"آیت تبلیغ" کے نسخوں کے درمیان فرق
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>S.J.Mosavi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 54: | سطر 54: | ||
[[fa:آیه تبلیغ]] | [[fa:آیه تبلیغ]] | ||
[[ar:آية التبليغ]] | |||
[[en:Verse of Tabligh]] | [[en:Verse of Tabligh]] | ||
[[fr:Verset du Tablîgh]] | [[fr:Verset du Tablîgh]] | ||
[[tr:Tebliğ Ayeti]] | [[tr:Tebliğ Ayeti]] | ||
[[es:Aleya al-Tabliq]] | [[es:Aleya al-Tabliq]] | ||
[[de:Tablīġ-Vers]] | |||
[[ru:Аят Таблиг "Донесение"]] | |||
[[id:Ayat Tabligh]] | [[id:Ayat Tabligh]] | ||
{{امامت}} | {{امامت}} | ||
{{امام علی علیہ السلام}} | {{امام علی علیہ السلام}} |
نسخہ بمطابق 13:24، 30 اپريل 2018ء
اس تحریر کو بہتر حالت میں دیکھنے کیلئے نستعلیق فونٹ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے)۔
|
آیت تبلیغ سورہ مائدہ کی 67ویں آیت ہے۔[1]۔شیعہ نکتہ نظر کے مطابق یہ آیت غدیر خم کے مقام پر 18 ذی الحج کو نازل ہوئی جس کے بعد رسول اللہ نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان کیا اور اپنے بعد اس امت اسلامی کی رہنمائی اور رہبری کا فرض حضرت علی کے حوالے کیا ۔
الفاظِ آیت
- يَاأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَاأُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے پیغمبرۖ جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے کامل طور سے (لوگوں تک) پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو گویا آپ نے کار رسالت سر انجام ہی نہیں دیا اور خداوند تعالیٰ لوگوں (کے ممکنہ خطرات) سے آپ کو محفوظ رکھے گا۔
شأن نزول
یہ آیت حجۃ الوداع سے واپسی کے دوران 18 ذو الحجہ کے دن غدیر خم کے مقام پر رسول اللہ(ص) کی طرف سے امام علی(ع) کی جانشینی کے اعلان کی خاطر نازل ہوئی ہے۔[2]
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے اسلام کے خلاف منافقین کی سازش کے پیش نظر امام علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کو مؤخر کیا تو وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور اس آیت کے ضمن میں اعلان ولایت پر زور دیا اور اور اللہ کا یہ وعدہ پہنچایا کہ خدا خود آنحضرت کو منافقین کی گزند سے محفوظ رکھے گا۔ [3]
سبب نزول
شیعہ مآخذوں کے مطابق حج کے موقع پر جبرائیل رسول اکرم کے پاس تشریف لائے اور لوگوں سے حضرت علی کی جانشینی کیلئے بیعت لینے کا تقاضا کیا لیکن رسول اللہ نے نفاق اور بعض صحابہ ک دشمنی کے پیش نظر خدا وند کریم سے حفظ و امان کی دعا کی ۔جبرائیل دوبارہ مسجد خیف کے مقام پر رسول اللہ پر نازل ہوئے اور آپ سے لوگوں تک اس پیغام کے ابلاغ کا تقاضا کیا لیکن اس بار بھی جبرائیل لوگوں سے حفظ و امان کی ضمانت کے بغیر نازل ہوئے ۔جبرائیل تیسری مرتبہ مکہ اور مدینہ کے درمیان اسی پیغام کے ساتھ آئے ۔ جس کے جواب میں رسول اللہ نے فرمایا : مبادا لوگ جانشینی علی کے حکم کو جھوٹ سمجھیں اور مجھے جٹلا دیں۔جبرائیل چوتھی مرتبہ غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئے حکم الہی کی تکرار کے ساتھ لوگوں سے حفظ و امان کی خوشخبری بھی ساتھ لائے اور منافقان کی جانب سے کسی قسم کے نقصان نہ پہنچنے کی خوشخبری بھی سنائی۔[4]
دیگر احتمالات
حیات علویہ تاریخ کے آئینے میں | ||
---|---|---|
599ء | ولادت | |
610ء | سب سے پہلے رسول اللہؐ پر ایمان لائے | |
619ء | حضرت ابو طالبؑ (والد) کی وفات | |
622ء | لیلۃ المبیت: رسول اللہؐ کے بستر پر سونا | |
622ء | ہجرت مدینہ | |
2ھ624ء | جنگ بدر میں شرکت | |
3ھ-625ء | جنگ احد میں شرکت | |
4ھ-626ء | (والدہ) فاطمہ بنت اسد کی وفات | |
5ھ-627ء | غزوہ احزاب میں شرکت اور عمرو بن عبدود کو قتل کرنا | |
6ھ-628ء | رسول خداؐ کے حکم پر صلح حدیبیہ کے متن کی تحریر | |
7ھ-629ء | غزوہ خیبر؛ قلعہ خیبر کے فاتح | |
8ھ-630ء | فتح مکہ میں شرکت اور حضورؐ کے حکم پر بتوں کو توڑنا | |
9ھ-632ء | غزوہ تبوک میں رسول اللہؐ کی مدینہ میں جانشینی | |
10ھ-632ء | حجۃ الوداع میں شرکت | |
10ھ-632ء | واقعہ غدیر خم | |
11ھ-632ء | رسول خداؐ کی وفات اور آپ کی تغسیل و تکفین | |
11ھ-632ء | سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ اور ابوبکر کی خلافت کا آغاز | |
11ھ-632ء | (زوجہ) حضرت زہراؑ کی شہادت | |
13ھ-634ء | عمر بن خطاب کی خلافت کا آغاز | |
23ھ-644ء | خلیفہ کے تعین کے لئے عمر کی چھ رکنی شوری میں شرکت | |
23ھ-644ء | عثمان کی خلافت کا آغاز | |
35ھ-655ء | لوگوں کی بیعت اور حکومت کا آغاز | |
36ھ-656ء | جنگ جمل | |
37ھ-657ء | جنگ صفین | |
38ھ-658ء | جنگ نہروان | |
40ھ-661ء | شہادت |
- بعض کا خیال ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا مقصد مشرکین اور کفار کو حقائق دین پہنچانا تھا ۔بعض روایات کے مطابق رسول اللہ کی حفاظت کیلئے افراد معین کئے گئے تھے اسکے باوجقد جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپنے فرمایا :خدا مجھے دشمنوں سے حفظ و امان میں رکھے گا نیز آپ کو کفار و مشرکوں تک حقائق دین پہچانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔[5]
اس نظرئے کی تردید کرتے ہوئے بعض نے کہا ہے: مفسرین اس بات پر متفق ہیں سورۂ مائدہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے[6] نیز عبد اللہ بن عمر کی روایات کے مطابق سورت مائدہ آخری نازل ہونے والی سورت ہے[7]۔اس آیت کے مکہ میں نازل ہونے والا فرض درست نہیں ہے کیونکہ یہ فرض اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ آیت کسی سورت کے ساتھ ملحق ہوئے بغیر سالوں تک باقی رہے اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ اسے اکیلا تلاوت کیا جائے[8] ۔ بعض نے مکہ میں رسول اللہ کی جان کی حفاظت سے متعلق روایات کو غریب اور منکر کہا ہے ۔[9]
- جیسا کہ بعض نے لکھا ہے کہ یہ سورہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور اس کا مقصد رسول اللہ کو موظف کرنا تھا کہ وہ کسی واہمہ کے بغیر اہل کتاب کو وحی کے حقائق ابلاغ کریں [10]۔ابو حیان نے کہا ہے کہ رسول اللہ کو اس آیت کے ذریعے کہا گیا کہ وہ رجم اور قصاص کے حکم کو یہودیوں اور مسیحوں کو پہنچائیں کیونکہ انہوں نے تورات و انجیل میں ان احکام میں تحریف کی تھی ۔ [11] اس نے اس آیت سے پہلی اور بعد والی آیات کو دیکھتے ہوئے کہا وہ آیات اہل کتاب سے مربوط ہیں آیت کا موضوع پہلے اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں ہونا چاہئے ۔
تاریخی مآخذوں کے مطابق مسلمانوں کی یہودیوں سے جنگ خیبر اور جنگ بنی قریظہ میں انکے قلعوں پر قبضے ، کچھ کی مدینہ بدری کے بعد ان کا غرور اور زور ٹوٹ گیا تھا جبکہ مسیح عرب اور خاص طور پر مدینہ میں اس قدر قدرت مند نہیں تھے وہ صرف مباہلے میں مسلمانوں کے سامنے لیکن پھر خود ہی انکی فرمائش پر یہ مباہلہ بھی نہ ہوا ۔ پس ان حقائق کی روشنی میں رسول خدا کو انکی نسبت کسی قسم کا خوف اور پریشانی لاحق نہیں تھی کہ جو کسی قسم کے پیغام کو ان تک ابلاغ کرنے میں رکاوٹ بنے ۔اسکے علاوہ مذکورہ آیت موضوع کے لحاظ سے پہلی اور بعد والی آیات سے اجنبی نہیں بلکہ سازگار ہے کیونکہ مذکورہ آیت سے پہلی اور بعد والی آیات یہودیوں اور نصارا کی نکوہش بیان کر رہی ہیں چونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ رسول خدا کی رحلت کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قدرت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انہیں دوبارہ نفوذ و قدرت حاصل کرنے کا موقع فراہم ہو گا ۔ لیکن اس آیت تبلیغ میں امت اسلامیہ کی رہبری کے تعین کے ذریعے ان کے اس خیال کا بطلان کو ظاہر کیا گیا نیز یہ مطلب آیت تکمیل دین کے ساتھ مکمل طور پر سازگار ہے ۔[12]
اہم نکات
آیت متعلقہ پیغام کی اہمیت اور اسکی حساسیت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ پیغام نہ پہنچانے کی صورت میں کہا جارہا ہے کہ اے رسول! آپ نے کوئی رسالت کا کام ہی انجام نہیں دیا ہے ۔گویا یہ پیغام قدر وقیمت کے لحاظ سے نبوت اور رسالت کے برابر ہے ۔سورہ مائدہ کے آخری نازل ہونے والی سورت کی وجہ سے یہ تصور نہیں کیا جا سکتا وہ پیغام توحید ،نبوت، قیامت یا فروعی مسائل نماز روزہ حج جیسے احکام سے متعلق ہو ۔کیونکہ ان تمام چیزوں کے احکام اس سے پہلے نازل ہو چکے تھے ۔کہا جا سکتا ہے کہ رسالت کے آخری ایام میں ایک ایسی چیز کا مرحلہ آ چکا تھا کہ جو خود رسالت کا نعم البدل تھا اور وہ چیز رسول اللہ کے وصال کے بعد امت اسلامی کی رہبری کے مسئلے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا ۔
رسول اللہ کی پریشانی
موضوع کی اہمیت کے پیش نظر رسولخدا ابلاغ ِپیغام سے پریشان تھے۔لیکن خدا نے واللّهُ یعْصِمُکَ مِنَ الناس کے ذریعے اس پریشانی کو دور فرمایا ۔اس بات کے پیش نظر کہ آیت کا شان نزول اہل کتاب اور مشرکان قریش کے متعلق نہیں ہے ،واضح ہوتا ہے کہ آیت تبلیغ میں الناس سے مراد اسلامی معاشرے میں موجود منافقین ہیں اور رسول خدا حضرت علی کی جانشینی کے اعلان کے بعد انکی جانب سے مخالفت کی وجہ سے پریشان تھے کیونکہ :
- حضرت علی عاطفانہ رویے سے زیر نہ ہونے والے اور ایک قاطع شخص کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ۔[13]
- نئے مسلمانوں کے دلوں میں حضرت علی کی نسبت کینہ موجود تھا چونکہ کثر جنگوں میں حضرت علی نے انکے عزیزوں اور اقربا کو قتل کیا تھا ۔
- حضرت رسول ختمی مرتبت کی وصال کے وقت حضرت کا سن صرف 33 سال تھا ۔ایک ایسا معاشرہ جس میں سن رسیدگی ایک نہایت اہم عامل ہو۔ اس کی موجودگی میں ایک نوجوان کی رہبری کو قبول کرنا اتنا آسان مسئلہ نہیں تھا ۔جبکہ رسول اکرم ؐ نے جنگ تبوک کے موقع پر مدینہ میں حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کرنے اور اپنی عمر کے آخری لمحات میں اسامہ بن زید کو لشکر کا سپہ سالار بنا کر اس کا اظہار کر چکے تھے ۔[14]
حوالہ جات
- ↑ الراضی، ص54؛ مکارم شیرازی، ج5، ص4.
- ↑ واحدی، ص165؛ سیوطی، ج3، ص117؛ نیشابوری، ج1، ص250؛ کلینی، ج1 ص290 ح 6؛ صدوق، معانی الاخبار؛ عیاشی، ج1 ص233 ح 154؛ بحرانی، ج1 ص490 ح 11
- ↑ عیاشی، ج1 ص331 ح 152.
- ↑ فضل طبرسی،3/344حاکم حسکانی سے منقول ہے۔
- ↑ طبری، جامع، ج۴، جزء ۶، ص۱۹۸ـ ۱۹۹؛ ثعالبی، ج۱، ص۴۴۲؛ سیوطی، ج۲، ص۲۹۸
- ↑ ابن عطیہ،5/5۔قرطبی ،ج3 ج 6 ص 30۔
- ↑ ترمذی،5/268۔طوسی،3/413۔
- ↑ ابن عاشور،6/256
- ↑ ابن کثیر3/132۔
- ↑ طبری، جامع، ج ۴، جزء ۶، ص ۱۹۸؛ فخر رازی، ج ۱۲، ص ۵۰؛ ابوحیان، ج ۳، ص ۵۲۹
- ↑ ابوحیان، ج ۳، ص ۵۲۹
- ↑ طوسی، ج ۳، ص ۴۳۵ ۔ فضل طبرسی، ۱۴۰۸، ج ۳، ص ۲۴۶ ۔ حویزی، ج ۱، ص ۵۸۷ ـ۵۹۰
- ↑ ابوالفتوح رازی، ج۴، ص۲۷۶
- ↑ طبری،تاریخ طبری،3/186۔ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،1/159۔
مآخذ
- الراضی، حسین، سبیل النجاة فی تتمہ المراجعات، بیروت [بینا]، 1402 ہجری۔
- بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم: مؤسسہ البعثہ، 1415 ہجری۔
- سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت: دارالفکر، 1414 ہجری۔
- شیخ صدوق، معانیالاخبار، ترجمہ:عبدالعلی محمدی، تہران: دار الکتب الاسلامیہ 1372 ہجری شمسی۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، بہ کوشش رسولی محلاتی، تہران، المکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، [بیتا]۔
- کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، به کوشش علی اکبر غفاری، بیروت: دارالتعارف، 1401 ہجری۔
- مکارم شیرازی، ناصر و دیگران، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1375 ہجری شمسی۔
- نیشابوری، حاکم، شواہدالتنزیل، بہ کوشش محمد باقر محمودی، تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1411 ہجری۔
- واحدی، علی بن احمد، اسباب النزول، بہ کوشش ایمن صالح شعبان، قاہرة: دارالحدیث، [بیتا]۔