حدیث صحیح
حدیث صحیح وہ روایت ہے جس کا سلسلۂ سند ثقہ (قابل اعتماد) امامی راویوں ثکے ذریعے معصومؑ سے متصل ہوجائے۔
چونکہ احادیث کے درمیان غلط روایات بھی پائی جاتی ہیں لہذا علمائے دین نے عقلی اور شرعی اصولوں اور ضوابط کی بنیاد پر، قابل اعتماد حدیث پہچاننے کے لئے دو علوم "علم رجال اور علم درایہ کی بنیاد رکھی۔ علم رجال کی مدد سے احادیث کی سند اور سند میں موجود تمام راویوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور حدیث کے اعتبار اور صداقت کی سطح کا تعین کیا جاتا ہے کہ حدیث صحیح ہے، موثق ہے، حَسَن ہے، قوی ہے یا ضعیف ہے۔ ان اقسام کی ذیلی اقسام بھی ہیں۔
تعریف اور قیود
حدیث صحیح وہ روایت ہے جس کا سلسلۂ سند ثقہ (قابل اعتماد) امامی راویوں ثکے ذریعے معصومؑ سے متصل ہوجائے۔
بعض علماء نے اس تعریف میں دوسری قیود کا بھی اضافہ کیا ہے:
الف) شیعہ نیز بعض امامی علماء نے "عدم شُذوذ" اور عدم عِلَّت (ضعف اور بیماری نہ ہونے) کی قیدوں کا اضآفہ کیا ہے۔ شذوذ سے مراد یہ ہے کہ حدیث دوسری حدیث مشہور سے متعارض و متصادم ہو؛ اور علت سے مراد یہ ہے کہ حدیث میں ایسا غیر واضح عیب موجود ہو جو اس کے ضعف کا سبب بنتا ہو؛ مثال کے طور پر ایک سند بظاہر معصوم سے متصل ہو لیکن اگر غور کیا جائے اس سند میں محذوفات موجود ہوں [اور بعض راوی حذف ہوئے ہوں]۔ ب) بخاری اور ان جیسے بعض افراد نے مروی عنہ سے راوی کی ملاقات کو بھی شرط میں شامل کیا ہے لیکن مسلم سمیت اکثر سنی نیز شیعہ امامیہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
ج) شافعی اور سخاوی اور ان کی پیروی کرتے ہوئے بعض دیگر پیشوایانِ اہل سنت نے کسی خاص مذہب کو روایت کی قبولیت کی شرط قرار نہیں دیا ہے اور تمام مذاہب کے ثقہ راویوں کی روایات کو قبول کرتے ہیں۔[1] خطیب بغدادی از علی بن مدینی (از پیشوایان حدیث اهل سنت است) نقل میکند که میگفت: اگر حدیث اهل کوفه را به جهت تشیع رد کنیم، کتابهای حدیث از بین میرود.[2]
صحیح مضاف
صحیح مضاف، وہ حدیث ہے جس کی سند اس شخص تک صحیح ہو جس سے حدیث نقل ہوئی ہو، اگرچہ سلسلۂ سند اس شخص سے معصوم تک، صحیح نہ ہو، خواہ مرسل ہو خواہ منقطع یا کچھ اور؛ مثلا کہا جائے کہ "صحیحۃ ابن ابی عمیر عن رجل عن ابی عبداللہؑ (صحیحہ ابن ابی عمیر، جو مروی ہے ایک مرد سے جس نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے۔
حدیث صحیح کے مراتب
مراتب کے لحاظ سے صحیح کی تین قسمیں ہیں:
- اعلٰی: وہ روایت ہے جس کی سند میں موجود تمام راوی "وثاقت" کی صفت سے متصف ہوں اور ان کی وثاقت علم سے ثابت ہو یا پھر دو عادل گواہوں کی گواہی سے۔
- اوسط: سند میں ایک راوی یا تمام راویوں کا وثاقت سے متصف ہونا اور ان کی وثاقت کا ایک گواہ عادل کی گواہی سے ثابت ہونا۔
- ادنٰی: راوی یا راویوں کا وثاقت سے متصف ہونا "ظنِّ اجتہادی" سے حاصل ہو۔[3]
صحیح کے مراتب اہل سنت کے نزدیک:
- وہ حدیث جو شرائط صحت کے باوجود، صحیحین (یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم) میں نقل ہوئی ہو اور اس قسم کی حدیث کو عام طور پر "متفق علیہ" اور "صحیح اعلٰی" کہا جاتا ہے۔
- وہ حدیث جو صرف صحیح بخاری میں مذکور ہو۔
- وہ حدیث جو صرف صحیح مسلم میں مذکور ہو۔
- وہ حدیث جو شیخین (یعنی بخاری اور مسلم) کی مقرر کردہ شرطوں پر پوری اترتی ہو لیکن صحیحین میں منقول نہ ہو۔
حوالہ جات
مآخذ
- بغدادی، خطیب، الکفایة فی علم الروایة، چاپ احمد عمر هاشم بیروت.
- قاسمی، محمد جمال الدین ، قواعد التحدیث، دارالکتب العلمیه، بیروت.