آیت ولایت
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیت ولایت |
سورہ | مائدہ |
آیت نمبر | 55 |
پارہ | 6 |
صفحہ نمبر | 117 |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | عقائد |
مضمون | امامت امام علی علیہ السلام |
مربوط آیات | آیت تبلیغ و آیت اکمال |
آیت ولایت، سورہ مائدہ کی 55ویں آیت کو کہا جاتا ہے جس میں خدا، پیغمبر اکرمؐ اور نماز قائم کرنے اور زکات ادا کرنے والے مؤمنین کی ولایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت اس آیت کی شأن نزول کو امام علیؑ کی حالت رکوع میں صدقہ دینا قرار دیتے ہیں۔ اور اسی بنا پر شیعہ حضرت علیؑ کی امامت و ولایت کو اثبات کرنے کے لئے اس آیت سے استناد کرتے ہیں۔
اہل سنت کی اکثریت لفظ "ولیّ" کو "دوست" کے معنی میں لیتے ہوئے حضرت علیؑ کی امامت و ولایت پر اس آیت کی دلالت کا انکار کرتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں شیعہ علماء کہتے ہیں کہ آیت کی شأن نزول اور ولی کے مصداق کو مذکورہ موارد میں محصور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس آیت میں لفظ ولی کا معنی دوست نہیں بلکہ ولایت و سرپرستی ہی ہے۔
آیت کا متن اور ترجمہ
إِنّما وَلیکُمُ اللهُ و رَسولُهُ والّذینَ ءَامَنوا الَّذینَ یقِیمُونَ الصَّلوةَ و یؤتُونَ الزَّکوة و هُم راکِعونَ
ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
سورہ مائدہ: آیت 55
شأن نزول
شیعہ اور اہل سنّت مآخذ میں بہت ساری احادیث اور روایات موجود ہیں جن کے مطابق یہ آیت امام علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ان احادیث کے مطابق ایک فقیر مسجد النبی میں داخل ہوا اور مسجد میں موجود افراد سے کمک کی درخواست کی لیکن کسی نے اسے کچھ نہ دیا۔ اتنے میں اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے کہا: خدایا تو گواہ رہنا میں نے تیرے رسول کے مسجد میں کمک کی درخواست کی لیکن کسی نے مجھے کچھ نہ دیا۔ اسی اثنا میں حضرت علیؑ نے جو نماز میں رکوع کی حالت میں تھے، اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ فقیر آپؑ کے پاس گیا اور آپؑ کی انگلی سے انگوٹھی نکال لی اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی۔[1]
شأن نزول کے راویاں
یہ شأن نزول اہل تشیع اور اہل سنت کے مختلف مآخذ میں موجود ہے۔ اصحاب میں سے جنہوں نے اسے نقل کیا ہے منجملہ ان میں :امام علیؑ، [2] عبداللّہ بن عبّاس،[3] ابو رافع مدنی،[4] عمّار یاسر،[5] ابوذر غفاری،[6] انس بن مالک[7] و مقداد بن اسود ہبں [8]. تابعین میں سے مسلمۃ بن کہیل[9]، عتبۃ بن ابی حکیم[10]، سُدّی[11] اور مجاہد[12] نے بھی اس شان نزول کو نقل کیا ہے۔
آیت کی دلالت
شیعوں کے ہاں اس آیت کے امام علیؑ کی شان میں نازل ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں نہیں ہے اور اہل سنت کے ہاں بھی احادیث کی تعداد اس قدر زیادہ ہیں کہ اہل سنت کے مشہور متکلم قاضی ایجی اپنی کتاب المواقف میں تصریح کرتا ہے کہ مفسرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت امام علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ [13] اس کے علاوہ جرجانی نے شرح مواقف میں [14]، سعدالدین تفتازانی نے شرح مقاصد میں [15] اور قوشچی نے شرح تجرید میں [16] اس اجماع اور اتفاق کا اعتراف کیا ہے۔
اہل سنت کے بڑے بڑے محدّثین نے مختلف ادوار میں ان روایات کو اپنی کتابوں میں ذکر کئے ہیں جن میں: حافظ عبدالرزاق صنعانی، حافظ عبد بن حمید، حافظ رزین بن معاویہ، حافظ نسائی، حافظ محمد بن جریر طبری، ابن ابی حاتم، ابن عساکر، ابوبکر بن مردویہ، ابو القاسم طبرانی، خطیب بغدادی، ہیثمی، ابن جوزی، محب طبری، جلال الدین سیوطی اور متقی ہندی[17]. آلوسی نے بھی کہا ہے: اکثر اخباری حضرات اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت امام علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[18]
حضرت علیؑ کی امامت پر دلالت
اہل تشیع اس آیت کے ذریعے حضرت علیؑ کی ولایت و امامت پر استدلال کرتے ہیں۔[19] یہاں تک کہ بعض حضرات نے اس آیت کو آپؑ کی امامت پر سب سے زیادہ محکم دلیل قرار دیتے ہیں۔[20]
استدلال کی کیفیت اس طرح ہے کہ یہ آیت "إِنّما" کے ساتھ شروع ہوئی ہے جس کے بارے میں لغت کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ لفظ "انحصار" پر دلالت کرتا ہے۔[21]. "ولی" کا لفظ جو "ولایت" کے لفظ سے مشتق ہوا ہے سرپرستی اور صاحب اختیار کے معنی میں ہے۔ ابن منظور ولی کی تعریف میں کہتے ہیں: یتیم کا ولی وہ شخص ہے جو اس کے کاموں کی نگرانی اور اس کے کاموں کو انجام دیتا ہے اسی طرح عورت کا ولی وہ شخص ہے جو اس کے عقد و نکاح وغیرہ کی سرپرستی کرتا ہے۔[22]. "فیومی" اس بارے میں لکھتا ہے: کسی شخص کا ولی وہ ہے جو اس کے کاموں کو انجام دینے کا ذمہ دار ہے ۔[23] پس ماہرین لغت کے ان بیانات سے ہم یہ استفادہ کر سکتے ہیں کہ "ولایت" کے معنی دوسروں کی سرپرستی اور انکے کاموں کی ذمہ داری قبول کرنے کو کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف سے کلینی نے اپنی کتاب کافی میں امام باقرؑ سے ایک روایت نقل کیا ہے اس میں یوں آیا ہے: خدا نے پیغمبر اکرم(ص) پر حضرت علیؑ کی ولایت کے بارے میں یوں حکم صادر فرمایا ہے: "إِنَّما وَلِیکُم اللّهُ و رَسولُه والّذینَ ءَامَنوا..."[24] اور خدا نے اولی الامر کی ولایت کو واجب قرار دیا ہے۔ وہ لوگ اس ولایت کی حقیقت کو نہیں جانتے تھے کیا اس کی حقیقت کیا ہے؟ پس خدا نے محمد(ص) پر یہ حکم نازل فرمایا کہ لوگوں کیلئےاس ولایت کی تفسیر کریں؛ جس طرح نماز ، زکات ، روزہ اور حج وغیرہ کی تفسیر کرتے ہیں۔ جب خدا کا یہ حکم پہنچا تو آنحضرت محزون اور پریشان ہو گئے مبادا لوگ دین سے منہ پھیر دے، لہذا آپ نے خدا سے التجا کیا تو خدا نے یوں امر فرمایا:"یا أیهَا الرَّسولُ بَلّغ مَا أُنزِلَ إِلیکَ مِن رَبّکَ وَ إِن لَم تَفعَل فَما بَلّغتَ رِسالتَه واللّهُ یعصِمُکَ مِن النّاسِ" ترجمہ: اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔[25] اس وقت آنحضرت نے ولایت کے بارے میں خدا کے فرمان کو لوگوں پر آشکار کیا اور غدیر خم میں 18 ذی الحجہ کو حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ جو حاضر ہیں وہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں حاضر نیہں ہیں۔[26]. عیاشی نے بھی ایک روایت کو تقریبا اسی مضمون میں امام صادقؑ سے نقل کیا ہے۔[27].
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ احقاق الحق، ج ۲، ص۳۹۹؛ شواہد التنزیل، ج ۱، ص۲۰۹- ۲۳۹؛ مجمع البیان، ج ۳، ص۳۲۴ و ۳۲۵.
- ↑ شواہد التنزیل، ج ۱، ص۲۲۶؛ الدرّالمنثور، ج ۳، ص۱۰۶؛ المراجعات، ص۲۳۰.
- ↑ شواہد التنزیل، ج ۱، ص۲۳۲.
- ↑ طبرانى، (م: 360 ق)، المعجم الکبیر، ج 1، ص 320- 321، حدیث 955 ۹
- ↑ الدرّ المنثور، ج ۳، ص۱۰۶.
- ↑ التفسیر الکبیر: ج 12، ص 26؛ فرائد السمطین، ج ۱، ص۱۹۴.
- ↑ شواہد التنزیل، ج ۱، ص۲۲۵.
- ↑ شواہد التنزیل، ج ۱، ص۲۲۸.
- ↑ الدرّ المنثور، ج ۳، ص۱۰۵.
- ↑ ابن ابى حاتم، عبد الرحمن،ج 4، ص 1162، .
- ↑ جامع البیان، مج ۴، ج ۶، ص۳۸۹.
- ↑ جامع البیان، مج ۴، ج ۶، ص۳۹۰؛ جصاص، ابى بکر (م 370 ق)، احکام القران: ج 2، ص 625
- ↑ شرح المواقف، 405
- ↑ شرح المواقف، 405.
- ↑ شرح المقاصد، ج ۵، ص۲۰۷.
- ↑ شرح تجرید، قوشچی، ص۳۶۸.
- ↑ آیۃ الولایۃ، ص۱۲؛ احقاق الحق، ج ۲، ص۳۹۹- ۴۰۷.
- ↑ روح المعانی، مج ۴، ج ۶، ص۲۴۴.
- ↑ الافصاح فی الامامۃ، ص۱۳۴ و ۲۱۷؛ التبیان، ج ۳، ص۵۵۹؛ روح المعانی، مج ۴، ج ۶، ص۲۴۵.
- ↑ تلخیص الشافی، ج ۲، ص۱۰.
- ↑ لسان العرب، ج ۱، ص۲۴۵؛ الصحاح، ج ۵، ص۲۰۷۳.
- ↑ لسان العرب، ج ۱۵، ص۴۰۱.
- ↑ المصباح المنیر، ج ۲، ص۶۷۲.
- ↑ (مائدہ/ ۵۵)
- ↑ (مائدہ، 67)
- ↑ الکافی، ج ۱، ص۲۸۹.
- ↑ عیاشی، ج ۱، ص۳۳۳.
مآخذ
- ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم مسندا عن رسول اللہ والصحابۃ والتابعین، تحقیق اسعد محمد الطیب، چاپ دوم، بیروت، المکتبۃ العصریۃ، 1419 ق.
- ابن تیمیہ، احمد، تفسیر الکبیر، تحقیق: عبد الرحمن عمیرہ، چاپ اول، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1408 ق.
- ایجی، عبد الرحمن، المواقف فى علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، بى تا.
- حاکم حسکانی، عبید اللہ، شواہدالتنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمد باقر المحمودى، چاپ دوم، قم، مجمع احیاءالثقافۃ الاسلامیۃ، 1411 ق.
- جصاص، ابو بکر احمد الرازى، احکام القرآن، تحقیق: صدقى محمد جمیل، مکہ، المکتبۃ التجاریۃ، بى تا.
- سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فى التفسیر بالماثور، بیروت، دار الفکر، 1403 ق .
- شیخ طوسی، تلخیص الشافی، انتشارات المحبین، قم، 1382ش، چاپ اول.
- طبرانی، سلیمان احمد، المعجم الکبیر، تحقیق: حمدى عبد المجید السلفى، چاپ دوم، بیروت، دار احیاء التراث، بى تا.
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل آى القرآن، بیروت، دار الفکر، 1408 ق.