ام ہانی

ویکی شیعہ سے
(جمانہ بنت ابی طالب سے رجوع مکرر)
ام ہانی بنت ابی طالب
کوائف
مکمل نامفاختہ، جمانہ، ہند
کنیتام ہانی
جائے پیدائشمکہ
محل زندگیمکہ و مدینہ
نسب/قبیلہبنی ہاشم
اقاربابو طالب (والد) • فاطمہ بنت اسد (والدہ) • امام علیؑ (بھائی) • پیغمبر اکرمؐ (چچازاد)
وفاتمدینہ
دینی معلومات
اسلام لانافتح مکہ کے بعد
وجہ شہرتپیغمبر اکرمؐ کی صحابیات اور خواتین راویوں میں سے تھیں
نمایاں کارنامےواقعہ غدیر اور حدیث ثقلین کے راویوں میں سے ہیں


اُم‌ّ ہانِی بنت ابی طالب امام علیؑ کی بہن اور پیغمبر اکرمؐ کی صحابیات میں سے ہیں۔ مورخین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے معراج کے سفر کا آغاز ام‌ ہانی کے گھر سے کیا۔ فتح مکہ کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ام‌ ہانی کے گھر میں پناہ لینے والوں کو بخش دیا۔ بعض مورخین کے مطابق ام ہانی نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا؛ لیکن قاضی نعمان مغربی نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کی رو سے آپ ہمیشہ خدائے واحد کی پرستش کیا کرتی تھی۔ ام‌ ہانی حدیث غدیر اور حدیث ثَقَلین کے راویوں میں سے ہیں۔ اسی طرح آپ واقعہ فدک میں حضرت فاطمہ(س) اور ابو بکر کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کے بھی راوی ہیں۔ ام‌ ہانی کا بیٹا جَعدَۃ بن ہُبَیرَہ خراسان میں امام علیؑ کے عمال میں سے تھا۔

اجمالی تعارف

ام‌ ہانی حضرت ابو طالب اور فاطمہ بنت اسد کی بیٹی اور امام علیؑ کی بہن ہیں۔[1] ابن‌ عباس سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے آپ کی کنیت اُم‌ِّ ہانی رکھا تھا۔[2] آپ کا نام فاخِتہ یا بعض کے مطابق جُمانہ یا ہند ہے۔[3]

اہل‌ سنت عالم دین ابن‌ عبد البر جو سیرت صحابہ پر قلم فرسائی کرنے والوں میں سے ہے، کے مطابق ام‌ ہانی نے فتح مکہ کے بعد اسلام کیا؛[4] لیکن کتاب شرح الاخبار قاضی نعمان میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول حدیث کے مطابق آپ ہمیشہ یکتا پرست تھیں۔[5]

آپ کی اولاد میں ہانی، عمر، یوسف اور جَعدَہ کا نام لیا جاتا ہے۔[6] آپ کا شوہر ہُبَيْرَۃ بن ابی‌ وہب پیغمبر اکرمؐ کو تکلیف اور اذیت پہنچانے والوں میں سے تھا۔[7]

پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک ام ہانی کا مقام

کتاب الطبقات الکبری میں ابن‌ سعد کے مطابق پیغمبر اکرمؐ شب معراج کو ام‌ ہانی کے گھر تشریف فرما تھے اور معراج سے واپسی پر بھی آپؐ ام‌ ہانی کے گھر تشریف لے گئے۔[8] اسی طرح لیلۃ المبیت کو پیغمبر اکرمؐ سَحَر تک ام‌ ہانی کے گھر میں تشریف فرما تھے اور وہیں سے مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز کیا۔[9] ابن‌ ہشام نے کتاب السیرۃ النبویہ میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے فتح مکہ کے وقت ام ہانی کے گھر میں پناہ لینے والے دو مشرکوں کو بخش دئے جانے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[10]

پیغمبر اکرمؐ سے مروی ایک حدیث میں آپؐ نے ام‌ ہانی کو اہل بہشت[11] اور بہترین عورتوں[12] میں سے قرار دیا ہے۔ مسجد الحرام کے دروازوں میں سے ایک کا نام بھی دروازہ ام‌ ہانی رکھا گیا ہے[13]

پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے رشتہ مانگنا

کتاب «الطبقات الکبری» میں ابن‌ سعد کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے دو دفعہ ام‌ ہانی کا رشتہ مانگا؛ پہلی دفعہ ہبیرہ سے شادی سے پہلے اور دوسری دفعہ فتح مکہ کے موقع پر ام‌ ہانی کے اسلام لانے کی وجہ سے ان کے شوہر سے جدائی کے بعد۔[14] ابن‌ سعد کے مطابق ام‌ ہانی نے دونوں دفعہ پیغمبر اکرمؐ کی درخواست کو مسترد کیا۔ پہلی دفعہ خاندانی رسم کے مطابق ہبیرہ کے ساتھ شادی کے بہانے جبکہ دوسری دفعہ پیغمبر اکرمؐ پر ایمان اور قلبی اعتقاد کی بنا پر آپؐ کو تکلیف پہنچانے کے ڈر سے آپ کی درخواست کو مسترد کیا۔[15] ان تمام باتوں کے باوجود کتاب رجال بَرْقی کے مصنف نے ام‌ ہانی کو ازواج پیغمبر اکرمؐ میں شمار کیا ہے۔[16]

بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ ام‌ ہانی کے شوہر ہبیرہ فتح مکہ کے بعد نجران فرار کر گیا اور وہیں پر کُفر کی حالت میں اس دنیا سے چلا گیا۔[17] جبکہ بعض کے مطابق ہبیرہ جنگ خندق میں مارا گیا تھا۔[18]

ام‌ ہانی امام علیؑ کی حکومت میں

شیخ مفید نے کتاب الجَمَل میں ام‌ ہانی کے نام امام علیؑ کا ایک خط نقل کیا ہے جس میں جنگ جَمَل کے واقعات اور طَلْحہ و زُبیر کے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[19] اسی طرح کتاب الاختصاص میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس میں امام علیؑ ام ہانی کو بیت‌ المال کے بے جا استعمال کی ممانعت کرتے ہیں جس پر ام ہانی امام علیؑ پر ناراض ہوتی ہیں اور امام علیؑ اس واقعے کو عدالت برقرار کرنے کا لازمہ قرار دیتے ہیں۔[20] ام ہانی کے فرزند جَعدَہ خراسان میں امام علیؑ کے عمال میں سے تھا اور جنگ صِفَّین میں بھی وہ امام علیؑ کے لشکر میں شامل تھا۔[21]

علم رجال میں ام ہانی کا مقام

شیعہ اور اہل‌ سنت منابع میں متعدد احادیث ام‌ ہانی سے نقل ہوئی ہیں۔ بعض کے مطابق ان کی تعداد 112 احادیث تک پہنچتی ہیں۔[22] قُندوزی یَنابیع المَوَدّہ میں ام‌ ہانی کو حدیث ثقلین کے راویوں میں شمار کرتے ہیں۔[23] اسی طرح اس کتاب کے مصنف کے مطابق آپ حَجّۃ الوداع میں بھی حاضر تھیں اور واقعہ غدیر کے راویوں میں سے بھی ہیں۔[24] ام‌ ہانی واقعہ فدک میں پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) اور ابو بکر کے اختلاف کے راوی بھی ہیں۔[25]

حوالہ جات

  1. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص120؛ خرگوشی، شرف المصطفی، 1424ھ، ج2، ص44۔
  2. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص120۔
  3. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص120؛ خرگوشی، شرف المصطفی، 1424ھ، ج2، ص44۔
  4. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1963۔
  5. قاضی نعمان، شرح الاخبار، 1409ھ، ج1، ص120۔
  6. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص120۔
  7. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص120۔
  8. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص166و167۔
  9. کراجکی، کنزالفوائد، 1410ھ، ص206۔
  10. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، بیروت، ج2، ص411۔
  11. محمدی ری‌شہری، موسوعۃ الامام الحسینؑ، 1431ھ، ج1، ص332؛ قاضی نعمان، شرح الاخبار، 1409ھ، ج1، ص120۔
  12. محمدی ری‌شہری، موسوعۃ الامام الحسینؑ، 1431ھ، ج1، ص331۔
  13. خرگوشی، شرف المصطفی، 1424ھ، ج2، ص44۔
  14. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص120۔
  15. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص120۔
  16. برقی، رجال برقی،1430ھ، ص378۔
  17. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1422ھ، ج4، ص1963۔
  18. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج10، ص242۔
  19. شیخ مفید، الجمل، 1413ھ، ص397۔
  20. شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص151۔
  21. قاضی نعمان، شرح الاخبار، 1414ھ۔ ج3، ص244۔
  22. غروی نائینی، محدثات شیعہ، 1375ہجری شمسی، ص339۔
  23. قندوزی، ینابیع المودۃ، 1422ھ، ج1، ص123۔
  24. سید بن طاووس، الطرائف، 1400، ص140و 141؛ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج1، ص18۔
  25. بلاذری، فتوح البلدان، 1956م، ج1، ص35-36۔

مآخذ

  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1422ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ھ۔
  • برقی، احمد بن محمد، رجال برقی، قم، مؤسسۃ الامام الصادقؑ، 1430ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، قاہرہ، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، 1956ء۔
  • خرگوشی نیشابوری، عبدالملک بن محمد، مناحل الشفا و مناہل الصفا بتحقیق کتاب شرف المصطفی، مکہ، دارالبشائر الاسلامیۃ، 1424ھ۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، الطرائف فی معرفۃ مذہب الطوائف، قم، خیام، 1400ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی الحرب البصرۃ، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • غروی نائینی، نہلہ، محدثات شیعہ، تہران، دانشگاہ تربیت مدرس، 1375ہجری شمسی۔
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1414ھ۔
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربی، قم، دارالاسوۃ للطباعۃ و النشر، 1422ھ۔
  • کراجکی، محمد بن علی، کنزالفوائد، قم دارالذخائر، 1410ھ۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، موسوعۃ الامام الحسینؑ، قم، مؤسسہ دارالحدیث، 1431ھ۔