سے دور کیا۔[11]

وحی کے فرشتے کا نزول اور پیغمبر کرمؐ کا رد عمل

امام علیؑ

پیغمبرؐ ہر سال غار حراء میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا۔ اس وقت رسول اللہ اور (ام المومنین) حضرت خدیجہ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا۔ البتہ ان میں، میں تیسرا شخص تھا، میں وحی اور رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا۔

سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 190

حضرت محمدؐ پر پہلی مرتبہ وحی، جبرائیل لے کر آئے تو رسالت جیسی عظیم ذمہ داری کا بوجھ آپؐ پر سنگین ہونے جارہا تھا۔ رسول اکرمؐ بچپن سے ہی اپنی اندرونی پاکی اور مکہ کے فاسد معاشرے کی وجہ سے ہمیشہ شہر سے دور اکیلا ہی رہنا پسند فرماتے تھے۔ اسی لئے آپؐ ایک مہینہ مکے کے پہاڑوں پر گزارتے اور پھر شہر واپس لوٹتے۔ آپؐ نے عالم غیب کے بارے میں بھی کچھ خواب دیکھے ہوئے تھے، بعثت سے پہلے وحی کی آواز فرشتے کی زبانی سننا اور 3 سال اسرافیل اور 20 سال جبرائیل سے رابطہ برقرار رکھنے[12] کی وجہ سے آپ ذہنی طور پر پیغمبری کے لئے تیار تھے۔ البتہ کتب روائی میں بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ وحیکے ماحول اور فرشتوں سے رابطہ قائم کرنے کے لحاظ سے ناآشنا تھے؛ نزول وحی کےبعد رسول اکرمؐ کا تعجب کرنا، پریشان ہونا اور خوف طاری ہونا یا جن زدگی کا خوف محسوس کرنا، خدیجہ سے اس سلسلے میں مشورہ کرنا اور ورقہ بن نوفل سے پیغمبری پر مبعوث ہونے کی شہادت اور تائید لینا اور اس پر رسول اللہؐ کا سکون محسوس کرنا ان روایاتکے دوسرے مضامین ہیں۔[13]مذکورہ مضامین کی حامل روایات آپؐ کی رسالت کی اس بھاری ذمہ داری میں آپؐ کی بصیرت و بینش اور آپؐ کی رسالت کے لئے ہونے والی تربیت کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔[14]

مسلمانوں میں بعثت کی اہمیت

بعثت کا واقعہ مسلمانوں کی مذہبی رسومات میں ایک خاص منزلت رکھتا ہے۔ شیعہ 27 رجب کو عید مبعث کی مناسبت سے جشن مناتے ہیں۔ اہل سنت کے مطابق بعثت کا واقعہ ماہ مبارک رمضان میں پیش آیا لیکن چونکہ کوئی خاص تاریخ معین نہیں لہذا کوئی خاص جشن وغیرہ نہیں مناتے ہیں۔[حوالہ درکار] ایران اور عراق کے بعض صوبوں [15] میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔

اعمال

شب و روز کے اعمال

روایات میں مبعث کی رات اور دن کے بعض اعمال ذکر ہوئے ہیں جن کو انجام دینا مستحب ہے۔

مبعث کے دن اور رات کے اعمال
رات کے اعمال

بعثت کی شب کو لیلۃ المحیاٗ کہا جاتا ہے جو شب بیداری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ [16]

دن کے اعمال


حوالہ جات

  1. ملاحظہ ہو: مطیع، «بعثت»، ص79-280.
  2. ہمایی، «مبحث بعثت رسول اکرمؐ»، ص44.
  3. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، 1368شمسی، ج1، ص296.
  4. فراہیدی، کتاب العین، 1409ھ، ج2، ص112.
  5. راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ القرآن، 1412ھ، ص132-133.
  6. سورہ بقرہ، آیت 213؛ سورہ نحل، آیت 36؛ سورہ اسراء، آیت 17.
  7. سورہ یس، آیت 52؛ سورہ بقرہ، آیت 56؛ سورہ حج، آیت 7۔
  8. یعقوبی،احمد، تاریخ، جلد2، ص15؛ ابن اثیر، الکامل، جلد 2، ص46؛ ابن کثیر، السیرہ النبویہ، جلد 1، ص385
  9. مجلسی، بحارالأنوار، 1363شمسی، ص18، ص190؛ عاملی، الصحيح من سیرة النبی الأعظم، 1426ھ، ج2، ص290.
  10. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج1، ص236-237؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص16؛ طبری، تاریخ، ج2، ص298
  11. یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد 2، ص17- 18
  12. یعقوبی، تاریخ، ج2، ص16؛ نیز ابن اثیر، الکامل، ج2، ص46-50.
  13. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج1، ص238؛ یعقوبی، تاریخ، ج2، ص17؛ طبری، تاریخ، ج2، ص299
  14. مرتضی عاملی، الصحیح، 1426ھ، ج2، ص298-302؛ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص223-225.
  15. http://www.alshuhadaa.com/readtxt7186.htm
  16. دائرة المعارف تشیع، ج8، ص 176
  17. دائرة المعارف تشیع، ج8، ص 176

نوٹ

  1. عُکاظ مکہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ (عرفات کے قریب اور مکہ تک تین دن کا جبکہ طائف تک ایک دن کا راستہ تھا۔) لوگ پہلی مرتبہ یکم ذی القعدہ کو بازارِ عکاظ جاتے تھے اور 20 دن تک وہاں رہتے تھے۔ ان دنوں بازار میں بڑی بھیڑ رہتی تھی اور متعدد معاملے انجام پاتے تھے، شعرا اشعار پڑھتے تھے۔ عرب قبائل کے سردار وہاں جمع ہوکر ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے تھے اور کبھی عیش و نوش میں مشغول ہوتے تھے۔ یہ بازار طائف سے دس میل کے فاصلے پر صنعا کے راستے پر واقع تھا اور چونکہ جاہلیت کے حالات سے سازگار اور جاہلیت کے لئے قابل قبول بازار تھا اس لئے جاہلیت کا مشہور بازار شمار ہوتا تھا۔ ابن منظور، لسان العرب، ج7، ص448 نشر دارصادر، بيروت، طبع سوم1414ھ

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • نہج البلاغہ، ترجمہ عبد المحمد آیتی، تہران: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • ابن اثیر، الکامل۔
  • ابن کثیر، السیرہ النبویہ، بہ کوشش مصطفی عبد الواحد، بیروت، 383ھ /964ء۔
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرہ النبویہ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہرہ، 355ھ /936ء۔
  • راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، بہ کوشش محمد سید کیلانی، بیروت، دار المعرفہ۔
  • رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران: امیر کبیر، 1369۔
  • شہیدی، بعثت، در بعثت نامہ: مقالاتی دربارہ بعثت پیامبر اکرمؐ، گردآورندہ: محمد رصافی، تہران: صبح صادھ، 1383ہجری شمسی۔
  • طبری، تاریخ۔
  • مطیع، مہدی، بعثت، در دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج12 تہران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
  • ہمایی، جلال الدین، مبحث بعثت رسول اکرمؐ، در بعثت نامہ: مقالاتی دربارہ بعثت پیامبر اکرمؐ، گردآورندہ: محمد رصافی، تہران: صبح صادھ، 1383ہجری شمسی۔