مندرجات کا رخ کریں

سورہ نساء آیت 171

ویکی شیعہ سے
سورہ نساء کی آیت نمبر 171
آیت کی خصوصیات
سورہنساء
آیت نمبر171
پارہ6
شان نزولحضرت عیسی کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے مسیحیوں کے بارے میں
موضوعخدا کی یکتائی کا اثبات اور تثلیث و الوہیت حضرت عیسی کی نفی


سورہ نساء کی آیت 171 اہلِ کتاب کو توحید کی دعوت دیتی ہے اور انہیں دین میں غلو کرنے، تثلیث اور حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کے عقیدے سے منع کرتی ہے۔ یہ آیت حضرت مریمؑ سے حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کو دلیل بنا کر اُن کے انسانی اوصاف کو واضح کرتی ہے اور مسیحیوں کے اُنہیں خدا ماننے کے عقیدے کو رد کرتی ہے۔

اسی آیت میں حضرت عیسیٰؑ کو "مسیح" کہا گیا ہے جو اُن کے گناہ اور بشری آلودگیوں سے پاک ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

عقیدہ تثلیث و غلو کی ممانعت

سورہ نساء کی آیت نمبر 171 میں تثلیث اور حضرت عیسیٰؑ کو خدا ماننے کے عقیدے پر نقد کرتے ہوئے[1] اس سے نہی کی گئی ہے۔[2] واحدی (متوفی: 468ھ) نے اسباب النزول میں لکھا ہے کہ اس آیت کی شانِ نزول مسیحیوں کا وہ گروہ تھا جو حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا مانتا تھا۔[3] اسی طرح اس آیت میں "اہلِ کتاب" سے مراد بھی مسیحی ہیں، کیونکہ آیت حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں ہے۔[4]


يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ انْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا۔
﴿اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کے بارے میں نہ کہو مگر سچی بات جناب عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ جسے اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اللہ کی طرف سے ایک خاص روح ہیں۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تثلیث (یعنی تین خداؤں) کے قائل نہ ہو۔ (اس سے باز آجاؤ) (یہ) تمہارے لئے بہتر ہے۔ اللہ تو صرف ایک ہے۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ سب اسی کا ہے اور اللہ کارسازی کے لئے کافی ہے۔﴾



(سورۃ النساء:171)


تثلیث اور الوہیتِ عیسیٰؑ کے بطلان پر دلائل

سورہ نساء کی آیت نمبر 171 مسیحیوں کو تثلیث کے عقیدے سے نہی کرتے ہوئے[5] خدا کی یکتائی پر عقیدہ رکھنے کی تاکید کرتی ہے۔[6]

تفسیر نمونہ میں اس آیت کی بنیاد پر اس عقیدے کے رد میں درج ذیل دلائل ذکر کیے گیے ہیں:

  • حضرت مریم سے پیدائش: آیت کے الفاظ «إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ» حضرت عیسیٰؑ کی بشری فطرت پر زور دیتے ہیں۔ وہ بھی باقی انسانوں کی طرح کسی ماں سے پیدا ہوکر پرورش پائی ہے؛ اس صورت میں وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟
  • رسالتِ پیغمبری: آیت میں عیسیٰؑ کو «رَسُولُ‌ اللَّہِ» کہنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں، نہ کہ خود خدا۔
  • کلمۂ خدا: لقب «کَلِمَتُہُ» اس پر دلالت کرتا ہے کہ عیسیٰؑ مخلوق ہیں، نہ کہ خالق۔
  • روحِ خدا: قرآن کی تعبیر «رُوحٌ مِنْہُ»؛ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عیسیٰؑ بھی باقی انسانوں کی طرح اللہ کے ارادہ سے پیدا کیے گئے ہیں، جیسا کہ حضرت آدمؑ۔[7] اسی طرح علامہ طباطبائی کے مطابق، یہ آیت خدا کی آسمانوں اور زمین پر مطلق ملکیت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور خدا کا بیٹا ہونے کے عقیدہ کو باطل قرار دیتی ہے۔ اگر سب کچھ خدا کی مِلک ہے تو اس کے لیے فرزند کا تصور کرنا معنی ہی نہیں رکھتا ہے۔[8]

"ثلاثہ" سے مراد مسیحی تثلیث کے تین اقانیم ہیں: باپ، بیٹا اور روح القدس۔[9] تاہم بعض اقوال کے مطابق، کچھ مسیحی فرقوں میں تثلیث سے مراد "خدا، عیسیٰ اور مریم" بھی لی جاتی ہے۔[10]

حضرت عیسیٰؑ کو "مسیح" کہنے کی وجہ

سورہ نساء کی آیت 171 میں حضرت عیسیٰؑ کو مسیح کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ممسوح (مسح کیا گیا شخص)۔[11] اس نوعیت کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مفسرین نے مختلف آراء پیش کی ہیں:

شیخ طوسی اور طبرسی جیسے مفسرین کے مطابق، حضرت عیسیٰؑ کو "مسیح" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں گناہوں اور دنیاوی آلودگیوں سے پاک رکھا ہے۔[12] بعض کے نزدیک "مسیح" دراصل ماشیح یا مشیح ہے؛ یہ عبرانی لفظ ہے جو عربی میں آکر "مسیح" بن گیا۔[13] ایک اور رائے یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰؑ مسلسل سفر کرتے تھے اور زمین پر چل کر گویا اس کا مسح کرتے تھے، اسی لیے انہیں "مسیح" کہا گیا۔[14]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج‏4، ص220و221۔
  2. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص222۔
  3. واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ھ، ص189۔
  4. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج3، ص399؛‌ طباطبایی،‌ المیزان، 1390شمسی، ج5، ص149۔
  5. کاشانی، منہج الصادقین، انتشارات کتابفروشی اسلامیہ، ج3، ص162؛ طباطبایی،‌ المیزان، 1390شمسی، ج5، ص150
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج‏4، ص223۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج‏4، ص222۔
  8. طباطبایی،‌ المیزان، 1390شمسی، ج5، ص150۔
  9. کاشانی، منہج الصادقین، انتشارات کتابفروشی اسلامیہ، ج3، ص162؛ طباطبایی،‌ المیزان، 1390شمسی، ج5، ص150۔
  10. کاشانی، منہج الصادقین، انتشارات کتابفروشی اسلامیہ، ج3، ص162۔
  11. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج3، ص400؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص222۔
  12. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج3، ص400؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص222۔
  13. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج3، ص400؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص222۔
  14. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص222۔

مآخذ

  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب‏ عاملى، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبایی،‌ سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح فضل‏‌اللہ‏ یزدى طباطبایی و ہاشم رسولی محلاتی،‏ تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • کاشانی، فتح‌اللہ‏، منہج الصادقین فی إلزام المخالفین‏، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، چاپ اول، بی‌تا۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • واحدی، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، تحقیق كمال بسیونى زغلول،‏ بیروت، دار الکتب العلمیہ و منشورات محمد علی بیضون‏، چاپ اول، 1411ھ۔